Search This Blog

Wednesday, 15 February 2012

غالب کی تعلیم

وم غالب کے حوالے سے ایک منفرد تحریر


 
غالب کی تعلیم
تحریر : کلیم احسان بٹ  ۔ راولپنڈی ۔
 
یادگار غالب  کو مبالغہ کی حد تک غالبیات کے سلسلے کی وقیع کتاب کہا جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ غالبیات کی عمارت کو ٹیڑھی بنیادوں پر اٹھانے کا کام سب سے پہلے حالی نے کیا ۔غالب پر تحقیق کرنے والوں کے لیے شروع ہی سے ایک راستہ فراہم کر دیا گیا اور غالب کے خطوط کو بالعموم سب سے معتبر حوالہ بنا کر پیش کیا گیا ۔ اس بنیاد پر غالب کے متعلق بہت سارا تحقیقی مواد جمع ہوا حالانکہ غالب کے خطوط میں بہت سی ایسی باتیں موجود ہیں جن کو جوں کا توں تسلیم کر لینا ممکن نہیں ۔
غالب کے ایک خط کو بنیاد بنا کر حالی نے غالب کی تعلیم کے متعلق لکھا:
''شیخ معظم جو اس زمانے میں آگرے کے نامی معلموں میں سے تھے ، ان سے تعلیم پاتے رہے۔ ان کے بعد ایک شخص پارسی نژاد ۔۔۔۔۔ مرزا نے اس سے فارسی زبان میں کسی قدر بصیرت پیدا کی ۔ اگرچہ مرزا کی زبان سے کبھی کبھی یہ بھی سنا گیا ہے کہ مجھ کو مبدا ء فیاض کے سوا کسی سے تلمذ نہیں''(ا)۔
اس اقتباس کا ذرا غور سے مطالعہ فرمائیں توحالی کا انداز محققانہ کی بجائے بڑا سرسری سا معلوم ہوتا ہے ۔لیکن ہمارے محققین نے اسے بعینہ قبول کر لیا ۔اور بعد میں ان معلومات کے گرد اپنے تخیل اور قدرت الفاظ کے جالے بننے کے سوا کوئی کام نہ کیا ۔پنجاب یونیورسٹی نے تنقید غالب کے سو سال مکمل ہونے پر ایک کتاب شائع کی ۔ غالب کی تعلیم کے سلسلے میں سو سالہ تنقید کا نچوڑ ملاحظہ فرمائیں۔منشی امیر احمد امیر مینائی کی انتخا ب یادگار مطبوعہ ١٨٧٩ میں مرزا کی تعلیم کے بارے میں مندرجہ ذیل معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں۔
''مرزا نوشہ وہیں (آگرے ) میں پیدا ہوئے ۔اور تا سن شعور وہیں مشغول تحصیل کتب درسیہ عربی و فارسی رہے۔ ابتدا میں شیخ معظم نامی ایک معلم سے کچھ تعلیم پائی اور پھر ایک ایرانی آتش پرست سیاح سے جس کا نام زمانہ آتش پرستی میں ہرمزد اور بعد قبول اسلام عبدالصمد تھا تلمذ ہوا ۔ دو برس وہ ان کے مکان پر مقیم رہا اور زبان فارسی سکھائی ۔''(٢)
مولانا محمد حسین آزاد کی کتاب '' آب حیات'' ١٨٨٠ میں ان معلومات کا خلاصہ ان لفظوں میں پیش کیا گیا ۔
'' علوم درسی کی تعلیم طالب علمانہ طور سے نہیں کی ''(٣)
'' مرزا کی عمر چودہ برس تھی ۔ دو برس تک گھر میں رکھ کر اکتساب کمال کیا ۔ اور اس روشن ضمیرکے فیضان صحبت کا انہیں فخر تھا ''(٤)
اب ان تحریروں کا تجزیہ کریں تو مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
١۔ شیخ معظم آگرے کے نامی معلموں میں تھے ۔اگر نامی معلم تھے تو ان کے متعلق معاصر علمی تذکروں ، تاریخ کی کتابوں ، اخبارات یا دیگر حوالوں سے معلومات جمع کی جا سکتی تھیں۔ مگر اس قسم کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ یہ نامی معلم کون تھے؟ کس درس گاہ سے وابستہ تھے؟ ان کا علمی مرتبہ کیا تھا؟ اور غالب نے ان سے کس قسم کی تعلیم حاصل کی ؟
٢۔ تعلیم پاتے رہے ۔ کتنا عرصہ؟ ذکر موجود نہیں ۔ ١٤ برس کی عمر میں عبدالصمد سے تعلق پیدا ہوا ۔ دو سال عبدالصمد سے فیض یاب ہوئے ۔اس کا مطلب ہے کہ غالب سولہ سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔یہ سلسلہ کب شروع ہوا ؟اس کا ذکر موجود نہیں۔
٣۔امیر مینائی کے بیان کے مطابق وہ کون سی کتب درسیہ عربی و فارسی تھیں جن کی تا سن شعورتحصیل کرتے رہے۔
٤۔حالی نے یہ لکھ دیا تھا کہ مرزا نجی گفتگو میں عبدالصمد کو ایک فرضی استاد بتایا کرتے تھے۔ اس کے باوجود ہمارے محققین نے اس فرضی استاد کے وجود کو دہرانے کا فریضہ سر انجام کیوں دیا؟ مرزا کی تعلیم کے سلسلے میں مذکو رہ پیشتر خط کو بنیاد بنا کر ایسے ایسے عالی شان قصر تعمیر کیے گئے کہ بعض اوقات بڑی مضحکہ خیز صورت پیدا ہو جاتی ہے۔مثلاً حالی شیفتہ کی زبانی لکھتے ہیں:
''میں شاہ ولی اللہ کا ایک فارسی رسالہ جو حقائق معارف کے نہایت دقیق مسائل پر مشتمل تھا مطالعہ کر رہا تھا ۔ ایک مقام بالکل سمجھ میں نہیں آتا تھا ۔ اتفاقاً اسی وقت مرزا صاحب آ نکلے ۔ میں نے وہ مقام مرزا کو دکھایا ۔ انہوں نے کسی قدر غور کے بعد ایسی خوبی اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا کہ شاہ ولی اللہ صاحب بھی شاید اس سے زیادہ بیان نہ کر سکتے ۔''(٥)
''غالب اور فن تنقید'' میں مرزا کی علمیت کا اعتراف اس طرح کیا گیا ہے :
''غالب نے نہ صرف طب کی بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا تھا بلکہ انہیں بہت سے نسخے زبانی بھی یاد تھے ۔اور ترکیب استعمال ، پرہیز اور غذا کی مناسبت کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔مریض کو دیکھے بغیر عوارض کی تفصیلات کا علم ہو جانے کے بعد مرض کی تشخیص کر کے مناسب نسخہ تجویز کر سکتے تھے ۔یہ اوصاف ایک طبیب حاذق ہی متصف ہو سکتے ہیں(ان اوصاف سے ایک طبیب حاذق ہی متصف ہو سکتا ہے)۔ یہ دیگر امر ہے کہ غالب نے اسے پیشہ بنایا نہ طبابت ہی اختیار کی ۔(٦)
اب ہماری تحقیق کا انداز یہ رہا ہو توناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے؟
شیخ اکرام نے '' حیات غالب'' میں غالب کی تعلیم کے بارے میں لکھا کہ مرزا کے عنفوان شباب کا بیشتر حصہ کھیل کود اور لہو و لعب میں صرف ہوا ۔ لیکن ساتھ ہی حالی کی چھوڑی ہوئی لکیر کو پیٹنا شروع کر دیا بلکہ عبدالصمد کے بارے میں اپنے تخیل کے گھوڑے بھی میدان میں دوڑا دیے او ر خیال ظاہر کیا کہ وہ شیعہ تھا ۔اور اسی وجہ سے غالب خاندان کے مذہب کے خلاف شیعہ مذہب اختیار کر گئے۔تمام دلائل کے بعد نتیجہ یہی اخذ کیا۔
'' اس تعلیم کو کسی طرح مکمل نہیں کہا جاسکتا ۔ مرزا کی اگر ابتدائی درسی تعلیم مکمل ہوتی تو وہ اد ب اور شعر کے غلط راستوں پر اتنی دیر نہ بھٹکتے۔''(٧)
ڈاکٹر عبادت بریلوی نے حالی کی فراہم کردہ معلومات سے قاضی عبدالودود کے ''ہرمزد ثم عبدالصمد''  تک تمام خیالات کا تجزیہ کیا اور مالک رام کی جمع کردہ معلومات کو قرین قیاس قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ :
''جن حالات میں ان کا بچپن گذرا ہے اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان کی تعلیم میں وہ باقاعدگی نہیں ہو گی جو عام حالات میں ایک ایسے بچے کو نصیب ہوتی ہے جس کے سر پرست یا والدین ایسے علوم سے دلچسپی نہیں لے سکتے البتہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ انہوں نے ابتدائی زمانے میں فارسی زبان کی تعلیم کے لیے مولوی محمد معظم اور اس کے بعد ملا عبدالصمد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا '' (٨)
تاہم ڈاکٹر عبادت بریلوی نے اس سلسلے میں مزید تحقیق کو ضروری قرار دیا ۔ ان کے خیال میں مرزا کی تحریروں سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ انہیں ادب کے معاملات و مسائل پر پوری قدرت حاصل تھی۔لیکن اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں ملتا کہ غالب نے مختلف علوم کس طرح حاصل کیے۔
مرزا کے کلام اور خطوط سے یہ بات آسانی سے اخذ کی جا سکتی ہے کہ مرزا تصوف ، طب،نجوم ، تاریخ ، لغت اور علم و ادب کے مسائل سے بخوبی آگاہ تھے۔اور ان علوم کا کافی مطالعہ بھی رکھتے تھے۔لیکن میرا خیال ہے کہ یہ مطالعہ درسی نہیں تھا۔''تصورات غالب'' کے پیش لفظ میں مالک رام نے لکھا تھا :
''غالب وسیع المطالعہ شخص تھا۔ یہ مطالعہ کتابی بھی ہے اور فکری بھی''(٩)
حالی نے بھی غالب کی مطالعہ کی عادت کے متعلق لکھا:
''مطالعہ کے لیے باوجودیکہ ساری عمر تصنیف و تالیف میں گزری کبھی کوئی کتاب نہیں خریدی۔الا ماشااللہ ایک شخص کا پیشہ یہی تھا کہ کتاب فروشوں کی دکان سے لوگوں کو کرائے کی کتابیں لا کر دیا کرتا تھا ۔ مرزا صاحب بھی ہمیشہ اسی سے کرائے پر کتابیں منگواتے تھے اور مطالعہ کے بعد واپس کر دیتے تھے۔''(١٠)
مرزا کے کلام میں تصوف کے مسائل جگہ جگہ نظم ہوئے ہیں ۔ردیف نون میں ان کی غزل  ''کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں '' متداول دیوان میں گیارہ اشعار پر مشتمل ہے اور اس کے تقریباً تمام مضامین صوفیانہ مسائل پر مبنی ہیں ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں تصوف کے مضامین کو کس قدر دخل ہے۔ بقول غالب
یہ مسائل تصوف ، یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
حالی کے بیان کے مطابق
''حقائق و معارف کی کتابیں اور رسالے کثرت سے ان کے مطالعے سے گذرے تھے۔'' (١١)
غالب انوار الدولہ شفق کے نام ایک خط مرقومہ ٥ نومبر ١٨٥٨ میں لکھتے ہیں:
''آرائش مضامین شعر کے واسطے کچھ تصوف کچھ نجوم لگا رکھا ہے ۔ ورنہ سوائے موزونی طبع کے اور یہاں کیا رکھا ہے۔ ''(١٢)
یہ بظاہر انکساری اور بباطن طنز ہے لیکن اس کے باوجود غالب نے تصوف کو برائے شعر گفتن خوب سمجھا ۔لہٰذا اس کا مطالعہ انہوں نے خوب محنت سے کیا ۔یہی نہیں بلکہ غالب کے تعلقات اپنے وقت کے نامور علما اور صوفیا سے تھے۔ان میں ایک نام مولانا فضل حق خیر آبادی کاہے۔شیخ اکرام لکھتے ہیں:
''مولوی فضل حق غالب کے سب سے بڑے محب اور محسن تھے ۔انہوں نے نہ صرف مرزا کی شعروسخن کے میدان میں رہنمائی کی ؛جوان کا اصل دائرہ تھا ؛بلکہ رند منش غالب کو متانت اور استقامت کا راستہ بھی دکھایا  اور علم و فضل کی محبت میں استوار کیا بلکہ آگے چل کر ان کی مادی مشکلات دور کرنے کی کوشش بھی کی ۔(١٣)
اس سلسلے کی دوسری اہم شخصیت شاہ غوث علی قلندر ہیں ۔''تذکرہ غوثیہ'' میں شاہ غوث علی صاحب نے مرزا سے اپنی ملاقاتوں کا حال لکھا ہے ۔مرز ا صاحب ہر تیسرے دن ان سے ملنے زینت المساجد جایا کرتے تھے۔اور ''تذکرہ غوثیہ '' کے مطابق جب ایک دن مرز ا نے فسانہ عجائب کی رجب علی بیگ سرور کے سامنے تضحیک کر دی ؛ کیونکہ وہ اس وقت تک سرور کو نہیں جانتے تھے ؛ تو بعد میں تلافی کے لیے شاہ غوث علی کو ساتھ لے کر سرور سے ملنے گئے۔اور ان کی تحریر کی مبالغہ آمیز تعریفیں کیں۔اس واقعے کے آخر میں مرزا کے مذہب کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے ۔
''مرزا کا مذہب تھا کہ دل آزاری بڑا گناہ ہے۔ اور در حقیقت یہ خیال بہت درست تھا۔'' (١٤)
جب مرزا کی وفا ت ہوئی شاہ غوث علی صاحب زندہ تھے۔ کسی نے آ کر خبر سنائی ۔شاہ صاحب نے بڑا افسوس کیا ۔ کئی حسرت بھر ے شعر پڑھے او ر مرزا کی نسبت کہا :
''نہایت خوب آدمی تھے،۔ عجز و انکسار بہت تھا۔فقیر دوست بدرجہ غایت اور خلیق از حد تھے ۔ رند مشرب ، بے شر ، رحم دل او ر شاعری میں تو اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔''(١٥)
 اس کے علاوہ شاہ نصیر الدین عرف کالے شاہ صاحب سے بھی تعلق خاطر تھا۔غلام رسول مہر نے '' خطوط غالب'' کے حواشی میںلکھا:
''شاہ نصیر الدین عرف کالے میاں بہادر شاہ کے پیر اور مولانا فخرالدین فخر عالم کے پوتے تھے۔ ان کا مکان گلی قاسم جان میں تھا جس میں غالب کئی برس مقیم رہے۔''(١٦)
''حیات غالب'' کے مصنف کے مطابق دربار میں مرزا کی باریابی انہی کی وساطت سے ہوئی(١٧)۔قمار بازی کے سلسلے میں قید کے واقعے کے بعد مرزا انہی کے مکان پر آکر رہے۔ حالی نے ''یادگار غالب'' میں ایک لطیفہ نقل کیا ہے :
''ایک روز میاں کے پا س بیٹھے تھے ۔ کسی نے آ کر قید سے چھوٹنے کی مبارکباد دی۔ مرزا نے کہا : کون بھڑوا قید سے چھوٹا ہے؟ پہلے گورے کی قید میں تھا اب کالے کی قید میں ہوں''(١٨)
تصوف میں ان کے پائے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ١٨٥٣ میں بہادر شاہ کی ایما پر مفتی میر لال نے صوفیانہ اشغال و افکار کا مجموعہ تیار کیا تو اس کے شروع میں مرزا نے دیباچہ لکھا کہ
''اس میں جس خوبی اور متانت سے تصوف کے اعلیٰ خیالات ظاہر کیے ہیں ان کے لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اردو زبان میں تصوف کے اعلیٰ خیالات نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد ایسی عمدہ نثر میں کسی نے لکھے۔''(١٩)
گذشتہ سطور کے مطالعے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ تصوف مرزا کی درسی تعلیم کا حصہ نہیں بلکہ ان کے ذاتی مطالعے؛فارسی سے ان کے لگائو؛ مولانا فضل حق خیر آبای ، شاہ غوث علی قلندر اور شاہ نصیر الدین جیسے علما و صوفیا سے ان کے تعلق خاطر اور ایسے ہی کئی دیگر غیر درسی عوامل سے ان کے علم کا حصہ بنا ۔اور وہ اس کو اپنی شاعری کے حسن کا اہم جزو سمجھتے تھے۔
طب کے متعلق غالب کے خطوط میں معلومات کثرت سے پائی جاتی ہیں۔یہاں تک کہ وہ اپنے دوستوں کو مختلف بیماریوں کے لیے نسخے بھی تجویز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے اشعار میں طب سے متعلق الفاظ کا استعمال بھی کثرت سے ہوا ہے ۔ مثلاً عمرطبعی، نزع، نسخہ ، درد، دوا، زخم ، خون، چارہ سازی، دم ،تپ، داغ، نبض، عرق، کیموس، بلغمی، صفرہ، مرہم ، جوش، جوہر، قویٰ، عناصر، جراحت وغیرہ۔ان کے مندرجہ ذیل اشعار پر غور فرمائیے۔
ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سر ہوا
 باور آ یا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
٭
اہلِ تدبیر کی واماندگیاں
آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں
٭
نہ پوچھ نسخہ مرہمِِ جراحتِ دل
کہ اس میں ریزہ الماس جزوِ اعظم ہے
٭
کیوں نہ ہو چشمِ بتاں محو تغافل کیوں نہ ہو
یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے
ان اشعار کو پڑھ کر ایک عام قاری بھی قیاس کر سکتا ہے کہ ان اشعا ر کا خالق طب سے خاصا گہرا لگائو رکھتا ہے ۔غالب کے خطوط میں طب کی کئی کتب کا ذکر موجود ہے ۔علائی کو ایک خط مرقومہ ٧ مارچ ١٨٦٢ء میں لکھتے ہیں :
''ضیمراں بر وزن در گراں لغت عربی ہے ۔نہ معرف ۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ پھول ہندوستان میں ہوتا ہے یا نہیں ۔ از روئے الفاظ الادویہ یہ ممکن ہے'' (٢٠)
 تفتہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
''واقعی صاب کا ذکر کتب طبی میں بھی ہے ۔ اور عرفی کے ہاں بھی ہے ۔ تمہارے ہا ں اچھا نہیں بندھا تھا اس لیے کا ٹ دیا'' (٢١)
ایک خط میں کئی حکیموں کے نام اور ان سے تعلق کا ذکر کیا ہے :
''نظری میں یکتا حکیم امام الدین خاں وہ ٹونک، عملی میں چالاک حکیم احسن اللہ خاں وہ کر ولی رہے۔حکیم محمود خاں وہ ہمسایہ دیوار بہ دیوار، حکیم نجف خاں وہ دوست قدیم صادق الولا ۔ حکیم بقا کے خاندان میں دو صاحب موجود اور تیسرا حکیم منجھلے ۔۔۔'' (٢٢)
تفتہ کے نام ٥ دسمبر ١٨٥٧  کے ایک خط میں لکھتے ہیں:
''میں حکیم محمد حسن خاں مرحوم کے مکان میں نو دس برس سے کرایہ کو رہتا ہوں اور یہاں قریب کیا دیوار بہ دیوار گھر حکیموں کے'' (٢٣)
اخلاق حسین عارف نے '' غالب اور فن تنقید '' میں لکھا ہے کہ
''ڈاکٹر سید قاسم صاحب (پتھر گڑھی، حیدرآباد) کے کتب خانے کی ایک کتاب موسومہ بہ '' ذخیرہ دولت شاہی'' پر غالب کی مہر ثبت ہے جواس بات کا ثبوت ہے کہ مذکورہ کتاب ضرور ان کے مطالعے میں رہی ہو گی۔مرزا تفتہ کو ایک مکتوب میں منشی نبی بخش حقیر کے لیے ایک نسخہ تجویز کرتے ہوئے '' طب محمد حسین خانی'' کا حوالہ دیا ہے ۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کتاب کو بھی انہوں نے بامعان مطالعہ کیا ہوگا۔ طب پر اس نوع کی معیاری کتب اغلب ہے کہ ان کے مطالعہ میں آئی ہو ں گی ۔'' (٢٤)
لیکن کیا ہم ان شواہد کی بنا پر غالب کو طبیب حاذق کہہ سکتے ہیں ؟کیا طب کی تعلیم انہوں نے درسی طور پر حاصل کی ؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔میرا قیاس ہے کہ جس طرح ایک بیمار ان تمام دوائوں کے نام جانتا ہے جو اس کے زیر استعمال ہوں ؛ ہر اس بیماری کا طریقہ علاج جانتا ہے جس سے اس کو واسطہ پڑ چکا ہو۔ بالکل یہی معامملہ غالب کے ساتھ تھا۔ آج طب ایک پیچیدہ اور وسیع علم کی صورت اختیار کر چکی ہے ۔ ایک عام آدمی بھی سر درد ، نزلہ ، بخار، زکام ، کھانسی ، وغیرہ کے لیے آپ کو فوراً دوا تجویز کر سکتا ہے ۔مرزا غالب کے زمانے میں طب کا علم کافی تھا ۔ ہر پڑھا لکھا شخص اس کا تھوڑا بہت ضروری علم رکھتا تھا  اور پھر مرزا ایک عمر بیماریوں میں مبتلا رہے۔ان میں وہ جو نسخے استعمال کرتے رہے وہ یقینا انہیں از بر ہو ں گے ۔وہ نسخے و ہ دیگر دوستوں کو بھی تجویز کر سکتے ہیں کہ وہ مجرب ہیں۔اور سب سے بڑھ کر مرزا شاعری کے علاوہ دیگر تمام علوم سے جو دلچسپی لے رہے ہیں  وہ دراصل شاعری کو کمال تک لے جانے کی سعی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مندرجہ بالا سطور میں ہم نے دیکھا کہ ضیمران او ر صاب کے لفظ شاعری میں استعما ل ہو رہے ہیں اور مرزا ان کی نسبت خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ کتب طبی یا علم الادویہ میں ان کی تفصیل تلاش کی جانی چاہیے۔
نجوم بھی غالب کی دلچسپی کا ایک بڑا مرکز ہے ۔ وہ اپنے اشعار میں اکثر نجوم کی اصطلاحات سے کام لیتے ہیں۔
رفتارِ عمر قطعِ رہِ اضطراب ہے
اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے
قاطعِ اعمار ہیں اکثر نجوم
وہ بلائے آسمانی اور ہے
٭
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
٭
عشرت کٰ خواہش ساقی گردوں سے کیا کیجیے
لیے بیٹھا ہے اک دو چار جام واژگوں وہ بھی
٭
لیکن مرزا نجوم کا بھی مضامین شعر ہی کے واسطے مطالعہ فرماتے ہیں۔یہ علم نہ انہوں نے باقاعدہ سیکھا ہے اور نہ اس میں ان کا کوئی استاد ہے۔نجوم کے بارے میں اپنے تمام تر کمال کا اظہار بھی شاعرانہ تعلی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ''حیاتِ غالب ''میں  ایک لطیفہ نقل کیا گیا ہے کہ
''۔۔۔۔ انشا اللہ یہ تاریخ بھی غلط ثابت ہو گی ۔اس پر مرزا کہنے لگے ۔ دیکھو صاحب! تم ایسی فال منہ سے نہ نکالو۔ اگر یہ تاریخ غلط ثابت ہوئی تو میں سر پھوڑ کے مر جائوں گا۔'' (٢٤)
اسی تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے غلام رسول مہر نے لکھا :
''مختلف دوستوں کو لکھا کہ تھوڑی سی زندگانی اور ہے ١٢٧٧ھ میں مر جائوں گا۔ لیکن موت کسی شاعر کے قطعہ تاریخ کی پابند نہیں ہو سکتی ۔ وہ نہ مرے۔'' (٢٥)
جب احباب نے تاریخ غلط نکلنے پر مذاق اڑایا تو مجروح کے نام ایک خط مرقومہ جولائی ١٨٦١ میں لکھا:
''١٢٧٧ھ کی بات غلط نہ تھی۔ میں نے وبائے عام میں مرنا اپنے لائق نہ سمجھا ۔ واقعی اس میں میری کسر شان تھی۔''(٢٦)
مرزا کی نجوم سے واقفیت کا ایک اور لطیفہ دلچسپی سے خالی نہیں۔
''انہوں نے ایک مثنوی نواب(رامپور) کی خدمت میں بھیجی جس میں ستاروں اور سیاروں کی روش بتا کر لکھا  تھا کہ میں نے نجوم کے حساب سے پتہ لگایا ہے کہ غسل صحت ایسی مبارک ساعت میں ہو رہا ہے کہ اس کے اثر سے آپ عرصہ دراز تک بیماریوں سے محفوظ رہیں گے۔لیکن علم نجوم کی بے اعتباری یا اس فن سے مرزا کی ناواقفیت ملاحظہ ہو کہ عرصہ دراز تک بیماریوں سے محفوظ رہنا تو درکنار نواب صاحب چند ہی ہفتوں بعد اور مرزا کی نثر پہنچنے کے ایک مہینے کے اندر راہگرائے عالم بقا ہوئے'' (٢٧)
لگتا یہی ہے نجوم سے انہیں جو کچھ بھی واقفیت تھی وہ یہ کہ اسے مضامین شعر میں استعمال کر سکیں۔
حالی نے بالکل ٹھیک لکھا ہے کہ فن تاریخ سے ان کو مطلق لگائو نہ تھا ۔(٢٨) لیکن مرزا کے کلام میں جو تلمیحات استعما ل ہوئی ہیں ان میں متعدد اسلامی تاریخ سے لی گئی ہیں۔مثلاً اورنگ سلیماں ، اعجاز مسیحا، یوسف و یعقوب ،زلیخا وغیرہ۔ حضرت یوسف   کے قصے سے ان کی گہری دلچسپی محسوس ہوتی ہے ۔ نقش فریادی کی تشریح کرتے ہوئے قدیم ایران کی جس رسم کا انہوں نے ذکر کیا ہے لگتا ہے ایرانی تاریخ کا مطالعہ بھی کسی نہ کسی حد تک ضرور تھا۔ ''حیات غالب'' کے مصنف کے مطابق ان کی خواہش تھی کہ جس طرح فردوسی نے رستم کی لڑائیوں کی داستان لکھی ہے اسی طرح وہ ابتدائے اسلام کی جنگوں کو مثنوی کی صورت میں بیان کریں ۔ لیکن انہیں یہ ارادہ پورا کرنے کا موقع نہ ملا۔ وہ حمد و نعت و منقبت اور ابتدائی ساقی نامے سے زیادہ نہ لکھ سکے ۔ یہ مثنوی ''ابر گہر بار'' ہے۔ اس کے علاوہ ٤ جولائی ١٨٥٠ کو مرزا نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کے خطاب اور خلعت سے سرفراز ہوئے ۔ اور چھ سو روپے سالیانہ پر شاہان تیموری کی تاریخ نویسی پر مامور ہوئے۔ (٢٩) شاہان تیموری کی تاریخ دو حصوں میں منقسم تھی ۔ شروع میں مرزا غالب نے امیر تیمور سے لے کر ہمایوں تک کے واقعات لکھے تھے  اور جنوری ١٨٥١ سے پہلے اس کو مکمل کر لیا ۔(اس حصہ کتاب کے لیے غالب کو تاریخ کتب دیکھنا پڑیں۔چنانچہ'' تزک تیموری''  ، '' ظفر نامہ تیمور'' ، '' مطلع السعدین'' ،  ''حبیب السیر'' اور '' روضہ الصفا کے حوالے ان کی تحریروں میں ملتے ہیں ) ۔ اس کے بعد حکیم احسن اللہ خاں نے انہیں ابتدائے آفرینش سے امیر تیمور تک کے واقعات جمع کر کے دیے۔ جنہیں مرزا نے اپنے طرز میں لکھا مگر اس کا دوسرا حصہ (ماہ نیم ماہ) لکھنے کی نوبت نہیں آئی۔ (٣٠)
اس کے علاوہ سر سید نے آئین اکبر ی کی تدوین کی تو تقریظ غالب سے لکھوائی۔ اگرچہ بعض وجوہ کی بنا پر شامل اشاعت نہیں کی۔ تاہم مرزا کے خطوط سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تاریخ کو انہوں نے ذریعہ معاش کے لیے اپنایا ۔ مضامین شعر کے لیے اس کا مطالعہ کیا نہ دلچسپی کے ساتھ اسے درساً و غیر درساً پڑھا۔
حالی نے لکھا ہے کہ فن عروض میں بھی ان کو کافی دستگاہ معلوم ہوتی ہے ۔(٣١) لیکن صغیر النسا بیگم کی کتاب '' غزلیات غالب کا عروضی تجزیہ '' کے مطابق غالب کے کلام میں کل نو بحریں استعمال ہوئی ہیں۔ اور ان کے کلام کا بڑا حصہ دو تین بحروں پر ہی مشتمل ہے۔(٣٢) غالب کے معاصرین بالخصوص ذوق کے ساتھ ان کا اس معاملے میں موازنہ کیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہاں بھی غالب تلمیذ الرحمن ہی ہیں  اور انہوں نے عروض کا مطالعہ  بھی درساً نہیں کیا ہو گا ۔
لغت نہ صرف غالب کی دلچسپی کا خاص پہلو ہے بلکہ اس سلسلے میں ان کے ہاں ایک زبردست قسم کا تفاخر بھی پایا جاتا ہے ۔۔۔ وہ کسی لغت کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے اور ہر زبان دان سے الجھتے ہیں ۔عربی صرف و نحو غالب کے خط کے مطابق شرح مہ تامل تک انہوں نے درساً پڑھی۔ یہ کتاب عربی کے عدم رواج کے باوجود آج بھی زیادہ سے زیادہ انٹر میڈیٹ یا بی ۔ اے کے نصاب کا حصہ ہے ۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ غالب کے زمانے میں یہ کتاب ابتدائی درجوں کو پڑھائی جاتی ہو گی۔
غالب کے خطوط میں بار بار اعتراف ملتا ہے کہ میرا علم لغات عربیہ پر محیط نہیں۔(٣٣) یا میں اس زبان کے لغات کا محقق نہیں ہوں ۔ علما سے پوچھنے کا محتاج اور سند کا طلب گار رہتا ہوں۔(٣٤) عربی کے معاملے میں وہ شاگردوں سے بھی مات کھا جاتے ہیں ۔مثلاً '' افسوس کو میں نے عربی جانا ، عربی نہیں ، اب مانا''(٣٥) ''جود لغت عربی ہے ۔ بمعنی بخشش۔ جواد صیغہ ہے صفت مشبہ کا بے تشدید۔ ا س وزن پر صیغہ فاعل میری سماعت میں جو نہیں آیا تو میں اس کو خودنہ لکھوں گا مگر جبکہ نظیری شعر میں لایا اور وہ فارسی کا مالک اور عربی کا عالم تھا تو میں نے مانا۔''(٣٦) دراعہ کو یہ نہ کہو کہ بے تشدید نہیں ہے ۔ اصل لغت مشدد ہے ۔ شعرا اس کو مختلف بھی باندھتے ہیں ۔ سعد ی کے مصرعے سے اتنا مقصود حاصل ہو ا کہ دراعہ بے تشدید بھی جائز ہے ۔''(٣٧)
اگرچہ ان کی فارسی دانی کے بارے میں بھی سوالات تو قائم کیے جا سکتے ہیں لیکن فارسی لغت اور لغت کی نزاکتوں میں ان کا پایہ واقعی بہت بلند ہے۔حالی کے بقول
''فارسی زبان اور فارسی الفاظ و محاورات کی تحقیق اور اہل زباں کے اسلوب بیاں پر مرزا کو اس قدر عبور تھا کہ خود اہل زباں میںبھی مستثنیٰ شعرا کو زبان پر اس قدر عبور ہو گا '' (٣٨)
لغات کی کتابیں وہ شوق سے پڑھتے ہیں۔علائی کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
''فرہنگ لغات دساتیر تمھارے پاس ہے ۔چاہتا تھا کہ اوس کی نقل تم سے منگائوں''(٣٩)
لغت کی مختلف کتابوں کے حوالے اور زبان کے مختلف مسائل مرزا کے خطوط میں بکھرے پڑے ہیں۔لغت کے باب میں وہ کسی لغت نگار کو کچھ نہیں سمجھتے ۔قاطع برہان کا قضیہ بڑا ہنگامہ خیز ثابت ہوا اور مرزا کو اس سلسلے میں کافی سبکی بھی اٹھانا پڑی۔لغت کے باب میں یہ تفاخر تفصیلی مطالعہ کا تقاضا کرتا ہے مگر یہاں صرف اس قدر اشارہ کافی ہے کہ انہو ں نے صاحب قاطع برہان کو ''مردود'' ،''کھتری''،''الو کا پٹھا'' اور علیہ اللعن کہا ۔(٤٠)
غالب کی شاعری اور خطوط میں موجودمباحث کی بنا پر لغت پر غالب کی دسترس کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔تاہم بنظر غائر مطالعہ کریں تو ایسا مواد ضرور دستیاب ہو جاتا ہے کہ غالب لغت کے باب میں بھی ذاتی محنت و مطالعہ کے سبب اس مقام  پر پہنچے ہیں اور یہ تعلیم درسی نہیں ۔''غالب اور فن تنقید'' میں غالب کے ایک خط کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
''فارسی میں مجھے مبدا فیاض سے وہ دستگاہ ملی ہے کہ اس زبان کے قواعد و ضوابط میرے ضمیر میں اس طرح جا گزیں ہیں جیسے فولاد میں جوہر ''
یعنی دستگاہ مبدا فیا ض سے ملی ہے اکتسابی نہیں۔
گذشتہ سطور سے میں ایک ہی بات مسلسل واضح کر نے کی کوشش کر رہا ہوں کہ غالب کا علم درسی نہیں تھا اور شیخ معظم یا عبدالصمد کے ناموں سے ہم غالب کو کسی درسگاہ کا فارغ التحصیل ثابت نہیں کر سکتے۔یہاں بعض امور؛ جو دلچسپی سے خالی نہیں ؛ کا ذکر بھی ہمارے مطالعے کی تقویت کا باعث  ہو گا ۔
اگر مرزا سولہ سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے تو کسی نہ کسی کو ان کی ہم مکتبی کا شرف بھی  حاصل ہوتا۔لیکن احباب کی اتنی کثرت کے باوجود کوئی ایک دوست بھی ایسا نہیں جسے انہیں ہم مکتب ہونے کا دعویٰ ہو ۔
خطوط کی اتنی بڑی تعداد میں کوئی خط ایسا نہیں جو ان کے کسی ہم مکتب دوست کے نام ہو مکتب کا لفظ بھی مرزا کے کلام میں اتنا کم استعمال ہوا ہے کہ انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے ۔اور ایسے اشعار کا مطالعہ بھی نتیجہ خیز ہے ۔مثلاً
لیتا ہوں مکتبِ غم دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
(یعنی ابتدائی تعلیم سے آگے نہیں بڑھے )      
٭
اہلِ بینش کو ہے طوفانِ حوادث مکتب
لطمہ موج کم از سیلی استاد نہیں
(مرزا نے جو سیکھا حوادث سے سیکھا)     
٭
اور حقیقت یہی ہے کہ مرز ا کا علم ان کی ذاتی کاوش ، خداداد ذہانت، مشاہدے اور تجربے کی پیداوار ہے۔اور جیسا کہ ایلیٹ نے لکھا ہے کہ '' کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو علم کو جذب کر سکتے ہیں ۔ سست ذہن لوگوں کو اس کے لیے خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے ۔ شیکسپیئر نے تاریخ کی اتنی معلومات صرف پلوٹارک کے مطالعے سے حاصل کر لی تھیں جتنی بہت سے لوگ سارے برٹش میوزیم کو پڑھ کر بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔''(٤٠)
میرے خیال میں غالب بھی ایک ایسے ہی نابغہ روزگار شخص تھے جنہوں نے اپنے ذاتی مطالعے اور حالات و واقعات سے اتنا کچھ سیکھ لیا کہ آج ہم بہت ساری ڈگریا ں ہاتھ میں  لے کر بھی اسے تولنے اور پرکھنے سے عاری نظر آتے ہیں۔
حوالہ جات :
١۔الطاف حسین حالی، یادگار غالب، لاہور ، کشمیر بک ڈپو، س ن، ص٢١
٢۔تنقیدغالب کے سو سال ،ص١١
٣۔ایضاً،ص١٧
٤۔ایضاً،ص١٨
٥۔یادگار غالب ، ص٧١
٦۔اخلاق حسین عارف، غالب اور فن تنقید، نئی دہلی، غالب اکیڈمی،١٩٧٧،ص٢٩٨
٧۔شیخ محمد اکرام، حیات غالب ، لاہور ، ادارہ ثقافت اسلامیہ ،١٩٨٤،ص٢٤
٨۔عبادت بریلوی ڈاکٹر، غالب اور مطالعہ غالب، لاہور ، ادارہ ادب و تنقید ،
                                        دوسرا ایڈیشن١٩٩٤،ص٥،٦
٩۔محمد عزیز حسن علیگ،تصورات غالب ، نئی دہلی، غالب اکیڈمی، جون ١٩٨٨،ص٢٥
١٠۔یادگار غالب ،ص٦٤
١١۔غلام رسول مہر(م) ، خطوط غالب،لاہور ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، بار پنجم ١٩٨٤،ص٣٠٢
١٢۔حیات غالب ،ص٥٢
١٣۔تذکرہ غوثیہ ،ص١٠٨
١٤۔یادگار غالب، ص٣٧
١٥۔حیات غالب، ص١٤٤
١٦۔یادگار غالب
١٧۔خطوط غالب ،ص٦٥
١٨۔خطوط غالب ،ص١٧٣
١٩۔تنقید اور فن تنقید،ص٢٩٧
٢٠۔حیات غالب ،ص٢٤١
٢١۔خطوط غالب ،ص٢٨
٢٢۔خطوط غالب
٢٣۔حیات غالب ،ص١٩٤
٢٤۔یادگار غالب ،ص٦٤
٢٥۔حیات غالب ،ص١١٧
٢٦۔ایضاً،ص١٣٤
٢٧۔ایضاً،ص١٣٨
٢٨۔یادگار غالب ،ص٦٣
٢٩۔صغیر النسا بیگم ، غزلیات غالب کا عروضی تجزیہ ، دہلی ، مکتبہ جامعہ ، ١٩٨٤،ص٢٩
٣٠۔خطوط غالب، ص ٤٥٠
٣١۔غالب اور فن تنقید،ص٤٤
٣٢۔خطوط غالب،ص٨١
٣٣۔ایضاً،ص١٦٣
٣٤۔ایضاً،ص١٦٨
٣٥۔یادگار غالب ،ص٦٣
٣٦۔خطوط غالب ، ص٣٦١
٣٧۔غالب شکن یگانہ ،ص ٣٠
٣٨۔ایضاً،ص٣١
٣٩۔غالب اور فن تنقید ، ص٤٤
٤٠۔ ارسطو سے ایلیٹ تک ،ص٥٠٧   

No comments:

Post a Comment