Search This Blog

Thursday, 16 February 2012

ڈاکٹر ولایتی کی ایمان افروز باتیں

ڈاکٹر ولایتی کی ایمان افروز باتیں
 تحریر: ثاقب اکبر
 
اپنی مختصر تقریر کے دوران ڈاکٹر ولایتی نے جب یہ بتایا کہ ایران کے روحانی پیشوا نے یہ کہا کہ میری کمر درد کی وجہ شاید بوسنیا سے آنے والی خبریں ہیں تو مجھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ حدیث یاد آ گئی کہ میری امت کی مثال جسد واحد کی سی ہے، جب کسی ایک مسلمان کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا مسلمان اسی طرح اُسے محسوس کرتا اور بے قرار ہوتا ہے جیسے جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو سارا بدن تکلیف محسوس کرتا ہے۔

 29،30 جنوری 2012ء کو تہران میں اسلامیی بیداری کانفرنس برائے جوانان منعقد ہوئی۔ اس میں 73ممالک سے 1200 نمائندے شریک تھے۔ دو روزہ کانفرنس کے مختلف سیشن ہوئے۔ کانفرنس کے دوسرے روز دوسرے سیشن میں مختلف ممالک کے منتخب جوانوں نے خطاب کیا۔ اس میں بوسنیا کے ایک جوان ڈاکٹر بھی تھے۔ انھوں نے رواں اور شستہ فارسی میں خطاب کیا۔ لہجہ تہرانی معلوم ہوتا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ تہران میں زیر تعلیم رہے اور ڈاکٹر علی اکبر ولایتی اُن کے استاد ہیں۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی بچوں کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر ہیں۔ تہران میں ان کا مشہور ہسپتال ہے۔ وہ دو ادوار میں ایران کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ ان دنوں بین الاقوامی امور میں ایران کے روحانی پیشوا آیة اللہ سید علی خامنہ ای کے مشیر ہیں نیز عالمی مجلس برائے بیداری اسلامی کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔ جب بوسنیائی نمائندہ خطاب کر رہا تھا تو تہران کے برج میلاد میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں ڈاکٹر ولایتی اسٹیج پر بیٹھے تھے۔ بوسنیا کے نمائندے نے اپنی دیگر باتو ں کے علاوہ سربوں کے خلاف بوسنیائی عوام کی مدد کرنے پر دیگر اسلامی ممالک بالخصوص ایران کا خصوصی ذکر کیا۔

بوسنیا کے نمائندے کی تقریر کے بعد ڈاکٹر ولایتی نے مختصر سی گفتگو کی اور اپنی چند یادیں حاضرین سے بیان کیں۔ یہ گفتگو اتنی اہم تھی کہ حالیہ دورہ ایران میں اس بات کی مانند کسی چیز نے مجھے متاثر نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ اب جبکہ وقت گزر چکا ہے اور بوسنیا کے نمائندے نے ذکر بھی کیا ہے تو میں آپ کو چند باتیں بتاتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ ایران کے موجودہ رہبر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی قیادت کا دوسرا سال تھا (1991ء) میں وزیر خارجہ تھا۔ رہبر نے مجھے بلایا اور کہنے لگے "میں کئی دن سے اپنی کمر میں درد محسوس کر رہا ہوں، شاید اس کی وجہ وہ خبریں ہیں جو بوسنیا سے آ رہی ہیں۔" انھوں نے مزید کہا "تم بوسنیا کے مسلمانوں کے لیے جو کچھ ہو سکے کرو، اگر تم نے اس میں کوتاہی کی تو قیامت کے دن میں تم سے پوچھوں گا۔"

ڈاکٹر ولایتی کہنے لگے کہ پھر کیا تھا ہم بوسنیا کی مدد کے طریقے سوچنے لگے۔ آج میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہم نے انھیں اسلحہ بھی پہنچایا۔ اگرچہ ایسا کرنا بہت مشکل تھا۔ وہ کہنے لگے ایک مرتبہ ہم نے ایک طیارے کے ذریعے سرایوو جانے کا فیصلہ کیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ایسا نہ کریں، سرب افواج طیاروں کو بھی نشانہ بنا رہی ہیں اور سرایوو کا ہوائی اڈہ محفوظ نہیں ہے۔ اس سے قبل وہ ایک فرانسیسی طیارے کو نشانہ بنا چکے ہیں، جس میں سوار ایک فرانسیسی وزیر بھی ہلاک ہوئے، لیکن ہم سرایوو روانہ ہو گئے۔ ہوائی اڈے کے اوپر کپتان نے مختلف حصوں کا جائزہ لے کر ایک طرف طیارہ اتار لیا۔ وہاں اترے تو میزبانوں نے بتایا کہ یہاں بہت خطرہ ہے کسی بھی سمت سے کوئی گولی آپ کو آ کر لگ سکتی ہے۔ انھوں نے پہننے کے لیے حفاظتی جیکٹیں اور ہیلمٹ ہماری طرف بڑھائے۔ میں نے سوچا کہ جن کی مدد کے لیے ہم آئے ہیں اُن عوام کے پاس تو ایسی جیکٹس اور ہیلمٹ موجود نہیں۔ جب وہ ہمیں یہ پہنے ہوئے دیکھیں گے تو سوچیں گے کہ یہ ہماری کیا مدد کریں گے، یہ سوچ کر ہم نے انھیں پہننے سے انکار کر دیا۔

اتنے میں ڈاکٹر ولایتی کی نظر حاضرین میں موجود ایک شخص پر پڑی، اُس کی طرف اشار کیا اور اُن کا نام لے کر کہنے لگے کہ یہ بھی اس سفر میں میرے ساتھ تھے۔ شاید وہ ایرانی وزارت خارجہ کے کوئی سینئر اہل کار تھے۔ پھر ڈاکٹر ولایتی نے بتایا کہ جب وہ ایوان صدر میں علی عزت بیگوویچ سے ملاقات کے لیے پہنچے تو ایوان صدر کی حالت دیکھ کر حقیقی حالات کا اندازہ ہوا، جو کہ سربوں کی بمباری کی وجہ سے جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، ان حالات کے باوجود بوسنیائی صدر کام کر رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ سربوں کے قتل عام کی وجہ سے بوسنیائی آبادی کا دسواں حصہ ختم ہو چکا ہے۔ جنگ کے خاتمے کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بوسنیا کے صدر علی عزت بیگوویچ نے کہا تھا کہ اگر ایران ہماری مدد نہ کرتا تو بوسنیا بالکل ختم ہو جاتا۔

ڈاکٹر ولایتی نے ایران کی طرف سے فلسطین کی مسلسل حمایت اور اس کے لیے ادا کی جانے والی بھاری قیمت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ امریکہ کی طرف سے پیغام آیا کہ اگر ایران صرف اسرائیل اور فلسطین کے مابین امریکہ کی طرف سے تجویز کردہ امن معاہدے کی حمایت کر دے تو امریکہ و ایران کے مابین تمام تر معاملات حل ہو سکتے ہیں۔ (یعنی ایران پر عائد تمام تر پابندیاں ختم ہو سکتی ہیں، امریکہ میں ضبط کیے گئے ایرانی اثاثے واپس مل سکتے ہیں اور بہت سے دیگر معاملات حل ہو سکتے ہیں) لیکن ایران نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا دنیا میں کوئی اور ایسا ملک ہے جو اتنی بھاری قیمت ادا کر کے فلسطین کی حمایت کر رہا ہو؟
اس کے بعد اچانک انھوں نے ملائیشیا کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کا ذکر شروع کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں انھوں نے شیعت کے خلاف ایک بیان دیا۔ میں جب وزیر خارجہ تھا تو میرے اُس زمانے سے اُن سے اچھے تعلقات تھے۔ میں ملائیشیا گیا تو اُن سے رابطہ کیا۔ انھوں نے اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ میں اُن سے ملنے گیا تو اُن سے پوچھا کہ بتائیے بوسنیا کے مسلمان شیعہ ہیں یا سنی۔ وہ کہنے لگے سنی۔ پھر میں نے پوچھا فلسطین کے مسلمان شیعہ ہیں یا سنی۔ کہنے لگے  سنی۔ اس پر میں نے کہا کہ آپ کے علم میں ہے کہ ایران کن شرائط اور حالات میں ان کی مدد کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے پھر بھی آپ نے اس طرح کا بیان کیوں دیا؟ شاید ڈاکٹر محمد مہاتیر کے پاس شرمساری کے سوا اور کوئی جواب نہ تھا۔

ہم دو روز سے دیکھ رہے تھے کہ ایران کے نزدیک عالم اسلام کا سب سے اہم مسئلہ، مسئلہ فلسطین تھا۔ ہر تقریر میں مظلوم فلسطینیوں کا ذکر سب سے نمایاں تھا۔ فلسطین کے امور جوانان کے وزیر بھی کانفرنس میں شریک تھے۔ دیگر ممالک کے نمائندے اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود فلسطینیوں کی حمایت کا عزم ظاہر کر رہے تھے اور فلسطین کے درد کو اپنا درد سمجھ رہے تھے۔
ڈاکٹر ولایتی نے جب یہ بتایا کہ ایران کے روحانی پیشوا نے یہ کہا کہ میری کمر درد کی وجہ شاید بوسنیا سے آنے والی خبریں ہیں تو مجھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ حدیث یاد آ گئی کہ میری امت کی مثال جسد واحد کی سی ہے جب کسی ایک مسلمان کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا مسلمان اسی طرح اُسے محسوس کرتا اور بے قرار ہوتا ہے جیسے جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو سارا بدن تکلیف محسوس کرتا ہے۔

جب ڈاکٹر ولایتی یہ باتیں کر رہے تھے تو وہاں عالم اسلام کے جوانوں نے اُن کے لیے جس وارفتگی اور محبت کا اظہار کیا اُس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ محبت دو طرفہ ہے، احساس اور جذبہ دو طرفہ ہے۔ آیت اللہ سید خامنہ ای کا چہرہ جس محبت کا عکاس تھا وہی جوانوں کے سینے سے امنڈ رہی تھی۔ سب آنکھیں اُن کی طرف یوں دیکھی رہی تھیں جیسے اپنے روحانی باپ کی طرف عقیدت سے اٹھی ہوں، لیکن اس کے باوجود اُن کی وسعت نظری کا یہ عالم تھا کہ مختلف ملک سے آئے ہوئے بیداری اسلامی کے نمائندہ نوجوانوں کو وہ پیغام دے رہے تھے کہ اُن کے لیے کوئی ایک ماڈل نہیں بلکہ سب لوگ اپنے حالات اور زمینی حقائق کی روشنی میں کام کریں۔ البتہ اسلام و قرآن کا دامن تھامے رکھیں۔ اس پرچم کے نیچے سب ایک رہیں، امریکی استعمار اور اسرائیل کے خلاف سب متحد رہیں۔

No comments:

Post a Comment