محبت - اور وہ بھی صرف ایک دن کے لیئے؟۔۔۔۔۔
از ۔۔۔۔ قمر رضوی
بے تکے اور فضول مسائل میں اپنے
آپکو الجھائے رکھنا اور وقت و پیسہ جیسی قیمتی دولت کو جہنم میں جھونک دینا
ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔ ہم سب اپنے اپنے مقام پر
افلاطون اور سقراط کے اساتذہ سے بھی کچھ بڑھ کر مقام رکھتے ہیں۔ ملکی و بین الاقوامی سیاست ہو یا کرہء ارضی کی تبدیل ہوتی ہوئی صورتِ حال، دنیا کے مختلف خطوں میں جاری جنگیں ہوں یا امن کے معاہدات، فلسطین پر اسرائیل کی جارحیت ہو یا امریکہ کی ایران کو دھمکیاں، ہمارے پاس ہر ہر بات اور ہر ہر مسئلے پر گھنٹوں پر محیط تقریریں اور ان مسائل کے حل کے پلندے موجود رہتے ہیں۔ اور ایسی صورتِ حال تب جنم لیتی ہے، جب آپکے پاس کرنے کو کچھ نہ ہو۔ ویسے بھی اگلے وقتوں کے سیانے کہہ گئے ہیں کہ جو کچھ نہیں کرتے، وہ کمال کرتے ہیں۔ جبکہ حال یہ ہے کہ نہ تو ہمارے اپنے پلے پانی، بجلی، گیس، روٹی، کپڑا، رستہ، تعلیم اور دوا جیسی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں۔
جہاں سارا سال ہم پرائی الجھنوں اور بے مقصد مسائل میں اپنے آپ کو الجھائے رکھتے ہیں، وہیں خوشیاں منانے کے لیئے بھی پرائے تہواروں کو منانا اپنے اوپر لازم کرلیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک شبِ سالِ نو یا نیو ائیر نائٹ منانے کا رواج پایا جاتا تھا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ فروری کی آمد کے ساتھ ہی ویلنٹائن ڈےکی وبا پھیلنا شروع ہوگئی۔ اس وبا کو پھیلے بمشکل پندرہ سال کا عرصہ ہوا ہوگا لیکن ان پندرہ سالوں میں جس طرح سے یہ آکاس بیل اس ملک کے نوجوانوں کو چمٹی ہے، لگتا ہے کہ اگلے چند سالوں میں کوئی بھی اسکی پکڑ سے محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ اسکے ساتھ ساتھ ہولی اور دیوالی بھی فطر و اضحٰی کی جگلہ لے لیں گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس تہوار کا کیا پسِ منظر ہے اور نہ ہی اسکو جاننے میں دلچسپی ہے۔ دوسرے یہ کہ نجانے اس تہوار کے مؤسس کے ذہن میں کیا ہوگا۔ کن حالات کے تحت یہ تہوار معرضِ وجود میں آیا ہوگا اور اسکو منانے کے اغراض و مقاصد اور طور طریقے کیا ہوں گے۔ اس بابت میری ناقص معلومات محض اتنی ہیں کہ یہ "یومِ محبت" نما کوئی دن ہے جس میں ایک دوسرے سے اظہارِ محبت کیا جاتا ہے۔
جب کہ حقیقت کچھ یوں ہے کہ محبت وہ دائمی عمل ہے جس میں زمان و مکان کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ بقول شاعر
ُ
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اسکو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
ذہن میں سوال جنم لیتا ہے کہ محبت اور ایک دن ؟؟؟؟ کیا خدا کے تخلیق کردہ ایک ازلی تا ابدی خوبصورت جذبے کو ایک دن کے قلیل عرصے کے دوران دو مخالف اجناسِ انسانی کے درمیان مقید کیا جاسکتا ہے؟ کسی بھی کم عقل سے بھی اس سوال کو پوچھا جائے تو اسکا جواب فی الفور نفی میں ہی ہوگا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ بے تکا تہوار اتنی سرعت کے ساتھ نہ صرف مقبول ہورہا ہے بلکہ ہزار مخالفتوں کے باوجود زور و شور سے منایا بھی جارہا ہے۔ ایک بوند کو سمندر کی مانند وسیع پیش کرنے والے میڈیا میں بھی اسکا اتنا چرچا ہونے لگا ہے کہ جسے نہیں بھی خبر، وہ بھی اس نعمت سے فیضیاب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسکی نہایت سادہ اور سیدھی سی وجہ ہے اور وہ ہے جہالت اور نادانی۔
وہ اس لیئے کہ جب آپ اپنی ذات، اپنے مذہب اور اپنی معاشرت کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیں تو بے ساختہ سجدے میں گر پڑیں کہ اس دین اور اسکے تعلیم کردہ معاشرے سے متصل ہیں، جسکی بنیاد ہی محبت ہے۔ اس دنیا میں قدم رکھتے ساتھ ہی اولاد و والدین کے درمیان محبت کے ایسے اٹوٹ رشتے کا آغاز ہوتا ہے جو اگلی دنیا میں جاکر بھی ختم نہیں ہوتا۔ ہمارے بنیادی عقیدے کے مطابق ہماری اس کائنات کا ایک خالق ہے جو ہمارے والدین کی محبت کا ستر گنا ہم سے پیار کرتا ہے۔ یہی وہی محب ہے، جس نے اپنے ایک محبوب کی چاہت میں یہ جہاں خلق کیا۔ اس کارزارِ ہستی کا زرہ زرہ اور لمحہ لمحہ سراپا محبت ہے۔ محض یہی نہیں، اس خالق کو صرف ایک محبوب سے نہیں، اپنی ہرہر مخلوق سے اتنا پیار ہے کہ جسکا شمار نہیں۔ اسی محبت کی بنا پر وہ اپنی مخلوقات کی غلطیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے انہیں مسلسل نواز رہا ہے۔ اس خالقِ کل نے جہاں محبتیں نچھاور کیں، وہیں محبت کا پیغام بھی عام کیا۔ چنانچہ جب ہم اپنے خالق کے کلام میں سسورۃ بقرۃ کی آیت نمبر 165 پر نگاہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایمان والوں کو تو خدا ہی سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔
انسان بلا شبہ اپنے خالق کا مقروض ہے اور محبت کا یہ قرض ایسا ہے جسکا عشرِ عشیر بھی ادا ہونے کے قابل نہیں۔ قرض ادا کرنا تو درکنار، محبت کرنے کا طریقہ اور سلیقہ تک معلوم نہیں کہ کیونکر اس ذات سے محبت کا حق ادا کرکے ایمان والا بنا جائے۔ لیکن قربان جائیے اپنے رب کے انتظامات پر کہ اپنے بندوں کو اپنے سے بات کرنے کا ڈھنگ سکھانے والے اور محبت کرنے کا طریقہ بتانے والے بھی بھیجے جنہوں نے حقِ تعلیم بھی کیا خوب ادا کیا۔ زرا غور فرمائیے کہ کیسے امام علی بن حسین زین العابدین علیہ السلام مناجاتِ محبین میں اپنے رب کو ایک عاشق کے روپ میں مخاطب کرنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔
خدا کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
میرے معبود کون ہے جو تیری صحبت کی شیرینی کامزہ چکھے اور پھر اس میں تبدیلی کی خواہش کرے اور کون ہے جو تیری نزدیکی سے مانوس ہو اور پھر اس سے دوری چاہے ؟
میرے معبود مجھے ان لوگوں میں قرار دے جن کو تو نے قرب و دوستی کے لیے پسند فرمایا اور جن کے لیے اپنی چاہت اور محبت کو خالص کیا ہے۔ جنہیں اپنی ملاقات کا شوق دلایاہے اور جن کو اپنی قضا پر راضی کیا۔اور اپنی ذات کا نظارہ کرنے کا شرف بخشا ہے جنہیں اپنی رضا سے نوازا ہے۔
خود سے دوری اور علیحدگی سے پناہ میں رکھا ہے اور اپنی خوشنودی کے مقام کے قریب رکھا ہے اور انہیں اپنی معرفت کے لیے خاص کیا۔
اپنی عبادت کا اہل بنایا ان کے دلوں میں اپنی ارادت پیدا کی اور ان کو اپنے جلووں کے مشاہدے کے لیے چن لیا۔
ان کے چہروں کو اپنے حضور جھکایا، ان کے دلوں کو اپنی محبت کیلئے فارغ کیا اور جو کچھ تیرے پاس ہے اس کی چاہت دی۔ انہیں اپنا ذکر تعلیم کیا۔
ان کو اپنے شکر کی توفیق دی اور اپنی اطاعت میں مشغول کیا انہیں اپنی نیک مخلوق میں سے قرار دیا۔
اور انہیں اپنی مناجات کے لیے چنا۔ تو نے ان سے وہ تمام چیزیں الگ کردیں جو انہیں تجھ سے جدا کرسکتی تھیں۔
اے معبود! ہمیں ان لوگوں میں قرار دے جو تیری بارگاہ کا شوق و خوشدلی رکھتے ہیں جن کی زندگی آہ و زاری سے عبارت ہے۔
ان کی پیشانیاں تیری بڑائی کے آگے جھکی ہوئی ہیں ان کی آنکھیں تیرے حضور بیدار رہتی ہیں تیرے خوف میں ان کے آنسو رواں ہیں۔
انکے دل تیری محبت میں لگے بندھے ہیں۔ ان کے باطن تیرے رعب سے پگھلے ہوئے ہیں۔
اے وہ، جس کی پاکیزگی کے انوار محبان کو بھلے لگتے ہیں اور اس کی ذات کے جلوے سے عارفوں کے دلوں کو کھولنے والے ہیں۔
اے شوق رکھنے والے دلوں کی آرزو! اے محبوں کے ارمانوں کی انتہا! میں تجھ سے تیری محبت اور تجھ سے محبت کرنے والوں کی محبت مانگتا ہوں اور ہر اس عمل کی محبت جو مجھے تیرے نزدیک کرنے والا ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ دوسروں سے زیادہ اپنی ذات کو میرا محبوب بنا اور یہ کہ میں تجھ سے جو محبت کرتا ہوں اسے میرے لیے دخولِ جنت کا ذریعہ بنا۔
اور تیرے لیے میرا جو شوق ہے اسے نافرمانیوں سے مانع بنا اور اپنی نظر عنایت کرکے مجھ پر احسان فرما۔
مجھ کو نرمی اور محبت کی نظروں سے دیکھ اور مجھ سے اپنی توجہ نہ ہٹا۔ مجھے اپنے نزدیک اہلِ سعادت اور بہرہ مندوں میں قرار دے اے دعا قبول کرنے والے! اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے!
یہی وہی امام علی بن حسین ہیں جنہوں نے اپنے والدِ گرامی کو اپنے عاشق کے ساتھ حقِ عشق ادا کرتے ہوئے ملاحظہ فرمایا۔ ایسا عشق، جسمیں "نہیں" کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔ معشوق کی پکار پر اپنا گھر، بار، بیٹے، بھائی، اپنا کامل وجود، یہاں تک کہ اپنی ناموس کا حجاب بھی قربان کرڈالا۔ حالتِ سجدہ میں اپناسر اپنے معشوق کے حضور پیش کیا اور پھر نوکِ سناں پر بلند ہو کر بھی اسی کے نام کا ڈنکا بجایا۔ کیا چشمِ فلک نے ایسا کوئی عاشق دیکھا ہے جو اپنے معشوق کی خوشنودی کے لیئے ان حدود کو پار کر جائے؟ قطعاً نہیں۔
اس وقت ضرورت ہے اپنے شعور کو بیدار کرنے کی کہ وہ معنیءعشق سمجھنے کے قابل ہو کر رہِ عشق کے لیئے رہنمائی فراہم کرسکے۔ اور اگر مقصود محض شغل، میلہ اور وقت کی بربادی ہے تو روز ایک ویلنٹائن خلق کیجئے اور خرافات کے زریعے اسے خراجِ عقیدت پیش کیجیئے۔ یوں نفس بھی خوش اور کیک، پھول اور غبارے والے بھی خوش۔
افلاطون اور سقراط کے اساتذہ سے بھی کچھ بڑھ کر مقام رکھتے ہیں۔ ملکی و بین الاقوامی سیاست ہو یا کرہء ارضی کی تبدیل ہوتی ہوئی صورتِ حال، دنیا کے مختلف خطوں میں جاری جنگیں ہوں یا امن کے معاہدات، فلسطین پر اسرائیل کی جارحیت ہو یا امریکہ کی ایران کو دھمکیاں، ہمارے پاس ہر ہر بات اور ہر ہر مسئلے پر گھنٹوں پر محیط تقریریں اور ان مسائل کے حل کے پلندے موجود رہتے ہیں۔ اور ایسی صورتِ حال تب جنم لیتی ہے، جب آپکے پاس کرنے کو کچھ نہ ہو۔ ویسے بھی اگلے وقتوں کے سیانے کہہ گئے ہیں کہ جو کچھ نہیں کرتے، وہ کمال کرتے ہیں۔ جبکہ حال یہ ہے کہ نہ تو ہمارے اپنے پلے پانی، بجلی، گیس، روٹی، کپڑا، رستہ، تعلیم اور دوا جیسی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں۔
جہاں سارا سال ہم پرائی الجھنوں اور بے مقصد مسائل میں اپنے آپ کو الجھائے رکھتے ہیں، وہیں خوشیاں منانے کے لیئے بھی پرائے تہواروں کو منانا اپنے اوپر لازم کرلیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک شبِ سالِ نو یا نیو ائیر نائٹ منانے کا رواج پایا جاتا تھا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ فروری کی آمد کے ساتھ ہی ویلنٹائن ڈےکی وبا پھیلنا شروع ہوگئی۔ اس وبا کو پھیلے بمشکل پندرہ سال کا عرصہ ہوا ہوگا لیکن ان پندرہ سالوں میں جس طرح سے یہ آکاس بیل اس ملک کے نوجوانوں کو چمٹی ہے، لگتا ہے کہ اگلے چند سالوں میں کوئی بھی اسکی پکڑ سے محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ اسکے ساتھ ساتھ ہولی اور دیوالی بھی فطر و اضحٰی کی جگلہ لے لیں گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس تہوار کا کیا پسِ منظر ہے اور نہ ہی اسکو جاننے میں دلچسپی ہے۔ دوسرے یہ کہ نجانے اس تہوار کے مؤسس کے ذہن میں کیا ہوگا۔ کن حالات کے تحت یہ تہوار معرضِ وجود میں آیا ہوگا اور اسکو منانے کے اغراض و مقاصد اور طور طریقے کیا ہوں گے۔ اس بابت میری ناقص معلومات محض اتنی ہیں کہ یہ "یومِ محبت" نما کوئی دن ہے جس میں ایک دوسرے سے اظہارِ محبت کیا جاتا ہے۔
جب کہ حقیقت کچھ یوں ہے کہ محبت وہ دائمی عمل ہے جس میں زمان و مکان کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ بقول شاعر
ُ
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اسکو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
ذہن میں سوال جنم لیتا ہے کہ محبت اور ایک دن ؟؟؟؟ کیا خدا کے تخلیق کردہ ایک ازلی تا ابدی خوبصورت جذبے کو ایک دن کے قلیل عرصے کے دوران دو مخالف اجناسِ انسانی کے درمیان مقید کیا جاسکتا ہے؟ کسی بھی کم عقل سے بھی اس سوال کو پوچھا جائے تو اسکا جواب فی الفور نفی میں ہی ہوگا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ بے تکا تہوار اتنی سرعت کے ساتھ نہ صرف مقبول ہورہا ہے بلکہ ہزار مخالفتوں کے باوجود زور و شور سے منایا بھی جارہا ہے۔ ایک بوند کو سمندر کی مانند وسیع پیش کرنے والے میڈیا میں بھی اسکا اتنا چرچا ہونے لگا ہے کہ جسے نہیں بھی خبر، وہ بھی اس نعمت سے فیضیاب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسکی نہایت سادہ اور سیدھی سی وجہ ہے اور وہ ہے جہالت اور نادانی۔
وہ اس لیئے کہ جب آپ اپنی ذات، اپنے مذہب اور اپنی معاشرت کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیں تو بے ساختہ سجدے میں گر پڑیں کہ اس دین اور اسکے تعلیم کردہ معاشرے سے متصل ہیں، جسکی بنیاد ہی محبت ہے۔ اس دنیا میں قدم رکھتے ساتھ ہی اولاد و والدین کے درمیان محبت کے ایسے اٹوٹ رشتے کا آغاز ہوتا ہے جو اگلی دنیا میں جاکر بھی ختم نہیں ہوتا۔ ہمارے بنیادی عقیدے کے مطابق ہماری اس کائنات کا ایک خالق ہے جو ہمارے والدین کی محبت کا ستر گنا ہم سے پیار کرتا ہے۔ یہی وہی محب ہے، جس نے اپنے ایک محبوب کی چاہت میں یہ جہاں خلق کیا۔ اس کارزارِ ہستی کا زرہ زرہ اور لمحہ لمحہ سراپا محبت ہے۔ محض یہی نہیں، اس خالق کو صرف ایک محبوب سے نہیں، اپنی ہرہر مخلوق سے اتنا پیار ہے کہ جسکا شمار نہیں۔ اسی محبت کی بنا پر وہ اپنی مخلوقات کی غلطیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے انہیں مسلسل نواز رہا ہے۔ اس خالقِ کل نے جہاں محبتیں نچھاور کیں، وہیں محبت کا پیغام بھی عام کیا۔ چنانچہ جب ہم اپنے خالق کے کلام میں سسورۃ بقرۃ کی آیت نمبر 165 پر نگاہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایمان والوں کو تو خدا ہی سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔
انسان بلا شبہ اپنے خالق کا مقروض ہے اور محبت کا یہ قرض ایسا ہے جسکا عشرِ عشیر بھی ادا ہونے کے قابل نہیں۔ قرض ادا کرنا تو درکنار، محبت کرنے کا طریقہ اور سلیقہ تک معلوم نہیں کہ کیونکر اس ذات سے محبت کا حق ادا کرکے ایمان والا بنا جائے۔ لیکن قربان جائیے اپنے رب کے انتظامات پر کہ اپنے بندوں کو اپنے سے بات کرنے کا ڈھنگ سکھانے والے اور محبت کرنے کا طریقہ بتانے والے بھی بھیجے جنہوں نے حقِ تعلیم بھی کیا خوب ادا کیا۔ زرا غور فرمائیے کہ کیسے امام علی بن حسین زین العابدین علیہ السلام مناجاتِ محبین میں اپنے رب کو ایک عاشق کے روپ میں مخاطب کرنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔
خدا کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
میرے معبود کون ہے جو تیری صحبت کی شیرینی کامزہ چکھے اور پھر اس میں تبدیلی کی خواہش کرے اور کون ہے جو تیری نزدیکی سے مانوس ہو اور پھر اس سے دوری چاہے ؟
میرے معبود مجھے ان لوگوں میں قرار دے جن کو تو نے قرب و دوستی کے لیے پسند فرمایا اور جن کے لیے اپنی چاہت اور محبت کو خالص کیا ہے۔ جنہیں اپنی ملاقات کا شوق دلایاہے اور جن کو اپنی قضا پر راضی کیا۔اور اپنی ذات کا نظارہ کرنے کا شرف بخشا ہے جنہیں اپنی رضا سے نوازا ہے۔
خود سے دوری اور علیحدگی سے پناہ میں رکھا ہے اور اپنی خوشنودی کے مقام کے قریب رکھا ہے اور انہیں اپنی معرفت کے لیے خاص کیا۔
اپنی عبادت کا اہل بنایا ان کے دلوں میں اپنی ارادت پیدا کی اور ان کو اپنے جلووں کے مشاہدے کے لیے چن لیا۔
ان کے چہروں کو اپنے حضور جھکایا، ان کے دلوں کو اپنی محبت کیلئے فارغ کیا اور جو کچھ تیرے پاس ہے اس کی چاہت دی۔ انہیں اپنا ذکر تعلیم کیا۔
ان کو اپنے شکر کی توفیق دی اور اپنی اطاعت میں مشغول کیا انہیں اپنی نیک مخلوق میں سے قرار دیا۔
اور انہیں اپنی مناجات کے لیے چنا۔ تو نے ان سے وہ تمام چیزیں الگ کردیں جو انہیں تجھ سے جدا کرسکتی تھیں۔
اے معبود! ہمیں ان لوگوں میں قرار دے جو تیری بارگاہ کا شوق و خوشدلی رکھتے ہیں جن کی زندگی آہ و زاری سے عبارت ہے۔
ان کی پیشانیاں تیری بڑائی کے آگے جھکی ہوئی ہیں ان کی آنکھیں تیرے حضور بیدار رہتی ہیں تیرے خوف میں ان کے آنسو رواں ہیں۔
انکے دل تیری محبت میں لگے بندھے ہیں۔ ان کے باطن تیرے رعب سے پگھلے ہوئے ہیں۔
اے وہ، جس کی پاکیزگی کے انوار محبان کو بھلے لگتے ہیں اور اس کی ذات کے جلوے سے عارفوں کے دلوں کو کھولنے والے ہیں۔
اے شوق رکھنے والے دلوں کی آرزو! اے محبوں کے ارمانوں کی انتہا! میں تجھ سے تیری محبت اور تجھ سے محبت کرنے والوں کی محبت مانگتا ہوں اور ہر اس عمل کی محبت جو مجھے تیرے نزدیک کرنے والا ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ دوسروں سے زیادہ اپنی ذات کو میرا محبوب بنا اور یہ کہ میں تجھ سے جو محبت کرتا ہوں اسے میرے لیے دخولِ جنت کا ذریعہ بنا۔
اور تیرے لیے میرا جو شوق ہے اسے نافرمانیوں سے مانع بنا اور اپنی نظر عنایت کرکے مجھ پر احسان فرما۔
مجھ کو نرمی اور محبت کی نظروں سے دیکھ اور مجھ سے اپنی توجہ نہ ہٹا۔ مجھے اپنے نزدیک اہلِ سعادت اور بہرہ مندوں میں قرار دے اے دعا قبول کرنے والے! اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے!
یہی وہی امام علی بن حسین ہیں جنہوں نے اپنے والدِ گرامی کو اپنے عاشق کے ساتھ حقِ عشق ادا کرتے ہوئے ملاحظہ فرمایا۔ ایسا عشق، جسمیں "نہیں" کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔ معشوق کی پکار پر اپنا گھر، بار، بیٹے، بھائی، اپنا کامل وجود، یہاں تک کہ اپنی ناموس کا حجاب بھی قربان کرڈالا۔ حالتِ سجدہ میں اپناسر اپنے معشوق کے حضور پیش کیا اور پھر نوکِ سناں پر بلند ہو کر بھی اسی کے نام کا ڈنکا بجایا۔ کیا چشمِ فلک نے ایسا کوئی عاشق دیکھا ہے جو اپنے معشوق کی خوشنودی کے لیئے ان حدود کو پار کر جائے؟ قطعاً نہیں۔
اس وقت ضرورت ہے اپنے شعور کو بیدار کرنے کی کہ وہ معنیءعشق سمجھنے کے قابل ہو کر رہِ عشق کے لیئے رہنمائی فراہم کرسکے۔ اور اگر مقصود محض شغل، میلہ اور وقت کی بربادی ہے تو روز ایک ویلنٹائن خلق کیجئے اور خرافات کے زریعے اسے خراجِ عقیدت پیش کیجیئے۔ یوں نفس بھی خوش اور کیک، پھول اور غبارے والے بھی خوش۔
No comments:
Post a Comment