کیا ہم ناموس رسالت ﷺ کے علمبردار ہیں؟
ڈاکٹر رخسانہ جبین’’اللہم صل علی محمد بعد دخلقہ وزنۃ عرشہ ورضا نفسہ ومداد کلمات‘‘
الحمدللہ کہ ہم اس رحمتِ عالم آقا ﷺکی امت میں سے ہیں جن کی شان خود مالکِ کائنات نے ورفعنا لک ذکرک کہہ کر اتنی اونچی کردی کہ اس کے اوپر کوئی ذکر ہے تو وہ خود مالکِ کائنات کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان ظالموں کی ہرزہ سرائیوں سے بالاو برتر ہیں‘ پھر ان کو اس دیدہ دلیری کی ہمت کیسے ہوتی ہی؟؟ انہوں نے رب کائنات کو کیوں اور کیسے چیلنج کیا؟ یہ سوال آج 2.2 billions مسلمانوں کو اپنے آپ سے ضرور پوچھنا چاہیی! اپنے ایمان کو ٹٹولنا چاہیی! ہر مسلمان کو خود کو ضمیر کی عدالت میں کھڑا کرنا ہوگا کہ میرے آباء جس شخصیت کے وضو کا پانی زمین پر نہ گرنے دیتے تھی‘ میرے سامنے اس کی توہین کی جسارت کس طرح ہورہی ہی؟؟ اصل میں تو یہ عشقِ رسول ک ﷺے دعویداروں کا امتحان ہی! ایک جانب یہ کہ ہمارے دلوں پہ کیا گزری‘ دوسری جانب یہ وقت ہمارے احتساب اور جائزے کا ہی! بلاشبہ دل پارہ پارہ ہیں‘ دکھ سے بھرے ہیں‘ لیکن احتساب اس بات کا بھی ضروری ہے کہ جب سمندر کی جھاگ کے برابر آپ کے نام لیوا موجود ہیں تو کفر کو یہ جرأت کیسے ہوئی کہ وہ اس پاک ہستی کی ناموس کے درپے ہو جس کا ایک ایک نام لیوا ان کی حرمت پر کٹ مرنے کا دعویدار ہی؟ *
کہیں وہ ہمارے قول وعمل کی دورنگی تو نہیں جس نے ہمیں بحیثیت امت دنیا کے ترازو میں ہلکا کردیا ہے۔ ہمیں بحیثیت فرد بھی جائزہ لینا ہوگا اور بحیثیت امت بھی‘ اور اپنے اعمال کے آئینے میں اپنے دعویٰ عشق و محبت کو پرکھنا ہوگا‘ کیونکہ رب کی عدالتِ عظمیٰ میں تو خالی خولی دعویٰ قبول نہ ہوگا‘ وہ تو پکار پکار کر کہہ رہا ہی:
’’والعصر ان الانسان لفی خسر۔۔۔‘‘
یعنی ایمان وعشق کا وہ دعویٰ قبول ہوگا جس کے ساتھ عملِ صالح ہوگا‘ اور عملِ صالح ہی وہ عمل ہے جس کی دعوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی اور جس پر آپ نے تمام عمر عمل کیا۔ وہ اخلاق ومعاملات‘ وہ تہذیب جو آپ نے پیش کی‘ کیا وہی ہمارے لیے رول ماڈل ہی؟ یا ہم کسی اور سے مرعوب ہیں؟ ہمارا کردار کیا مثال پیش کرتا ہی؟ ہم جو عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوے داروں میں سے ہیں‘ سوچیں ذرا کہ: ہمارے گھر کون سا نمونہ دکھاتے ہیں؟ ہمارا میڈیا کیسی تصویر دکھاتا ہی؟ ہمارے معاشرے کی اٹھان کیسی ہی؟ آئیے ذرا ایک جھلک دیکھیں: اخبار یا رسالہ اٹھائیں توسرورق پر کوئی دختر ان مسلم برہنہ لباس میں جلوے بکھیرتی نظر آتی ہی! (دل دہل جاتا ہی) T.V کھولیں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی بیٹیوں کو رقص کرتے ہوئے پاتے ہیں! (توہین آمیز کارٹون آنکھوں کے آگے لہرا جاتے ہیں) ۔ اسکول کی بچی دوپٹہ اوڑھنے پر ٹیچر کی ڈانٹ اس لیے سنتی ہے کہ اس نے ڈسپلن خراب کردیا ہے (سوچ کا مقام ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم سے عشق تو اس ٹیچر کو بھی ہوگا؟) کسی ریڑھی سے پھل خریدنے کے بعد گھر جاکر معلوم ہوتا ہے کہ آدھا پھل گلا سڑا ہے (بددیانتی کی وعید یاد نہیں؟) تھانے میں پولیس کسی بے گناہ پر کوڑے برساکر اس سے اقبالِ جرم کرواتی ہے (رحم کرنے والا فرمان سامنے نہیں ہوتا؟) کوئی جج رشوت لے کر کتنے ہی بچوں کو یتیم کردینے والے قاتل کو بری کردیتا ہے (انصاف کا حکم کیسے پس پشت ڈال دیا جاتا ہی؟) کوئی وزیر کمیشن لے کر قوم کے مفادات کو بیچ دیتا ہے۔ (ایفائے عہد کی تاکید بھول کر منافق کی فہرست میں کھڑا ہوجاتا ہی!)
چاروں طرف ڈنمارک کے بھیانک اخبار رقص کررہے ہیں اور ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں کہ کیا یہی تعلیمات تھیں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی؟؟ کیا عشقِ نبی کا صرف یہی تقاضا ہے کہ ہم کچھ تقریریں کرلیں! کچھ جلوس نکال لیں! کچھ شیرینی بانٹ دیں! کچھ چراغاں کرلیں!
ترے حسنِ خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا
یا اس کا تقاضا ہمارے کردار وعمل کی پاکیزگی کا بھی ہی! اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کا بھی ہی! پیغامِ محمد ﷺ کو نافذ کرنے کی جدوجہد کرنے کا بھی ہی! یہ وقت آئینۂ عشقِ رسول ﷺمیں اپنی جھلک دیکھنے کا ہی‘ خود کو جانچنے اور پرکھنے کا ہی‘ اور یہ دوعملی اور دورنگی چھوڑنے کا ہی! رحمتِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن مکمل نہیں ہوسکتا جب تک زندگی کے ہر گوشے میں نظام مصطفی جاری وساری نہ ہوجائی! خواب گاہوں سے لے کر حکومت کے ایوانوں تک! اگر حکومت میں ناروے اور ڈنمارک کے گماشتے براجمان رہیں اور توہینِ رسالت اور حدود اللہ کی تنسیخ کے قانون پاس ہوتے رہیں اور ہم ان کو برطرف کرنے کی بات نہ کریں‘ اور ہم محض کبھی سڑکوں پر اور کبھی کسی ہال میں عشقِ نبی پر تقریریں کرتے رہیں اور ان کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے رہیں تو سوچ لیں۔۔۔۔۔۔ روزِ قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کیسے کریں گی؟ اور عشق کا کیا ثبوت پیش کریں گی؟
No comments:
Post a Comment