Search This Blog

Thursday, 1 March 2012

یا شرعِ مسلمانی یا دیر کی دربانی ۔۔۔!

یا شرعِ مسلمانی یا دیر کی دربانی ۔۔۔!

طیبہ ضیاء 

افغانستان میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا ایک اور شرمناک واقعہ، مسلمانوں میں اشتعال انگیزی کا ایک اور تشویشناک واقعہ، ایک اور سیاسی چال، مسلمانوں کے خلاف ایک اور سازش ، افغانستان میں شکست کا ماتم منایا جا رہا ہے یا اسلام کو تحقیر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ افغانستان میں فسادات درحقیقت افغانیوں میں امریکہ مخالف جذبات کا شدید ردعمل ہےں۔ پاکستان اپنی پہچان کھو چکا ، آدھا تیتر آدھا بٹیر، ہمسایہ ملک کے جذبات کو دہشت گردی سے منسوب کرتا ہے۔ علامہ اقبالؒ ملت کے اس منافقانہ رویہ سے دل برداشتہ تھے
یا شرعِ مسلمانی یا دیر کی دربانی
یا نعرہ مستانہ کعبہ ہو کہ بُت خانہ

علامہؒ فرماتے ہیں کہ یا تو انسان صحیح معنوں میں مسلمان بن کر اسلامی شرع پر چلے یا غیر اسلامی طاقتوں کا دربان بن کر کفار کی خدمت کرے یا اتنا بہادر اور جرات مند ہو جائے کہ کعبہ میں جائے یا بُت خانہ میں اور ہر جگہ غلط باتوں کے خلاف احتجاج کرے اور علی الاعلان حق بات کا اظہار کرے۔ یہ جو منافقانہ رویہ ہے اس کا نام سیاست رکھ دیا گیا ہے۔گورا بھی ناراض نہ ہو اور مسلمان بھی راضی رہیں۔ اس منافقانہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان دہشت گردی کی نذر ہو چکا ہے۔ نامعلوم افراد نے کوہستان کے مقام پر بسوں پر سوار مسافروں پر اندھا دھند فائرنگ کر دی، اٹھارہ بے گناہ شہریوں کو قتل کر دیا، بارہ مسافر زخمی ہیں، مسافروں کو شناخت کے بعد گولیاں مار دی گئیں۔ جاں بحق ہونے والوںکا تعلق گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں سے تھا۔ اس خبر کے بعد مزید کسی خبرکو پڑھنے کی ہمت نہیں رہی جبکہ سیاستدانوں نے حالیہ سانحہ پر بھی مخصوص روایتی جملہ ”مذمت“ کی ادائیگی سے عوام کے ووٹوں کا قرض چکا دیا۔ اس سے پہلے بھی مبینہ دہشت گردی کا ایک واقعہ کوئٹہ میں پیش آ چکا ہے اور اب اسی نوعیت کا ایک اور دردناک واقعہ گلگت کوہستان میں پیش آیا۔ فاٹا، گلگت، بلتستان، کرم ایجنسی میں شیعہ سُنی اختلافات کے واقعات منظر عام پر آتے رہے مگر دہشت گردی کا یہ منفرد طریقہ بربریت اور انسانیت کے منہ پرکالک اور حکومتی اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ جہاں تک امریکہ کے منہ کا تعلق ہے تو وہ افغانستان میں شکست کے بعدکسی کو اپنا منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ افغانستان میں قرآن پاک نذر آتش کرنے اور دو امریکی عہدیداروں کی ہلاکت جیسے واقعات سے ناٹو افواج کی نفسیاتی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں اپنے خلاف ایک بڑا محاذ کھڑا کر لیا ہے۔ طالبان میں قطر سے مذاکرات کرنے والے امریکہ کو افغانستان میں شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے افغانیوں کی زندگی مشکل بنا دی ہے، قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ قرآن سوزی جیسے واقعات سے افغانستان سے انخلا کے جواز فراہم کئے جا رہے ہیں۔ عراق کی طرح افغانستان بھی امریکہ کے لئے پسپائی اور ندامت کی علامت بن چکا ہے۔ افغانستان خانہ جنگی کا متحمل نہیں جبکہ قرآن سوزی کا واقعہ انتہائی تشویشناک صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ مسلمان غیر مسلمین کے مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔ ایک مسلمان دشمنان اسلام کی مذہبی کتابوں کی بے حرمتی کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں اسلام کی بے حرمتی کے واقعات نفرتوں میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں۔ صدر اوباما نے افغانستان کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں سکیورٹی ذمہ داریوں کی منتقلی ضروری ہے تا کہ امریکہ افغان حکومت کو مستقبل میں افغانستان کی سرحدوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لئے مدد فراہم کر سکے۔ گوروں کی حکمرانی ، آپس میں اتحاد، اسلام مخالف جذبات، آج کی بات نہیں البتہ آج کا مسلمان پہلے والا نہیں۔ گورے کی تاریخ تسلط اور ظلم سے بھری پڑی ہے مگر مسلمانوں نے سمجھا گورا بدل گیا جبکہ گورے کا مذہب اس کی رعونت اور فرعونیت ہے مگر افسوس کہ بر صغیر کا مسلمان اپنی حقیقت کو فراموش کر چکا ہے۔ علامہؒ فرماتے ہیں
ضمیر اس مدنیت کا دیں سے ہے خالی
فرنگیوں میں اخوت کا ہے نسب پہ قیام
بلند تر نہیں انگریز کی نگاہوں میں
قبول دینِ مسیحی سے برہمن کا مقام
اگر قبول کرے دینِ مصطفےٰ انگریز
سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام

No comments:

Post a Comment