Search This Blog

Wednesday, 8 February 2012

یورو، شاندار آغاز سے آج کے بحران تک

یورو، شاندار آغاز سے آج کے بحران تک

سات فروری سن 1992ء کو یورپی برادری کی جانب سے ایک مشترکہ خارجہ اور سلامتی کی پالیسی کے ساتھ ساتھ یورو کرنسی کی بنیاد ماسٹرشٹ معاہدے کے تحت رکھی گئی تھی۔
اس معاہدے کے بعد جرمنی میں جرمن مارک کی جگہ یورو کرنسی نے لی تھی۔  تاہم اس کرنسی کے اجراء کا آغاز تو رنگا رنگ تقریبات اور توقعات سے ہوا تھا، مگر اب یہ کرنسی اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے اور اس کی وجہ بعض یورپی ممالک کی جانب سے ماضی میں کی جانے والی سنگین غلطیاں ہیں۔
ایک اہم جرمن ٹی وی چینل پر برسوں قبل ایک اناؤنسمنٹ میں کہا گیا تھا، ’’برسلز میں یورپی کمیونٹی کے وزرائے خارجہ نے گزشتہ شب ایک ملاقات بعد یہ طے کیا ہے کہ مضبوط جرمن مارک کوزیادہ سے زیادہ سن 1999ء  سے ختم کر دیا جائے۔‘‘
یورو کرنسی اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے
پھر2001ء میں اس مضبوط جرمن مارک کا خاتمہ ہو گیا، یورپی کمیونٹی کی جگہ یورپی یونین نے لے لی مگر اس یونین کا مالیات کا شعبہ کسی خصوصی توجہ سے محروم رہا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس کرنسی کو آج بھیانک خطرات کا سامنا ہے۔ یورو کرنسی کو سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل، فرانسیسی صدر Francois Mitterrand اور لکسمبرگ کے وزیراعظمJean-Claude Juncker  کی اولاد بھی کہا جاتا ہے ۔ یورو کرنسی کو اس وقت اس قدر شدید مشکلات کا سامنا ہے کہ ماہرین سوال کر رہے ہیں کہ کیا اس دور کا یہ ’بے بی‘  کیا ان خطرات کا مقابلہ کر پائے گا؟ اس حوالے سے لکسمبرگ کے وزیراعظم Jean-Claude Juncker کا کہنا ہے، ’میرے خیال میں یہ بچہ اب بچہ نہیں رہا۔ یہ اب اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ گیا ہے۔ یہ اس صورتحال سے بغیر کوئی نقصان اٹھائے گرز جائے گا۔‘
ایک ایسے موقع پر جب یورپی یونین اپنے اراکین کی تعداد میں اضافہ اور یونین میں زیادہ سے زیادہ انضمام کے اقدامات کر رہی ہو،  مشترکہ خارجہ پالیسی اور سلامتی کی  پالیسی جیسے دعوے صرف دعوے ہی کہے جا سکتے ہیں۔ جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کے دور حکومت میں وزرات خزانہ کے امور سرانجام دینے والے تھیو وائیگل نے یورو کرنسی کے نفاذ کے اقدامات میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ انہی نے مشترکہ کرنسی کے لیے یورو کا نام تجویز کیا تھا۔ اس وقت یورپی یونین کے گیارہ وزرائے خزانہ نے ایک معاہدہ کیا تھا، جس کے مطابق یہ طے کیا گیا تھا کہ اپنے اپنے ملک میں مالیاتی استحکام کا خیال رکھا جائے۔ جرمن وزیرخارجہ وائیگل کا تجویز کردہ یہ معاہدہ اس بات پر مرکوز تھا کہ یورو زون میں شامل ریاستیں حکومتی اخراجات زیادہ نہ کریں کہ انہیں قرضوں کے بحران کا سامنا کرنا پڑ جائے۔ اس معاہدے کو ’اسٹیبیلٹی پیکٹ‘ کا نام دیا گیا تھا۔
epa02919324 President of the Eurogroup and Luxemburg's Prime Minister Jean-Claude Juncker during a press conference of the ECOFIN meeting in Wroclaw, Poland, 16 September 2011. During the two-day meeting in Wroclaw, the EU finance ministers, heads of national central banks and governors of financial institutions will discuss about challenges faced by the euro zone and the European banking system in view of Greek crisis. The US treasury secretary Timothy Geithner, invited by Polish Finance Minister Jacek Rostowski, takes part in this year's ECOFIN meeting. EPA/MACIEJ KULCZYNSKI POLAND OUT
لکسمبرگ کے وزیراعظم
وائیگل کہتے ہیں، ’ویسے جب میں نے یہ معاہدہ تجویز کیا تو سب سے پہلے اٹلی کے بجٹ منسٹر نے کہا تھا کہ وہ اسے تسلیم کرتے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہوں گے۔  اس وقت میں نے سوچا تھا کہ شاید انہیں یہ بات ٹھیک سے سمجھ ہی نہیں آئی ہے۔ میں نے اپنے آپ سے یہ سوال کیا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔ پھر انہوں نے بہت واضح اور سچائی کے ساتھ مجھ سے کہا کہ وہ اس معاہدے پر عمل کرتے ہوئے بجٹ کے خسارے کو کم نہیں کر سکتے۔ اٹلی کی داخلہ سیاست میں اس پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ صرف یورپی سطح پر دباؤ ڈالنے سے ہی حل ہو سکے گا۔‘
لیکن شاید یورپی دباؤ ناکافی تھا۔ اسٹیبیلیٹی پیکٹ یا استحکامی معاہدہ زیادہ مضبوط نہ تھا یا شاید جرمنی نے بھی اس معاہدے پر عمل پیرا نہ ہو سکا۔اس طرح شبہات اور کمزوریاں پیدا ہونا شروع ہوئیں اور ہوتی چلی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی یورپی حکومتوں کو یہ کہنا پڑ گیا کہ شاید یونان کو یورپی یونین کی رکنیت دینا ہی ایک غلط فیصلہ تھا۔
تاہم جرمن چانسلر انگیلا میرکل آج بھی پرعزم ہیں۔ ’’ اگر یورو ناکام ہوا تو یہ یورپ کی ناکامی ہو گی، ہمیں یورو کی ضرورت ہے کیونکہ صرف اسی صورت میں ہم اپنی اقدار کا تحفظ کر سکتے ہیں۔‘‘
ماسٹرشٹ کے معاہدے کے بیس برس گزرنے کے بعد آج سوالات یہ ہیں کہ آیا یورو ناکام ہو جائے گا یہ اس کا تحفظ کسی طرح سے ممکن ہو گا۔
رپورٹ: زابینے ہینکل، برسلز /  عاطف توقیر
ادارت: عدنان اسحاق

No comments:

Post a Comment