صہیونی ریاست کے مخالف یہودیوں کا نقطہ نظر (2)
تحریر:سید اسد عباس تقوی
تحریر:سید اسد عباس تقوی
معروف غیر صہیونی یہودی راہب جویل ٹیٹل باﺅم جو یہودی مذہب کی عمیق سمجھ بوجھ رکھتے تھے نے کسی لگی لپٹی کے بغیر صیہونیت کو ”عمل شیطان “، ”دینی مقدسات پر ڈاکہ“ اور ”کلمہ کفر“ سے تعبیر کیا۔ انہوں نے صہیونیت سے کسی بھی قسم کے تعلق کو عذاب خدا کو دعوت دینے کے مترادف قرار دیا۔ وہ اپنے اس موقف پر اپنی موت تک قائم رہے۔ ان کے مطابق ہولوکاسٹ صہیونیت کا براہ راست نتیجہ تھا جو خدا کی طرف سے ایک عذاب تھا۔
صہیونیت مخالف یہودی راہبوں کے نزدیک یورپ میں یہودیوں پر جو بیتی اس میں صہیونیت کا بہت اہم کردار ہے۔ صہیونیت نے جلتی پر تیل ڈالا اور اس وقت کے ملک الموت ہٹلر کو بھڑکایا۔ انھوں نے آزادی اظہار کا سہارا لیتے ہوئے اپنے آپ کو یہودیت کا نمائندہ قرار دیا۔ صہیونیت مخالف یہودی راہب یہ سوال کرتے ہیں کہ صہیونیوں کو کس نے یہودیت کے نمائندے کے طور پر چنا؟ نیز وہ کون سے سیاستدان تھے جنہوں نے 1933ء میں انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے جرمنی کے بایئکاٹ کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بائیکاٹ نے جرمنی کو اسی طرح تکلیف پہنچائی جیسے ایک بھڑ ہاتھی کو تکلیف پہنچاتی ہے، جس کے سبب یورپ کے تمام یہودیوں کو ان حالات سے گزرنا پڑا جو تاریخ کا حصہ ہیں۔ یہودی راہبوں کا کہنا ہے کہ اس وقت امریکہ اور برطانیہ ہٹلر سے امن معاہدہ کیے ہوئے تھے، ان صہیونی سیاستدانوں نے اپنے بائیکاٹ کے ذریعے جرمن رہنما کو دماغی انتشار میں مبتلا کر دیا اور اس طرح نسل کشی کی ابتدا ہوئی، اس وقت یہ صہیونی جن کو انسانی نسل میں سے قرار دیا جانا بھی درست نہیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہے۔
صہیونیت مخالف ویب سائٹ جیوز ناٹ زیونسٹ میں تحریر ہے کہ 6 تا 15 جولائی 1938ء کو صدر روز ویلیٹ نے یہودی مہاجرین کے مسئلہ کے حل کے لیے ایویین کانفرنس بلوائی۔ جیوش ایجنسی کا وفد جس کی سربراہی گولڈا مئیر (میریسن) کر رہے تھے، نے جرمنی کی اس پیشکش کو کوئی اہمیت نہ دی، جس کے مطابق ہر یہودی 250 ڈالر کے عوض کسی دوسرے ملک میں ہجرت کر سکتا تھا۔ سائٹ کے بقول ان صہیونیوں نے امریکی صدر اور کانفرنس میں شریک دیگر 32 ممالک کے سربراہان پر کوئی دباﺅ نہ ڈالا کہ وہ یہودیوں کی جرمنی اور آسٹریا سے ہجرت کے اس معاہدے کو قبول کر لیں۔
سائٹ کے بقول یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1941ء اور 1942ء میں جرمن حکام نے یورپی یہودیوں کو سپین کی طرف چلے جانے کی پیشکش کی، اس شرط کے ساتھ کہ وہ جرمنی اور فرانس میں اپنی تمام تر جائیدادوں سے دست بردار ہو جائیں اور یہ کہ :
1۔ کوئی بھی تارک وطن سپین سے فلسطین نہیں جائے گا۔
2۔ تمام تارکین سپین سے امریکا اور برطانیہ کی کالونیوں میں جا سکیں گے۔
3۔ ہر خاندان کو ایک ہزار ڈالر ہرجانہ سپین کی سرحد پر ادا کیا جائے گا۔
مذکورہ بالا سائٹ کے بقول سوئٹزرلینڈ اور ترکی کے صہیونی رہنماﺅں کو واضح طور پر معلوم تھا کہ یہ پیشکش جرمن حکام اور ترک مفتیوں کے درمیان ایک معاہدے کے تحت پیش کی گئی ہے، جسے ان صہیونی رہنماﺅں نے درج ذیل بیانات کے ساتھ رد کر دیا:
1۔ فلسطین ہی ان تارکین کی اصل منزل ہے۔
2۔ یورپی یہودیوں کو دوسری قوموں کے مقابلے میں زیادہ مصائب اور موت کا سامنا کرنا ہو گا، تاکہ اتحادیوں کے جنگ جیتنے کی صورت میں وہ آسانی سے یہودی ریاست کے قیام پر آمادہ ہو جائیں۔
3۔ کسی کو کوئی ہرجانہ ادا نہیں کیا جائے گا۔
صہیونیت مخالف یہودیوں کا خیال ہے کہ اس پیشکش کو یہ جانتے ہوئے ٹھکرایا گیا کہ اس کا نتیجہ گیس چیمبرز ہوں گے۔ ان کے نزدیک ان خائن صہیونیوں نے اپنے ہی خون کے ساتھ خیانت کی۔
یہودی سائٹ کے مطابق 1944ء میں ہونے والی ہنگری کی جلاوطنی کے دوران بھی اسی قسم کی پیشکش کی گئی، جس کے سبب ہنگری کے یہودیوں کو بچایا جا سکتا تھا، تاہم ایک مرتبہ پھر انہی صہیونیوں نے اس پیشکش کو بھی رد کر دیا جبکہ گیس چیمبر کے ذریعہ اموات کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ نیز یہ کہ برطانوی حکومت نے 300 راہبوں اور ان کے خاندانوں کو اپنی کالونی موریطانیہ کا ویزہ دیا، ان صہیونیوں نے اس منصوبے کو بھی ناکام کر دیا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ یہ منصوبہ چونکہ فلسطین سے بغاوت ہے، اس لیے ان 300 راہبوں کو گیس چیمبرز کا لقمہ بن جانا چاہیے۔
صہیونیت مخالف یہودی اپنی سائٹ میں رقمطراز ہیں کہ17 دسمبر 1942ء کو برطانوی پارلیمان کے دونوں ہاﺅس اس بات پر آمادہ ہو گئے تھے کہ وہ خطرے میں گھرے یہودی خاندانوں کو عارضی پناہ دیں گے۔ برطانوی پارلیمنٹ نے یہ پیشکش کی تھی کہ یورپ میں آباد پانچ لاکھ یہودیوں کو وہ اپنی کالونیوں میں دوبارہ آباد کرے گی، جس کے پس پردہ برطانوی پارلیمنٹ اور جرمن حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت تھی، اس قرارداد کو ایک ہفتے میں 277 ممبران پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہو گئی، تاہم 27 جنوری کو جب اگلا قدم اٹھانے کا وقت آیا تو صہیونی ترجمان نے یہ اعلان کیا کہ ہم اس قرارداد کی مخالفت کریں گے کیونکہ اس میں فلسطین کا ذکر نہیں آیا۔
مذاکرات کے دوران صہیونی سیاست دان چیم وائزمین نے کہا :
یہودی قوم کا اہم ترین حصہ پہلے ہی فلسطین میں ہے اور وہ یہودی جو فلسطین سے باہر ہیں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
تاریخ کی بدترین حقیقت یہ ہے کہ ان صہیونی سیاست دانوں نے لوگوں کو پناہ گزین کیمپوں میں بلایا اور بھوک اور افلاس کے مارے ان لوگوں کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ فلسطین کے علاوہ کسی اور ملک میں آباد کاری پر آمادہ نہ ہوں، تاکہ یہ لوگ وہاں اپنی ریاست قائم کر سکیں۔
جب جرمن حکام نے جنگ کے آخری ادوار میں مغربی ریاستوں کو یہ پیشکش کی وہ پیسے کے بدلے ان یہودیوں کو بچا سکتے ہیں کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ مغربی حکومتوں پر یہودی کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں تو کوئی بھی یہ سوال کر سکتا ہے کہ ان خود ساختہ صہیونی راہنماﺅں نے اپنے بھائیوں کو بچانے کے لیے کیا اقدامات کئے۔
مذکورہ بالا سائٹ کے مطابق 22 فروری 1956ء کو کینیڈا کے وزیر برائے مہاجرین سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آیا یہودی پناہ گزینوں کے لیے آپ کینیڈا کے دروازے کھولیں گے، تو انہوں نے جواب دیا کہ ہماری حکومت نے اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کی، کیونکہ اسرائیلی حکومت نہیں چاہتی کہ ہم ایسا کریں۔
یہودی راہبوں کا نظریہ ہے کہ ان صہیونی سیاستدانوں نے لوگوں کو اس چیز پر ابھارا کہ وہ تورات اور اس کے احکامات کے بجائے اس بدمعاش کی تعظیم کریں، جس نے صہیونیت کی بنیاد رکھی۔
مندرجہ بالا گزارشات کے مطالعہ کے بعد قارئین پر واضح ہو گیا ہو گا کہ یہودیوں اور صہیونیوں کے مابین کس قدر وسیع اختلافات موجود ہیں۔ یہ صہیونیت مخالف یہودی آج بھی دنیا بھر سے صہیونیت کے اقدامات کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ اس جرم کی پاداش میں سینکڑوں راہبوں کو انتہائی خاموشی سے موت کی ابدی نیند سلا دیا گیا۔ مگر یہ مظالم یہودی راہبوں کو اپنی حقیقی تعلیمات کا پرچار کرنے سے نہ روک سکے۔ ان کی کونسلز اسرائیل کی صہیونی حکومت کی جانب سے فلسطین میں کیے جانے والے ہر ظلم پر آواز اٹھاتی ہیں۔ مسلمان اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے اٹھیں یا نہ اٹھیں، ان یہودیوں نے فلسطینیوں کی حمایت کا علم ہمیشہ بلند رکھا ہے۔ یہودیوں کی مرکزی راہب کونسل کا مندرجہ ذیل بیان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
مرکزی راہب کونسل برائے امریکہ و کینیڈا کی پکار:
جب سے سرزمین مقدس کی ملحد حکومت میں تبدیلیاں کی گئی ہیں اس وقت سے شکوک و شبہات کی ایک فضا قائم ہو گئی ہے۔ حتٰی کہ وہ افراد جنہوں نے مقدس سرزمین میں اور جلاوطنی کے دوران توریت پر ایمان رکھا وہ بھی اس نئے گروہ کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ خدا کی جانب کلمہ کفر کا بہتان کس قدر خوفناک ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم آگاہ کریں کہ توریت کے مطابق اس گروہ (صہیونیوں ) میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ ہم سے تین مرتبہ عہد لیا گیا تھا کہ ہم سرزمین مقدس میں طاقت کے ساتھ داخل نہیں ہوں گے، اور جن ممالک میں ہم قیام پذیر ہوں گے، ان کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے اور اپنے گناہوں کے سبب Moshiach کے ظہور میں تاخیر نہیں کریں گے جیسا کہ ”تراکتیت کیسووس ۱۱۱“ میں درج ہے۔
انتہائی افسوس کے ساتھ اس حقیقت کا اقرار کیا جاتا ہے کہ ملحد صہیونی نظریات توریت کے ماننے والوں میں سرایت کر رہے ہیں۔ ہمارے آباو اجداد اور راہبوں نے صہیونیت کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور اگر ہم اس وقت خاموش رہے تو خدا نخواستہ یہ گروہ حقیقی یہودیوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
اے ہمارے بھائیو، جو مقدس سرزمین میں رہتے ہو خاموشی اختیار مت کرو۔ ان صہیونیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرو۔ تم وہاں سے اور ہم یہاں سے اپنی آواز بلند کریں اور تمام دنیا کو بتا دیں کہ ہم ہر نسل میں روایتی طور پر مقدس زنجیر کے اٹھانے والے ہیں۔ ہم اس ملحد صہیونی گروہ جو اسرائیل پر قابض ہے کے ساتھ شامل ہونے کو برا سمجھتے ہیں۔ ہم عوامی سطح پر اپنا موقف جو توریت کا موقف ہے کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ Moshiach کی آمد سے قبل اسرائیل میں کسی قسم کی حکومت توریت کی خلاف ورزی اور اس کے احکام سے بغاوت ہے۔
ماخذ
http://jewsnotzionists.org
No comments:
Post a Comment