Search This Blog

Wednesday 15 February 2012

مولوی اسمٰعیل میرٹھی


مولوی اسمٰعیل میرٹھی
                                                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  سید محسن اختر نقوی
ہندوستان کی ابتدائی اردو کی تعلیم میں مولانا  اسمٰعیل میرٹھی کی خدمات بہت اہم ہیں۔ اردو کی ابتدائی کتابوں میں مولانا کی کہی ہوئی آسان نظمیں ہوا کرتی تھیں۔  اُن نظموں کی خصوصیات انکی آسان اور عام فہم زبان ہوتی تھی  اور دوسری صفت یہ کہ اُن  میں ایسی باتیں نظم کی گئی ہیں جن سے روز مرّہ کی زندگی کی  عکّاسی ہوتی ہے اور بچوں کو ان باتوں میں بے انتہا دلچسپی ہوتی ہے۔ در اصل اردو زبان میں یہ نظمیں نرسری رائمز کا نعم البدل ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد ان نظموں کو طاقِ نسیاں کی نظر کر دیا گیا لیکن صحیح معنوں میں اُن نظموں کا کوئی بدل نہ آ سکا جو نئی پود کی ذہنی نشو نما کی پرداخت کرتا۔ اس سے نقصان یہ ہوا کہ نہ بچوں کو ٹھیک سے اردو لکھنا پڑھنا آیا اور نہ ان میں بنیادی شہری ذمہ داریاں پیدا ہوئیں۔
۱۹۹۰ کی دہائی میں مرحوم حکیم محمد سعید نے ایک کام یہ بھی کیا کہ  ہمدرد فاؤنڈیشن کے تحت ایک تعلیمی ادارہ بھی قائم کیا  جس کا نام انہوں نے نونہال ادب رکھا۔اور اسی ادارہ نے کتابیں شایع کی ہیں، منجملہ ان کے ایک کتاب میں صرف مولوی اسماعیل[1] میرٹھی کی نظمیں ہیں اور ایک تمہید بھی ہے جس میں مولانا کی زندگی کے حالات بھی درج کئے گئے ہیں۔ یہ تمہید حکیم نعیم الدین زبیری کی لکھی ہوئی ہے۔ اس تمہید سے کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:
            [ مولانا  ا سمٰعیل  ۱۲ نومبر ۱۸۴۴ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ میرٹھ کا وہ محلہ جس میں مولانا کا آبائی گھر تھا اب اسمٰعیل نگر کہلاتا ہے۔ مولانا کے خاندان کے ایک بزرگ قاضی حمید الدین، بابر کے ساتھ اس وقت ہندوستان آئے تھے جب بابر نے اپنے تیسرے حملہ میں اس ملک کو فتح کیا تھا۔ بعد میں ان کا خاندان میرٹھ میں آباد ہو گیا۔ اس خاندان کے افراد اپنے علم و فضل کی بنا پر ممتاز رہے اور ان میں اکثر مغل بادشاہوں کے ہاں اعلیٰ عہدوں پر مقرر ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارسی زبان کی ایک  لُغت ’بُرہانِ قاطع‘ ہے۔ مرزا غالب نے اس کتاب کی غلطیاں اپنی ایک تصنیف ’قاطعِ  بُرہان‘ میں بیان کی تھیں۔ مولانا اسمٰعیل کے استاد رحیم بیگ صاحب نے غالب کی اس کتاب پر تنقید لکھنی شروع کی تو اپنے شاگرد کو اس کام میں شریک رکھا۔ مولانا اسمٰعیل اپنے استاد کی مدد کرنے کے لئے لغت کی مختلف کتابوں سے الفاظ کے معنیٰ اور مفہوم تلاش کر کے انہیں دیتے اور کتاب کا مسودہ صاف کرنے میں ان کا ہاتھ بٹاتے۔ اس طرح مولانا کو شروع ہی سے علمی کاموں میں دلچسپی پیدا ہوئی۔
جس روز میرٹھ میں جنگِ آزادی شروع ہوئی، مولانا اپنے ایک پڑوسی کے گھر افطار کی دعوت میں شریک تھے[2]  کہ اچانک شور سنائی دیا۔ معلوم کیا تو پتہ چلا کہ فوج کے ہندوستانی سپاہیوں نے انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی ہے۔ فوج کا اسلحہ خانہ لوٹ لیا اور جیل کے دروازے کھول دئیے ہیں۔ یہ جنگِ آزادی کی ابتدا تھی۔ یہ واقعہ ۱۰؍ مئی ۱۸۵۷ ء   کا  تھا۔ اور اس روز رمضان (۱۲۷۴ھ) کی ۱۴؍ تاریخ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے یہ بزرگ ہمارے شکرئیے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ان حالات میں بھی جو کچھ کرنے کا ارادہ کیا اور جو کچھ کر دیا اس کا نتیجہ ہے کہ ہم آج ایک آزاد اسلامی ملک کے باوقار شہری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کے بزرگوں کی ان کوششوں  کو ہم تحریکِ پاکستان کا نقطۂ آغاز قرار دیتے ہیں۔
مولانا سمٰعیل میرٹھی بھی  ہمارے محسنوں کی اس جماعت میں شامل ہیں۔ انہوں نے دینی علوم کی تکمیل کے بعد جدید علوم سیکھنے پر توجہ کی، انگریزی زبان میں مہارت حاصل کی، انجنیرنگ کا کورس پاس کیا۔ مگر ان علوم سے فراغت کے بعد  اعلیٰ ملازمت حاصل کرنےکے بجائے  تدریس کا معزز پیشہ اختیار کیا تاکہ اس راہ سے  قوم کو اپنے کھوئے مقام تک واپس لے جانے کی کوشش کریں اور اپنے شاگردوں اور ساری قوم کے نو نہالوں کی ذہنی تربیت کی خدمت انجام دیں۔
۱۸۵۷ سے پہلے اردو زبان کے شاعروں  نے خیالی میدانوں میں گھوڑے دوڑانے کے سوا  کوئی مفید خدمت کم ہی انجام دی تھی۔ اپنے دوسرے ہم عصروں مثلاً حالی، اور شبلی کی طرح مولانا  میرٹھی نے اپنی شاعری کو بڑوں اور بچوں کے لئے تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنایا۔ انہوں نے خاص کر نو نہالوں کی ذہنی تربیت کے لئے درسی کتابیں مرتّب کیں۔ ان کتابوں کے نثری مضامین اور اُنکی نظموں نے یہ کام بڑی خوبی سے انجام دیا۔ مولانا اسمٰعیل میرٹھی نے سادہ زبان میں اردو سکھانے کے ساتھ ساتھ ان کتابوں میں اخلاقی مضامین کو اس خوبی سے سمویا ہے کہ پڑھنے والے تعلیم کے ساتھ تربیت کے زیور سے بھی آراستہ ہوتے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہلی کے ایک مشہور ادیب منشی ذکا اللہ نے بھی سرکاری اسکولوں کے لئے اردو ریڈروں کا ایک سلسلہ مرتب کیا تھا۔ اُن کی کتابوں میں مولوی اسمٰعیل میرٹھی کی نظمیں بھی شامل تھیں۔
مولانا کے ایک صاحبزادہ نے اُن کی زندگی کے حالات اور اُنکی شاعری کا ایک مجموعہ ’حیات و کلّیاتِ اسمٰعیل‘ کے نام سے مرتب کیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے لکھا ہے کہ مولانا  غالب کو شاعری میں اپنا  اُستاد بتاتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرٹھ شہر میں لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہ تھا۔ مولانا نے ’مدرسۃ البنات‘ کے نام سے ۱۹۰۹ میں لڑکیوں کا ایک اسکول قائم کیا۔ یہ درسگاہ آج تک قائم ہے اور اسکا نام  اسماعیلیہ ڈگری  گرلز کالج ہے۔ ان تمام تعلیمی اور علمی مصروفیات کے ساتھ مولانا نے مسلمانوں کی سیاسی تربیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ اِن سیاسی خدمات کے پیشِ نظر انہیں ۱۹۱۱ء میں میرٹھ شہر کی مسلم لیگ کا نائب صدر منتخب کیا گیا تھا۔ اس طرح وہ انجمن ترقی اردو کی مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں کے اس خدمت گذار مُصلِح نے ۷۳ سال کی عمر میں یکم نومبر ۱۹۱۷ء کو وفات پائی۔ ] (ختم اقتباس)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کتاب میں مولانا  میرٹھی کی اسّی نظمیں ہیں۔ اس میں سب سے پہلے ایک مناجات بدرگاہِ  قاضی الحاجات ہے۔ پھر پانچ  اور نظمیں ایسی ہی ہیں جن مین اللہ کی قدرت، اسکی صفات اور  اسکی  صنّاعی پر گفتگو ہے۔ اسی سلسلہ میں وہ مشہور حمد بھی ہے  جو غالباً ہم سب کو زبانی یاد ہوگی جس کا مطلع ہے:
؎             تعریف اُس خدا کی جس نے جہاں بنایا           کیسی زمیں بنائی، کیا آسماں بنایا
  اس کے بعد ایک  نعت ہے۔ پھر اور دوسرے قدرتی مظاہر اور دوسرے زندگی کے مشاہدات کا تذکرہ ہے۔ ہر نظم کے آخر میں مشکل الفاظ کے معنیٰ بھی دئے ہوئے ہیں۔ اور آخر میں کچھ نوٹس اردو املا پر ہیں۔ اس میں یہ بتایا  گیا ہے کہ یائے معروف کسی لفظ کے بیچ میں آتی ہو تو اسکا فرق یاے مجہول سے کیسے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سے واؤ معروف اور واؤ مجہول کا فرق تحریر میں کیسے ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ ایک بنیادی کمزوری ہے جو اردو نستعلیق کی طرزِ تحریر میں پائی جاتی ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اردو زبان اصلاً ہندوستانی زبان ہے۔ لہٰذا ہندی دیوناگری میں تو  پورے دس صوتی ساختیوں کے لئے حروف اور انکی دوسری صورتیں موجود ہیں لیکن  نستعلیق جو کہ عربی سے آیا ہوا فارسی کا رسم الخط ہے ،اس میں وہ سب گرافک سمبلز نہیں ہیں۔
 مولوی اسمٰعیل میرٹھی کی نظموں کے اس مجموعہ سے چند نظمیں ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔
مثنوی آبِ زُلال
دکھاؤ کچھ طبیعت کی روانی               جو دانا  [3] ہو تو سمجھو کیا ہے پانی
یہ مل کر دو ہواؤں سے بنا  ہے[4]                    گرہ کُھل جاے تو فوراً ہوا ہے[5]
نظر ڈھونڈے مگر کچھ بھی نہ پائے                زبان چکّھے مزہ  ہر گز نہ آئے
ہواؤں میں لگایا خوب پھندا                         انوکھا ہے تری قدرت کا دھندا
نہیں  مشکل اگر تیری رضا ہو                        ہوا پانی ہو ا ور پانی ہوا ہو
مزاج اس کو دیا ہے نرم کیسا                         جگہ جیسی ملے بن جائے ویسا
نہیں کرتا جگہ کی کچھ شکایت                       طبیعت میں رسائی ہے نہایت
نہیں کرتا کسی برتن سے کھٹ پٹ                  ہر اک سانچے میں ڈھل جاتا ہے جھٹ پٹ
نہ ہو صدمہ سے ہرگز ریزہ ریزہ                    نہ ہو زخمی اگر لگ جائے نیزہ
نہ اس کو تیر سے تلوار سے خوف                   نہ  اس کو توپ کی بھرمار سے خوف
تواضع سے سدا پستی میں بہنا                         جفا سہنا مگر ہموار[6] رہنا
نہیں ہے سرکشی سے کچھ سرو کار                    نہ دیکھو گے کبھی تُم اُس کا  انبار
خزانہ گر بلندی پر نہ ہوتا                 تو فوّارے سے وہ باہر نہ ہوتا[7]
جو ہلکا ہو اُسے سر پر  اُٹھائے              جو بھاری ہو اسے غوطہ کھلائے
نہ جلتا ہے نہ گلتا ہے نہ سڑتا                          نِرا[8]  پانی نہیں ہر گز بگڑتا
اُسے بھینچو ،   دباؤ  یا  ٹٹولو                    اُسے چھیڑو،  اُچھالو  یا   گھنگھولو
اُسے رگڑو، گھسو ، پیسو ، بہاؤ                        جھکولے دو، مسل ڈالو، دباؤ
کسی عنوان سے ہو گا نہ نابود                         وہی پانی کا پانی   دودھ کا دودھ
لگے گرمی تو اُڑ جائے ہوا پر              پڑے سردی تو بن جائے پتّھر[9]
ہوا میں مل کے غائب ہو نظر سے                  کبھی اُوپر سے بادل بن کے برسے
ہوا پر چڑھ کے پہونچے سیکڑوں کوس                         کبھی اولا کبھی پالا[10] کبھی اوس
کُہَر ہے بھاپ ہے پانی ہے یا برف                   کئی صیغوں میں ہے ایک اصل کی صرف[11]
اُسی کے دم سے دنیا میں تری ہے                   اُسی کی چاہ [12]سے کھیتی ہری ہے
پھلوں میں، پھول میں، ہر پنکھڑی میں                      ہر ایک ٹہنی میں، ہر بوٹی جڑی میں
ہر ایک ریشے میں ہے اسکی رسائی                 غذا ہے جڑ سے کونپل تک چڑھائی
پھلوں کا ہے اسی سے تازہ چِہرہ                    اُسی کے سر پہ ہے پھولوں کا سہرا
اُسی کو پی کے جیتے ہیں سب انساں                 اُسی سے تازہ دم ہیں سارے حیواں
یہی معدے کو پہنچاتا رسد ہے                      یہی تحلیل میں کرتا مدد ہے
                                                عمارت کا بسایا اُ س نے کھیڑا          
                                                تجارت کا کیا ہے پار بیڑا
زراعت اُس کی موروثی اسامی                     صناعت کے بھی اوزاروں کا حامی
کہیں ساگر کہیں کھاڑی[13] کہیں جھیل                       کہیں جمنا کہیں گنگا کہیں نیل
یہی پہلے زمیں پر موج زن تھا                       نہ میداں تھا نہ پربت تھا نہ بن تھا[14]
زمیں سب غرق تھی پانی کے اندر                 جدھر دیکھو سمندر ہی سمندر
زمیں پوشیدہ تھی اُس کی بغل میں                   نہ تھا کچھ فرق جَل میں اور تَھل میں
نہ بستی تھی نہ ٹاپو [15]تھا کہیں پر                     اُسی کا دور دورہ تھا زمیں پر
مگر دنیا میں یکسانی کہاں ہے                         جو اب دیکھو تو وہ پانی کہاں ہے
یہاں ہر چیز ہے کروٹ بدلتی                       ہر اک حالت ہے چڑھتی اور ڈھلتی
کوئی شے ہو، ہوا ہو یا ہو پانی                          سبھی کو ہے بُڑھاپا اور جوانی
رہا باقی نہ وہ پانی کا ریلا                اُسے خشکی نے پستی میں ڈھکیلا
زمیں آ ہستہ آہستہ گئی چوس                         چُھپالے مال کو جیسے کنجوس
تری کا جب کہ دامن ہو گیا چاک                   تو خُشکی نے اُڑائی جا بجا خاک
پہاڑ اُبھرے ہوئے میدان پیدا                   ہوئے میداں میں نخلستان پیدا
تری کا گو ابھی پلہ ہے بھاری                        لڑائی ہے مگر دونوں میں جاری
کیا کرتے ہیں دونوں کاٹ اور چھانٹ                        چلی جاتی ہے باہم لاگ اور دانٹ[16]
تری ہر دم چلی جاتی ہے اٹتی                         کبھی خشکی بھی ہے کایا پلٹتی
تری کا تین چوتھائی میں ہے راج                   تو خشکی ایک چوتھائی میں ہے آج
نہیں چلتی تری کی سینہ زوری                        زمیں اک روز رہ جائیگی کوری
پہن رکھا تھا جب آبی لبادہ               مُٹاپا بھی زمیں کا تھا زیادہ
مگر اب دن بدن چڑھتی ہے خشکی                 تری گھٹتی ہے اور بڑھتی ہے خُشکی
کمی بیشی نہیں آتی نظر کُچھ
بہت عمروں میں ہوتا ہے اثر کچھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مندرجہ بالا نظم میں قدرتی مشاہدات بیان کئے گئے ہیں۔ ذکر صرف پانی کا ہے۔ لیکن اس میں تخلیقِ کائنات سے لیکر فَزَکس اور کیمسٹری کے سبق بھی ہیں اور بچوں کے  جِبِلّی جذبۂ  تجسس کو بھی اُبھارا گیا ہے۔
…………………………………………
ایک جُگنو اور بچّہ
سناؤں تمہیں بات اک رات کی                    کہ وہ رات اندھیری تھی برسات کی
چمکنے سے جگنو کے تھا ایک سماں                    ہوا پر اُڑیں جیسے چنگاریاں
پڑی ایک بچے کی ان پر نظر                         پکڑ ہی لیا  ایک کو دوڑ کر
چمک دار کیڑا جو بھایا سے                            تو ٹوپی میں جھٹ پٹ چھپا یا  اُسے
وہ جھم جھم چمکتا ادھر سے اُدھر                    پِھرا۔ کوئی رستہ نہ پایا مگر
تو غمگین قیدی نے کی التجا                کہ چھوٹے شکاری!  مجھے کر رِہا
جُگنو
خدا کے لئے چھوڑ دے چھوڑ دے!                         مِری قید کے جال کو توڑ دے
بچّہ
کروں گا نہ آزاد اُس وقت تک                     کہ میں دیکھ لوں دِن میں تیری چمک
جُگنو
چمک میری دن میں نہ دیکھو گے تُم                اُجالے میں ہو جائیگی وہ تو گُم
بچّہ
ارے چھوٹے کیڑے نہ دے دم مجھے             کہ ہے واقفیت ابھی کم مجھے
اُجالے میں دن کے کُھلے گا یہ حال          کہ اتنے سے کیڑے میں ہے کیا کمال[17]
دُھواں ہے نہ شعلہ نہ گرمی نہ آنچ             چمکنے کی تیرے کروں گا میں جانچ
جگنو
یہ قدرت کی کاریگری ہے جناب               کہ ذرّ ے کو چمکائے جوں آفتاب
مجھے دی ہے اس واسطے یہ چمک                    کہ تم دیکھ کر مجھ کو جاؤ ٹھٹَک
نہ الڑھ پنے سے کرو پائمال
سنبھل کر چلو آدمی کی سی چال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مندرجہ بالا نظم میں ایک ایسا منظر بیان کیا گیا ہے جس میں دنیا کا کوئی بچہ ایسا نہ ہوگا جو دلچسپی نہ رکھتا ہو۔ نظم آخر میں ایک مکالمہ کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس سے بچوں کی دلچسپی میں اضافہ ہوتا ہے اور آخر میں ایک حقیر کیڑا انسان کو ایک سبق سکھاتا ہوا دکھایا جاتا ہے۔ یہاں بھی قرآن کی ایک آیت کا حوالہ نظر آتا ہے جہاں کہا گیا کہ اگر اللہ چاہے تو کسی بُھنگے یا اس سے بھی حقیر چیز کی مثال دیکر بات کو سمجھائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا زمانہ آنے والا ہے
تنے گا مسرّت کا اب شامیانہ                           بجے گا محبت کا نقّار خانہ
حِمایت کا گائیں گے مل کر ترانہ                      کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
نہ ہم روشنی دن کی دیکھیں گے لیکن                                چمک اپنی دکھلائیں گے اب بھلے دن
رُکے گا نہ عالم ترقی کئے بن                              کرو صبر آتا ہے  اچھا زمانہ
ہر اک توپ سچ کی مدد گار ہوگی                     خیالات کی تیز تلوار ہوگی
اسی پر فقط جیت اور ہار ہوگی                          کرو صبر آتا ہے  اچھا زمانہ
زبانِ قلم سیف پر ہوگی غالب            دبیں گے نہ طاقت سے پھر حق کے طالب
کہ محکوم حق ہوگا دنیا کا قالب               کرو صبر آتا ہے  اچھا زمانہ
زمانہ نسب کو نہ پوچھے گا ہے کیا                   مگر وصفِ ذاتی کا ڈنکا بجے گا[18]
اُسی کو بڑا سب سے مانے گی دنیا                    کرو صبر آتا ہے  اچھا زمانہ
لڑائی کو انسان سمجھیں گے ڈائن               تفاخُر پہ ہوگی نہ قوموں میں ان بن
مشیخت کی خاطر اُڑے گی نہ گر دن                کرو صبر آتا ہے  اچھا زمانہ
عقیدوں کی مٹ جائ گی سب رقابت                             مذاہب کو ہوگی تعصب سے فُرصت
مگر اُن کی بڑھ جائیگی اور طاقت                   کرو صبر آتا ہے  اچھا زمانہ
کریں سب مدد ایک کی ایک مِل کر           یہی بات واجب ہے ہر مرد وزن پر
لگےہاتھ سب کا تو اُٹھ جائے چھپّر[19]            کرو صبر آتا ہے  اچھا زمانہ
یہ نظم اور اس کا مضمون دونوں حیران کُن ہیں۔ شاعر اس دور میں پیدا ہوا تھا جب انگریزوں نے دھوکے دھڑی اور توپ اور بندوق کے زور پر ہندوستان پر آہستہ آہستہ قبضہ کر لیا تھا۔ ہندوستان کی آبادی اس دھوکہ بازی اور ظلم سے سخت نالاں تھی اور عوام آزادی کا نعرہ لگا رہے تھے، بغاوت پھیل چکی تھی۔ ۱۸۵۷ کی جنگ میں سخت خو ں ریزی ہوئی۔ بہت سے بے گناہ لوگ پھانسی پر چڑھا دئے گئے۔ جو انگریز کے وفا دار رہے انکو انعام و اکرام سے نوزا گیا۔ کم رُتبہ اور نچلے لوگوں کو شرفا کے سر پر مسلط کر دیا گیا۔ اس پس منظر میں یہ نظم لکھی گئی ہے۔ اتنی سب تباہیوں کے بعد شاعر  بڑھتے ہوئے ذہنوں کو ایک متوازن سوسائٹی کی بشارت دے رہا ہے جہاں انصاف کا بول بالا ہوگا، رنگ و نسل کا امتیاز کوئی معنیٰ نہ رکھیگا، جو کوشش اور محنت کرے گا اسکو اسکی محنت کا پھل ملے گا۔ شرافت کا میعار  نسب نہیں بلکہ حسب قرا رپائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مترادفات
اردوداں پڑھے لکھے طبقہ میں غالب بحیثیت غزل کے شاعر کے معروف ہیں۔ دوسری چیز غالب کی  انکے خطوط ہیں جس سے جدید اردو نثر کے بنیادی اصول وجود میں آئے ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی متفرقات غالب  کے کلام میں ملتے ہیں۔ منجملہ ان سب کے ایک طویل مثنوی بعنوان ’قادر نامہ‘ ہے۔ اس نظم میں غالب نے ہندوستان کی بدلتی ہوئی زبان کا خاکہ پیش کیا ہے۔ یہ خاکہ ایک فہرست کی شکل میں  ہے جس میں غالب نے عربی اور فارسی کے الفاظ جمع کئے ہیں اور جہاں جہاں ممکن ہوا ہے ان الفاظ کے معنیٰ پراکرت سے پیش کئے ہیں۔ مثنوی  اللہ رسول کے تذکرہ سے شروع ہوتی ہے اور  پہلا شعر یوں ہے۔

قادر اور اللہ اور یزداں، خدا
ہے نبی، مُرسل، پیمبر، رھنما
اسی کے پہلے لفظ کو لیکر غالب نے مثنوی کا عنوان مرتب کیا ہے۔ مطلع کے بعد آنے والے چند اور اشعار ملاحظہ فرمائیے:

پیشوائے دیں کو کہتے ہیں امام                                     وہ رسول اللہ کا قائم 
مقام
ہے صحابی دوست، خالص ناب ہے                           جمع اس کی یاد رکھ 
اصحاب ہے
بندگی کا ہاں عبادت نام ہے                                     نیک بختی کا سعادت نام ہے
کھولنا افطار ہے اور روزہ صوم                                 لیل یعنی رات، دن اور روز، یوم
ہے صلوٰۃ اے 
مہرباں اسمِ نماز                      جس کے پڑھنے سے ہو راضی بے نیاز
غالب  کی ا س مثنوی میں( ۱۲۹ )اشعار ہیں۔ انہی ۱۲۹  اشعار کے بیچ میں غالب ایکدم سے پینترا بدل کر غزل کی طرف آجاتے ہیں لیکن بحر نہیں بدلتی۔  اور اسکے بعد مثنوی کے خاتمے پر بھی پانچ اشعار کی ایک اور غزل بھی منسلک کی ہے۔ معنیٰ اور مفہوم کے اعتبار سے یہ دونوں غزلیں مثنوی کا حصہ لگتی ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ مثنوی کے قافیوں اور غزل کے ردیف و قافیوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔
غالب نے بعض چیزیں بہت ہی دلچسپ انداز میں بیان کی  ہیں جہاں ایک طرف تو انکی روائتی حِسِّ مزاح پیش پیش ہے اور دوسری طرف انکی دسترس جو دوسرے علوم پر تھی، مثلاً علمِ صوتیات وغیرہ، اس کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ مثلاً یہ اشعار دیکھئے:
؂                          اسپ جب ہندی میں گھوڑا نام پائے        تازیانہ 
کیوں نہ کوڑا نام پائے
؂                          ہے ہراسیدن بھی ڈرنا، کیوں ڈرو؟        اور جنگیدن ہے لڑنا، کیوں لڑو؟
اور آخر کے دو اشعار یہ ہیں:
؎                                   ہے قلم کا فارسی میں خامہ نام        ہے غزل کا فارسی میں چامہ نام
؎                               کس کو کہتے ہیں غزل؟ ارشاد ہو      ہاں غزل پڑھیے، سبق گر یاد ہو
اس طرح سے غالب مثنوی کے  بیچ ہی میں ایک غزل کی تمہید باندھتے ہیں جو یوں ہے:
غزل

صبح سے دیکھیں گے رستہ یار کا
جمعہ کے دن وعدہ ہے دیدار کا
            وہ چُراوے باغ میں میوہ، جسے
            پھاند جانا یاد ہو دیوار کا
پُل ہی پر سے پھیر لائے ہم کو لوگ
ورنہ تھا اپنا ارادہ پار کا
            شہر میں چھڑیوں کے میلے کی ہے دھوم
            آج عالم اور ہے بازار کا
لال ڈِگی پر کرے گا جا کے کیا
پُل پہ چل، ہے آج دن اتوار کا
            گر نہ ڈر جاؤ تو دکھلائیں تمھیں
            کاٹ اپنی کاٹھ کی تلوار کا[20]
واہ بے لڑکے پڑھی اچھّی غزل
شوق ابھی سے ہے تجھے اشعار کا
مثنوی کا آخری شعر اور اسکے بعد والی غزل یوں ہے:

پایا قادر نامہ نے آج اختتام
اک غزل اور پڑھ لو، والسّلام

غزل

شعر کے پڑھنے میں کچھ حاصل نہیں
مانتا لیکن ہمارا دل نہیں

علم ہی سے قدر ہے انسان کی
ہے وہی انسان جو جاہل نہیں

کیا کہِیں کھائی ہے حافظ جی کی مار؟
آج ہنستے آپ جو کِھل کِھل نہیں

کس طرح پڑھتے ہو رک رک کر سبق
ایسے پڑھنے کا تو میں قائل نہیں

جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا
اس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 بالکل اسی انداز پر مولوی اسماعیل میرٹھی نے  تین نظمیں ایسی ترتیب دیں کہ بچوں کے لئے عربی اور فارسی کے الفاظ جو کہ اردو میں عام طور سے مستعمل ہیں انکے مترادفات انکے ساتھ  سامنے آجائیں جو کہ روزمرہ کی زبان میں عام ہیں۔ اس میں مولانا نے جگہ جگہ غالب کے قادر نامہ سے استفادہ کیا ہے۔
 ان میں سے ایک نظم ہم قارئین کے لئے یہاں پیش کرتے ہیں۔ پوری نظم حکیم مومن خان مومنؔ کی زمین میں ہے۔ مومن نے ’تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘ کی ترکیب کو رومانوی انداز میں لکھا تھا، مولوی اسماعیل میرٹھی نے اسکو بچوں کو سبق پڑھانے اور انکو آموختہ کرانے کے تناظر میں اس ترکیب کو ایک بالکل نئی صورت میں پیش کیا ہے۔ دوسرے شعر میں مولانا نے نظم کی بحر بیان کردی ہے جو کہ بحر کامل کا وہ وزن ہے جس میں ہر مصرع میں چار ارکان پورے پورے ہوتے ہیں اس لئے اسکو بحر کامل مثمن کہا جاتا ہے۔ یہاں مولانا کا مقصد یہ ہے کہ بچے شروع ہی میں شعر کی شعریت اور وزن کا شعور حاصل کر لیں:
وہی کارواں وہی  قافلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی منزل اور وہی مرحلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
                        متفاعلُن    متفاعلن،    متفاعلُن             متفاعلُن
                        اسے وزن کہتے ہیں شعر کا  تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی شُکر ہے جو سِپاس ہے، وہ مُلول ہے جو اُداس ہے
جسے شِکوہ کہتے ہو ہے گلہ  ،    تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
                        وہی نقص ہے وہی کھوٹ ہے وہی ضرب ہے وہی چوٹ ہے
                        وہی سود ہے وہی فائدہ،   تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی ہے ندی وہی نہر ہے وہی موج ہے وہی لہر ہے[21]
یہ حباب ہے وہی بُلبُلہ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
                        وہی کِذب ہے وہی جھوٹ ہے وہی جُرعہ ہے وہی گھونٹ ہے
                          وہی جوش ہے وہی وَلوَلہ،  تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
...

No comments:

Post a Comment