Search This Blog

Friday, 30 March 2012

اولوں کے انتظار میں ایک برہنہ سر

اولوں کے انتظار میں ایک برہنہ سر

خالد احمد ـ 
امریکی ادب کے شاہکار ناول ’اَنکل ٹام، ز کیبن‘، "UNCLE TOM's CABIN" کا رہائشی سچائی اور دانائی کا سیاہ فام پیکر بالآخر امریکی سیاست کی جادونگری کے مرکز ’ وائٹ ہاﺅس‘، "WHITE HOUSE" کا رہائشی قرار پا گیا! سیاہ فام افریقی امریکیوں نے یہ سفر ایک دن میں طے نہیں کیا! لاکھوں نے ظلم و ستم کی بے شمار سرد اورسیاہ راتیں ٹھٹھرتے گزار دیں اور لاکھوں ہی دن دِہاڑے کوڑے کھاتے کھاتے زندگی کی بازی ہار گئے۔ افریقی امریکیوں کے حقوق کے لئے آواز اُٹھانے والے سفید فام امریکی بھی جانوں سے گزر گئے ! مگر اُن کی قربانیاں رائگاں نہیں گئیں! اُن کے خون نے جہاں سفید فام رگوں میں ٹھاٹھیں ماریں ! وہاں سیاہ فام رگوں میں ٹھاٹھیں مارتا خون بھی گرما دیا! حتیٰ کہ صرف 50سال کی مسلسل جدوجہد نے امریکی مزاج بدل کے رکھ دیا! اور جنابِ بارک حسین اوباما امریکہ کے صدر قرار پا گئے! ری پبلکن، جنابِ بارک حسین اوباما کا دورِ اقتدار مختصر کرنے کے لیے ایک ’چاکلیٹ ہیرو‘کی تلاش میں ہیں! اُن کا خیال ہے کہ ایک خوب صورت شخص ہی جنابِ بش سینئر اور جنابِ بش جونیئر کی پھیلائی ہوئی بدصورتی سمیٹ کر ٹھکانے لگا سکتا ہے! جبکہ ڈیموکریٹ اس بدصورتی کے خدوخال واضح تر کرنے میں مصروف ہیں! جنابِ بارک حسین اوباما صہیونی لابی کے سامنے ایران پر بے جواز حملے کے اخراجات کا بِل رکھ چکے ہیں! اور اب اُنہیں اپنے ووٹروں سے صرف ایک بات پوچھنا ہے کہ کیا وہ امریکہ کے لئے ایک اور بے مقصد جنگ میں کود پڑنا اور اپنے تمام وسائل اس بے مقصد جنگ کی بھینٹ چڑھا دینا پسند کریں گے؟یہ ایک ایسا سوال ہو گا، جس کا جواب صرف نفی میں ملے گا! اور جنابِ بارک حسین اوباما کے لئے دوسرا دورِ اقتدار بہت بڑی اکثریت کے ساتھ سامنا آجائے گا!
کتنی عجیب بات ہے کہ امریکی مزاج میں یہ انقلابی تبدیلی صہیونی مزاج میں ابھی تک کوئی تبدیلی منعکس نہیں کر سکی! صہیونی آج بھی اِس دُنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہیں! اور امریکی سیاست کی خواب گاہ سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں! ’کہ اِن کی زَر کی طلب بے سزا نہ چھوٹے گی! ‘ اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرتی مزاج میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آ رہی! دُنیا بھر کے مصائب ہماری جان کو آ چکے ہیں! مگر ہمیں خبر ہی نہیں کہ زَر کی طلب کے سوا بھی کوئی جذبہ زندگی کا مقصد ہو سکتا ہے! یار لوگ ’میامی‘ میں امریکہ کے سب سے خوب صورت سیاہ و سفید محل کی تعمیر کے بعد اُس کی تزئین و آرائش میں جتے ہیں! تاکہ محفوظ راستہ فراہم ہوتے ہی وہاں فروکش ہو سکیں! یہ بات ہماری نسبت وہ لوگ بہتر طور پر جانتے ہیں، جنہیں یار لوگوں کی قربت حاصل ہے! اور اُن کے قرابت دار نہ ہوتے ہوئے بھی اُن کے مقربین میں شمار کئے جاتے ہیں!
ہم سینئر صحافی جنابِ نجم سیٹھی کی ہر بات بہت غور سے سنتے ہیں! اور اُس کا تجزیہ کرتے ہیں! رات گئے اُنہوں نے بتایا کہ اگر عدالتِ عالیہ نے جنابِ سید یوسف رضا گیلانی کے لیے اڈیالہ جیل کا راستہ کھول دیا، تو، وہ عدالت سے سیدھے اڈیالہ پہنچیں گے ، جہاں جیل سپرنٹنڈنٹ اُنہیں سلیوٹ کرکے مہمان خانے میں لے جائیں گے! اُن کی چائے اور کافی کے ساتھ خاطر تواضع کریں گے! اور پھر جنابِ رحمن ملک ’ایوانِ وزیراعظم‘ کو وزیراعظم کے لئے ’سب جیل‘ قرار دینے کا حکم جاری فرما دیں گے! لہٰذا وہ ایک بار پھر ’پرزن وین‘ میں تشریف فرما ہوکر ’ایوانِ وزیراعظم‘ میںدوبارہ ’قید فرما‘ ہو جائیں گے! اور اُس کے بعد وہ وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کرکے نئی صورتِ حال پر نئے فیصلے صادر فرمائیں گے! جنابِ نجم سیٹھی کا فرمانا تھا کہ یہ کوئی ’مبتذل‘ بات نہیں! اس انداز میں سوچا جا رہا ہے! اور یہ ’متبادل‘ بہت سی دیگر ’متبادل‘ صورتوں میں سے ایک صورت کے طور پرسب سے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ زیرِ غور ہے! واضح رہے کہ کچھ الفاظ کا اِدھر اُدھر ہو جانا عین ممکن ہے ! مگر مفہوم صد فی صد یہی تھا! حتیٰ کہ جنابِ منیب الرحمن نے یہ بھی پوچھ لیا کہ وہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے وقت ’جیل کے لباس‘میں فروکش ہوں گے ؟ یا، عام لباس میں؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ساری مضحک صورتِ حال میں اِس سے زیادہ سنجیدہ سوال نہیں اُٹھایا جاسکتا تھا! عین ممکن ہے کہ یہ معاملہ بھی ’عدالتِ عظمیٰ‘ میں زیرِ بحث آئے! اور اس پر بھی فیصلے کے لئے وزیر اعظم کی طرف سے جنابِ چودھری اعتزاز احسن ہی پیشِ عدالت ہوں!
اس اکیلی بات سے واضح ہو رہا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس سمت رواں ہے؟ اور یہ سمت ہمیں کس طرف لے جا رہی ہے! امریکہ سے ہمارے مطالبات بڑھتے چلے جا رہے ہیں! ہمارا قد گھٹتا چلا جا رہا ہے! اور ہمارے ادارے چند مسخروں کے ہاتھ آ چکے ہیں! ہمیں ’سیمسن اینڈ ڈلائیلا‘کا آخری منظر یاد آ رہا ہے! ’سیمسن‘ کے بال بڑھ چکے ہیں! اُس کی غیرمعمولی توانائی واپس آ چکی ہے! اور اُسے سرِعام ذلیل کرنے کے لیے ’بونے مسخروں‘ کے جلو میں بادشاہ سلامت کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے! ’بونے مسخرے‘ گدھوں کی کھوپڑیوں سے مسلح ہیں! اور وہ بار بار ’سیمسن‘ کی پنڈلیوں پر گدھوں کی کھوپڑیوں کے کھلے ہوئے جبڑے قینچیوں کی طرح چلا کے اُسے کاٹ رہے ہیں! ہر وار پرنابینا ’سیمسن‘چونک پڑتا ہے! اور مسخرے ایسے ہر وار کے بعد قلابازیاں کھاکھا کے لوگوں کو ہنسا ہنسا کر بے حال کرتے چلے جا رہے ہیں!کیونکہ یہ ’تذلیل‘ایک منصوبے کا حصہ تھی! لہٰذا ’ڈلائیلا‘ بادشاہ سلامت کے پہلو سے اُٹھی! اور ’سیمسن‘ کا ہاتھ پکڑ کر اُسے قربان گاہ کے عین وسط میں لے گئی! اُس لمحے ’سیمسن‘ نے ’ڈلائیلا‘ سے پوچھا، ’قربان گاہ کے ستون کہاں ہیں؟‘..... ڈلائیلا کچھ کہے بغیر اُسے ایک جڑواں ستون کے پاس لے گئی! ’سیمسن‘ نے ان جڑواں ستونوں کے درمیان کھڑے ہوکر اُنہیں گرانے کی کوشش کرنا شروع کی،تو، لوگوں کا ہنس ہنس کے بُرا حال ہو گیا! مگر بادشاہ سلامت کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا! کیونکہ صرف وہ جانتے تھے کہ اب کیا ہو گا؟ ایک زلزلہ آگیں گڑگڑاہٹ پیدا ہوئی! اور آتش کدہ زمین پر آ رہا! یہ بلند و بالا آتش کدہ بادشاہ سلامت سمیت تمام لوگوں کے لیے موت بن گیا! ’ڈلائیلا‘ نے ’سیمسن‘ کے لیے قربان گاہ کی پتلی گلی پہلے سے کھلا رکھی تھی! نابینا ’سیمسن‘ وہاں سے صحیح سلامت نکل گیا! مگر ’ڈلائیلا‘ نے مرتے ہوئے بادشاہ سلامت کے ساتھ مر جانا قبول کر لیا! کیونکہ اُس نے بادشاہ سلامت کی ملکہ بننے کے لئے ’سیمسن‘ کے بال کاٹے تھے! وہ اپنے جرم کی سزا بھگتنا چاہتی تھی! اب یوں ہے کہ امریکہ میں صہیونی لابی امریکیوں کے بال کترنے کے لیے مستعد بیٹھی ہے! اور پاکستان میں ہم سب اپنے سر اپنے ہاتھوں مونڈدینے کے لیے ہمہ وقت تیار بیٹھے ہیں کہ ہم وہی کچھ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں، جسے مغرب بعض اوقات باامر
مجبوری کرتا ہے! مگر ہم اُسے فیشن سمجھ کر اپنا لیتے ہیں!


(کالم نگار کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اظہار کردہ خیالات انکے ذاتی ہیں۔ ہمارا ان خیالات سے اتفاق ضروری نہیں)

No comments:

Post a Comment