Search This Blog

Wednesday, 15 February 2012

شہرہ آفاق مصور ، خطاط اور نقاش سید صادقین

شہرہ آفاق مصور ، خطاط اور نقاش سید صادقین احمد نقوی
عالمی اخبار

خود اپنے طریقے میں قلندر میں ہوں
خود اپنے سلیقے میں ہنر ور میں ہوں
خود اپنے بنائے ہوئے آئینوں میں
 خود گیر ہوں خودنگر ہوں خودگر ہوں میں

پاکستان کے شہرہ آفاق مصور، خطاط اور نقاش، سید صادقین احمد نقوی 1930ء کو ہندوستان کے ممتاز علمی شہر امروہہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آبائی شہر امروہہ ہی میں حاصل کی، بعد ازاں آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ تقسیم ہند کے بعد آپ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آگئے۔

پاکستان میں آپ کی پہلی تصویری نمائش 1954ء میں منعقد ہوئی۔ بعد ازاں یوروپ بالخصوص فرانس میں آپ کے فن پاروں کو زبردست پزیرائی ملی۔ مارچ 1970ء میں آپ کو تمغہ امتیاز اور1985ء میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ آپ کو سب سے پہلے کلام غالب کو تصویری قالب میں ڈھالنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ آپ کی خطاطی و مصوری کے نمونے فیصل مسجد اسلام آباد، فریئر ہال کراچی، نیشنل میوزیم، صادقین آرٹ گیلری اور دنیا کے ممتاز عجائب گھروں میں موجود ہیں۔

فروری دس 1987 ء کواس عہدساز شخصیت کا کراچی میں انتقال ہوا۔

اور اب تحریر خالد حسن کی جس کا ترجمہ زیف سید نے کیا۔

صادقین کی موت کو 20 سال ہوگئے۔ وہ اگر زندہ ہوتے تو اس وقت 77 برس کے ہوتے۔ جب 1987ء میں ان کا انتقال ہوا تو لوگوں کو ان کی موت سے زیادہ اس بات پر تعجب ہوا تھا کہ آخر وہ اتنا عرصہ زندہ کیسے رہ لیے۔انھوں نے اپنی زندگی کو بھی اسی شدت، اسی جوش سے گزارا تھا جس شدت اور جوش و جذبے سے وہ مصوری اور شاعری کیا کرتے تھے۔

صادقین نے اپنی شمعِ زندگی کو دونوں سروں سے جلایا تھا، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ شمع کا کوئی تیسرا سرا بھی ہوتا تو وہ اس کو بھی جلانے سے دریغ نہ کرتے!

مجھے لاہور میں صادقین کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ لاہور وہ شہر تھا جس سے انھیں عشق تھا، اور جسے وہ سوائے پیرس کے تمام شہروں پر ترجیح دیتے تھے۔

وہ اکثر اپنے تحریروں کے آخر میں ’فقیر‘ لکھا کرتے تھے، اور اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ واقعی فقیر منش تھے۔ لاکھوں کمائے اور لاکھوں اڑائے۔ انھوں نے اپنی تخلیقات کا بیشتر حصہ دوستوں میں بانٹ دیا، حتیٰ کہ وہ بعض اوقات انھیں اپنا کوئی شاہ کار کسی اجنبی تک کو سونپ دینے میں کوئی عار نہ ہوتا تھا۔

ایک بار لاہور میں صادقین کےفن پاروں کی نمائش ہوئی، جس کے دوران لاہور کی کچھ متمول خواتین نے چند تصاویر خریدنے میں دل چسپی ظاہر کی۔ صادقین اس بات سے بڑے محظوظ ہوئے اور کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تصاویر بیچنے کے لیے نہیں ہیں، اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ بیچنے کے لیے ہوتیں بھی تو آپ ان کی قیمت ادا نہ کر پاتیں!

مجھے یقین ہے کہ اگر وہ خواتین خواہش ظاہر کرتیں کہ انھیں ان میں سے کچھ یا ساری تصاویر چاہیئیں تو صادقین نے کہا ہوتا، لے جائیے، آپ ہی کی تو ہیں۔

صادقین سے دوستی کے سینکڑوں دعوے دار نکل آئیں گے۔ وہ چاہے اپنے سٹوڈیو میں ہوں، کسی کے گھر میں مقیم ہوں، ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہوں، یا کسی میوزیم میں تصاویر پر کام کر رہے ہوں، ان کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا، اور کسی کو اندر آنے کے لیے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ وہ کسی ملاقاتی کو کتنی توجہ دیتے، اس کا انحصار ان کے موڈ اور اس بات پر ہوتا تھا کہ ان کے پاس کتنا وقت ہے۔

ان کا زیادہ تر وقت تصاویر بناتے گزرتا تھا، لیکن اگر وہ کوئی تصویر نہیں بنا رہے ہوتے تو رباعیاں لکھ رہے ہوتے تھے، جو انھوں نے ہزاروں کی تعداد میں تخلیق کیں۔

صادقین ویسے تو حد درجہ منکسر المزاج تھے، لیکن اگر کوئی بڑا افسر اپنے عہدے کا رعب جھاڑنے کی کوشش کرتا تو صادقین اسے اس کی اوقات یاد دلانے میں تامل نہیں کیا کرتے تھے۔

نورالحسن جعفری صاحب جو سی ایس پی افسر اور شاعرہ ادا جعفری کے خاوند تھے، ایک بار منگلہ کے دورے پر گئے جہاں صادقین جہازی سائز کی دیواری تصاویر بنا رہے تھے۔ جعفری صاحب واپڈا میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ صادقین سے کہا گیا کہ وہ ان کی آمد پر تیار رہیں۔ لیکن جب جعفری صاحب تشریف لائے تو صادقین ادھر ادھر ہو گئے، اور اس وقت  تک نمودار نہیں ہوئے جب تک جعفری صاحب واپس نہیں چلے گئے۔

صادقین کے سب سے قریبی دوستوں میں ایک محمد اسحاق صاحب تھے۔ ان کا کراچی کی محمد علی سوسائٹی میں واقع گھر ایک طرح سے صادقین میوزیم کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہاں بنائی گئی تصاویر میں سے اب بیشتر حمید ہارون کےنجی ذخیرے کا حصہ ہیں۔

ایک بار صادقین بھارت گئے جہاں ان کی بڑی آؤبھگت کی گئی اور اندرا گاندھی نے ان سے ملاقات کی۔ بھارت سے واپسی پر حرمت اخبار کے جاوید صدیق نے صادقین سے پوچھا کہ کیا ان کی کوئی ادھوری خواہش ہے؟

صادقین نے اپنے پسندیدہ شاعر غالب کا مشہور شعر ’ہزاروں خواہشیں اپنی‘پڑھنے کے بعد کہا کہ میری کوئی ایسی خواہش نہیں ہے جو پوری نہ ہوئی ہو، جس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے ایسی کسی چیز کی خواہش کی ہی نہیں جو میری دسترس سے باہر ہو۔ یہ الگ بات کہ ایسی کئی چیزیں تھیں جنھیں میں اپنی دسترس سے باہر سمجھتا تھا لیکن قسمت نے انھیں میری جھولی میں ڈال دیا!

انھوں نے مزید کہا کہ مجھے لوگوں کی طرف سے اپنے فن کی تحسین  کا کوئی شوق نہیں ہے۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ اگر قدرت نے آپ کو کوئی نعمت ودیعت کی ہے، تو پھرقدرت خود ہی اس کی ترسیل و تشہیر کے مواقع ڈھونڈ لیتی ہے۔

صادقین نے اپنے فن کے بارے میں بتایا کہ انھوں نےمصور بننے کا انتخاب کیا اور اپنی تمام صلاحیتیں اس فن میں جھونک دیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے میلوں کے حساب سے خطاطی کی ہے اور ایکڑوں کے حساب سے مصوری کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ صلاحیت خداداد ہوتی ہے اور اور جس شخص کو کوئی صلاحیت ملتی ہے، یہ اس کا فرض ہے کہ اس کو دوسروں کی خدمت کے لیے استعمال میں لائے۔ یہی عبادت کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔

اگست کے مہینے میں واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارت خانے میں صادقین کی تخلیقات کی نمائش پیش کی گئی، جس میں خطاطی کے کئی نمونے، تصاویر اور ڈرائنگز شامل تھیں۔ اس نمائش کااہتمام سان ڈیگو، کیلی فورنیا، میں واقع صادقین فاؤنڈیشن نے کیا تھا۔ یہ فاؤنڈیشن صادقین کے بھتیجے سلمان احمد نے قائم کی ہے جو صادقین کے محبوب بھائی سید کاظم احمد نقوی کے صاحب زادے ہیں۔ کاظم صاحب صادقین کے لیے ایسے ہی تھے جیسے وان گو کے لیے ان کا بھائی تھیو۔

سلمان نے بتایا کہ فاؤنڈیشن صادقین کے کام کی دریافت، تحفظ اور تشہیر کے لیے کام کر رہی ہے۔ تاہم ان کی زبانی یہ سن کر افسوس ہوا کہ کراچی کے فریر ہال میں واقع صادقین گیلری بند ہو گئی ہے۔

ایک بار صادقین سے پوچھا گیا کہ کیا انھیں ان کی قرآنی خطاطی کی وجہ سے اسلامی مصور کہا جا سکتا ہے؟ انھوں نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ میرا اصل فن تصویریں بنانا ہے اور میری خطاطی میری مصوری کے زیرِ اثر ہے۔

جب صادقین بھارت گئے تو بھارتی حکومت نے انھیں ان کے آبائی شہر امروہہ لے جانے کا اہتمام کیا۔ پورا شہر ان کے استقبال کے لیے امڈ آیا اور انھیں ہاتھی پر بٹھا کر جلوس کی شکل میں لے جایا گیا۔ اُس وقت کی بھارتی وزیرِاعظم اندرا گاندھی کی طرف سے ان کے گھر کی چابیاں انھیں بطورِ تحفہ پیش کی گئیں۔

صادقین نے چابیاں واپس کر دیں اور کہا کہ’میں پاکستان میں رہتا ہوں جہاں مجھے بہت عزت ملی ہے۔ اور ویسے بھی گھر گھر کی مالکن کے لیے ہوتا ہے۔ میں اس گھر کو امروہہ کے باسیوں کی نذر کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ یہاں ایک کتب خانہ قائم کریں گے۔‘

صادقین سے سینکڑوں کہانیاں منسوب ہیں، لیکن ایک کہانی ایسی ہے جس میں ان کا کردار سمٹ کر آ گیا ہے۔ صحافی نصراللہ خان عزیز کے مطابق ایک بار صادقین کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ اس کے پاس اپنے خاندان کی کفالت کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اسے کوئی ہنر نہیں آتا، سوائے رکشا چلانے کے۔

صادقین نے اس شخص کو 15 ہزار روپے دے دیے کہ وہ اپنا رکشا خرید لے، لیکن شرط یہ رکھی کہ صادقین جب بھی چاہیں اور جہاں چاہیں، وہ انھیں اپنے رکشا میں لے جائے گا۔

کچھ عرصے تک یہ سلسلہ چلتا رہا، ایک دن صادقین نے اس سے کہا، ’اب تم آزاد ہو، آئندہ سے مجھے کہیں لے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

صادقین نے اسلامی آرٹ یعنی خطاطی کی نشاتہ الثانیہ کی اس کے اتنے زاویے پیش کر دیے کہ دیکھنے والے دم بخود رہ گئے۔ ان کے آرٹ کی اتنی پرتیں ہیں کہ بس کھولتے جائیے اور اس میں ڈوبتے جائیے۔

صادقین آرٹ کے کچھ نمونے میں نے اپنی نوجوانی میں پٹنہ کے نامور وکیل شمس الحسن کے گھر کی دیواروں پر لگے ہوئے دیکھے تھے۔ اس وقت تک صادقین کا نام اتنا معروف نہیں تھا۔ میں نے شمس الحسن سے ان تصویروں کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ صادقین کی بنائی ہوئی ہیں، جن کا بچپن یہیں گزرا تھا۔ کیوں کہ ان کے والد شمس الحسن اور دوسرے برادران کے اتالیق تھے۔سر سلطان نے ان لوگوں کی دیکھ ریکھ کے لیے صادقین کے والد کو امروہہ سے پٹنہ بلایا تھا جن کے ہمراہ صادقین بھی یہاں آئے تھے۔ صادقین کی مصوری کے ان ابتدائی نمونوں میں کچھ ایسی جاذبیت تھی کہ وہ میرے ذہن سے کبھی محو نہیں ہو سکی۔

چونکہ ہند پاک کے درمیان رسل و رسائل کا سلسلہ بہت زیادہ نہیں تھا اس سبب صادقین کی مصوری کے نمونے یہاں کم ہی پہنچ پاتے تھے۔ مگر 1969ءمیں غالب صدی کے موقع پر معروف محقق قاضی عبد الودود کو کراچی سے ایک ڈائری موصول ہوئی، جو انہوں نے مجھے دکھائی تھی۔ یہ ڈائری یونائٹیڈ بینک آف پاکستان کے چیئرمین آغا حسن عابدی نے شائع کی تھی۔ اس میں ہر مہینے کی شروعات غالب کے ایک شعر سے ہو تی تھی اور اس شعر کی تشریح کے لیے پورے صفحہ پر صادقین کی مصوری موجود تھی۔

 اسے دیکھ کر میرے ذہن میں مصوری کے وہ نمونے گردش کرنے لگے جو میں نے شمس الحسن کے ڈرائینگ روم کی دیواروں پر لگے ہوئے دیکھے تھے۔ مصوری کے یہ 12نمونے بے حد خوشنما تھے اور انہوں نے اس ڈائری کو ایک قیمتی دستا ویز بنا دیا تھا۔ یہ صرف ڈائری نہیں رہ گئی تھی بلکہ غالب صدی کی قیمتی سوغات تھی۔ بعد میں ایک کرم فرما کے ذریعہ یہ ڈائری میں نے بھی حاصل کی۔

اس کے بعد تو میں صادقین آرٹ کے تجسس میں لگ گیا۔ جہاں بھی صادقین کی مصوری نظر آتی، اسے کاٹ کر رکھ لیتا۔ میں نے جب سورہ رحمن کی خطاطی دیکھی تو تا دیر بحر استعجاب میں غرق رہا۔ سورہ رحمن کی تفسیر تو متعدد نامور مفسرین نے رقم کی ہے اور اپنے اپنے انداز سے کی ہے، مگر صادقین کی تفسیر تو سب سے نرالی ہے۔ ہر لفظ بولتا ہوا، ہر آیت خود معنی بیان کرتی ہوئی اور ذہن و دل میں اترتی ہوئی۔ اس میں صادقین کا آرٹ اپنے معراج پر نظر آتا ہے۔ کیوں نہ نظر آئے آخر تو سورہ رحمن قرآن کی جان ہے۔ مگر صادقین آرٹ نے اس میں نئی جان ڈال دی ہے۔ اسے دیکھ کر منھ سے واہ واہ نکل جاتی ہے کہ اپنی کھینچی گئی لکیروں سے انہوں نے کیسی کیسی تفسیریں بیان کی ہیں۔

مجھے اندازہ بھی نہ تھا کہ اس نامور مصور سے میری کبھی ملاقات ہو گی۔ 1981ء میں میں نئی دہلی میں ”آج کل“کے دفتر میں اس کے مدیر مہدی عباس سہنی صاحب سے ملاقات کی غرض سے گیا ہوا تھا کہ دیکھا ایک دبلے پتلے منحنی سے شخص ان کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں، دنیا و مافیا سے بے خبر اپنے خیالات میں گم۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد حسینی صاحب نے مجھ سے دریافت کیا ”رضوان صاحب، آپ انہیں نہیں جانتے؟“ میں نے نفی میں سر ہلایا تو وہ بولے، ”انہیں کون نہیں جانتا یہ صادقین صاحب ہیں۔ “میں تو یک دم کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ ”کیا؟ کیا یہ صادقین صاحب ہیں؟“ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔

میں نے گرم جوشی سے ان سے ہاتھ ملایا مگر ان کا انداز بالکل سرد تھا کیوں کہ وہ مجھے جانتے نہیں تھے۔ تب عباس حسینی صاحب نے بتایا کہ رضوان صاحب معروف صحافی اور افسانہ نگار ہیں تو بھی ان پر زیادہ اثر نہیں ہوا۔ مگر جب میں نے ان سے بتایا کہ رئیس امروہوی اور جان ایلیا مجھے بہت عزیز رکھتے ہیں تب انہوں نے میری باتوں میں دلچسپی لی۔ ایک بار میں ان سے دہلی میں ان کے مستقر پر بھی ملنے کے لیے گیا تھا کیوں کہ دہلی میں ان کا قیام کئی مہینوں تک رہا تھا۔

کچھ دنوں بعد میں کل ہند اردو کانفرنس میں شرکت کرنے کی غرض سے حیدرآباد گیا تو وہاں پتا چلا کہ مغل پورہ میں جو”اردو گھر“ بن رہا ہے، اس کی آرائش کے لیے صادقین صاحب خاص طور سے تشریف لائے ہیں۔ میں اسے دیکھنے گیا تو اس کی تزئین و آرائش میں وہ ہمہ تن مصروف تھے۔ خطاطی کے ایسے ایسے نمونے پیش کیے تھے کہ دیکھ کر سبحان اللہ اور واہ واہ بے اختیا ر منہ سے نکل جاتی تھی۔ واقعی صادقین صاحب نے سیمنٹ پتھر کی بنی ہوئی عمارت کو زندگی عطا کر دی تھی۔

حیدرآباد سے دہلی واپسی میں آندھرا پردیش ایکسپریس کے کمپارٹمنٹ میں کچھ اور مندوبین کے علاوہ صادقین صاحب بھی ساتھ تھے۔ حیدر آباد سے دہلی کے 16گھنٹے کے سفر میں کافی باتیں کرنے کا موقع ملا اور تب صادقین صاحب نے بہت اصرار پر اپنی کچھ رباعیاں بھی سنائی تھیں۔
ان کا شاعر ہونا میرے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی، اس لیے کہ امروہہ میں تو یہ کہاوت ہی ہے کہ وہاں کی ٹھکری ٹھکری شاعر ہے۔ یہ کہاوت بھی وہاں مشہور ہے ”امروہہ شہر تخت ہے، گزران یہاں کی سخت ہے، جو چھوڑے کمبخت ہے“۔

لیکن یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ شیخ غلام ہمدانی مصحفی ہوں یا نسیم امروہوی، کمال امروہوی، سید محمد تقی، محمد علی صدیقی، اقبال مہدی، رئیس امروہوی، جان ایلیا سب امروہہ چھوڑنے کے بعد ہی مشہور ہوئے اور اپنے اپنے فن میں یکتا قرار پائے۔

اپنی طرز کے منفردمصور سید صادقین احمد نقوی کی پیدائش اتر پردیش کے اسی امروہہ میں 1930میں ہوئی تھی۔ چونکہ ان کے والد خطاط تھے اس لیے انہوں نے بھی اسی فن کو اپنایا حالانکہ اس وقت ہی ان کو شعر و شاعری کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا تھا، جس کا اظہار وہ ایک رباعی میں خود ہی کرتے ہیں:
شب میری تھی، رات میری، دن تھا میرا
آیا ہوا خود مجھ پہ ہی جن تھا میرا
کتنی ہی رباعیاں تھیں لکھ کر پھاڑیں
اٹھارہ برس کا جب کہ سن تھا میرا

صادقین کے ذہن میں تخلیق کا آبشار بہتا تھا، اس لیے جہاں انہوں نے مصوری کے منفرد نمونے پیش کر کے انہیں تخلیقی شاہکار بنا دیا وہیں رباعیات کہنے میں بھی ان کو کمال حاصل تھا اور دوسرے شعرا کی طرح انہوں نے صرف منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہی رباعیات نہیں کہیں بلکہ اسے فن کے طور پر برتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیات میں بے ساختہ پن ہے، تسلسلِ خیال، فکری ارتکاز اور زبان و بیان کی بے ساختگی و وارفتگی پائی جاتی ہے۔ صادقین کے ہاں شاعری اور مصوری میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے، چناں چہ مصور صادقین اور شاعر صادقین ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں:
ایک بار میں ساحری بھی کرکے دیکھوں
کیا فرق ہے شاعری بھی کرکے دیکھوں
تصویروں میں اشعار کہے ہیں میں نے
شعروں میں مصوری بھی کرکے دیکھوں

جو نقش تھے پامال بنائے میں نے
پھر الجھے ہوئے بال بنائے میں نے
تخلیق کے کرب کی جو کھینچی تصویر
پھر اپنے خدو خال بنائے میں نے

رحمت کی کڑی دھوپ میں لیٹوں مولا
رومال میں خرمن کو لپیٹوں مولا
اب اور مجھے بخش کے حیران نہ کر
دے اتنا کہ جتنا میں سمیٹوں مولا

صادقین کو اس بات پر بھی فخر ہے کہ دنیا میں ان کا کوئی ہم نام نہیں ہے اور وہ یک و تنہا ہیں:
 
گر اپنی ثنا عام نہیں دنیا میں
پھرتو مجھے کچھ کام نہیں دنیا میں
یکتائی کا دعویٰ فقط اس بات پہ ہے
کوئی میرا ہم نام نہیں دنیا میں

صادقین کی رباعیوں میں رومان کی ایک لہر بھی کروٹ لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، لیکن ان کی تصاویر اور ان کے تصورِ فن کی طرح ان کا یہ رومان بھی دوسروں سے جداگانہ ہے اور وہ یہاں بھی تصویرکشی سے باز نہیں آتے:
کھلتی ہوئی کلیاں ہیں، چمن کی تیرے
رنگیں سی روشنی ہے، تن کی تیرے
خلوت کی ہر اک شے پہ ہے ہلکی ہلکی
چھٹکی ہوئی چاندنی، بدن کی تیرے

مکھڑے کی تو تنویر سےباتیں کی تھیں
اور زلف کی زنجیر سے باتیں کی تھیں
کل اک تری تصویر بناکر میں نے
پھر کچھ تری تصویر سے باتیں کی تھیں

بچپن میں تجھے یاد کیا تھا میں نے
جب شعر کا کب لفظ سنا تھا میں نے
اس پر نہیں موقوف رباعی تجھ کو
ہر روز ہی تختی پہ لکھا تھا میں نے

یوں تو ساری دنیا میں صادقین کے فن کی دھوم مچی، پاکستان میں تو مختلف مقامات پر ان کے خطاطی کے نمونے نظر آتے ہی ہیں۔ ہندوستان میں بھی دہلی کے اسلامک انسٹی ٹیوٹ کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس، حیدرآباد اور کئی شہروں میں صادقین کی مصوری کے نمونے لوگوں کی نظروں کو اپنی جانب بے محابہ کھینچ لیتے ہیں۔ پاکستان میں جہاں انہیں ستارہٴ امتیاز سے نوازا گیا تھا، وہیں ہندوستان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بنارس میں ہندو یونیورسٹی نے بھی انہیں اعزاز بخشا تھا۔ لیکن صادقین کی طبیعت قلندرانہ تھی اس لیے وہ کسی منزل پر رکتے نہیں تھے۔ حالانکہ ان کی خطاطی پر جو تنقیدیں ہوئیں اس سے بھی وہ کسی قدر بدحظ نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں:
پھولوں کی ملی بلخ سے تھالی مجھ کو
بغداد میں زیتون کی ڈالی مجھ کو
لاہور میں دی گئی ہے اے دوست
خطاطی کے اعزاز پہ گالی مجھ کو

میں بغض کے انبار سے کیا لاتا ہوں
اس میں بھی عقیدت کی ادا لاتا ہوں
جو زہر کہ واعظ نے ہے اگلا اس سے
تریاق نکالے ہی چلا جاتا ہوں

تخلیق کے سقف و بام پاٹے جائیں
یاقوت کے پس خوردہ کو چاٹے جائیں
مخلوق خدا چوم رہی ہے مرے ہاتھ
کاتب یہ مگر کہتے ہیں، کاٹے جائیں

لیکن صادقین اپنے آرٹ میں سرتاپا ڈوبے رہے اور دس فروری سنہ 1987کو کراچی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ سخی حسن قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔ صادقین کے آرٹ نے ساری دنیا میں دھوم مچائی مگر وہ اپنے آ پ میں گم رہے:
خود اپنے طریقے میں قلندر میں ہوں
خود اپنے سلیقے میں ہنر ور میں ہوں
خود اپنے بنائے ہوئے آئینوں میں
 خود گیر ہوں خودنگر ہوں خودگر ہوں میں

اس مضمون کا کچھ مواد انٹر نیٹ سے بھی لیا گیا ہے

No comments:

Post a Comment