نیتن یاہو کا فلسفہ امن(1)
تحریر:سید اسد عباس تقوی
تحریر:سید اسد عباس تقوی
ہم دونوں ابراھام کے بیٹے ہیں۔ میرے لوگ انھیں اوراھام اور آپ لوگ انھیں ابراھیم کے نام سے پکارتے ہیں۔ ہم لوگ ایک ہی باپ کی اولاد ہیں، ہم ایک ہی زمین پر رہتے ہیں، ہماری تقدیریں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ آئیے (Isaiah) کے خوابوں کو سمجھیں ”وہ لوگ جو اندھیرے میں چلتے ہیں ایک عظیم روشنی دیکھیں گے۔“ آئیے امن کی روشنی کو یہ روشنی بنا دیں۔ یہ الفاظ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ہیں جو انھوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 66 ویں سیشن سے خطاب کے آخر میں کہے۔
اپنے خطاب کے دوران نیتن یاہو نے کہا:اسرائیل تو اپنے قیام کے وقت سے، یعنی گزشتہ 63سال سے امن کے لیے کوشاں ہے۔ میں آج اسرائیلی عوام اور یہودیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے دوستی اور امن کا یہ ہاتھ مصر اور اردن کے لوگوں کی جانب دوبارہ سے بڑھاتا ہوں۔ آئیے اپنی دوستی کے رشتے کو دوبارہ استوار کریں۔ میں انتہائی عزت و احترام اور نیک خواہشات کے ساتھ امن کا یہ ہاتھ ترکی کی جانب بڑھاتا ہوں۔ میں امن کا یہ ہاتھ لیبیا اور تیونس کے ان لوگوں کی جانب بڑھاتا ہوں جو جمہوری مستقبل کی تعمیر کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ میں امن کا یہ ہاتھ شمالی افریقہ کے لوگوں اور جزیرہ عرب کی جانب بڑھاتا ہوں جن کے ساتھ ہم ایک نیا تعلق قائم کرنے کے خواہش مند ہیں۔ میں امن کا ہاتھ شام، لبنان اور ایران کے ان لوگوں کی جانب بڑھاتا ہوں جو وحشیانہ دباﺅ اور تناﺅ کیخلاف نبرد آزما ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں ہمیشہ یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ امن کے لیے خطے کے لوگوں کو کوئی بڑی پیشکش کریں، ممکن ہے کہ اس سے خطے کے مسلمانوں کے جذبات ٹھنڈے ہوں اور معاملات سنبھل جائیں، ہم نے اسی نظریے کے تحت 2000ء میں یاسر عرفات کو پیشکش کی، جس میں ہم نے فلسطینیوں کے تمام تر مطالبات کو تسلیم کر لیا لیکن عرفات نے اس پیشکش کو قبول نہ کیا۔ اسی طرح 2008ء میں وزیراعظم اولمرٹ نے فلسطینیوں کو امن فارمولے کی پیشکش کی، جس کا صدر محمود عباس نے جواب تک دینا گوارا نہ کیا۔ اسرائیل نے فقط سادہ پیشکشیں کرنے پر ہی اکتفا نہ کیا، ہم نے 2000ء میں لبنان اور 2005ء میں غزہ کے چپے چپے سے اپنی افواج نکال لیں، تاہم اس سب کے باوجود اسلامی طوفان نہ تھما، جہادی اسلامی طوفان جس سے ہم کو خطرہ ہے۔ ہمارے امن کے لیے کیے گئے تمام تر اقدامات کے سبب یہ طوفان ہم سے قریب تر اور قوی تر ہوتا گیا۔
ہم نے غزہ کو امن کی امید پر چھوڑا، ہم نے غزہ میں اپنی تعمیرات کو روکا نہیں بلکہ اکھاڑ پھینکا۔
ہم نے اسی مجوزہ نظریے کے مطابق کام کیا۔ ہم ان کی زمین سے نکل گئے، پیچھے ہٹ گئے، ہم نے اپنے بچوں کو سکولوں سے نکالا، حتٰی کہ ہم نے لوگوں کو ان کے پیاروں کی قبروں سے دور کر دیا، تاہم یہ سب کچھ کرنے کے باوجود ہمیں امن نہیں بلکہ جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیل کے اکثر جنوبی شہر غزہ سے چند کلومیڑ کے فاصلے پر ہیں، جہاں سے ہمارے شہروں پر سینکڑوں راکٹ برسائے گئے ۔ میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ آیا آپ میں سے کوئی بھی اس قسم کے خطرات کو اپنے شہروں اور خانوادوں کے قریب آنے دے گا؟ اسرائیل مغربی کنارے میں فلسطینی ریاست کے قیام کا حامی ہے، تاہم ہم نہیں چاہتے کہ اس علاقے میں ایک اور غزہ بنے۔ اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ سیکورٹی کے معاملات پر گفت و شنید کریں۔
اپنے خطاب کے دوران انھوں نے کہا کہ اسرائیل جودیہ، سمریہ اور مغربی کنارے کے بغیر صرف 9 میل چوڑا ملک رہ جائے گا، آپ ہی مجھے بتائیے کوئی کیسے اتنے چھوٹے سے ملک کی اتنے سارے مسلح دشمنوں سے حفاظت کر سکتا ہے۔؟ اس مقصد کے لیے اسرائیل کو گہری تدبیری حکمت عملی کی ضرورت ہے، اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 242 بھی اسرائیل کو یہ جواز مہیا کرتی ہے کہ وہ چھ روزہ جنگ کے دوران حاصل کیے گئے علاقوں کو یکسر خالی نہ کر دے۔ پس اسرائیل کو اپنی حفاظت کی خاطر مغربی کنارے کے علاقوں میں اپنی افواج کی موجودگی کو یقینی بنانا ہوگا۔ میں نے محمود عباس سے اس سلسلے میں بات کی، تاہم انھوں نے فلسطینی ریاست کی خودمختاری کے لیے کسی بھی ایسے انتظام سے انکار کر دیا۔ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ آج بھی جاپان، جرمنی اور شمالی کوریا میں امریکی افواج موجود ہیں، قبرص میں برطانیہ کے فوجی ہوائی اڈے ہیں، تین آزاد افریقی ممالک میں فرانس کی افواج تعینات ہیں، ان میں سے کوئی بھی ملک یہ نہیں کہتا کہ ہم خودمختار نہیں۔
انھوں نے فلسطینی صدر محمود عباس کی جانب سے اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کی منظوری کے لیے دی جانے والی درخواست کے جواب میں کہا کہ فلسطینیوں کو پہلے اسرائیل کے ساتھ امن قائم کرنا چاہیے، اس کے بعد وہ اپنی ریاست کا مطالبہ کریں۔ میں آپ کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ امن معاہدہ ہونے کے بعد اسرائیل وہ پہلا ملک ہو گا جو فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کے نئے رکن کی حیثیت سے تسلیم کرے گا۔
نیتن یاہو نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں کہا: اسرائیل کی یہودی ریاست ہمیشہ اپنے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرے گی، جس میں اسرائیل میں بسنے والے ایک کروڑ سے زیادہ عرب بھی شامل ہیں۔ میری خواہش ہے کہ یہی کچھ میں نئی تشکیل پانے والی فلسطینی ریاست کے بارے میں کہہ سکتا، تاہم میری اس خواہش کے برعکس کسی فلسطینی عہدیدار نے شاید یہیں نیویارک میں اس بات کی وضاحت کی کہ ہم فلسطینی ریاست میں کسی یہودی کو برداشت نہیں کریں گے۔ یہ ریاست یہودیوں سے مکمل طور پر پاک ہو گی، یہ نسلی امتیاز ہے۔ آج رملہ میں ایک قانون کے تحت کسی بھی یہودی کو زمین فروخت کرنے کی سزا موت ہے، یہ نسل پرستی ہے۔
نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ لارڈ بیلفور سے صدر ٹرومین تک اور آج اوباما سمیت عالمی رہنماﺅں نے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔ اب فلسطینی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ اسرائیلی ریاست کو تسلیم کر لیں۔ جناب صدر محمود عباس اس مسئلہ پر بحث کو چھوڑئیے اور اسرائیل ریاست کو تسلیم کرتے ہوئے ہمارے ساتھ امن قائم کیجئے۔ ایسا حقیقی امن جس کے قیام کے لیے اسرائیل تکلیف دہ مفاہمتیں کرنے کو تیار ہے، تاہم فلسطینی عوام کو بھی ایسی ہی تکلیف دہ مفاہمتوں کو برداشت کرنا ہو گا۔
نیتن یاہو نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ فلسطینی عوام ان مفاہمتوں کے لیے اس وقت آمادہ ہو جائیں گے جب وہ ہماری سیکورٹی کی ضروریات اور اس خطے سے ہمارے تاریخی تعلق کو سمجھنے لگ جائیں گے۔ اپنے خطاب کے دوران اس تاریخی تعلق کا حوالہ دیتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ میرے دفتر میں ایک قدیم انگوٹھی ہے جس پر عبرانی زبان میں نیتن کا نام کندہ ہے۔ یہ انگوٹھی ستائیس سو سال پرانی ہے جو مغربی دیوار کے سامنے سے نکلی۔ میرے نام کا دوسرا حصہ بھی نیتن ہے، اسی طرح میرے نام کا پہلا حصہ بینجمن، بنیامین سے ماخوذ ہے جو کہ حضرت یعقوب ع کے فرزند تھے۔ یعقوب ع اور ان کے بارہ بیٹے انہی جودیہ اور سمیرہ کی پہاڑیوں پر آج سے چار ہزار سال قبل رہتے تھے۔ اسرائیل کے وزیراعظم کی حیثیت سے میں یہودیوں کی سینکڑوں نسلوں کی نمائندگی کرتے ہوئے جو اس دنیا کے طول و عرض میں بکھر گئیں اور جنھوں نے اس آفتاب کے نیچے سینکڑوں مصیبتیں جھیلیں یہ بات واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے ان تمام مصائب کے دوران بھی یہودی ریاست کو نہیں بھلایا۔ (۱)
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مقبوضہ اور غیر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جاری قضیہ فلسطین کو جیسا بیان کیا، کاش اس خطے کی تمام آبادی کی نظر میں بھی مسائل کی یہی نوعیت ہوتی۔ فلسطینی سرزمین پر قبضے اور مظلوم فلسطینیوں پر بربریت کے 63 سال بعد آج اسرائیلی وزیراعظم دنیا کو امن کا درس دے رہے ہیں، جبکہ لاکھوں فلسطینی مہاجرین، درجنوں مسمار شدہ فلسطینی دیہات، بے جرم و بےخطا قتل ہونے والے ہزاروں مظلوم فلسطینی بچے اور اسیر نوجوان ہنوز عالمی برادری سے انصاف کے متقاضی ہیں۔
(جاری ہے)
No comments:
Post a Comment