ترکی: سیکولرازم کو ہزیمت | | |
|
(محمد احمد ترازی) | |
وہ ترکی جو 623برس تک خلافت عثمانیہ کا مرکز
رہا اور جسے چھ صدیوں تک عالم اسلام میںمرکزی حیثیت حاصل رہی،یکم نومبر
1922ءکو اپنی مرکزی حیثیت کھو بیٹھا۔جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتا ترک
نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ملک کا نظم و نسق چلانے کیلئے سیکولر ازم
کا سہارا لیا،جس کی وجہ سے صدیوں تک دنیائے اسلام کی قیادت کرنے والی
ریاست اپنی مسلم شناخت اور تشخص سے یک لخت محروم ہو گئی۔ مصطفی کمال پاشا
نے مغرب کی تقلید اور تائید و حمایت کیلئے مذہب سے نفرت کو سیکولر ازم کی
تعریف قرار دیا اور اسے ہر شعبہ ہائے زندگی سے خارج کر دیا،اُس نے ترکی کو
مغربی ممالک کے ہم پلہ بنانے کےلئے سب سے پہلے اسلام کو زد پر رکھا، مدارس
کو بند کر دیا گیا ، قرآن کریم کا پڑھنا اور تعلیم دینا جرم قرار پایا
،مساجد میں عربی زبان میں اذان دینے اور حج کی ادائیگی پر بھی پابندیاں لگا
دی گئی،عورتوں کےلئے پردہ موقوف کر دیا گیا۔ مرد و خواتین کو جبراً مغربی
لباس پہننے پر مجبور کیا گیا، ترکی ٹوپی ممنوع قرار دے دی گئی، نام اختیار
کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا اور وہ نام رکھے جانے لگے جن سے کبھی
مسلمان ہونے کی بو نہ آئے،اسلامی کلینڈر کا خاتمہ کر دیا گیا۔اسلام کے
عائلی قوانین ختم کر کے اُس کی جگہ سوئس قوانین کو آئین کا حصہ بنایا گیا،
نتیجتاً کثرت ازدواج بھی ممنوع ہو گئی اور حال یہ ہوگیا کہ 98 فیصد
مسلمانوں کے حامل ملک میںایک سے زائد شادی کرنے والے افراد دوسری بیوی کو
اپنی گرل فرینڈ قرار دیتے تو اُن سے کوئی باز پرس نہ کی جاتی، البتہ دو
بیویاں رکھنے پر دھر لیا جاتا۔ عربی رسم الخط کو کالعدم قرار دے کر لاطینی
رسم الخط اختیار کیا گیا، چن چن کر عربی اور فارسی الفاظ کو ترکی زبان سے
نکال دیا گیا،چھ صدیوں تک مرکزی حیثیت رکھنے والے شہر استنبول کی جگہ
دارالحکومت کو انقرہ منتقل کر دیا گیا۔ فتح قسطنطنیہ کی سب سے اہم نشانی
”ایاصوفیہ “کو مسجد سے عجائب گھر بنا دیا گیا،کمال اتاترک نے بہت سے
رہنماوں کو زندانوں میں ڈلوادیا، جلا وطنی پر مجبور کیا یا انہیں سزائے موت
دے دی، غرضیکہ اتا ترک نے پوری کوشش کی کہ اسلام اور مسلمانوں سے تعلق کی
ہر نشانی کو مٹاکر ترکی کو مشرق سے کاٹ کر مغرب کا حصہ بنا دیا جائے۔اُس نے
آئین بناکر فوج کے سیاسی کردار کو دستوری تحفظ اور آئین کا محافظ قرار دیا
اورپوری کوشش کی کہ اسلام کا حلیہ بگاڑ کر ترک مسلمانوں کو ان کے صدیوں پر
محیط عظیم علمی ادبی، ثقافتی اور ہر اُس دینی ورثے سے محروم کر دیا جو فکر
اسلامی کا عکاس و آئینہ دار تھا،یوں29 اکتوبر 1923ءکو ترکی باضابطہ سرکاری
طور پر ریپبلک آف ترکی کی شکل میں ایک نئی اور جدید سیکولر ریاست کی شکل
میں دنیا کے سامنے آیا۔
1960 ءتک یہ وہی ترکی تھا جس میں اسلام کا نام لینا بھی جرم تھا، یہ وہی سال تھا جس میں وزیر اعظم عدنان میندریس کو اسلامی رجحان رکھنے کے جرم میں پھانسی دی گئی۔وہ ترک فوج جو ملک کی سیکولر پہچان کی نگہبان سمجھی جاتی ہے اور جس نے ملک میں اسلامی طرز زندگی بدلنے میں اہم ترین کردار ادا کیا،کے سامنے نجم الدین اربکان کی ذات پہلی بار ایک چٹان کے روپ میں سامنے آئی۔ترک جرنیلوں کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر آنے لگا، چنانچہ بار بار نجم الدین اربکان اور اُن کی جماعت پر پابندیاں عائد کی گئیں ،لیکن نجم الدین اربکان نے جو راستہ کھول دیا تھا ، وہ فوج سے بند نہ ہوسکا۔ رفاہ سے فضیلت اور فضلیت سے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی تک کا سفر اسلام پسندوں کی پرامن سیاسی جدوجہد کا آئینہ دار ہے، ترکی کے موجودہ وزیراعظم رجب طیب اردگان نجم الدین اربکان کے تربیت یافتہ اور سیاسی وارث ہیں، گزشتہ الیکشن میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی تاریخ ساز کامیابی اِس اَمر پر دلالت کرتی ہے کہ عوام کی اکثریت نے ترکی میں سیکولرازم اور فوجی آئین کے خلاف اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔آج ترکی میںصورتحال بدل چکی ہے، اسلام پسندوں کی بڑھتی ہوئی قوت کے سامنے فوج بے بس نظر آتی ہے، وزیر اعظم رجب طیب اردگان اور صدر عبداللہ گل کی قیادت میں سیکولر ترکی نے ایک نئی انگڑائی لینی شروع کی ہے۔ فوج کی تمام تر کوشش کے باوجود عوام میں اسلامی تشخص مقبولیت حاصل کررہا ہے، اب یورپی یونین میں شرکت کےلئے بھیک مانگتا ترکی ایک نئے روپ میں دنیا کے سامنے آ رہا ہے،اسلام کا یہ سابق گڑھ اپنے مرکز کی طرف لوٹ رہا ہے اوراپنا جھکاو اسلامی ممالک کی جانب بڑھا رہا ہے۔ آج ترکی احیائے خلافت کی منزل کی طرف گامزن ہے اور اِس ساری جدوجہد کا سہرا نجم الدین اربکان اور اُن کے سیاسی وارث رجب طیب اردگان کو جاتا ہے ۔ درحقیقت طیب اردگان ایک ایسی مقناطیسی شخصیت کے مالک ہیں جس نے ترکی کے سیاسی نظام کی سمت کوہی بدل کر رکھ دیا ہے، انہوں نے ترکی کے سیاسی کلچر کو ایک تعمیری اورنئی جہت عطا کی ہے، انہوں نے اپنے عزم ،ہمت، حوصلے، دانشمندی اور حکمت عملی کی بنا پر ترکی کو متحد، مستحکم اور عالمی برادری میں ممتاز مقام ہی نہیں دلایا بلکہ وہ ایک ہیرو اور عالم اسلام کے مسلم رہنماکے طور پر بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں اوراُن کے اسرائیل کے خلاف دلیرانہ و جراتمندانہ موقف نے اُن کی شخصیت کو ترکی سے اٹھاکر عالمی سطح پر لاکھڑا کیاہے۔ قارئین محترم ! آپ کو یاد ہوگا کہ ترکی وہ واحد اسلامی ملک تھا جس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات تھے، مگر31مئی 2010ءکو اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مظلوم مسلمانوں کیلئے امداد لے کر جانے والے جہاز فریڈم فلوٹیلا پر حملے اور ترکی کے9 رضاکاروں سمیت 19 افراد کی شہادت کے بعد ترکی کے تعلقات اسرائیل سے کشیدہ ہوگئے تھے۔ ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے اسرائیلی ظلم و سفاکیت کو تاریخ کا ایک نیا موڑ قرار دیتے ہوئے اِسے انسانی ضمیر پر حملے سے تعبیر کیا تھا اور اسرائیل کے وحشیانہ اقدام کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے نہ صرف فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی بلکہ نہایت پرامن اور مہذب طریقہ اختیار کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کو بے نقاب کرتے ہوئے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا تھااور اسرائیلی فوج کے ساتھ ترک افواج کی ہونے والی مشترکہ مشقیں بھی منسوخ کردی تھیں،ساتھ ہی اسرائیلی طیاروں کو اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا تھا،آج اُسی ترکی نے فریڈم فوٹیلا کے حوالے سے اقوام متحدہ کی 56 صفحات پر مشتمل رپورٹ شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اُسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور ترک باشندوں کی ہلاکت سمیت غزہ کے محاصرے کے معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، اُس نے اسرائیلی سفیر کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیتے ہوئے فوجی تعاون کے خاتمے کا اعلان کیا اوراپنی بحریہ کو الرٹ کرتے ہوئے بحیرہ روم میں اپنا فوجی گشت بھی بڑھادیا ہے۔ترکی کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل اپنے اِس سفاکانہ عمل پر ترکی سے معافی مانگے اور زرتلافی ادا کرے ،جس سے اسرائیل انکاری ہے۔ ترک وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اِس واقعہ کی بڑی قیمت چکانی پڑے گی،جبکہ ترک صدر عبداللہ گل اور وزیر اعظم طیب اردگان نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو اپنے ملک کیلئے بے معنی قراردیتے ہیں۔دوسری طرف طیب اردگان 18ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں غزہ کی ناکا بندی ختم کرانے کیلئے رائے شماری کی غرض سے ایک بل بھی پیش کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اپنے دورہ مصر کے دوران وہ اہل غزہ سے اظہار یکجہتی کیلئے غزہ کا دورہ بھی کریں،اگر انہیں اِس دورے کی اجازت مل گئی تو وہ پہلے غیرملکی وزیر اعظم ہوںگے ،جنہیں غزہ جانے کا موقع ملے گا،اِس سارے قضیے میں سب سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ وہ ترکی جو کل تک اسرائیل کادوست اور حمایتی سمجھا جاتا تھا، آج وہی ترکی اسرائیل کی مخالفت میں تمام اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ سرگرم اور متحرک نظر آتا ہے اوراسرائیل کی وحشت و درندگی کے خلاف ڈٹا ہوا اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکار رہا ہے،جبکہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والا عالم اسلام مصلحتوں کی منافقانہ چادر اوڑھے خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ ترکی کے موجودہ کردار نے عرب ممالک میں امریکا کے حامی حکمرانوں کو پریشان کردیا ہے اور عرب عوام کا اپنے حکمرانوں پر دباﺅ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات اٹھائیں اور اسرائیل پر دباﺅ ڈالیں کہ وہ غزہ کا محاصرہ ختم کرے۔ دوسری طرف ترکی جیسے ماڈریٹ اور اعتدال پسند اسلامی ملک میں فلسطینیوں کی اِس قدر بڑے پیمانے پر حمایت کا ابھرنا مغرب کےلئے لمحہ فکریہ بنا ہوا ہے، اسرائیل کے اقدام کے باعث ترکی کے اسرائیل مخالف رویّے نے امریکا کےلئے بہت سی پریشانیاں پیدا کردی ہیں جبکہ اسرائیل کی اندھا دھند حمایت نے ترکی کو امریکا سے دور کردیا ہے۔اَمر واقعہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے عالم اسلام کسی غیرت مند ولولہ انگیز قیادت کا منتظر تھا، اُسے ایک اعتدال پسند، اسلامی اقدار پر یقین رکھنے والی بالغ نظر قیادت کی ضرورت ہے اور رجب طیب اردگان میں یہ صلاحیت موجود ہے۔آج عالم اسلام کے مسلمان دعاگو ہیں کہ طیب اردگان کی قیادت میں ترکی اپنا کھویا ہوا تشخص حاصل کرکے اپنے روشن ماضی کی طرف لوٹے۔ |
No comments:
Post a Comment