Search This Blog

Wednesday 8 February 2012

نئی آنکھ اور پرانی دُنیا

نئی آنکھ اور پرانی دُنیا

ابو نثر

-انکھیاں والو! انکھیاں بڑی ”نیامت“ ہیں۔ یہ فقیری فقرہ ہم اکثر سنا کرتے تھے۔ مگر اس کی معنویت ہم پر اُس وقت کھلی جب آنکھ پر پٹی بندھ گئی۔Cataract کو فقیری نسخوں میں شاید ”موتیابند“ اِسی وجہ سے لکھا گیا ہے۔ اور شاید اسی وجہ سے جراحی کرکے ہماری بھی ”موتیا بند“ کردی گئی، جس کے بعد ہم بھی انصاف پسند بادشاہوں کی طرح سب کو ایک آنکھ سے دیکھنے لگے۔انکھیاں والو! انکھیاں بڑی ”نیامت“ ہیں کی صدا لگانے والیفقیر صاحبان تو بالکل ہی انصاف پسند ہوتے ہیں۔ وہ ایسے منصف مزاج ہوتے ہیں کہ کسی کو کسی آنکھ سے بھی نہیں دیکھتے۔ ویسے سب فقیر نابینا ہوتے ہیں نہ سب نابینا فقیر۔ حکیم نابینا دہلی والے سے لے کر حکیمن ہیلن کیلر الباما والی تک بے شمار نابیناو ¿ں نے تو مانگنے کے بجائے کچھ نہ کچھ بانٹنے ہی کاکام کیا ہے۔ فقیروں میں تو اتنا نہیں، البتہ گداگروں میں نابینا بننے کا فیشن زیادہ ہے۔ (ہمارے یہاں گداو ¿ں کو ”گداگر“ کہنے کا فیشن رائج ہوگیا ہی، سو ہم بھی پورے کالم میں ہرگدا کو ”گداگر“ ہی لکھیں گی.... کہ صاحب! کیا کریں؟ فیشن یہی ہی!) ایک گداگر جو پہلے ”اندھا محتاج“ بن کر سخی داتاو ¿ں سے خیرات مانگا کرتا تھا، ایک روز آنکھیں کھولے پٹرپٹر دیکھتا ہوا بھیک مانگتا پایا گیا تو ایک سخی داتا نے حیران ہوکر پوچھا: ”میاں! تم تو نابینا ہوا کرتے تھے۔ بینائی کیسے بحال ہوئی؟ ہمیں بھی بتاو ¿ تاکہ ہم اپنے حکمرانوں سمیت معاشرے کے دیگر نابیناو ¿ں پر بھی یہ نسخہ استعمال کرکے عنداﷲ ماجور ہوسکیں“۔ کہنے لگا: ”اے سخیا! جب میں نابینا تھا تو لوگ کھوٹے سکے اور جعلی نوٹ دے جایا کرتے تھے۔ بینک والے پکڑنے کو دوڑتے تھے۔ ایک روز انسدادِ گداگری مہم میں پکڑا جارہا تھا کہ پولیس والے کو جعلی نوٹ تھما بیٹھا۔ اُس نے مار مارکر بینائی بحال کردی۔ یوں یہ اندھا محتاج اب آپ کے آگے لنگڑا محتاج بنا، اپنی ٹانگ اور ہاتھ پھیلائے کھڑا ہی.... دے جا سخیا! جو دے اُس کا بھی بھلا.... جو نہ دے بھلا اُس کا کیا بھلا؟“ سخی داتا نے مایوسی سے سر ہلادیا: ”میاں! یہ نسخہ ہم کم ازکم اپنے حکمرانوں پر تو نہیں آزما سکتے۔ وہ کبھی بھی ٹانگ پھیلاکر لنگڑانے پر تیار نہیں ہوں گے۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان کے ساتھ تو سچ مچ کی مجبوری تھی۔ اُنھیں واقعی عذرِ لنگ لاحق تھا“۔ لنگڑا محتاج چیخ اُٹھا: ”کیا بات کرتا ہے سخیا؟ ....وہ تو ہم سے بڑی.... بہت ہی بڑی.... کلاکار ہیں۔ یوں تو کابینہ کی کابینہ ہی نابینا ہوتی ہے۔ مگر جب عوام فریاد کرتے ہیں یا عدالت کوئی حکم دیتی ہے تو یہ اندھے فوراً بہرے بن جاتے ہیں۔ کشمیریوں پر مظالم ہورہے ہوتے ہیں تو بھارت کے آگی، اور جب ڈرون حملے ہورہے ہوتے ہیں تو امریکا کے حضور گونگے بن جاتے ہیں۔ جب ملک وقوم پر کوئی آفت آتی ہے تو ایوانِ حکمرانی میں بیٹھے بیٹھے ہی لنگڑے ہوجاتے ہیں، اُنھیں ”سیکیورٹی“ کا عذرِلنگ لاحق ہوجاتا ہے۔ اور کراچی، کوئٹہ یا پشاور سمیت ملک کے کسی بھی حصے میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آجائے تو دہشت گردوں سے ”آہنی ہاتھ“ سے نمٹنے کا دعویٰ کرتے ہی لنجے بن جاتے ہیں۔ اپنے انھی کمالات کی وجہ سے تو دُنیا بھر سی.... ہم سے کہیں زیادہ.... بھیک کماتے ہیں۔ ارے صاحب! اربوں مانگ کر لاتے ہیں، پھر ڈٹ کر کھاتے ہیں“۔ ہمیں ”لنگڑے محتاج“ کی باتوں میں رقیبانہ کشاکش محسوس ہوئی۔ پیشہ ور گداگروں میں اِس قسم کی رقابت عام ہے۔آج کے دور میں کون ہے جو پیشہ ور گداگر نہیں ہے۔ بقولِ اقبال.... شاہ و سلطاں سب گدا۔ اقبال تو حیران ہوا کرتے تھے کہ: خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہی؟ ایک ہمارے موجودہ حکمران ہیں جو ملک میں قیصری اور دُنیا بھر میںگداگری کرتے پھرتے ہیں، اور ایک وہ عالی شان حکمران تھا جس نے قیصرو کسریٰ کے دروبام ہلا ڈالے تھی، مگر اُس کے اندازِ بود وباش فقیروں والے تھے۔ فقر اور گدائی میں جو فرق ہی، اُس کے پیشِ نظر سیدنا عمر فاروق ؓ نے ایک گداگر کے ساتھ ایک لطیفہ کرڈالا تھا۔ آپؓ نے ایک شخص کو بھیک مانگتے دیکھا جس کی جھولی اناج سے لبالب بھری ہوئی تھی۔ امیرالمومنینؓ نے اُس کی جھولی سے سارا اناج جھپٹ کر ایک اونٹ کے سامنے ڈال دیا اور فرمایا: ”اب مانگ۔ اب تُو واقعی حاجت مند ہوگیا ہے“۔ ............٭٭٭............ بات بہک کر بہت دُور جانکلی۔ بالکل اُسی طرح جیسے کراچی سے کوئی گداگر کسی ٹرین میں چڑھتا ہے تو مانگتے مانگتے پشاور جاکر اُترتا ہی، بشرطے کہ ملتان یا لاہور میں اُس کا ”سمدھیانہ“ نہ پڑتا ہو۔ جہاں سمدھیانہ پڑجاتا ہے وہیں....”دے خدا کے نام پر بابا“.... کہتا ہوا نیچے اُتر جاتا ہے۔ ورنہ پشاور سے واپس آتا ہے۔ سو ہم بھی ہِر پھرکر اب اپنے موضوع پر واپس آتے ہیں۔ لو صاحبو! ڈاکٹروں کے بے حد اصرار پر ہم اپنی بائیں آنکھ کا آپریشن کروا آئے۔ آپ کو خبر بھی نہ ہونے دی۔آنکھ میں ایک عدد ”عدسہ“ بھی ڈلوا لائے۔ یار لوگوں نے بڑی باتیں بنائیں۔ بلکہ کراچی سے تو یارِ عزیز پروفیسر سلیم مغل کا یہ فون بھی آیا کہ: ”اے اہلِ نظر!.... ہم تو سمجھتے تھے کہ تُمھارا.... ذوقِ نظر خوب ہے لیکن....یہ کیا ہوا؟“ عرض کیا: ”کیاکرتی؟.... جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا؟“ پھر پشاور سے ایک اور پروفیسر صاحب کا فون آیاکہ: ”صرف بصارت ہی کا آپریشن کروایا؟....ارے میاں! گئے تھے تو لگے ہاتھوں بصیرت کا موتیا بھی نکلواتے آتے“۔ یوں کراچی سے پشاور تک ہماری کم نظری کی کہانی پھیل گئی۔ عدسہ ڈلوانے سے اتنا افاقہ تو ضرور ہوا کہ اب دُور کے رشتہ دار صاف پہچانے جانے لگے ہیں۔ قریبی دوستوں اور قریبی رشتہ داروں کو پہچاننے میں ابھی دقت ہورہی ہے اور قریب کی عینک لگانی پڑتی ہے۔ پر نظر ٹھیرتی نہیں ہے۔ ڈاکٹروں نے دلاسہ دیا ہے کہ مہینے بھر میں قریب کی بینائی بھی خوب تر ہوجائے گی۔ حسینوں کے باب میں تو ہمیں ہمیشہ ہی سی.... تھی جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں؟ اب ٹھیرتی ہے دیکھیے جاکر نظر کہاں؟ ............٭٭٭............ نئی آنکھ سے پرانی دُنیا کو دیکھنا ایک دلچسپ تجربہ تھا۔کچھ دنوں تک تو ایسی چکاچوند رہی کہ سیاہ چشمہ لگانا پڑا۔ دن کے اُجالوں میں بھی اور رات کی جگمگاہٹوں میں بھی۔ اب ہم نے جانا کہ الطاف حسین، بابر اعوان اور چودھری شجاعت حسین سمیت بہت سے سیاست دان آخر رات کو بھی اپنی آنکھوں پر سیاہ چشمہ کیوں ڈاٹے پھرتے ہیں۔ مگر یہ بات تو ہم اب بھی نہ جان سکے کہ اُن کی آنکھوں میں کاہے کی چکاچوند ہی؟چکاچوند بالعموم مال و زر کی ہوتی ہی، حسنِ زن کی ہوتی ہی، یا تابانی ¿زمین کی۔ بعض لوگ اِس فہرست میں دُختِ رز یا نشہ ¿ اقتدار کی چکاچوند کو بھی شامل کرلیتے ہیں۔ بہرحال.... اُن کی: ”چشمگی“ بے سبب نہیں غالب کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہی!

No comments:

Post a Comment