Search This Blog

Friday, 24 February 2012

دِیانت

دِیانت
ڈاکٹر حمید نسیم رفیع آبادی

امام ابو حنیفہؒ ایک بہت بڑے تاجر بھی تھے۔ اکثر شہروں میں ان کی ایجنسیاں موجود تھیں۔ بڑے بڑے سوداگروں سے معاملہ رہتا تھا اور لاکھوں کا لین دین ہوتا تھا۔ اس قدر وسیع کاروبار کے ساتھ اتنی احتیاط برتتے تھے کہ ان کے خزانے میں ایک پائی ناجائز طور پر داخل نہ ہوسکتی تھی۔ اس احتیاط کے باعث اگر کبھی نقصان پہنچ جاتا تو ملول نہیں ہوتے تھے۔ ایک دفعہ حفص بن عبدالرحمن کے پاس کپڑے کے تھان فروخت کیلئے بھیجے اور انہیں کہلا بھیجا کہ فلاں فلاں تھان میں عیب ہے۔ بیچتے وقت خریدار کو دکھلا اور جتلا کر دینا۔ حفص کو تھان فروخت کرتے وقت ےہ ہدایت یاد نہ رہی اور عیب بتائے بغیر مال فروخت کردیا۔ امام صاحب کو اس امر کی اطلاع ملی ، تو انہیں بہت افسوس ہوا۔ کفّارہ کی اور توکوئی صورت نظر نہ آئی، کیونکہ تھان ایسا شخص لے گیا تھا جس کا اتا پتا معلوم نہ تھا، اس لئے آپ نے ان تھانوںکی قیمت جو تیس ہزار درہم تھی ، خیرات کردی۔ ایک اور موقع پر امام صاحب کے پاس ایک عورت ایک تھان بیچنے کےلئے لائی ۔ امام صاحب نے دام پوچھے تو اس نے سو روپے بتائے۔ آپ نے فرمایا کم ہیں، تو اس نے کہا دو سو دیجئے ۔ آپ نے فرمایا تھان پانچ سو سے کم قیمت کا نہیں۔ عورت نے حیران ہوکر پوچھا: ”آپ مذاق تو نہیں کرتے“؟ امام صاحبنے کہا: ”نہیں“ اور اُسے پانچ سو روپے دےکر تھان اپنے پاس رکھ لیا۔
 
    اسی طرح مشہور عالم ابن سےرین لاکھوں کی تجارت کیا کرتے تھے ، مگر انہوں نے ہمیشہ خریداروں کے مفاد کو مدّنظر رکھا اور بارہا خسارہ برداشت کےا۔ 
 
 
   نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالےٰ فرماتا ہے کہ جب تک کسی کاروبار کے دو ساتھی باہم خیانت نہ کریں میں اُن کے ساتھ رہتا ہوں، لیکن جب ایک شریک دوسرے شریک سے خیانت کرتا ہے تو میں ان دونوں کے درمیان سے نکل آتا ہوں اور شیطان آجاتا ہے۔ (ابو داود ۔ ابو ہریرہ ص)
اس حدیث کا مطلب ےہ ہے کہ کاروبار میں شریک لوگ جب تک آپس میں چالبازی نہیں کرتے تب تک اللہ اُن کی مدد کرتا ہے، اُن پر رحمت کرتا ہے اور ان کے کاروبار میں اور باہمی تعلقات میں برکت عطا کرتا ہے لیکن جب اُن میں سے کسی کی نیّت بد ہوجاتی ہے اور وہ خیانت کرنے لگتا ہے تب اللہ اپنی مدد اور رحمت کا ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور پھر شیطان آجاتا ہے جو اُن کو اور ان کے کاروبار کو تباہی کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔
میگل ڈی کرونٹس نے بالکل سچ فرمایا کہ
    ” دیانت سب سے بہترین پالیسی ہے “۔
اور شیکسپےئر نے اس سے بڑھ کر کہا ہے: ”کوئی میراث اتنی عظیم نہیں جتنی کہ دیانت“
    امانت دار اور دیانت دار کبھی شہرت کا بھوکا نہیں ہوتا۔ وہ اپنا کام ایمانداری کے ساتھ انجام دیتا ہے اور اس کو اس بات کی مطلق پریشانی نہیں ہوتی کہ لوگ اس کو جانیں ، اس کا چرچا کریں۔ وہ گیتا کے الفاظ میں ”منشکام کرما“ بغیر لالچ کے اپنا کام انجام دیتا ہے۔ اور پانی میں کنول کی طرح تمام داغ دھبوں اور ریاکاری کی آلائشوں سے دور رہتا ہے۔ اسی لئے شاید سُسینا کنٹلیور Susanna Cantlivre نے کہا ہے:
"He is only honest who is not discovered"
ےہ بالکل سچ ہے کہ ایماندار آدمی ” زمیں پر خدا کی مقدس ترین تخلیق “ ہے
                         (الےکزنڈر پوپ)
اور بقول مارشل (Martial) دیانت دار آدمی ہمیشہ ایک بچّے کی طرح معصوم اور صاف ستھرے کردار کا حامل ہوتا ہے۔
    انسان اپنے طرزِعمل اور کردار کے ذریعے سے اپنی اصل پہچان حاصل کر لیتا ہے۔لوگوں کے ساتھ اس کے تعلقات اُس کے بارے میں ایک تصور اور عقیدہ پیدا کرتے ہیں ۔ وہ اسی طرح اپنے کردار سے پہچانا جاتا ہے جیسے کہ درخت اپنے پھل سے۔ اگر اُس نے اپنے اندر فضائل اخلاق پروان چڑھائے ہوں تو وہ باعزت شہری کہلاتا ہے۔ اب اگر خدانخواستہ وہ رذائل (vices) کا حامل ہو کر ننگِ انسانیت بن جائے ، تو وہ بدنام ہوجاتا ہے ۔ اس کے ساتھ لوگ لین دین پیدا کرنے سے دور رہتے ہیںاور وہ اپنی اخلاق باختگی کے لئے مشہور ہوجاتا ہے۔ ان تمام اخلاقی برائیوں میں خیانت ایک ایسی برائی ہے جس کے بعد آدمی کے پاس کچھ نہیں بچتا ہے، جس سے وہعزت و احترام کی توقع رکھ سکے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے-:
"He that loseth his honesty, lath nothing
to lose." (John Lyly)
رسول اکرم ﷺنے فرمایا کہ منافق کی تین خصلتیں ہیں۔ ان میں سے ایک خصلت ےہ ہے کہ
”اذااُو±تمِنَ خَانَ“
یعنی جب اُس کے پاس کوئی چیز امانت کے طور پر رکھی
جاتی ہے تو وہ خیانت کرتا“
    غرض امانت اور دیانت کے معاملے میں دوست و دشمن کی تمیز کے بغیر جس کا رویہ ہو اس کی تعریف کی گئی ہے۔ گیتا میں ہے:
” مان اور ایمان ۔ دشمن دوست جس ایک سے۔ آدمی جو ہر طرح کا کرم پھل بھی تیاگ دے“
قرآن پاک میں فرمایا گیا کہ ” امانت “ کا بوجھ زمین اور آسمانوں پر پیش کیا گیا ۔ مگر اس کو صرف انسان اُٹھا سکا۔
 سب پر جس بوجھ نے گران کی
اس کو ےہ ناتوان اُٹھا لایا

No comments:

Post a Comment