انسانی تاریخ میں مادی مسرت سے
روحانی مسرت تک کا سفر
شاہنواز فاروقی
انسانی زندگی میں مسرت کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ مسرت کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کی تمام تگ و دو مسرت کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ انسان دولت کمانا چاہتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ مسرت حاصل کرسکے۔ انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے تاکہ خوش ہوسکے۔ انسان عہدے اور منصب کا طالب ہوتا ہے تاکہ انبساط محسوس کرسکے۔ انسان فتح مند ہونا چاہتا ہے تاکہ شادمانی اس کے قدم چوم سکے۔ غرضیکہ مسرت پوری زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ عصر حاضر کے سب سے اہم ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے اگرچہ انسانی فطرت میں اذیت پسندی اور تباہی و بربادی کے رجحانات بھی دریافت کیے ہیں لیکن اس نے بھی انسان کے بارے میں بنیادی بات یہی کہی ہے کہ انسان کی شخصیت مسرت مرکز یا Pleasure Centric ہے۔ کارل مارکس نے سوشلسٹ انقلاب کا تصور پیش کیا لیکن سوشلزم مارکس کی فکر کا ایک مرحلہ تھا۔ مارکس کا خیال یہ تھا کہ انسانی تاریخ کا سفر سوشلزم سے آگے بڑھے گا تو کمیونزم سوشلزم کی جگہ لے لے گا، اور اس مرحلے میں جبر کی تمام صورتیں معاشرے سے ختم ہوجائیں گی، یہاں تک کہ ریاست کا ادارہ بھی تحلیل ہوجائے گا، معاشرہ چھوٹے چھوٹے گروہوں یا ”کمیونز“ میں تبدیل ہوجائے گا، لوگوں کی ضروریات کم ہوں گی اس لیے وہ کام بھی کم کریں گے اور زیادہ وقت ایسی سماجی و ثقافتی سرگرمیوں میں صرف کریں گے جن سے انہیں زیادہ سے زیادہ ”مسرت“ حاصل ہوسکے۔ مارکس کے یہ تصورات خواب و خیال ثابت ہوئی، انسانی تاریخ کبھی کمیونزم کے عہد میں داخل نہ ہوسکی اور سوشلزم کمیونزم کے لیے راہ ہموار کرنے سے قبل ہی دنیا سے رخصت ہوگیا۔ لیکن بہرحال کارل مارکس کا مثالی معاشرہ مسرت کے حصول کو سب سے بڑا مثالیہ یا Ideal سمجھتا تھا۔ تاہم مسرت کا تصور ہمیشہ تصورِ انسان اور تصور کائنات سے ماخوذ رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں نمرود اور فرعون صرف انکارِ حق اور باطل کی علامت نہیں ہیں، وہ مادی مسرت کی بھی علامت ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ انسان اور کائنات کو محض ایک مادی حقیقت سمجھتے تھے اور ان کی زندگی میں صرف دو چیزوں کی اہمیت تھی: ایک طاقت اور دوسری دولت۔ چنانچہ ان کی تمام مسرتیں طاقت اور دولت سے متعلق تھیں۔ ان کے لیے انسان پر حکم چلانے میں ایک لطف تھا، ان کے لیے انسان کو غلام بنانے میں ایک لذت تھی، ان کے لیے دولت اور اس کے مظاہر کی تخلیق میں ایک مسرت تھی، ان کے نزدیک زندگی صرف دنیا تک محدود تھی، مرنے کے بعد کسی زندگی کا کوئی وجود نہیں تھا، چنانچہ ان کے نزدیک ہر لمحے کو مادی مسرت میں ڈھال لینا ہی سب سے بڑی عقل مندی تھی۔ اس کے برعکس مذہب کا تصور یہ تھا کہ انسان اوّل و آخر ایک روحانی حقیقت ہے۔ بلاشبہ انسان ایک جسم بھی ہی، اور جسم کی جسمانی ضروریات بھی ہیں، مگر یہ ضروریات روحانی دائرے کے اندر ہیں، اس سے باہر نہیں ہیں۔ اس طرح مذہب کائنات کو اس کی مادی حقیقت سے آگے بڑھ کر بیان کرتا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ کائنات اللہ کی لاتعداد نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ مذہب کے دائرے میں آخرت کا تصور مسرت کے تصور کو ایک جانب زمین سے اٹھاکر آسمان پر پہنچا دیتا ہی، دوسری جانب وہ مسرت کو عارضی کے بجائے مستقل بنادیتا ہی، اور تیسری جانب وہ مسرت کو ایسی جامعیت عطا کرتا ہے جو روح، نفس اور جسم پر محیط ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اگرچہ عرب کفر اور شرک میں ڈوبے ہوئے تھے لیکن ان میں سے اکثر کا کفر اور شرک ان کی فطرت کی کجی کا نہیں ان کے ماحول کے جبر کا نتیجہ تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کی مسرت کا تصور طاقت اور دولت سے آگے جاتا تھا۔ عرب اپنے تمام تر کفر اور شرک کے باوجود خانہ کعبہ کی بڑی تکریم کرتے تھے اور اس کی دیکھ بھال کو بڑا شرف جانتے تھے۔ ان کے نزدیک خانہ کعبہ کی زیارت اور اس کے طواف کے لیے آنے والے بڑے محترم ہوتے تھے اور ان کی خبر گیری انہیں بہت عزیز تھی۔ عرب بلا کے مہمان نواز تھے۔ ان کی سخاوت کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کے یہاں پناہ کا تصور اتنا مکرم تھا کہ وہ اپنے عزیز ترین شخص کے قاتل کو بھی مخصوص مدت کے لیے پناہ دے دیتے تھے۔ ان کے نزدیک شعر کہنی، شعر سننے اور شعر یاد رکھنے میں کسی بھی چیز سے بڑھ کر مسرت تھی۔ وہ قصیدے کہنے والے شاعروں کے لیے خزانے کا منہ کھول دیتے تھے۔ ان کے نزدیک خطابت بڑا فن تھا اور اس کی مسرت بے پناہ تھی۔ دوستوں کے لیے جان دے دینا اور ان کے لیے جان لے لینا ان کا معمول تھا اور اس میں ان کے لیے بڑے معنی تھے۔ ان کے نزدیک شجاعت ایک اعلیٰ ترین انسانی قدر تھی اور اس کی پاسداری میں ان کے لیے بڑے معنی اور بڑا لطف تھا۔ یہ ساری خوبیاں عربوں میں اس لیے تھیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے درمیان آنا تھا۔ آپ تشریف لائے اور آپ نے وحی اور اسوہ ¿ حسنہ کی قوت اور جمال سے ماحول کے جبر کو توڑ دیا۔ چنانچہ کفر اور شرک کی ضلالت ختم ہوگئی اور بدترین لوگ بھی انسانی تاریخ کے بہترین لوگ بن گئے۔ کم لوگ ایسے تھے جو سلیم الفطرت نہیں تھی، وہ یا تو غزوات میں مارے گئے یا دارلاسلام سے فرار ہوگئی، یا پھر معاشرے میں ناقابلِ اثر بن کر رہ گئے۔ انسانی تاریخ میں ہمارے عہد کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اِس عہد میں کفر اور اس سے پیدا ہونے والی مادیت جتنی ”مدلل“ بنی، اس سے پہلے تاریخ میں کبھی نہیں بنی تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جدید نفسیات نے کہاکہ انسان ایک مادی حقیقت ہی، حیاتیات نے کہا کہ انسان ایک مادی شے ہی، طبیعات نے کہا کہ انسان ایک مادی چیز ہی.... غرضیکہ علم کی کوئی ایسی شاخ نہیں ہے جس نے انسان اور کائنات کو مادیت سے آگے پہچانا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ مسرت کا تصور مادی امور تک محدود ہوگیا۔ انسانوں نے کہاکہ اصل چیز سرمایہ ہی، چنانچہ انہوں نے اس بنیاد پر پوری انسانیت کو تقسیم کردیا۔ انہوں نے کہاکہ جس کے پاس سب سے زیادہ سرمایہ ہے وہ پہلی دنیا ہی، ترقی یافتہ دنیا ہے۔ جس کے پاس اس سے کم سرمایہ ہے وہ دوسری دنیا ہی، ترقی پذیر دنیا ہے۔ جس کے پاس سب سے کم سرمایہ ہے وہ تیسری دنیا ہی، پسماندہ دنیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوموں کا شرف اس بات سے برآمد ہوتا ہے کہ ان کی مجموعی قومی پیداوار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوموں کی قدر کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کی فی کس آمدنی کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اصل چیز تو قوموں کی معیشت کی شرح نمو ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تمام چیزیں عصر حاضر کے بت بن گئیں۔ ان بتوں نے پوری دنیا میں انفرادی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ چنانچہ مغرب کیا مشرق میں بھی دولت مسرت کا سرچشمہ بن گئی۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورت حال جاری رہے گی؟ یا مادی مسرت کا تصور چیلنج ہوگا اور اس کی جگہ مسرت کا زیادہ حقیقی اور زیادہ جامع تصور دنیا میں رائج ہوگا؟ اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں، لیکن مادی مسرت کا رائج الوقت تصور رفتہ رفتہ اپنی کشش کھو رہا ہے۔ اس کی تین شہادتیں اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے اور سوشلزم کے زوال کے بعد مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو پوری دنیا میں جو غلبہ اور تسلط حاصل ہوا تھا اس نے اس تصور کو عام کیا تھا کہ انسانیت کی بقا اس نطام کے تحفظ اور پیروی میں ہے اور یہ نظام اتنا کامیاب اور تضادات سے پاک ہے کہ کم از کم 21 ویں صدی میں اسے کسی قسم کے خطرے کا سامنا نہیں ہوگا۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف وال اسٹریٹ سے شروع ہونے والے احتجاج نے جس طرح عالمگیر صورت اختیار کی اس نے ثابت کردیا کہ سرمایہ دارانہ نظام سنگین داخلی بحران کا شکار ہی، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کسی حریف کے بغیر ہی اس کی کمزوریاں عیاں ہوگئی ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تصورات سے وابستہ مسرتیں خطرے میں ہیں۔ مادی مسرت کے تصور کو درپیش مسائل کا ایک ثبوت یورپ میں یورو کا بحران ہے۔ یورپی اتحاد یقینا ایک سیاسی اتحاد بھی ہی، لیکن اس کا معاشی پہلو سیاسی پہلو پر غالب ہے۔ اس کی ایک شہادت مشترکہ منڈی کا تصور ہی، جبکہ اس کی دوسری شہادت مشترکہ کرنسی کا نظام ہے۔ تاہم یورپی معیشت کے بحران نی.... یورو کا بحران جس کا سب سے بڑا مظہر ہی.... مادی مسرت کے تصور کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ یورپ جو کبھی سماجی بہبود، کم اوقاتِ کار، طویل تعطیلات، مادی مواقع اور مساوی تنخواہوں کی سرزمین تھا اب سماجی فوائد میں کمی کی سرزمین بن گیا ہے۔ بچت اور سادگی کے نام پر روزگار کے مواقع محدود کیے جارہے ہیں اور محنت کشوں کی منڈی میں سخت مقابلے کی فضا پیدا ہوچلی ہے۔ یورو کے بحران نے یونان کی معیشت کو بنیادوں سے ہلا دیا ہے اور اس بات کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے کہ یونان یورپی اتحاد سے الگ ہوسکتا ہے۔ جرمنی کا کہنا ہے کہ یونان خود اپنی تباہی کا ذمے دار ہے۔ جرمنی میں یہ خیال عام ہے کہ یونان کے لوگ کاہل اور ناقابلِ اعتبار ہیں۔ اس کے برعکس یونان کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان کے مسائل کا ذمے دار فرانس اور بالخصوص جرمنی ہے جو یورپ میں سب سے بڑا ملک ہونے کی وجہ سے اپنی شرائط پورے یورپ پر مسلط کررہا ہے۔ مادی مسرت کے تصور کی پسپائی کا ایک چھوٹا سا مظہر یہ ہے کہ بھوٹان کی حکومت نے مسرت کے حصول کو عوامی مفاد اور اجتماعی ہدف قرار دے دیا ہے۔ بھوٹان میں اس کام کی ابتدا 1970ءمیں ہوئی تھی جب بھوٹان کے سابق بادشاہ جگمے سنگھے وانگ چک نے مجموعی قومی پیداوار یا جی این پی کے بجائے مجموعی قومی مسرت یعنی جی این ایچ کا تصور پیش کیا اور کہا کہ مسرت کا حصول بھوٹان کی قومی پالیسی ہے۔ اس سلسلے کا تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے ایک قرارداد میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اقتصادی نمو اور سماجی ترقی کے سلسلے میں مسرت کی اہمیت فیصلہ کن ہے۔ پیرس میں قائم اقتصادی تعاون اور ترقی سے متعلق تنظیم OECD نے ملکوں کے حالات کے تعین کے لیے ”پیمانہ ¿ مسرت“ متعارف کرایا ہے جس کے تحت مختلف ملکوں کے لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ اپنے روزگار کو پسند کرتے ہیں؟ آپ کی صحت کیسی ہی؟ کیا آپ اپنے بچوں کے ساتھ ضرورت کے مطابق وقت گزارتے ہیں؟ کیا ضرورت کے وقت آپ کے دوست آپ کے ساتھ ہوتے ہیں؟ کیا آپ اپنے پڑوسیوں پر اعتماد کرتے ہیں؟ آپ اپنی مجموعی زندگی سے کتنے مطمئن ہیں؟ ان سوالات کے جوابات کی روشنی میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ کس ملک کے لوگ کتنے خوش اور مطمئن ہیں۔ اطلاعات کے مطابق تائیوان نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہر سال مجموعی مسرت کا گوشوارہ (Index) جاری کرے گا۔ تھائی لینڈ میں بھی اس حوالے سے پیش رفت کا امکان ہے۔ یہ صورت حال اس امر کی غماز ہے کہ مذہب کے بغیر بھی مادی مسرت کے تصور میں روحانی مسرت کا تصور در آیا ہے۔ لیکن روحانی مسرت کا یہ تصور مجرد بھی ہے اور ناکافی بھی۔ اس کے برعکس اسلام روحانی مسرت کے تصور کو نیکی کے ساتھ منسلک کرکے ٹھوس، وسیع اور ہمہ گیر بنادیتا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کے بنیادی تصورات چار ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کی اصل اور سب سے بڑی مسرت یہ ہے کہ اس کا خالق، مالک اور رازق اس سے راضی ہوجائی، کیونکہ خدا کو خوش کیے بغیر انسان کی کسی خوشی کا کوئی مفہوم ہی نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خدا کی خوشی کو جاننے کا طریقہ کیا ہی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا کے حقوق کی ادائیگی اس کی واحد صورت اور اس کا واحد معیار ہے۔ اسلام کا دوسرا بنیادی تصور یہ ہے کہ انسان خود اپنے آپ سے کتنا خوش ہی؟ اس کی گواہی صرف انسان کا ضمیر فراہم کرسکتا ہے۔ ضمیر کا اطمینان شخصی مسرت کی اعلیٰ ترین اور ٹھوس صورت ہے۔ اسلام کا تیسرا تصور یہ ہے کہ انسان سے دوسرے انسان کس حد تک خوش ہیں؟ یہ حقوق العباد کا دائرہ ہے اور یہاں معاملہ گھر کے افراد سے شروع ہوتا ہوا عزیزوں، پڑوسیوں اور ساری دنیا کے انسانوں تک جاتا ہی، اور اسلام بتاتا ہے کہ اپنے بھائی کے لیے مسکرا دینا بھی صدقہ یا نیکی ہے۔ اسلام میں نیکی کی اہمیت یہ ہے کہ یہ پوری کائنات فنا ہوجانے والی ہے البتہ ذرے کے برابر کی گئی نیکی بھی باقی رہنے والی ہے۔ اسلام کا چوتھا تصور یہ ہے کہ انسان نے دائمی زندگی یا آخرت کے لیے کتنی فکر اور کتنا عمل کیا؟ فرض کیجیے کہ اگر انسان نے سارے عمل دنیا کے لیے کیی، تو اس میں مسرت کی کوئی بات نہیں۔ البتہ اگر اس کے تمام یا اکثر عمل آخرت کے لیے ہیں تو یہ انتہائی مسرت کی بات ہے۔ یہ حقیقی مسرت کے وہ تصورات ہیں دنیا جن سے ناآشنا ہی، یہاں تک کہ مسلمان بھی ان سے اس طرح آگاہ نہیں جس طرح ان سے آگاہ ہونے کا حق ہے۔ لیکن ان تصورات کے ذریعے ہی دنیا حقیقی مسرت سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment