ہم ویلنٹائن ڈے کیوں منائیں؟
Waseem
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں سورة المائدہ میں فرمایا۔ ان لوگوں کی
نفسانی خواہشات کی پیروی مت کرو جو پہلے ہی بھٹک چکے ہیں اور بہتوں کو بہکا
چکے ہیں اور سیدھی راہ سے ہٹ چکے ہیں۔ اللہ تعالی نے اپنے محبوب نبی حضرت
محمدۖ سے کہلوایا کہ کہہ دیجیے میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا
مرنا سب اللہ تعالی کے لیے ہی ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ صفا اور مروہ
اللہ کی نشانیاں ہیں۔ قرآن مجید صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری
انسانیت کے لئے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ لیکن اگر ہم بات کریں مسلمانوں کی
تو مسلمانوں کی زندگی قرآنی تعلیمات کے مطابق ہونی چاہیے نشانیاں یا شعار
وہ علامتیں ہوتی ہیں جن سے قومیں پہچانی جاتی ہیں۔ وہ تہوار وہ عبادات جن
کی اسلام اجازت دیتا ہے وہ ہم مسلمانوں کی پہچان ہیں اور کچھ ایسے تہوار
بھی دنیا میں منائے جاتے ہیں جن کا نا صرف ہمارے دین میں دور دور تک کوئی
نام ونشان نہیں ملتا بلکہ وہ جس طریقے سے منائے جاتے ہیں ۔ ہمارا دین ہمیں
منع فرماتا ہے۔ لیکن افسوس کہ آج ہماری نوجوان نسل ایسے واہیات تہوار جوش
وخروش سے مناتی ہے اور اس طرح ہم اپنی دنیا و آخرت کو تبا و برباد کر رہے
ہیں۔ اور اگر ہم غیر مذہب لوگوں کی پیروی چھوڑ کر اللہ تعالی کے دین اسلام
کی پیروی کر لیں تو ہمارا دین بھی بچ سکتا ہے اور دنیا بھی اور جو تھوڑا سا
وقت ہمیں ملا ہے اس دنیا میں گزارنے کے لیے اگر ہم اس کی قدر وقیمت سمجھ
جائیں تو ہم کبھی ایک لمحہ بھی ضائع نہ کریں۔ دنیا میں بہت سے لوگ وقت کی
حقیقی قدر و قیمت کا احساس کئے بغیر ماہ سال گزارتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے
لوگوں کو پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ وقت قدرت کا سب
سے گراں قدر تحفہ ہے۔ دنیا میں کسی کے پاس بھی لامحدود وقت نہیں۔ اور کوئی
بھی اس دنیا میں سدا نہیں رہنے والا۔ ہم اس دنیا میں مختصر وقت کے لیے آئے
ہیں اور ہمیں جلد اس دنیا سے جانا ہوگا اور جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے
وقت بھی ان کو بھول جاتا۔ جولوگ زندگی کے قیمتی وقت کی قدر کرتے ہیں اور
احتیاط، شعور اور اچھی عادتوں کے ذریعے وقت کو اچھے اور کامیاب طریقے سے
گزارتے ہیں۔ وقت بھی ایسے لوگوں کو ان کے جانے کے بعد تک یاد رکھتا ہے اور
وہ لوگ مر کر بھی نہیں مرتے۔ وہ اپنے کارناموں میں زندہ رہتے ہیں۔ اچھائی
اور برائی ہر جگہ موجود ہے کوئی بھی انسان برا نہیں ہوتا ہرانسان اپنے
عملوں کی وجہ سے اچھا یا برا بنتا ہے۔ جس کے (عمل) اچھے وہ اچھا ہوتا ہے
اور جو کوئی برے عمل کرے تو وہ برا۔ دور حاضر میں ہمیں شدید ضرورت ہے کہ یہ
بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے۔ میں نے بھی اس
موضوع پر بہت سوچا میری سمجھ میں ایک ہی بات آتی ہے ہم ساری دنیا کے مسلمان
اللہ کے دین سے دور ہونے کی وجہ سے مشکلات میں گھر چکے ہیں اور ہمارے
معاشرے میں دنیا کی وہ تمام برائیاں بھی موجود ہیں اسلام جن سے بچنے کا حکم
دیتا ہے۔ جس طرح ہم ہر سال بڑے شوق سے وہلنٹائن ڈے مناتے ہیں۔ جب کہ
مسلمانوں کا اس دن سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں بنتا۔ وہلنٹائن خالصتا غیر
مذہب لو گوں کا تہوار ہے۔ اپنے مطالعے کے مطابق میں وہلنٹائن کا ذکر کرتا
چلوں کے یہ کب سے اور کیوں منایا جاتا ہے۔ پہلی دفعہ یہ دن 14 فروری 269ء
کو ایک سائن وہلنٹائن نامی شخص کی نسبت سے منایا گیا۔ سائن وہلنٹائن کو
عیسائیت پر ایمان کے جرم میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ وہ عیسائیت کی مقررہ
حدود سے بالا تر ہو خدمات انجام دیا کرتا تھا اورسنا ہے پسند کی شادیاں
کرواتے وقت اپنے مذہب کی حدود سے تجاوز کرتا تھا۔ پھانسی کے بعد اس کے حامی
یہ دن تعزیت کے طور پر منایا کرتے تھے۔ بعدازاں یہ دن یوم محبت کی شکل
اختیار کر گیا کیونکہ پھانسی سے پہلے جب وہلنٹائن جیل میں تھا تو جیل میں
اسے جیلر کی بیٹی سے عشق ہوگیا اور وہ جیلر کی لڑکی کو عشقیہ خطوط لکھا
کرتا تھا۔ اور جیلر کی لڑکی سائن کے لیے گلاب کے پھول لایا کرتی تھی۔ سائن
وہلنٹائن کے وہ خطوط اس کی پھانسی کے بعد منظر عام پر آئے تو برطانیہ میں
ان خطوط کو بہت پذیرائی ملی جس کے بعد برطانیہ میں یہ دن تہوارکی شکل
اختیار کر گیا ۔ شروع کے دنوں میں یہ تہوار صرف برطانیہ میں منایا جاتا تھا
اور پھر پھیلتا ہوا ہم تک بھی آپہنچا۔ برطانیہ کے نوجوان اس دن محبت کے
گیت گاتے ہیں (غیر محرم عورت ومرد کی محبت میں) ایک دوسرے کو پھول، کارڈ
اور عشقیہ خطوط لکھتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ اس واقعہ سے مسلمانوں کا کوئی تعلق
نہیں ہے۔ یہ جاننے، سمجھنے کے باوجود کے یہ تہوار ہمارا نہیں ہے پھر بھی
ہماری نوجوان نسل اس دن کو وہلنٹائن ڈے کے طور پر بھر پور طریقے سے مناتی
ہے۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں اور اللہ تعالی کے
احکامات بھی نہیں مانتے۔ وہلنٹائن ڈئے منا کر لوگ اپنی نفسانی خواہشات کو
عملی جامہ پہناتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج ہم بحیثیت مسلم قوم دنیامیں ذلیل و
رسوا ہو رہے ہیں۔ و ہلنٹائن ڈئے جیسے واہیات تہوار منا کر ہم صرف قیمتی وقت
کا زیاں ہی نہیں کر رہے بلکہ اس طرح ہماری نوجوان نسل تیزی سے جنسی بے
راروی کاشکار ہو رہی ہے۔ یہ ہمارے لیے مقام فکر ہے ہم ہیں تو مسلمان لیکن
غیر مذہبوں کے تہوار بڑے جوش وخروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ جب تک نوجوان نسل
قرآنی تعلیمات سے واقف نہیں ہوگی تب تک معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیاں ختم
نہیں ہونگی۔ اللہ کا دین ہی واحد راستہ ہے سب مشکلوں سے نکلنے کا۔ اگر ہم
اللہ تعالی کے دین پر عمل پیرا ہوجائیں تو دنیا میں ہر طرح کی ناانصافی
ناپید ہوجائے گی کیونکہ اسلام میں کسی انسان کی تذلیل کرنے کو بہت ہی برا
کہا گیا ہے۔ انسان کی عظمت کو اللہ تعالیٰ نے روز ابد سے ہی اپنے فرشتوں سے
سجدہ کروا کے ثابت کر دیا ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوقات سے
اعلیٰ وافضل بنا کر اشرف ا لمخلوقات ہونے کا شرف بخشا ہے۔ ایک ایسا ضابطہ
حیات قرآن کریم کی صورت عطا کیا جس کی پوری کائنات میں کوئی دوسری مثال
نہیں ہے اور نہ ہی کبھی ہوگی، آج ہم مسلمان اسلام کی حکمرانی کی بات کرتے
ہیں۔ ہم اللہ تعالی کے دین کا نعرہ بھی بلند کرتے ہیں۔ مگر بلندو بالا
نعروں کے با وجود ہم اسلام سے بہت دور ہیں۔ سوال یہ پیدہ ہوتا ہے کہ ہم دین
کے ساتھ اتنی زیادہ محبت کرنے کے باوجود دین سے دور کیوں ہیں۔ مجھے لگتا
ہے کہ ہم حقیقت سے دور نکل آئے ہیں اور دن بدن دور ہی ہوتے جا رہے ہیں۔ اور
صرف دیکھاوے کی محبت کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کا دین خالی نعروں کا نہیں
بلکہ عمل کا درس دیتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہم نے عمل کا دامن چھوڑ دیا ہے۔
لیکن اگر ہم آج بھی وقت کی قدر کریں اور وقت کو ضائع کیے بغیر اپنے دین کی
طرف پلٹ جائیں تو بہتر ہوگا۔
No comments:
Post a Comment