ہر
بو الہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی
۵؍فروری کے سنڈے انقلاب میں سلام بن رزاق کا مضحکہ خیز مضمون ’’ غالب کے حضورمیں‘‘پڑھ کر غالب کا درج بالا شعر بے ساختہ زبان پر آگیا۔مضمون میں درج ۱۰،۱۲ اشعار غالب کی شوخ طبیعت کے غماز ہیں۔ اردو ادب کا کوئی معمولی سا طالب علم بھی یہ بات جانتا ہے تو سلام بن رزاق ان غیر سنجیدہ اشعار کو اپنے لئے مشعل راہ کیوں سمجھ رہے ہیں؟
غالب کے مذہبی کلام یعنی سلام،مرثیے اور بعض قصائدسے قطع نظران کی غزلوں کے ان سینکڑوں اشعار سے سلام بن رزاق صرف نظر کیوں کر رہے ہیں جو غالب کے راسخ العقیدہ ہونے کا پختہ ثبوت ہیں اور جن میں توحید ،رسالت ،آخرت ،حشر و نشر،حساب وکتاب،جنت جہنم،ثواب و عذاب،عبادات کی اہمیت ،دنیا سے بے رغبتی،گناہوں پر ندامت ،خدا کی رحمت اور مغفرت وغیرہ پر غالب کے ایمان وایقان کا اظہار ہوتا ہے۔
مثلاً درج ذیل اشعار:
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم ۔۔۔۔ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست۔۔۔مشغول حق ہوں بندگئی بو تراب میں
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی ۔۔۔حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
غالب نہ کر حضور میں تو بار بار عرض۔۔۔ظاہر ہے تیرا حال سب ان پر کہے بغیر
اس کی امت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند ۔۔۔واسطے جس شہہ کے غالب گنبد بے در کھلا
جس دل میں کہ ’تابکے‘ سماجائے۔۔۔واں عزت تخت ’کے ‘نہیں ہے
وائے واں بھی شور محشر نے نہ دم لینے دیا۔۔۔لے گیا تھا گور میں ذوق تن آسانی مجھے
وائے گر تیرا میرا انصاف محشر میں نہ ہو۔۔۔اب تلک تو یہ توقع ہے وہاں ہو جائے گا
کعبہ کس منھ سے جاؤ گے غالب۔۔۔شرم تم کو مگر نہیں آتی
جانتے ہیں ثواب طاعت وزہد۔۔۔پر طبیعت ادھر نہیں جاتی
غالب میں مذہبی رواداری بدرجہ اتم موجود تھی ۔مگر وہ اسلام اور کفر کے فرق کو بھی سمجھتے تھے۔انہیں اپنے مسلمان ہونے پر شرمندگی نہیں تھی۔البتہ اپنے گناہوں پر شرمندگی تھی۔ان کا ایمان تھا کہ ظاہر داری کی بجائے سب کو اپنے اپنے مذہبی عقائد میں پختہ ہو نا چاہئے ۔
نہیں کچھ سبحہ و زنار کے پھندے میں گیرائی۔۔وفا داری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
حد چاہئے سزا میں عقوبت کے واسطے۔۔۔آ خر گناہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں
(یہ شعر نیاز فتح پوری کے سوال کا جواب بھی ہے۔ویسے اس سوال کا جواب سمجھنا اتنا مشکل اور پیچیدہ تو نہیں تھا ۔سلام بن رزاق دراصل اپنی مذہبی تشکیک کے لئے جواز کی تلاش میں تھے اور نیاز کے بو العجبی میں انہیں جواب مل گیا ۔میں سلام بن رزاق سے پوچھتا ہوں کہ ایک اجڈاورگنوارچور یا غنڈے کو سخت سزا دی جائے گی یا ملک سے غداری کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کو؟ اس سوال کے جواب میں نیاز کے سوال کا جواب پنہاں ہے۔ )
ایمان مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر۔۔۔کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب۔۔۔تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی ۔۔۔میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ۔۔۔کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
عیب دریافت کرنا ہے ہنر مندی اسد ۔۔۔نقص پر اپنے ہوا جو مطلع کامل ہوا
سلام بن رزاق کو جرات مندی سے اپنا عقیدہ ظاہر کرنا چاہئے ۔غالب کے ان شوخ اشعار کی آڑ لینا نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ ان کی سخن شناسی اور دانشوری پر بھی سوالیہ نشان ہے۔اور اگر اس سے ان کا مقصد سادہ لوح لوگوں کو اسلام کی اپنی من مانی تشریح سے مغالطہ دینا ہے تو اس میں بھی وہ بری طرح ناکام ہیں ۔کیوں کہ قاری کوغالب کا یہ شعر بھی یاد ہے۔ خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار ۔۔۔کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں ؟
محمد اسلم غازی
۵؍فروری کے سنڈے انقلاب میں سلام بن رزاق کا مضحکہ خیز مضمون ’’ غالب کے حضورمیں‘‘پڑھ کر غالب کا درج بالا شعر بے ساختہ زبان پر آگیا۔مضمون میں درج ۱۰،۱۲ اشعار غالب کی شوخ طبیعت کے غماز ہیں۔ اردو ادب کا کوئی معمولی سا طالب علم بھی یہ بات جانتا ہے تو سلام بن رزاق ان غیر سنجیدہ اشعار کو اپنے لئے مشعل راہ کیوں سمجھ رہے ہیں؟
غالب کے مذہبی کلام یعنی سلام،مرثیے اور بعض قصائدسے قطع نظران کی غزلوں کے ان سینکڑوں اشعار سے سلام بن رزاق صرف نظر کیوں کر رہے ہیں جو غالب کے راسخ العقیدہ ہونے کا پختہ ثبوت ہیں اور جن میں توحید ،رسالت ،آخرت ،حشر و نشر،حساب وکتاب،جنت جہنم،ثواب و عذاب،عبادات کی اہمیت ،دنیا سے بے رغبتی،گناہوں پر ندامت ،خدا کی رحمت اور مغفرت وغیرہ پر غالب کے ایمان وایقان کا اظہار ہوتا ہے۔
مثلاً درج ذیل اشعار:
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم ۔۔۔۔ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست۔۔۔مشغول حق ہوں بندگئی بو تراب میں
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی ۔۔۔حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
غالب نہ کر حضور میں تو بار بار عرض۔۔۔ظاہر ہے تیرا حال سب ان پر کہے بغیر
اس کی امت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند ۔۔۔واسطے جس شہہ کے غالب گنبد بے در کھلا
جس دل میں کہ ’تابکے‘ سماجائے۔۔۔واں عزت تخت ’کے ‘نہیں ہے
وائے واں بھی شور محشر نے نہ دم لینے دیا۔۔۔لے گیا تھا گور میں ذوق تن آسانی مجھے
وائے گر تیرا میرا انصاف محشر میں نہ ہو۔۔۔اب تلک تو یہ توقع ہے وہاں ہو جائے گا
کعبہ کس منھ سے جاؤ گے غالب۔۔۔شرم تم کو مگر نہیں آتی
جانتے ہیں ثواب طاعت وزہد۔۔۔پر طبیعت ادھر نہیں جاتی
غالب میں مذہبی رواداری بدرجہ اتم موجود تھی ۔مگر وہ اسلام اور کفر کے فرق کو بھی سمجھتے تھے۔انہیں اپنے مسلمان ہونے پر شرمندگی نہیں تھی۔البتہ اپنے گناہوں پر شرمندگی تھی۔ان کا ایمان تھا کہ ظاہر داری کی بجائے سب کو اپنے اپنے مذہبی عقائد میں پختہ ہو نا چاہئے ۔
نہیں کچھ سبحہ و زنار کے پھندے میں گیرائی۔۔وفا داری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
حد چاہئے سزا میں عقوبت کے واسطے۔۔۔آ خر گناہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں
(یہ شعر نیاز فتح پوری کے سوال کا جواب بھی ہے۔ویسے اس سوال کا جواب سمجھنا اتنا مشکل اور پیچیدہ تو نہیں تھا ۔سلام بن رزاق دراصل اپنی مذہبی تشکیک کے لئے جواز کی تلاش میں تھے اور نیاز کے بو العجبی میں انہیں جواب مل گیا ۔میں سلام بن رزاق سے پوچھتا ہوں کہ ایک اجڈاورگنوارچور یا غنڈے کو سخت سزا دی جائے گی یا ملک سے غداری کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کو؟ اس سوال کے جواب میں نیاز کے سوال کا جواب پنہاں ہے۔ )
ایمان مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر۔۔۔کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب۔۔۔تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
ڈھانپا کفن نے داغ عیوب برہنگی ۔۔۔میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ۔۔۔کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
عیب دریافت کرنا ہے ہنر مندی اسد ۔۔۔نقص پر اپنے ہوا جو مطلع کامل ہوا
سلام بن رزاق کو جرات مندی سے اپنا عقیدہ ظاہر کرنا چاہئے ۔غالب کے ان شوخ اشعار کی آڑ لینا نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ ان کی سخن شناسی اور دانشوری پر بھی سوالیہ نشان ہے۔اور اگر اس سے ان کا مقصد سادہ لوح لوگوں کو اسلام کی اپنی من مانی تشریح سے مغالطہ دینا ہے تو اس میں بھی وہ بری طرح ناکام ہیں ۔کیوں کہ قاری کوغالب کا یہ شعر بھی یاد ہے۔ خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار ۔۔۔کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں ؟
محمد اسلم غازی
No comments:
Post a Comment