القاعدہ، اسامہ بن لادن کے بعد ؟
عالمگیر آفریدی
-امریکا کی ایک معرو ف ریسرچ آرگنائزیشن ”رینڈکارپوریشن،، نے
”القاعدہ،اسامہ بن لادن کے بعد، امریکی حکمت عملی پر پڑنے والے اثرات،،کے
عنوان سے مرتب کردہ اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں القاعدہ کے پس منظر اور اس
کے مستقبل کے عزائم پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ واضح رہے کہ یہ رپور ٹ ا
مریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے مسلح افواج کی ممکنہ خطرات اور
صلاحیتوں سے متعلق ذیلی کمیٹی کے سامنے بھی پیش کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے
مطابق القاعدہ کی طرف سے ممکنہ خطرات کے بارے میں تجزیہ نگاروں میں بہت کم
اتفاق پایا جاتا ہے ۔کچھ کے خیال میں اسامہ بن لادن کی موت کے بعد القاعدہ
دم توڑ چکی ہے اور روبہ تنزل ہے جب کہ بعض کہتے ہیں کہ القاعدہ پہلے کی طرح
سرگرم عمل ہے خصوصاً جزیرہ نما عرب میں اس کے نظریات کا پھیلا و اور
انٹرنیٹ پر اس کی تشہیر، مہلک ہتھیاروں کے حصول کی کوشیش اور افغانستان
وپاکستان کے مشکل حالات جیسی باتوں سے اس کی فعالیت کا پتا چلتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق القاعدہ اپنے پانچویں مرحلے یعنی ”پوسٹ بن لادن فیز ،،سے گزر رہی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ2007ءسے القاعدہ کی پسپائی کا آغاز ہوا یعنی اس دور میں القاعدہ عراق اور افغانستان سے باہر بڑی کارروائیاں کروانے میںناکام رہی ۔ا لقاعدہ کے چوتھے مرحلے کا اختتام اسامہ بن لادن کی موت کی صورت میں ہوا۔ مذکورہ رپورٹ میںاسامہ بن لادن کے بعد کی القاعدہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گزشتہ دس سالوں کے دوران القاعدہ کے خلاف خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ القاعدہ کے کام کرنے کی صلاحیتوں میں کافی کمی واقع ہوئی ہے ۔اس کی قیادت سمٹ چکی ہے اور فوجی تنظیم منتشر ہے۔ 2005کے بعد اس نے مغرب میں دہشت گردی کی کوئی بڑی کاروائی نہیں کی لیکن اپنے مشن کوجاری رکھنے کے لیے اس کی قوت ارادی اور ہمت میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ اس رپورٹ میں مزیدکہا گیا ہے کہ القاعدہ انفرادی جہاد اور اپنی مدد آپ کے تحت دہشت گرد واقعات کی حامی ہے۔ ان کے رابطہ کار تنظیم کے وجود کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور انفرادی جہاد کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ وہ مختلف قسم کی مزاحمتوں سے بچناچاہتے ہیں۔ القاعدہ کی یہ نئی حکمت عملی اس کے سابقہ مرکزی کردار اور خیالات کے منافی اور موجودہ حقائق کی ترجمانی کرتی ہے ۔ دس سالہ دہشت گردی اور بغاوت کے خلاف لڑنے سے ہمیں تاریخی پس منظر کی حامل وہ معلومات حاصل ہوئی ہیںجن سے ہمیں بحیثیت ایک قوم خطرات لاحق ہیں۔القاعدہ چونکہ بہت آگے جا چکی ہے اس لیے ہم امریکیوں کو بھی اسی رفتار سے آگے بڑھتے ہوئے اس کا حل ڈھونڈ نا ہوگا ۔ ہمیں کسی بے سرو پا پالیسی نہیں بلکہ باقاعدہ اصولوں کی بنیاد پر وضع کی گئی پالیسی پر بات کرنی چاہیے ۔ اگر چہ جہادی تنظیمیں کمزور ہو چکی ہیں لیکن وہ اب بھی مسلسل خطرے کی علامت ہیں اور القاعدہ کے تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خود کو موقع محل کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کا مقصدصرف امریکہ کو کمزور کرنا اور موقع پاکر دوسرے مقامات سے اپنے مشن کو جاری رکھناہے ۔ ان کو جڑ سے ختم کرنا انصاف کا تقاضا ہے تاکہ یہ نشان عبرت بنے اور اسے آئیندہ کبھی بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف حملہ کرنے کی جرات نہ ہو سکے۔ القاعدہ امریکیوں کے حواس پر کتنی سوار ہے اس کا اندازہ اس رپورٹ میں موجود تفاوت سے باآسانی لگا یا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ ایمن الظواہری کے القاعدہ کے رہنما کی حیثیت سے منظر عام پر آنے سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اسامہ بن لادن کے موت کے بعد بھی امریکہ پر القاعدہ کے حملے جاری رہیں گے۔ جب کہ دوسری جانب اس رپورٹ میں اسامہ کی ہلاکت کا کریڈٹ لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسامہ کے موت کے بعد القاعدہ کافی حد تک غیر مستحکم اور منتشر ہو چکی ہے اور اس کے خطرات کافی کم ہو چکے ہیں۔ کوئی جانشین اسامہ کی جگہ نہیں لے سکتا اور القاعدہ اب ہر جگہ خود مختار کمانڈروںکے زیر اثر رہ کر صرف عقیدے کے لحاظ سے یکجا ہے۔ آج کی القاعدہ میں 9/11کی طرز اور کیفیت کے حملے کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تاہم اس سے احتیاط ضروری ہے۔تیونس اور مصر میں انقلابات اور عرب بادشاہتوں کی کمزور یوں سے القاعدہ کو فائدہ ملتا ہے اور اگر ان انقلابات کو نابود کیا جائے تو بھی القاعدہ کو دوبارہ سے ان ممالک میں جگہ بنانے کا موقع مل سکتا ہے۔ یہاں ہمیں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ ان انقلابات سے وہ منظم اسلامی جماعتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں جن کے خیالات القاعدہ کی طرح خطرناک ہیں۔ یہ القاعدہ اور امریکہ دونوں کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔
اس رپورٹ میں پائے جانے والے اس تضاد سے یہ رائے سو فیصد درست معلوم ہوتی ہے کہ القاعدہ اور اسامہ کا ہوا امریکہ نے اپنے بعض مذموم مقاصد کے حصول کے لیے کھڑا کیا تھااور اب جب عراق اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا چکی ہے اور اس خطے میں امریکہ اپنے مفادات حاصل کر چکا ہے توامریکی حکمران اسامہ کی شہادت کو اگر ایک طرف اپنی فتح سے تعبیر کر کے اس کا کریڈٹ آئندہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں حاصل کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف القاعدہ کو امریکی مفادات کے لیے خطرہ قرار دے کر اسے مستقبل میں بھی ایک سیاسی آلے کے طور پرزندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکی دانشور ایک طرف تو عرب دنیا میں رونما ہونے والے انقلابات کو جمہوریت کی فتح اور عرب ڈکٹیٹر رہنماوں کے اقتدار سے ہٹنے کا خیر مقدم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں پھر ایک ہی سانس میں عرب ممالک میں اسلام پسندوں کی انتخابی کامیابیوں اور بڑھتے ہوئے اثرات کو القاعدہ کے نظریات کے تناظر میں دیکھتے ہوئے ان تبدیلیوں کو امریکی مفادات کے لیے سنگین خطرات سے تعبیر کیا جا تا ہے۔
امریکیوں کے خبث باطن کا واضح اندازہ رپورٹ کے اس ایک جملے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عرب ممالک میں جمہوریت پر یقین رکھنے والے اسلام پسندوں کی جمہوری فتح القاعدہ اور امریکہ دونوں کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ امریکی دانشور جو جمہوریت کے نام نہاد چیمپئن ہیں اور جو عرصہ دراز سے عرب ڈکٹیٹروں اور بادشاہوں کے خلاف جمہوری جدوجہد کی تھیوری کی حد تک حمایت کرتے رہے ہیں لیکن اب جب مصر ، تیونس ا ور مراکش میں اسلام پسند جمہوری قوتیں تمام تر ریاستی دباو ، منفی ہتھکنڈوں اور نصف صدی سے ان تنظیموں پر ڈھائے جانے والے ریاستی ظلم و تشد کے باوجود بر سر اقتدار آگئی ہیں تو امریکہ کے نام نہاد آزاد خیال جمہوریت پسنددانشور اسلام پسندوں کی کامیابی کو القاعدہ سے تشبیہہ دے کر ان کی کامیابی کو مغربی مفادات کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں ۔ اسلام پسندوں کی پر امن جمہوری جدوجہد اور اس کے نتیجے میں ان کے بر سر اقتدار آنے سے چونکہ القاعدہ جیسی تشدد اور طاقت کے زریعے اقتدار میں آنے پر یقین رکھنے والی تنظیموں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور ان کا میابیوں سے چونکہ عالم اسلام اور بالخصوص عالم عرب کا امریکی پروپیگنڈے کے برعکس آیا ہے ۔ اس لیے امریکی کے لیے تمام تر زمینی حقائق کے باوجود اسلام پسندوں کی فتح کے اس کڑوے گھونٹ کو اپنے حلق سے اتارنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔اس امریکی پریشانی اور تشویش کا عکس زیر نظر رپورٹ میں ہر کوئی باآسانی دیکھ اور محسوس کر سکتاہے۔
No comments:
Post a Comment