Search This Blog

Tuesday 21 February 2012

پیر ویلینٹائن(علیہ ماعلیہ) کا عُرس سراپا قُدس

پیر ویلینٹائن(علیہ ماعلیہ) کا عُرس سراپا قُدس

ابو نثر  
نگل 14 فروری کو دُنیا بھر کی طرح ہمارے یہاں بھی پیر ویلینٹائن علیہ ماعلیہ کا عرس سراپاقدس بڑی دھوم دھام سے منایا گیا۔ سچ پوچھیے تو ہمارے ہی یہاں سب سے زیادہ دھوم دھام سے منایا گیا۔ لہٰذا ہم اس کالم کے ذریعے سے اپنے یہاں اِس عرس شریف کے دُنیا بھر سے زیادہ کامیاب انعقاد پر اپنی پوری قوم کو تہِ دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ایں کار از تو آئد و مرداں چنیں کنند.... بلکہ....زناں بھی چناں کنند۔ ہم نے عرس منانے میں دُنیا بھر پر سبقت لے جانے کی جو بات کی ہے تو یہ بات کسی خوش فہمی یا محض اپنی خوش عقیدگی کے سبب نہیں کی ہے۔ یہ اہم اطلاع ہمیں ہمارے بہت سینئر صحافی جناب آصف جیلانی نے لندن سے دی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ برطانیہ میں بھی یہ عرس اتنے تزک و احتشام سے نہیں منایا گیا جتنا پاکستان کے ٹی وی چینلوں پر دکھایا گیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہمارے یہاں یہ عرس جتنی وارفتگی اور جس جوش وخروش سے منایا گیا، ”ویلینٹائن ڈے“ کے پروگراموں میں موسیقاروں اور فنکاروں کو بلابلا کر جو جو کچھ کیا گیا اُس کی جھلک تک برطانیہ میں دکھائی نہ دی۔ وہاں اگر کسی نے یہ عرس منایا بھی ہوگا تو نجی طور پر ہی منایا ہوگا۔ شاید ہوٹلوں میں۔ شاید ریستورانوں میں۔ (”گھر“ تو وہاں رہا ہی نہیں۔) آصف جیلانی صاحب کو اوپر ہم نے ”بہت سینئر صحافی“ لکھا ہے تو یہ اپنی ذاتی معلومات کی بنیاد پر لکھا ہے۔ ہمیں خوب اچھی طرح یاد ہے کہ 1965ءکی جنگ کے دوران میں جب وہ دہلی میں تعینات تھے تو اُن کو بھارتی حکومت نے ”پاکستانی صحافی“ ہونے کے جرم میں گرفتار کرلیا تھا۔ جس اخبار سے اُس وقت وہ وابستہ تھے اُس اخبار میں اُس دل کش و رعنا غزالِ تاتاری یعنی جوانِ رعنا آصف جیلانی کی تصویر روزانہ چھپتی تھی۔ ہم اُس وقت پانچویں جماعت میں داخل ہوئے تھی، حافظہ تیز تھا، اُس وقت ہمارے حافظے میں اُن کی جو تصویر محفوظ ہوئی وہ آج تک محفوظ ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ 1965ءسے صحافت کرتے تو اُنھیں ہم خود دیکھ رہے ہیں۔ اُن کے ”بہت سینئر صحافی“ ہونے میں بھلا کیا شک ہی؟ اب دیکھیے اتنے سینئر صحافی کو بھی ”صدمہ“ ہے کہ انگریزوں نے پیر ویلینٹائن علیہ ماعلیہ کا عرس اُس شان سے نہ منایا جس شان وشوکت سے اہلِ پاکستان نے منایا۔ تفو بر تو اے چرخِ انگلینڈ تفو۔ ............٭٭٭............

باعثِ تحریر آں کہ ہفتہ 16فروری کے روزنامہ ”نئی بات“ میں کالم لکھتے ہوئے ہمارے بہت سینئر اور بہت محترم کالم نگار جناب ظفر اقبال نے ”ویلینٹائن ڈے“ کو (نعوذباﷲ) ”لعنت“ اور اِس کے منانے کو (استغفراﷲ) ”نیا فساد“ قرار دے ڈالا ہے۔ حالاں کہ کلیہ رئیسانی کی رُو سی: ”فساد، فساد ہوتا ہی، خواہ پرانا ہو یا نیا“۔ ہم اپنی.... ذہناً جدید اورعُمراً قدیم.... منفرد غزل گو شاعر جناب ظفر اقبال کا بہت احترام کرتے ہیں مگر کیا کریں کہ اب وہ (اپنی) عمر کے اُس مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں جہاں پہنچ کر بقولِ حفیظ جالندھری مرحوم: ہر بُری بات، بُری بات نظر آتی ہی لہٰذا اُنھوں نے درانتی لے کر اس ”فساد“ کی ”گہری جڑیں“ کاٹنے کی کوشش بھی کی ہے اور اِسی کوشش میں نہ صرف ”انسان کی کیمسٹری تبدیل کرنے“ کی سفارش کی ہی، بلکہ ”محبت“ کرنے پر ”قید وغیرہ کے علاوہ کوڑوں کی سزا“ بھی تجویز فرمائی ہے۔آپ نے گلاب کے پھول، غزلوں اور غباروں کو ”فساد کی اصل جڑ“ بھی ٹھیرایا ہے۔ اِس ”اصل جڑ“کی جڑیں کہاںکہاں پیوست ہیں؟ یہ نہیں بتایا، کسی کو اتنی گہرائی میں اُترنے کی تلقین بھی نہیں کی، مبادا اتنی گہرائی میں اُترکر کہیں وہ وہیں جڑوں میں ہی نہ بیٹھا رہ جائے۔ گلاب اُگانے پر قدغن لگانی، ”ویلینٹائن ڈے“ کارڈ پر پابندی لگانی، نیز غزلیں گانے والیوں اور” ویلینٹائن ڈے کارڈ“ لے کر ”مکروڈ الیہ“ یا ”الیہا“ تک پہنچانے والوں کو حوالہ پولیس کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ............٭٭٭............

اب ہم کیا عرض کریں؟ اگلے وقتوں کے ایک اور شاعر مرزا اسد اﷲ خان غالب کا ایک حکم ہمیں موصول ہوا ہے کہ: اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو سو ہم انھیں کچھ نہیں کہتے۔ فقط پیر ویلینٹائن علیہ ما علیہ کے فضائل، مناقب اورکرامتیں ہی بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ تو اے بزرگو! جب تک ہمارے سماج کا نطق پیر ویلینٹائن علیہ ما علیہ کے نام سے رُوشناس نہ تھا.... عشاق کی.... تنِ حروف پہ مفہوم کا لباس نہ تھا.... اور تب تک ہماری ”شاعری بہت کچھ چھپاتی تھی“۔ محبوب کے آگے کچھ نہ کہہ پاتی تھی۔ عُشّاقِ عُظّام بس فارغ بیٹھے محبوب کے بجائے اپنا ہی کفِ افسوس ملتے رہتے تھے کہ....”دِل میں کتنے مسودے تھے ولی.... ایک پیش اُس کے رُوبرو نہ گیا“....القصہ مختصر: وہی اپنی فطرت پہ طبعِ بشر تھی خدا کی زمیں بِن جُتی سر بسر تھی وہ تو کہیے کہ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ پیر ویلینٹائن علیہ ما علیہ آگئے۔ آکر وہ اپنے دستِ مبارک سے نہ جانے کتنے ہل چلوا گئے۔اور کتنی بِن جُتی زمینیں جُتوا گئے۔ جب تک ہمارے لوگوں نے پیر ویلینٹائن علیہ ما علیہ کا نام نہیں سُنا تھا تب تک ٹٹروں ٹوں محض وارث شاہؒ اور بلھے شاہؒ وغیرھم کے عرس منایا کرتے تھے۔ خواجہ فریدؒ کی کافیاں گایا کرتے تھے کہ: ”ترے لمے لمے بال فریدا ٹُریا ٹُریا جا“۔ بنیاد پرستی و رجعت پسندی کی حد دیکھیے کہ اِنھی”غیر ماڈرن“ پیروں فقیروں پر فخر بھی فرمایا کرتے تھے۔ احسان دانش مرحوم ”دیہات کی صبح“ کا منظرکھینچتے ہوئے اپنی دانش کے مطابق بس اتنے ہی کو نہایت پُرکیف عاشقانہ اور رومانی منظر سمجھ کر خوش ہولیا کرتے تھے کہ: وہ جنھیں کچھ ہیر کا قصہ زبانی یاد ہی اُن کی پُر تاثیر تانوں سے فضا آباد ہی ہمارے محبوب شاعر محترم ناصر زیدی کے نام اُن کے محبوب کی طرف سے اگر....”کبھی بسے ہوئے خوشبو میں نامے آتے تھے“.... تو وہ بچارے بھی (محبوب کی ٹی شرٹ پر لگے ہوئے پرفیوم یا بازار سے خرید کر اُس کے دیے ہوئے گلاب کے بجائی) اُسی کو سونگھ کر خوش ہوجایا کرتے تھے۔ پیر ویلینٹائن علیہ ما علیہ کی دکھائی ہوئی راہِ عشق کے مقابلے میں ہمارے صوفیوں کا عشق بڑا فرسودہ تھا۔ ”صوفی مومن و اشتراکی مسلم“ حضرت مولانا حسرت موہانی اپنے مریدوں کو ”باصفا“ رہنے کی تلقین یوں کیاکرتے تھی: شیوہ عشق نہیں حسن کو رُسوا کرنا دیکھنا بھی تو اُنھیں دُور سے دیکھا کرنا ”ویلینٹائن کارڈ“ کاتو دوردور تک تصور بھی نہ تھا، پس اگر محبوب کا خط بھی مل جاتا تھا تواُس سے کسی پارک میں جاکر مل لینے کے بجائے بس یہ جواب بھجوا کررہ جایاکرتے تھے کہ: پڑھ کے تیرا خط مرے دِل کی عجب حالت ہوئی اضطرابِ شوق نے اِک حشر برپا کردیا پھر سب سے بڑا فرق یہ پیش آیا کہ پیر ویلینٹائن علیہ ما علیہ کے تشریف لانے سے قبل ہماری ساری عشق و عاشقی محبوب کو ”قیدِ شریعت“ میں لانے تک طویل ہوا کرتی تھی۔ اورآپ تو جانتے ہی ہیں کہ: عاشقی قیدِ شریعت میں جب آجاتی ہی جلوہ کثرتِ اولاد دکھا جاتی ہی جب کہ پیر ویلینٹائن علیہ ما علیہ کے آنے کے بعد سے عاشقی محبوب کو ”سیتاوھائٹ“ بناجاتی ہے۔ اس سے قبل عشاقِ کرام اگر کسی روشن خیال، وسیع المشرب، لبرل اور پروگریسو شاعر کی دُختر سے بھی عشق فرماتے تھے تو اُنھیں اُس سے عقدِ اوّل، ثانی، ثالث یا رابع کرکے تمام عمر محبوب کے نان و نفقہ اور اپنے کیے کرائے کا بوجھ اُٹھانا پڑتا تھا۔پیر ویلینٹائن علیہ ما علیہ کے آنے کے بعد سے یہ سہولت حاصل ہوگئی ہے کہ بیٹی اگر کسی شاعرکی بھی ہو توآپ اُسے ”گراں بارِ محبت“ کرکے روپوش ہوجائیے۔باقی معاملات عاصمہ جہانگیر سنبھال لیں گی۔

No comments:

Post a Comment