Search This Blog

Saturday 18 February 2012

بدن تھک گیا ہے مگر آگہی تو نہیں

بدن تھک گیا ہے مگر آگہی تو نہیں

جاگتے میں آنکھیں بند کرکے خواب دیکھنے لگنا ایک عام سی بیماری ہے۔عام آدمی سے لے کرایک خاص مکتب فکر تک،ایک مجذوب سے لے کر صاحبان ذکر تک ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے سب اسی زلف کے اسیر ہوئے۔ہوائی قلعے سبز باغ خیالی پلاؤالہ دین کا چراغ طلسمی انگوٹھی سنگ پارس جادوئی خیال ٹیلی پیتھی تسخیر ہمزاد جنتر منتر نقش لوح تعویذمؤکل جن فرشتے حاضرات لونا چماری انکا ناگن جوگی سارے ناآسودہ خواہشات کے سہارے دل ودماغ مسخر کئے بیٹھے ہیں۔اوریہ مشرق ہی کا خاصہ نہیں مغرب بھی اس کے گرفتاروں میں ہے۔وہاں بھی ہرایک شخص کو ہر بات کی جلدی ہے اور یہاں بھی ہر ایک دوڑے جارہا ہے۔مگر ڈور کا سرا ہاتھ نہیں آرہا۔وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ فلسفی کو بحث میں خدا ملتا نہیں۔اور فلسفی بھی وہ جو ہر وقت خواب دیکھنے کے عادی ہوں ایک زمانہ تھاکہ خواب زادے خواب نگر کی سیر کو جاتے اور خواب خریدتے مگر اب تو گلی کوچوں میں خواب گر خواب بیچنے آ جاتے ہیںاور آوازیںلگا لگا کر خواب بیچتے ہیں خواب لے لو خواب لے لو۔جیسے ایک زمانے میں دوپہر کے وقت گلاب بیچنے والے’’سچے گلاب دی بہار اے ‘‘کی صدا لگاتے گلاب بیچنے آجاتے تھے۔اب زمانہ بدل چکا ہے اب تو آپ کے قریب رہنے والے بھی آنکھوں میں خواب سجائے آپ کو تباہ و برباد کرنے کی دھن میں مگن دکھائی دیتے ہیں۔ استاد اپنے شاگردوں کو غلط سلط پڑھاتے ہوئے ہر پل اپنی ترقی کے خواب دیکھتے رہتے ہیں تو شاگرد ہمہ تن مدہوش ہوتے ہوئے اپنے استادوں کو روندنے کے خوابوں میں مست دکھائی دیتے ہیں۔

یہ خواب دن میں دیکھے جائیں یا رات میں مقصد ان کا یہی ہوتا ہے کہ دوسروں کی عزت اچھالتے رہنا اور اپنے آپ کو معتبر جانتے رہنا۔اپنے منہ مٹھو اور تھوتھا چنا باجے گھنا بھی انہی خواب دیکھنے والوں کے لئے ہی تو ایجاد کئے گئے ہیں۔خواب تو خواب ہیں لیکن یہ سراب ہی تو ہیں جو پیاسے کو موت کے منہ تک پہنچا دیتے ہیں ۔وہ ادبی ہو چاہے سیاسی، دشت نوردی تو مجنوں کی صفت ہے مگر لوگ گھر بیٹھے اپنے آپ کو قیس ثانی سمجھنے لگیں تو اس میں فہم و ادراک سے زیادہ ان کی اپنی کج فطرتی اورحریص سرشتی کا دخل ہوتا ہے۔چاہے وہ ٹی وی چینل ہو یااخباری صفحات کی دنیا سیاست کا میدان ہو یا دوستوں کی نشست انہیں ہوکا ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو نمایاں کرتے ہوئے ہمچو ما دیگرے نیست کا دعویٰ کرتے کرتے ساری خباثتوں کو اپنے چہرے پر مرتسم کر دیں ۔ خواب دیکھنے پر یوں تو کوئی پابندی نہیں مگر سبز عینکیں لگا کر ہرا ہی ہر اتکتے رہنے کی آرزو میں رات کو دن اور دن کو رات سمجھ لینا کور چشمی کی دلیل بھی ہے اورعلامت عقل قلیل کی بھی ہے۔

خواب ٹریفک پولیس کے سپاہی بھی دیکھتے ہیں اور یہ خواب وہ اپنی ڈیوٹی کے دوران دیکھتے ہیں ۔کسی بھی مصروف چوک پر آپ یہ نظارہ دیکھ سکتے ہیں کہ ٹریفک کنٹرول کرنے والے کسی بھی شاندار گاڑی کو دیکھ کر خود کو اس میں محو استراحت پاتے ہیں۔ایسے میں رکشہ ٹیکسی والے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سامنے سے آنے والی ٹریفک کا راستہ بند کردیتے ہیں۔دو قطاروں کی بجائے پانچ پانچ قطاریں بنا لیتے ہیں اور کچھ یوں کہ سامنے سے آنے والی گاڑیاں چوک سے پار ہی نہیں ہو سکتیں۔اور کانسٹیبل صاحب آنکھیں موندھے دن کے خوابوں میں مست دکھائی دیتے ہیں انہیں تو یہ تک دکھائی نہیں دیتا کہ بائیں ہاتھ کو جانے والی قطار کے سرے پر سیدھا جانے والی گاڑیاں کیوں کھڑی ہیں جنہوں نے اپنے پیچھے آنے والوں کو روک کر سارا اژدھام ترتیب دیا ہے۔ وہ تو اپنے آپ کو بھتہ اور منتھلی وصول کرنے کے خوابوں میں مشغول رکھنے میں ہی دل کی خوشی محسوس کرتے ہیں کہاں کا فرض اور کہاں کی فرض کی ادائیگی۔اور جن کو ان کے فرض کی ادائیگی کروڑوں میں ہوتی ہے وہ تو سپریم کورٹ میں خوب کھل کر کھیلنے کے خوابوں میں سرشارتاریخوں پر تاریخیں لئے اور دئیے جاتے ہیںاور عوام کو اپنے اخباری بیانات کے ذریعے رنگین خوابوں میں سلائے رکھتے ہیں ۔

اپوزیشن کو بھی خواب دیکھنے کا حق ہے مگر یہ حق انہوں نے بزور بازو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ آپ نے سنا تو ہوگا کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں کیا ہوتا ہے اور سفید ہاتھیوں کے خواب کے بارے میں بھی آپ نے ضرور کوئی نہ کوئی کہانی سن رکھی ہوگی۔یہ سفید ہاتھی بھی ہمارے خوابوں ہی کی دین ہیں ۔پہلے ایک دو ہوتے تھے مگر اب تو خیر سے سارا ملک ہی ان کی تگ و تاز حرص و آز کی زد میں ہے۔یہ ہاتھی اپنی بڑھتی ہوئی صحت کے بارے میں خواب دیکھتے رہتے ہیں لیکن ان سے زیادہ ان کی پشت پر بیٹھے مہاوت اپنی مالی صحت کے خوابوں کو حقیقت بنانے کی کوشش میں قوم کا دیوالیہ نکالتے رہتے ہیں۔ہم بھی خواب دیکھتے رہتے ہیں ہمارے قلم قبیلے کے دوست بھی خواب دیکھتے ہیں مگر قوم کی خوشحالی ترقی اوراچھے مستقبل کے خواب اور ہمیشہ اسی تمنا میں رہتے ہیں کہ خدا کرے ان خوابوں کی تعبیر سچ ہو۔ دبستان پشاور کی یہی تو خوبی ہے اور ہمیں اس پر فخر ہے کہ ہم اپنے خوابوں کو اپنی قوم تک پہنچا بھی سکتے ہیں اور سب سے بڑی بات کہ پاکستان کا خواب بھی تو ایک شاعر ہی کا دیکھا ہوا ہے۔اور یہ خواب جاگتی آنکھوں کے ساتھ روشن دن کی امید پر ایک ترقی پسند روشن خیال پاکستان کا خواب تھا۔

یہ جذبات بھی خواب میں ڈھلتے سائے سہی
بدن تھک گیا ہے مگر آگہی تو نہیں

No comments:

Post a Comment