طاقت کا خمار اتر گیا ، امریکہ طالبان سے مذاکرات پر مجبور
بالآخر وہ تاریخی لمحہ آگیا جس کا انتظار تھا۔امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں مذاکرات شروع ہوگئے او ر امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ حتمی مذاکرات انشاء اللہ سعودی عرب میں ہوں گے جس کے بعد افغانستان کا نیا منظر نامہ سامنے آئے گا۔
امریکی آج کی دنیا کی طاقتور ترین قوم ہیں اس لئے جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو اس کا خیال تھاکہ اس کی زبردست فضائی طاقت طالبان کو کچل کر رکھ دے گی جس کے بعد افغانستان کی قسمت کا فیصلہ واشنگٹن کرے گا لیکن کوئی فرد ہو یا قوم اس کی قسمت کا فیصلہ تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کرتے ہیں۔
افغانستان میں امریکی غرور ، طاقت ، تکبر اور گھمنڈ کو قدرت نے کس طرح خاک میں ملایا اس کا علم دنیا کے ہر فرد کو ہے۔ یقینی طور پر امریکیوں کو بھی اس بات کا احساس ہوا ہوگا کہ انہوں نے جو سوچا تھا، جو چاہا تھا ویسے نہیں ہوا لیکن انہیں اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ان کی ہر خواہش تشنہ کیوں رہی؟
حضرت علی کا فرمان ہے کہ،، میں نے اللہ کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا،، سو افغانستان میں امریکیوں کے لئے ایک بہت بڑا سبق ہے اگر ان میں اسے سمجھنے کی حس باقی ہے۔
امریکیوں کے لئے یہ بات بھی سمجھنے کے قابل ہے کہ اس کائنات کی سب سے بڑی طاقت اللہ ہے سو اللہ ان لوگوں کو نیست و نابود کر دیتے ہیں جو تکبر کی انتہائوں کو چھونے لگیں۔ وہ کمزوروں کے لئے غیب سے اسباب مہیا کر دیتے ہیں اور تکبر میں مبتلا لوگوں کو عبر ت کا نشان بنا دیتے ہیں اور تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔
دنیا کا ہر مذہب امن و آشتی اور انسانیت کا سبق دیتا ہے۔ کوئی بھی مذہب بے گناہ انسانوں کا خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا اور کسی بھی مذہب کے ماننے والے جب خدائی حدود کو پامال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے ہاتھ سوائے رسوائی کے اور کچھ نہیں آتا۔ امریکہ نے طاقت کے نشے میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے لیکن جاپانی قوم آج بھی نہ صرف زندہ ہے بلکہ معاشی اعتبار سے دنیا کی ایک طاقتور قوم کے طور پر موجود ہے۔ امریکیوں نے ویت نام میں طاقت کا وحشیانہ کھیل کھیلا لیکن ویت نام آج بھی ایک حقیقت کے طور پر دنیا میں موجود ہے۔ امریکیوں نے کئی عشروں تک کیوبا کے ساتھ دشمنی کی لیکن کیوبا آج بھی ایک حقیقت کے طور پر دنیا میں موجود ہے۔ انہوں نے عراق میں طاقت کا خونیں کھیل کھیلا لیکن عراق موجود ہے اور رہے گا۔ وہ طاقت کے گھمنڈ میں افغانستان پر چڑھ دوڑے اور اپنے ڈیزی کٹر بموں سے پہاڑوں کو بھی ریزہ ریزہ کر دیا لیکن افغان عوام سے آزادی کا جذبہ نہیں چھین سکے۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ انسان کتنی ہی طاقت استعمال کر ڈالے لیکن اپنے جیسے انسانوں کی روحوں اور ان کی سوچ کو غلام نہیں بناسکتا۔ انسان چونکہ ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوا ہے اس لئے غلامی اس کی فطرت کے خلاف ہے ۔ امریکہ کو اب اس بات کا یقین ہو جانا چاہیے کہ انسان اور انسانیت کے خلاف مہم جوئی ہمیشہ مہنگی پڑتی ہے۔ اس کے لئے اس بات میں بھی عبرت کا سامان ہونا چاہیے کہ اس کے ساتھ جو ملک اتحادی بن کر چلے تھے وہ ایک ایک کرکے اس سے الگ ہوتے چلے گئے کیونکہ اس کا ساتھ دینے والے ہر ملک کے عوام نے اپنے حکمرانوں کا محاسبہ کیا اور انہیں مجبور کیا کہ وہ ایک خلاف انسانیت کام میں حصہ نہ لیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ واشنگٹن کو پوری نیک نیتی سے مذاکرات کرنے چاہئیں کیونکہ جن لوگوں کے ساتھ وہ بات چیت کر رہا ہے ان کے دور میں افغانستان بہت بہتر تھا۔ جن کو وحشی ، اجڈ اور گنوار سمجھا گیا انہوں نے پوست کی فصلوں کو تلف کرکے اور منشیات کا خاتمہ کرکے امریکہ ، یورپ سمیت پوری دنیا پر بہت بڑا احسان کیاتھا ان کے دور میں چوری ، ڈاکہ اور راہزنی کی وارداتیں ختم ہوگئی تھیں اور یہ آج بھی افغانستان کو جنت کا نمونہ بناسکتے ہیں۔ ان کے ساتھ طاقت اور دھونس سے بات کرنا پرلے درجے کی حماقت ہوگی۔ بہتر ہوگا کہ اب امریکہ اپنے کردار کو مکمل طور پر بدل ڈالے اور حسن سلوک کے ذریعے لوگوں کو اپنا دوست بنائے تاکہ لوگ دل سے اس کا احترام کریں۔
No comments:
Post a Comment