اے ظہور ِ تو شابِ زندگی ....
ڈاکٹر علی اکبر الازہری
تاریخ مہم جو لوگوں کی ایسی ہلاکت خیز سرگرمیوں سے بھری پڑی ہے جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، مغلوب کرنے اور لوگوں پر تسلط قائم کر کے محکوم بنانے سے عبارت ہیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے حالانکہ اب تو انسان نے مہذب ہونے کا دعوی بھی کردیا ہے۔
ترقی یافتہ اقوام نے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور قیام امن کے عالمی ادارے بھی بنا لئے ہیں لیکن دوسروں پر حکومت کرنے کی پرانی انسانی فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ گزشتہ دو صدیاں انہی ” مہذب“ اقوامِ عالم کی باہمی جنگوں میں لتھڑی ہوئی ہیں جن میں جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوم سر فہرست ہیں۔ ان بدترین انسانی معرکوں میں پوری انسانی تاریخ کی ہلاکتوں کے ریکارڈ ٹوٹے ہیں۔ بعد ازاں دو عالمی قوتوں(امرےکہ و روس) کے درمیان رسہ کشی شروع ہوئی۔ دونوں نے پوری دنیا کو اپنے اپنے دھڑوں میں تقسیم کیے رکھا اور سرد جنگ کے دوران ہلاکت خیز ہتھیاروں کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے ریکارڈ قائم کیے۔
فاتح قوت نے نےو ورلڈ آرڈر جاری کےا اور پھر ےہ انسانی فطرت آج کے دور جدےد مےں داخل ہوگئی اور اگلی جنگ کا آغاز کردیا گےا۔ اس دفعہ مےدان جنگ اسلامی ممالک قرار پائے۔ انتہا پسندی و دہشت گردی کےخلاف اور ”قےام امن عالم“ کےلئے لڑی جانےوالی اس حالےہ جنگ مےں ہزاروں بستیاں ویران اور عمارتیں کھنڈرات بن چکی ہیں اور لاکھوں لوگوں کو آتش و آھن کی بارش میں تہہ خاک کردیا گیا ہے۔
یہ تصویر ہے آج کے اس ”مہذب“ انسانی معاشرے کے حکمرانوں کی۔ انکے ”امن پسند“ عزائم کی اور ان کی انسان دوستی کے معیاروں کی.... اسی معاشرے کے دانشور، محقق اور مذہبی پیشوا اپنے تبصروں، تجزیوں اور کتب و رسائل کی تحریروں میں پیغمبر انسانیت حضور ختمی مرتبت نبی اکرم پر اعتراضات کرتے نظر آتے ہیں۔ کوئی آپ کی ذاتِ مقدسہ پر دہشت گردی کا الزام لگاتا ہے۔۔۔ کوئی آپ کو انسانیت کا دشمن ۔۔۔اور کوئی محبوب خدا کے دین کو انسانیت کےخلاف سازش گردانتا ہے۔ کسی نے قرآن کو خونی کتاب قرار دیا ہے تو کسی کی متعصبانہ تحقیق نے محمد کی تلوار کو خونریزی کا سب سے بڑا ذمہ دار ٹھہرایا۔ حقیقت کو خرافات کے پردوں میں لپیٹنے والے یہ نام نہاد دانشور، محقق اور سکالر محض اسلام اور پیغمبر اسلام کےخلاف باطنی تعصب، عداوت اور بددیانتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
حق پر الزامات کا یہ سلسلہ نیا نہیں بلکہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی پرانی انسانی تاریخ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ حضور نے جنگیں لڑی ہیں۔ معرکوں میں حصہ لیا ہے اور حق و باطل کے ان معرکوں کی سپہ سالاری بھی فرمائی ہے مگر اس کا مطلب کیا یہ نکالا جائےگا کہ آپ کی ساری زندگی جنگ کے میدان میں گزری؟ نہیں، اےسا ہر گز نہےں ہے بلکہ حیاتِ طیبہ کے 10 سالہ مدنی دور میں معرکوں کا یہ دورانیہ صرف آٹھ سالوں پر منحصر ہے۔
پھر ان آٹھ سالہ معرکوں کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سب جنگےں دفاعی نوعےت کی تھےں۔ کوئی ایک بھی جارحانہ اقدام نہیں تھا۔ آپ نے جنگوں کے قوانین اور ضوابط متعین فرمائے اور کم سے کم جانی نقصان کا اصول اختیار فرمایا۔ یہ ساری جنگیں کیوں لڑی گئیں؟
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ان معرکوں میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ اہداف کو حاصل کیا۔ چونکہ جہاد فی سبیل اللہ تھا اس لیے ان کا بڑا مقصد اللہ کے دین کو اللہ تعالیٰ کی دھرتی پر قائم کرنا تھا اور بس۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم پر ایمان رکھنے والا شخص کبھی بھی اپنے جیسے انسان پر اس لئے ہتھیار نہیں اٹھاتا کہ وہ توسیع ملک چاہتا ہے، ذاتی تسلط چاہتا ہے، ہوس جاہ و منصب چاہتا ہے یا تجارتی اور معاشی مفادات چاہتا ہے۔ اسکے جہاد کا مقصد تو قرآن نے متعین کردیا ہے کہ وہ دنیا کو فتنہ گر قوتوں سے محفوظ و مامون کرنا چاہتا ہے۔ خواہ یہ فتنہ و فساد کسی بھی قومیت یا فرد کی طرف سے پھیل رہا ہو۔
اسلام کی تاریخ نے بالعموم اور حضور کی حیاتِ مقدسہ نے بالخصوص ثابت کیا ہے کہ اسلام نے کسی محدود نظریے، قومیت، نسب، لسانی شناخت یا جغرافیائی خطے کے حصول کیلئے معرکہ آرائی نہیں کی۔ حضور نے بےشتر بانیان مذاہب اور فاتحین عالم کے برعکس اپنی کاوشوںکا مرکز فلاح انسانیت ہی رکھا۔ کبھی سروں کو فتح کرنے کی تعلیم نہیں دی، ہمیشہ دلوں کو فتح کرنے پر زور دیا اور صاف ظاہر ہے کہ دل تیغ سے نہیں تبلیغ سے فتح ہوتے ہیں۔ اسلام نے جس قدر فتوحات حاصل کیں، جتنی تیزی سے دنیا کے اطراف و اکناف میں پھیلتا چلا گیا اور آج بھی اسکی نورانی کرنیں ظلمت شب کے پردوں سے جھانک رہی ہیں تو اسکے پیچھے لشکر و سپاہ کا عمل دخل نہیں رہا بلکہ دل و نگاہ کی جلوہ ریزیاں کارفرما رہی ہیں۔ ہاں وہاں وہاں لشکر و سپاہ کی ضرورت بھی پڑتی رہی جہاں جہاں عقل و شعور پر انسان دشمن اندھے اقتدار کے پہرے مسلط تھے۔ (جاری.........)
تاریخ مہم جو لوگوں کی ایسی ہلاکت خیز سرگرمیوں سے بھری پڑی ہے جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، مغلوب کرنے اور لوگوں پر تسلط قائم کر کے محکوم بنانے سے عبارت ہیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے حالانکہ اب تو انسان نے مہذب ہونے کا دعوی بھی کردیا ہے۔
ترقی یافتہ اقوام نے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور قیام امن کے عالمی ادارے بھی بنا لئے ہیں لیکن دوسروں پر حکومت کرنے کی پرانی انسانی فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ گزشتہ دو صدیاں انہی ” مہذب“ اقوامِ عالم کی باہمی جنگوں میں لتھڑی ہوئی ہیں جن میں جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوم سر فہرست ہیں۔ ان بدترین انسانی معرکوں میں پوری انسانی تاریخ کی ہلاکتوں کے ریکارڈ ٹوٹے ہیں۔ بعد ازاں دو عالمی قوتوں(امرےکہ و روس) کے درمیان رسہ کشی شروع ہوئی۔ دونوں نے پوری دنیا کو اپنے اپنے دھڑوں میں تقسیم کیے رکھا اور سرد جنگ کے دوران ہلاکت خیز ہتھیاروں کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے ریکارڈ قائم کیے۔
فاتح قوت نے نےو ورلڈ آرڈر جاری کےا اور پھر ےہ انسانی فطرت آج کے دور جدےد مےں داخل ہوگئی اور اگلی جنگ کا آغاز کردیا گےا۔ اس دفعہ مےدان جنگ اسلامی ممالک قرار پائے۔ انتہا پسندی و دہشت گردی کےخلاف اور ”قےام امن عالم“ کےلئے لڑی جانےوالی اس حالےہ جنگ مےں ہزاروں بستیاں ویران اور عمارتیں کھنڈرات بن چکی ہیں اور لاکھوں لوگوں کو آتش و آھن کی بارش میں تہہ خاک کردیا گیا ہے۔
یہ تصویر ہے آج کے اس ”مہذب“ انسانی معاشرے کے حکمرانوں کی۔ انکے ”امن پسند“ عزائم کی اور ان کی انسان دوستی کے معیاروں کی.... اسی معاشرے کے دانشور، محقق اور مذہبی پیشوا اپنے تبصروں، تجزیوں اور کتب و رسائل کی تحریروں میں پیغمبر انسانیت حضور ختمی مرتبت نبی اکرم پر اعتراضات کرتے نظر آتے ہیں۔ کوئی آپ کی ذاتِ مقدسہ پر دہشت گردی کا الزام لگاتا ہے۔۔۔ کوئی آپ کو انسانیت کا دشمن ۔۔۔اور کوئی محبوب خدا کے دین کو انسانیت کےخلاف سازش گردانتا ہے۔ کسی نے قرآن کو خونی کتاب قرار دیا ہے تو کسی کی متعصبانہ تحقیق نے محمد کی تلوار کو خونریزی کا سب سے بڑا ذمہ دار ٹھہرایا۔ حقیقت کو خرافات کے پردوں میں لپیٹنے والے یہ نام نہاد دانشور، محقق اور سکالر محض اسلام اور پیغمبر اسلام کےخلاف باطنی تعصب، عداوت اور بددیانتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
حق پر الزامات کا یہ سلسلہ نیا نہیں بلکہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی پرانی انسانی تاریخ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ حضور نے جنگیں لڑی ہیں۔ معرکوں میں حصہ لیا ہے اور حق و باطل کے ان معرکوں کی سپہ سالاری بھی فرمائی ہے مگر اس کا مطلب کیا یہ نکالا جائےگا کہ آپ کی ساری زندگی جنگ کے میدان میں گزری؟ نہیں، اےسا ہر گز نہےں ہے بلکہ حیاتِ طیبہ کے 10 سالہ مدنی دور میں معرکوں کا یہ دورانیہ صرف آٹھ سالوں پر منحصر ہے۔
پھر ان آٹھ سالہ معرکوں کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سب جنگےں دفاعی نوعےت کی تھےں۔ کوئی ایک بھی جارحانہ اقدام نہیں تھا۔ آپ نے جنگوں کے قوانین اور ضوابط متعین فرمائے اور کم سے کم جانی نقصان کا اصول اختیار فرمایا۔ یہ ساری جنگیں کیوں لڑی گئیں؟
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ان معرکوں میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ اہداف کو حاصل کیا۔ چونکہ جہاد فی سبیل اللہ تھا اس لیے ان کا بڑا مقصد اللہ کے دین کو اللہ تعالیٰ کی دھرتی پر قائم کرنا تھا اور بس۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم پر ایمان رکھنے والا شخص کبھی بھی اپنے جیسے انسان پر اس لئے ہتھیار نہیں اٹھاتا کہ وہ توسیع ملک چاہتا ہے، ذاتی تسلط چاہتا ہے، ہوس جاہ و منصب چاہتا ہے یا تجارتی اور معاشی مفادات چاہتا ہے۔ اسکے جہاد کا مقصد تو قرآن نے متعین کردیا ہے کہ وہ دنیا کو فتنہ گر قوتوں سے محفوظ و مامون کرنا چاہتا ہے۔ خواہ یہ فتنہ و فساد کسی بھی قومیت یا فرد کی طرف سے پھیل رہا ہو۔
اسلام کی تاریخ نے بالعموم اور حضور کی حیاتِ مقدسہ نے بالخصوص ثابت کیا ہے کہ اسلام نے کسی محدود نظریے، قومیت، نسب، لسانی شناخت یا جغرافیائی خطے کے حصول کیلئے معرکہ آرائی نہیں کی۔ حضور نے بےشتر بانیان مذاہب اور فاتحین عالم کے برعکس اپنی کاوشوںکا مرکز فلاح انسانیت ہی رکھا۔ کبھی سروں کو فتح کرنے کی تعلیم نہیں دی، ہمیشہ دلوں کو فتح کرنے پر زور دیا اور صاف ظاہر ہے کہ دل تیغ سے نہیں تبلیغ سے فتح ہوتے ہیں۔ اسلام نے جس قدر فتوحات حاصل کیں، جتنی تیزی سے دنیا کے اطراف و اکناف میں پھیلتا چلا گیا اور آج بھی اسکی نورانی کرنیں ظلمت شب کے پردوں سے جھانک رہی ہیں تو اسکے پیچھے لشکر و سپاہ کا عمل دخل نہیں رہا بلکہ دل و نگاہ کی جلوہ ریزیاں کارفرما رہی ہیں۔ ہاں وہاں وہاں لشکر و سپاہ کی ضرورت بھی پڑتی رہی جہاں جہاں عقل و شعور پر انسان دشمن اندھے اقتدار کے پہرے مسلط تھے۔ (جاری.........)
No comments:
Post a Comment