امریکہ
کے
اشرف
اْسے
امریکہ آئے
چند ہفتے ہوئے
تھے۔اب تک اْس
کے ذہن پر
امریکی
آزادیوں کا
نشہ چھا یا
تھا۔ وہ
چمکتے نیلے
آسمان کی طرف
دیکھتا تو
آسمان سے آتی
نیلی پیلی
روشنیاں سر
سے پیروں تک اْس
کے وجود کو
منور کر
دیتیں۔ کہاں
پاکستان اور
کہاں امریکہ۔
وہ سوچتا۔ اور
پھر آسمان کی
طرف منہ اٹھا
کر مسکراتے
ہوئے چہرے کے
ساتھ اْوپر
والے کا شکریہ
ادا کرتا۔
"کتنا
عظیم ملک ہے
امریکہ۔انسانی
تاریخ کا ایک
معجزہ ۔ ایک
ایسا ملک جہاں
انسان فضا سے
خالص آکسیجن
اپنے
پھیپھڑوں میں
بھر سکتا ہے
اور اپنے جسم
کی تمام
جذباتی برودت
مکمل آزادی سے
فضا کے حوالے
کر سکتا ہے
لیکن نہ کوئی
اْس پر اعتراض
کرتا ہے اور
نہ کوئی اْسے
برا بھلا کہتا
ہے۔"
وہ جب
سے امریکہ آیا
تھا ایک
یونیورسٹی
ٹاؤن میں اپنے
ایک دوست کے
ساتھ اْس کے
اپارٹمنٹ میں رہ
رہا تھا۔
یونیورسٹی
اْس کی رہائش
سے چند بلاک دور
تھی۔ یونیورسٹی
کی شہرت کی
وجہ سے پورے
امریکہ سے
طالب علم وہاں
پڑھنے کے لئے
آتے تھے۔
وہ
اپنے فارغ وقت
میں
یونیورسٹی جا
نکلتا۔ کیمپس
پر ہنستے
کھیلتے
نوجوان لڑکے
لڑکیاں اْسے
بہت اچھے
لگتے۔ اْنہیں
دیکھ کر وہ
سوچتا "اگر
امریکہ دنیا
پر حکومت کر
رہا ہے تو آزاد
ماحول میں اِنہی
پروان چڑھتے
بے فکرے لڑکوں
اور لڑکیوں کی
وجہ سے۔ جب
اِن آزاد
فضاؤں میں
علمی مراحل طے
کرنے والے یہ نوجوان
لڑکے اور
لڑکیاں ایک
دوسرے کے قدم
کے ساتھ قدم
ملا کر عملی
زندگی میں
داخل ہوتے تو
اِن کے سامنے
امکانات کے
دروازے خود
بخود کھلتے
چلے جاتے ہیں۔
جس سے نہ صرف
اِن کی ذاتی
زندگیاں
کامیابیوں سے
بھر جاتی ہے
بلکہ اِن کی
کامیابیوں کی
وجہ سے امریکہ
کی چمک دمک
میں بھی مسلسل
اضافہ ہوتا رہتا
ہے۔
امریکہ
میں چند ہفتے
گزرنے کے
باوجود ابھی
تک وہ اِس ملک
میں زندگی کے
مختلف اطوار
کا جائزہ لینے
میں مصروف
تھا۔ ہر آنے
والے دن میں
امریکی زندگی
کی کوئی نئی ادا
اْس کے قلب و
ذہن کو امریکہ
کے بارے میں
مزید مسحور
کئے جا رہی
تھی۔
اِنہی
اچھے خیالات
میں گم ایک دن
وہ وقت کاٹنے
کے لئے کیمپس
پر گھوم رہا
تھا کہ اْسے
چند نوجوان لڑکے
اور لڑکیاں ایک
ٹیبل پر رکھی کتابیں
بیچتے دکھائی
دیے ۔ اُس نے
آگے بڑھ کر ٹیبل
پر فروخت کے
لئے کتابیں دیکھیں
تو اْن میں سے زیادہ
تر کتابیں
سوشلزم کے
بارے میں تھیں۔
کیمپس
پر یوں کھلے
عام سوشلزم پر
کتابیں بکتے دیکھ
کر اُس کے ذہن
میں امریکہ کی
آزادیوں کی
مزید دھاک بیٹھ
گئی ۔اْسے
پاکستان میں
لاہور ،
راولپنڈی اور
کراچی کے وہ
بک اسٹور یاد
آئے جہاں آئے
دن روس اور
چین سے آنے
والی کتابوں
کی تلاش میں
پولیس چھاپے
مارتی
تھی۔اِس
دوران اِن
اسٹوروں پر اگر
کوئی نوجوان
روسی یا چینی
کتاب خریدتا
دکھائی پڑتا
توکتابوں کے
ساتھ پولیس
اْسے بھی پکڑ
کر لے جاتی۔
پھر کئی دنوں
تک خفیہ عقوبت
خانوں میں اُس
کی دْھلائی
ہوتی۔اْن میں
سے کچھ رہا ہو
جاتے اور کچھ
کی لاش تک اُن
کے ورثا کو نہ
ملتی۔
کتابوں
کی ٹیبل پر
اُسے ایک کتاب
اچھی لگی ۔ اُس
نے ڈیڑھ ڈالر
میں وہ کتاب
خرید لی۔
کتابیں بیچنے
والی لڑکی نے
ریز گاری واپس
لوٹاتے ہوئے
اْسے ایک فارم
دیا کہ اگر وہ
اْن کی
سرگرمیوں کے
بارے میں آگاہ
رہنا چاہے تو
وہ فارم بھر
دے۔
وہ
مسکراتی ہوئی
امریکن لڑکی
کی اپنائیت
بھری درخواست
کو ردّ کرنے
کی ہمت نہ
کرسکا۔ چنانچہ
اْس نے فارم
بھر کر اْس کے
حوالے کیا۔
بغل میں کتاب
دبائی اور
کیمپس پر
گھومتا پھرتا
اپنے دوست کے
اپارٹمنٹ پر
واپس چلا آیا۔
اس
واقعہ کے چند
دن بعدایک
چمکتی صبح جب
اْس کا دوست
کام پر جا چکا
تھااپارٹمنٹ
کے دروازے پر
دستک ہوئی۔
اْس نے جلدی
سے اٹھ کر
دروازہ
کھولا۔
دروازے پر ایک
پولیس مین اور
سادہ کپڑوں
میں ایف بی
آئی کا ایک
ایجنٹ کھڑا
تھا۔
ایف بی
آئی کے ایجنٹ
نے اْس کی
آنکھوں کے
سامنے اپنا
بیج لہراتے
ہوئے پہلے
اپنا نام
بتایا او
رپھر سوالیہ
انداز میں اُس
کا نام پوچھا:
"مسٹر
اکرم؟"
"یس
سر۔" اْس نے
اْکھڑے
اْکھڑے لہجے
میں اْسے جواب
دیا۔
"کیا
میں تمہاری
آئی ڈی دیکھ
سکتا ہوں؟"
"ہاں
میرے پاس میرا
پاسپورٹ
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"
" ٹھیک
ہے ۔ اپنا
پاسپورٹ
دکھائیں؟"
اْس نے
اپارٹمنٹ کے
اندر سے
پاسپورٹ لا کر
ایف بی آئی کے
ایجنٹ کے حوالے
کیا۔
ایجنٹ
نے اْس کے پاسپورٹ
امریکہ میں
آمد کی تازہ
اسٹیمپ دیکھی تو
فوراً معاملے
کے تہہ تک
پہنچ گیا۔
اْسے
امریکہ آئے
چند ہفتے ہوئے
تھے۔ نووارد ہونے
کی وجہ سے وہ
کیمونسٹ
پارٹی آف
امریکہ کی ذیلی
طالب علم
تنظیم کا
فارم بھر آیا تھا۔
تاہم اپنی
تسلّی کے لئے
ایف بی آئی کے
ایجنٹ نے اْس
سے پاکستان
میں اْس کی
سیاسی
وابستگیوں کے
بارے میں
سوالات کئے۔
اِس
بات کا اطمینان
ہونے کے بعد
کہ اکرم کا
پاکستان میں کسی
کیمونسٹ
آرگنائزیشن
سے تعلق نہیں
تھا ایف بی
آئی کے ایجنٹ
نے اْس کا
پاسپورٹ اُسے
لوٹایا اور
تعاون کے لئے
اْس کا شکریہ
ادا کرکے
پولیس والے کے
ساتھ وہاں سے
رخصت ہو گئے۔
اکرم کے
ذہن پر امریکہ
کی عظمت کا
ایک اور نقش
بن گیا۔" کتنی
مہذب ہے پولیس
اور کتنے
باوقار ہیں
ایف بی آئی
والے۔ دونوں
کس احترام سے
بات کر رہے تھے۔
" اُس نے سوچا۔
اْسے ایک
بار پھر
پاکستان میں
بائیں بازؤ
کا لٹریچر
بیچنے والے بک
اسٹور اور اُن
پر پولیس کے
چھاپے یاد آئے۔
اِس
واقعہ کے چند
دن بعد اکرم
نے یونیورسٹی
میں ایم ایس
سی بائیو
ٹیکنالوجی
میں داخلہ لے
لیا۔ چند
سالوں میں
کامیابی سے ایم
ایس سی کرنے کے
بعد اْس نے
ایک بائیو
ٹیک کمپنی
میں ملاز مت
کر لی۔
ملازمت
کے بعد اکرم
کی زندگی امریکی
ڈھرے پر چلنے
لگی۔ اْس میں
اور کسی عام
امریکی میں
اگر فرق تھا
تو صرف کھال
کے رنگ کا۔
اگرچہ اکرم کا
رنگ خاصہ گور
ا تھا لیکن
اْس کے گورے
پن میں گندمی رنگ
کی جھلک تھی۔
اس کے علاوہ
اْس کے
پاکستانی خدو
خال بھی اْسے
عام امریکیوں
سے الگ کرتے
تھے لیکن اْس
کی سوچیں اور
زندگی کے بارے
میں نقطہ نظر
تقریباً عام
امریکیوں
جیسا تھا۔ اس
طرح وہ اپنی
عملی زندگی
میں ذہنی طور
پر بھی امریکی
لائف اسٹائل
کا عادی ہو
چکا تھا۔
خاص
طور پراپنی
ایک ہم جماعت امریکی
لڑکی سے شادی
اور اُسی شادی
سے ایک بیٹی
اور ایک بیٹے
کا باپ بننے
کے بعد اُس
میں اور عام
امریکیوں میں
کوئی فرق نہیں
تھا۔
اکرم
اپنے ماں باپ
کی اکلوتی
اولاد تھا۔
اُس کی امریکہ
آمد سے قبل
اْس کا باپ
فوت ہو چکا
تھا۔ صرف ماں
زندہ تھی۔
امریکہ آنے کے
چند سال بعد ماں
بھی فوت ہو
چکی تھی۔ اب
عملی طور پر
پاکستان ميں
اْس کا کوئی
قریبی رشتہ
دار نہیں
تھا۔جو تھے سب
دْور کے رشتہ
دار تھے جن سے
اُس کا کوئی
رابطہ نہیں
تھا۔
اِس
طرح اب امریکہ
ہی اْس کا سب
کچھ تھا۔
امریکی
آزادیوں کا
گرویدہ اکرم وقت
گزرنے کے ساتھ
کئی امریکی
تنظیموں کا
ممبر بن چکا
تھا ۔ وہ
باقاعدگی سے
اْن تنظیموں
کے اجلاس میں
شریک ہوتا۔ ان
جلسوں میں شریک
ہونے والے عمومی
طور پر فنکشن
سے قبل امریکی
جھنڈے
کےسامنے کھڑے
ہو کر امریکہ کے
ساتھ اپنی وفاداری
کا حلف اْٹھاتے۔
ایسے مواقع پر
وہ بھی اپنا
دایاں ہاتھ
اپنے سینے پر
رکھ کر امریکہ
کے ساتھ اپنی
وفاداری
کاحلف
اْٹھاتا۔
اِس
حلف کے دوران
اْس کا دل
امریکہ میں
سماجی رواداریوں
کے جذبے سے اس
طرح معمور ہو
جاتا کہ حلف
کے الفاظ
دہراتے ہوئے
اْس کی آواز
ہلکی سی بھرّا
جاتی۔ وہ ساتھ
کھڑے امریکیوں
کی نسبت حلف
کے الفاظ زیادہ
بلند آواز
میں ادا کرتا ۔
اس طرح وہ اْن
امریکیوں کو
احساس دلاتا
کہ وہ سْن لیں
کہ اْْن کی
طرح وہ بھی ایک
امریکی ہے۔
زندگی
اِسی معمول کے
ساتھ گزر رہی
تھی کہ ایک دن
۔۔۔۔۔ایک
بدقسمت
دن۔۔۔۔۔۔نیو
یارک میں دو جہاز
دو بلند
تجارتی
عمارتوں سے
ٹکرائے۔
اُس دن
اکرم واشنگٹن
ڈی سی میں ایک
کانفرنس کے
سلسلے میں آیا
ہوا تھا۔جس
وقت نیویارک
میں تجارتی
عمارتوں سے
جہاز ٹکرائے وہ
ہوٹل سے نکل
کر پیدل کانفرنس
سنٹر جا رہا
تھا۔ کانفرنس
سنٹر جانے کے
لئے اْسے وائٹ
ہاؤس کے سامنے
سے گزرنا تھا۔
وائٹ
ہاؤس کے سامنے
چلتے ہوئے اْس
کے کسی دوست
نے اْسے اْس
کے سیل فون پر کال
کر نیویارک
میں رونما
ہونے والے
خونی واقعہ کی
اطلاع دی۔ وہ
سراسیمہ حالت
میں وہائٹ ہاؤس
کی طرف منہ
کرکے بیرونی
جنگلے کے ساتھ
کھڑا فون سننے
لگا۔ ابھی وہ
فون پر واقعہ
کی تفصیلات
پوچھ رہا تھا
کہ تیز رفتار
پولیس کی
گاڑیاں اْس کے
سامنے سڑک پر آکر
رْکیں۔
گاڑیوں میں سے
نکل کر پولیس
افسروں نے اْس
پر رائفلیں
تان لیں۔پولیس
کی اپنی طرف
تنی رائفلیں
دیکھ کر اْس
نے جلدی سے سیل
فون کان سے
ہٹا کر جیب
میں رکھنا
چاہا۔ لیکن اس
سے پہلے کہ
اْس کا ہاتھ
جیب تک پہنچتا
پولیس والوں
نے اُس پر
گولیوں کی
بوچھاڑ کر دی۔وہ
لہو لہان فٹ
پاتھ پر گر
گیا۔ فون اْس
کے ہاتھ سے
چھوٹ کر دور
جا گرا۔
پولیس
والے اْس پر
گولیاں
برسانے کے بعداْس
کی طرف آگے
بڑھے تواْس کی
سانسیں ٹوٹ
رہی تھیں۔ وہ ٹوٹتی
سانسوں کے
ساتھ انگریزی
میں کہہ
رہاتھا:
I
pledge my allegiance to the flag of the ………….
پولیس
والوں نے اْس
کے احترام میں
بندوقیں نیچے
کر لیں لیکن وہ
اپنا جملہ
مکمل کئے بغیر
مر چکا تھا۔
*********
No comments:
Post a Comment