Search This Blog

Friday, 24 February 2012

جمہوریت ہندوتوا کے سایے میں!

جمہوریت ہندوتوا کے سایے میں!
فضل شاد ۔ممبئی

    آزادی کے بعد ملک کو سب سے بڑا چیلنج ایک ایسے آئین کو ترتیب دینے کا تھا ،جس سے پورے ملک کے لوگ مطمئن ہوں۔ڈاکٹر ایمبیڈکر اور انکے ساتھیوں نے کافی تگ و دو اور بحث و مباحثہ کے بعد آئین کو ترتیب دیا۔لہٰذا آئین کا بھی اپنا تاریخی پس منظر ہے ۔انقلاب فرانس ،انقلاب روس ،امریکہ کی اعلان آزادی،بین الاقوامی حقوق انسانی اور 1935 کے ایکٹ کے تجربات کو مد نظر رکھ کر ترتیب دیا گیا۔ ہندوستانی آئین کی بنیاد چار ستونوں پر قائم کی گئیں،انصاف،آزادی ،مساوات بھائی چارگی کے ساتھ ہی عوامی اور مذہبی آزادی کو پیش نظر رکھا گیا۔ دفعہ368 کے تحت سیکولرازم کا مقصد ریاستی سرگرمیوں میں کسی مذہب کا عمل دخل نہیں ہوگا،مذہب اور ریاست ایک دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتے ،حکومت نہ تو کسی مذہبی فرقے کو فروغ دیگی اور نہ کسی مذہبی امور میں مداخلت کرے گی ،نہ کسی مذہب کی ترجمانی کرے گی نہ ہی کسی مذہب کو کسی مذ ہب پر فوقیت دیگی۔لیکن اسکے برعکس موجودہ سرکار روز اول سے لیکر آج تک ہندو رسم و رواج اپنا رہی ہے ،جو ہندوستانی آئینی دفعات کا مکمل طور پر انحراف ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر سیکولر حکومت کو صرف ایک ہی مذہب کی فکر کیوں لاحق ہے ؟جب کہ یہ کھلم کھلا آئین سے کھلواڑ ہے بلکہ اس کو بھی توہین دستور کے زمرے میں ہی رکھنا چاہئے۔
     1981-82میں مینا کشی پورم میں صدیوں سے اپنے ہی ہم مذہبوں کے سایے میں ذلت و پستی کی زندگی گزارنے والے اچھوت کہلائے جانے والے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے تو اس سلسلہ کو روکنے کے لئے اس وقت سے لیکر 2007 تک آٹھ ریاستوں نے نئے قانون وضع کرکے تبدیلی مذہب پر پابندی لگائیں۔ان ریاستوں میں چھتیس گڑھ ،ارونا چل پردیش،گجرات،ہماچل پردیش، اڑیسہ ،راجستھان،تریپورہ،آندھر پردیش ہیں۔جب کانگریس کی حکومت میں وزیر اعلیٰ چندر شیکھر ریڈی تھے تو انہوں نے قدیم مندروں میں پوجا اور دوسری مذہبی رسوم کا احیاءکیا ۔ہندوستان کی آزادی کے دن(15 اگست) کو ہندو نجومیوں نے نحس ٹھہرایا جس کی وجہ سے 14 اگست نصف شب کو آزادی کی دستاویز پر دستخط کرکے اس کی ابتداءکی گئی۔ 1952 کے الیکشن میں کانگریس نے اپنانشان دو بیلوں کی جوڑی رکھا(مقدس گائے کا تصور)اسکے بعد دوبارہ گائے اور گائے کا بچھڑا (مقدس ) رکھ کر سیاست اور ریاست میں ہندو دھرم کو شامل کیا گیا۔1949 میں بابری مسجد میں نماز پڑھی جانے کے باوجود مورتی رکھ کر تنازعہ کھڑا کیا گیا اور پھر تالا لگادیا گیا۔1992 میں مسجد کوڈھاکر مندر بنادیا گیا۔گجرات کا سومناتھ مندر آزادی سے قبل ویران پڑا ہوا تھا لیکن اس وقت کے ملک کے وزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل کے منشی نے اس کی تعمیر کے لئے مہم چلائی۔1951 میں حکومت گجرات اور حکومت یوپی کے فنڈ سے مندر تعمیر ہوا،رقم عوام سے ٹیکس کی صورت میں وصولا گیا۔نہرو کی مخالفت کو نظر انداز کرکے صدر جمہوریہ راجندر پرشاد نے پنڈتوں اور پجاریوں کے درمیان مندر کی بحالی میں بہ نفس نفیس حصہ لیا اور جیوتی لنگم کو استھاپت کیا ۔ڈاکٹر رادھا کرشنن جب بھی دلی آتے تو شری شنکر اچاریہ کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتے۔ جب ڈاکٹر ذاکر حسین نائب صدر جمہوریہ بنے تو وہ بھی سری نگر کے جگت گرو شنکر اچاریہ کی خدمت میں حاضر ہوئے،پھل پھول پیش کر کے پیر بھی چھوئے!

    آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ تیلگو دیشم پارٹی کے سربراہ این ٹی راما راﺅ 1984 میں امریکہ میں مقیم ہندوستانیوں کی ایک تقریب منعقد کی جسمیں ہر مذہب کے لوگ شامل تھے انہوں نے خیر سگالی کے طور پر سرکاری خرچ سے تمغے تقسیم کئے جن پر ہندو دیوتاﺅوں کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔اتر پردیش ڈاکخانوں میں گنگا جل مہر بند فروخت کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ بھی بہت کچھ آپ گرد وپیش پر نظر رکھ کر دیکھ سکتے ہیں جیسے آپکو سبھی سرکاری دفاتر میں فوج میں پولس میں مندر بنے ہوئے مل جائیں گے وہاں باضابطہ درگا،گنیش اور کالی کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں بھجن گانے کا رواج بھی زور پکڑ تا جارہا ہے۔لیکن حکومت ان سب سے صرف نظر کئے دیگر ہندوستانی مذہبی لسانی اقلیتوں کو یہ باور کرانے میں اپنا پورا حکومتی زور صرف کرنے میں جٹی ہوئی ہے کہ یہ ایک سیکولر جمہوری فلاہی ریاست ہے ۔یہ ہے اس سیکولر ہندوستان کی اصلی تصویر ،لیبل سیکولر ازم اور جمہوریت کا اور مال ہندوتوا کے ۔ یہ باتیں مسلمانوں کے لئے تو لمحہ فکر ہیں لیکن ان کے لئے قابل غور ہے جو ہندوستان کی کے لئے کوشاں ہیں۔اس لئے اس طرف متوجہ ہوں اور لوگوںتک زیادہ سے زیادہ اس بات کو پہونچائیں۔

فضل شاد ۔ممبئی۔ موبائل،9322575076

No comments:

Post a Comment