Search This Blog

Monday, 5 March 2012

غیرت دیں کا امتحان

غیرت دیں کا امتحان
علی خان

رنج وغم کے ساتھ طیش اور غصہ فراواں ہے۔ ہونا بھی چاہیے، یہ مسلمانوں کے دین وایمان کا معاملہ ہے۔ یہ کسی ایسی کتاب کا معاملہ نہیں جس پر اعتقاد رکھنے والے خود اس کا احترام نہیں کرتے اور آسمانی کتابوں کو اس قدر مسخ کردیا ہے کہ اب وہ انسانوں کا ایسا کارنامہ بن کر رہ گئی ہیں جن کے ہر ایڈیشن میں تضاد ہے۔ قرآن کریم تو اللہ کی آخری کتاب ہے جس کے زیروزبر میں بھی تبدیلی نہیں ہوئی۔ لیکن بات صرف اتنی نہیں ہے۔ تمام جہانوں کے ربّ کا یہ کلام تمام بنی نوع انسان کے لیے سرچشمہ ہدایت ہے لیکن جو اس پر ایمان لائے ان کے لیے تو اس کا احترام اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہے۔ اسی لیے افغانستان میں کتنے ہی لوگ اپنی جان قربان کرچکے ہیں اور بے حرمتی کرنے والوں کی جان لے رہے ہیں۔ یورپ وامریکا کے خدا بیزار اور دنیا دار اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ ایک مسلمان کے نزدیک قرآن کریم اور نبی آخر الزماںؐ کی حرمت کیا مقام رکھتی ہے۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ’’تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں جب تک وہ اپنے والدین اور دنیا کی ہر شے سے زیادہ مجھے محبوب نہ رکھے۔‘‘ یہ تو پیغام بر سے محبت کا تقاضہ ہے تو پیغام کی اہمیت کیا ہوگی؟ یہ بھی ممکن ہے کہ مسلمانوں کے دشمن قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت سے خوب واقف ہوں یہ دیکھنا چاہتے ہوں کہ اُمت مسلمہ میں کتنی جان باقی رہ گئی ہے۔ وہ یہ امتحان گاہے گاہے کسی نہ کسی شکل میں لیتے رہتے ہیں۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ عالم اسلام پر ایسے حکمران مسلط ہیں جن کو دین وایمان سے کوئی غرض نہیں اور ان کی پوری کوشش ہے کہ مسلمان بھی ان کی طرح نئے خدائوں کے آگے سر جھکا دیں۔ جیسا کہ معمر قزافی اپنی سبز کتاب کو قرآن کریم سے زیادہ اہمیت دیتا تھا۔ تیونس، مصر، شام اور کتنے ہی مسلم ممالک ایسے ہیں جہاں کے حکمران یورپ وامریکا کے سامنے سجدہ ریز ہیں اور ایک سجدے کو گراں سمجھنے والے ہر طاقت کے آگے سر جھکا رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی دہشت گردوں کے ہاتھوں قرآن کریم کی بے حرمتی کا جو تازہ واقعہ ہوا ہے غالباً اس کی اطلاع ایوانوں تک نہیں پہنچی یا پہنچی بھی تو ادراک نہیں ہوا کہ کیا سانحہ ہوگیا۔ ممکن ہے ایک دوسرے سے پوچھتے ہوں کہ یہ ہنگامہ کس بات پر ہورہا ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ حکمرانوں کو قرآن کریم کی حرمت اور تقدس کا علم نہیں
؟۔۔۔۔۔ مسلمانوں کے تو56 سے زیادہ ممالک ہیں اور کیا یہ اُمت مسلمہ کا اجتماعی مسئلہ نہیں ہے اور کون کون اس پر بولا ہے، کس نے امریکا کی مذمت کی ہے؟ لیکن ایسی جرأت کس میں ہے۔ وہ جو امریکا کے سہارے اپنے اپنے ملک میں حکمرانی اور اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں وہ کیا بولیں گے۔ وہ ایک تنظیم اسلامی کانفرنس کے نام سے ہوتی تھی۔ جب بنی تھی تو گمان تھا کہ امت مسلمہ کی نمائندگی کرے گی عرصے سے لاپتا ہے۔ منہ میں گھونگنیاں بھر کے بیٹھنا شاید اسی کو کہتے ہیں۔ لیکن گھونگنیاں بھی کبھی تو حلق سے نیچے اتر جاتی ہوں گی۔ اگر تنظیم اسلامی کانفرنس یا او آئی سی میں کچھ جان ہوتی تو یہ مسلم اقوام متحدہ کا کردار ادا کرسکتی تھی۔ اب تو بڑی طاقتوں کی ’’اقوام متحدہ‘‘ ہی سب کے لیے سب کچھ ہے۔ فیصلہ مسلم ممالک کے خلاف ہو تو بھی مسلم حکمران یہ کہہ کر بے بسی کا اظہار کردیتے ہیں کہ ہم کیا کریں، اقوام متحدہ کا فیصلہ ہے، اس کی خلاف ورزی کیوں کر کی جائے۔ لعنت ہے ایسی بزدلی پر۔ یہ بزدلی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب موت کا خوف غالب آجائے اور زندگی سے محبت ہوجائے، وہ زندگی جو بہرحال ختم ہوتی ہے اور وقت مقررہ سے زیادہ ایک سانس کی بھی گنجائش نہیں۔ لیکن حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ ’’قیامت کے بوریے‘‘ سمیٹیں گے۔ انہیں مرنا ہی نہیں ہے۔ خودکش حملہ آور یقیناً بہت برے لوگ ہیں اور ہرگز کسی تعریف کے مستحق نہیں، بے گناہوں کے قاتل ہیں لیکن یہ تو ماننا پڑے گا کہ اپنے مقصد کی خاطر جان قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے خواہ ان کا مقصد کتنا ہی مذموم قرار دیا جائے۔ جان دینا آسان نہیں ہوتا۔ افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کے خلاف احتجاج کرنے والے افغان عوام بھی خوب جانتے ہیں کہ انتہائی ظالم فوجوں کے مقابل آرہے ہیں جو جدید ترین اسلحہ رکھتے ہیں۔ پھر بھی جان قربان کررہے ہیں۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں لیکن جس نے زندگی دی ہے اس کی راہ میں قربان کردی جائے تو ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں، اس راہ میں مارے جانے والے زندہ رہتے ہیں اور اپنے ربّ کی طرف سے رزق پاتے ہیں لیکن ہر ایک کو اس کا شعور کہاں۔ میرے سامنے ایک رپورٹ پڑی ہوئی ہے۔ انگریزی میں ہے۔ کہا گیا ہے کہ 2001ء کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ افغانستان میں طالبان، پولیس، فوج، شیعہ، پشتون، ازبک اور ترکمان امریکا کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔ افغانستان میں قابض امریکی فوج کا سب سے بڑا عسکری اڈہ بگرام کئی دن سے محاصرے میں ہے۔ مشتعل افغان کوشش کررہے ہیں کہ اڈے میں گھس کر امریکی کمانڈروں کو باہر کھینچ لائیں۔ افغانستان میں دیگر امریکی فوجی اڈے بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا کے مغرور صدر بارک اوباما نے اپنے فوجیوں کے ہاتھوں قرآن کریم کی بے حرمتی پر معافی مانگی ہے۔ یہ معافی ہرگز نہ مانگی جاتی اگر افغان عوام متحد ہو کر احتجاج نہ کرتے۔ ورنہ تو امریکی فوجیوں نے یہ کام پہلی مرتبہ نہیں کیا۔ گوانتاناموبے میں تو یہ بدبخت قرآن کریم کو فلش میں بہا کر بے بس مسلمان قیدیوں کے جذبہ ایمانی سے کھیلتے رہے ہیں۔ یورپی ممالک نے مقدس ترین ہستی کے کارٹون بنانے پر آج تک معافی کیا کسی شرمندگی تک کا اظہار نہیں کیا کیونکہ وہاں اسلام دشمنوں کا غلبہ ہے اور عالم اسلام نزع کے عالم میں ہے۔ کبھی مسلمانوں کے ایک خلیفہ نے دھمکی دی تھی کہ قرآن کریم کی بے حرمتی کی گئی تو پورے عالم اسلام میں ایک بھی کلیسا اپنی بنیادوں پر کھڑا نہیں رہ سکے گا۔ آج کے حکمرانوں میں یہ دم، خم ہی نہیں۔ بے شمار اندیشے، خوف اور خدشے لاحق ہیں، مفادات اپنی جگہ۔ بھوکوں مر جانے کا خوف۔ یہ خدشہ کہ پابندیاں لگ گئیں تو رزق کون دے گا۔ اب کہاں یاد کہ رازق حقیقی کون ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن دھمکی دیتی ہے کہ ایران سے لین دین کرنے پر پاکستان پر بھی پابندیاں لگا دیں تو اس کی معیشت تباہ ہو جائے گی جو پہلے ہی اچھی نہیں ہے۔ اتنا ہی سوچ لیا جائے کہ برسوں تک امریکا کی غلامی کے باوجود کیا حاصل ہوا، یہ تباہ حال معیشت، تخریب کاری، دھماکے، ڈرون حملےوغیرہ۔ اس سے زیادہ اور کیا ہوگا جو اب ہورہا ہے۔ کیا اللہ اپنے بندوں کو کافی نہیں اور کیا وہ آج بھی اپنی ہوائوں کو تیز تر چلنے اور سمندروں کو ساحلوں پر چڑھ جانے کا حکم نہیں دے سکتا۔ وہ قرآن کریم جس کی بے حرمتی اسلام دشمن کررہے ہیں، کبھی اسے کھول کر دیکھیں تو یہ تسلی ملے گی کہ اگر اللہ کی اطاعت کرو گے تو آسمان سے رزق برسے گا اور زمین سے اُبلے گا۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ’’جانتا ہوں ثو اب طاعت وزہد۔ پر طبیعت ادھر نہیں آتی۔‘‘ طبیعت تو کہیں اور کسی اور پر آگئی ہے۔ ہمارے حکمران امریکا کے اشاروں پر چلنے کو ہی حکمت سمجھتے ہیں۔
بقول حضرت عزیز جبران انصاری:
بہ نام دور اندیشی کھلائے کیسے کیسے گُل
حماقت کے سجے ہیں ہر طرف بازار اب کے بھی
(کہیں یہ نام حیران نہ کر دیاجائے) ہمیں گمان ہے کہ استاد کا اشارہ حکمرانوں کی طرف نہیں ہوگا کیونکہ اب بات اشارے، کنایے سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ صحافیوں کی ایک تقریب میں ہم نے ایک عمر رسیدہ صحافی کی اشاروں کنایوں میں بات کرنے پر کہہ دیا کہ اب آپ کی عمر اشارے کرنے کی نہیں رہی۔ برا مان گئے۔ کہنے لگے، بدگمانی دور کرلیں، ابھی یہ مرحلہ نہیں آیا۔ حالانکہ ایک عمر ایسی آجاتی ہے جب انسان کا حال یہ ہوتا ہے کہ ’’گو ہاتھ کو جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے۔‘‘ اب اس کیفیت میں تو آنکھوں سے اشارہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال پاکستان ہی کیا تقریباً تمام مسلم ممالک کے ایوانوں میں حماقت کے جمعہ بازار سجے ہوئے ہیں اور ضروری نہیں کہ یہ بازار صرف جمعہ کو لگتے ہوں۔ ہمارے علاقہ میں تو اتوار کو لگنے والا بازار بھی جمعہ بازار کہلاتا ہے۔ اب افغان عوام تو جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور امریکا کے وائسرائے جو صدر افغانستان جناب حامد کرزئی کہلاتے ہیں، اپنے عوام کو مشورہ دے رہے ہیں کہ بس بہت ہوگیا، اب ٹھنڈے ہو کر بیٹھ جائو ورنہ افغانستان کے دشمن اس اشتعال سے فائدہ اٹھا لیں گے۔ کوئی پوچھے کہ افغانستان کے دشمن کون ہیں؟ کیا یہ وہی نہیں جو افغانوں کی خودی، افغانستان کی سالمیت اور آزادی کو پامال کرکے گزشتہ 10 سال سے قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اورجنہوں نے آپ کو بھی کابل کے محدود سے علاقہ میں قبضہ دے رکھا ہے کہ بس یہیں تک رہنا۔ مگر اب تو خود یہ قابض صلیبی اپنے قلعہ بند اڈوں سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں کر پارہے۔ برطانیہ نے نکل بھاگنے کی تیاریاں کرلی ہیں۔ افغانستان کے حالات کا تجزیہ کرنے والی ٹیم کی رپورٹ یہ ہے کہ ناٹو اور امریکی فوجیوں کو یہ نہیں معلوم کہ وہ افغان طالبان کے ہاتھوں مارے جائیں گے یا افغان پولیس اور فوج ہی میں سے کوئی انہیں نشانہ بنائے گا۔ افغان پولیس اور فوج کے ایسے اہلکاروں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جن کی بندوقوں کا رخ امریکی فوجیوں کی طرف ہوگیا ہے جنہوں نے ان کی تربیت کی تھی۔ ویسے پیدائشی جنگجو افغانوں کو فوجی تربیت دینا بھی ایک اچھا مذاق ہے۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ امریکی اور ناٹو فوجی افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور پُرپیچ وادیوں میں لڑنے کے لیے افغانوں سے تربیت حاصل کرتے اور کچھ نہیں تو روسی فوجیوں ہی سے سبق لے لیتے۔ افغانستان میں فوجی افسروں، پولیس اہلکاروں اور استادوں تک نے قرآن کریم کی بے حرمتی پر امریکیوں کو قتل کرکے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے افغان مشن کے سربراہ بان کوئش نے افغانوں کے احتجاج کو جائز قرار دیتے ہوئے اتحادی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اُدھر قرآن کریم کی بے حرمتی پر گوانتاناموبے کے امریکی عقوبت خانے کے قیدیوں نے بھوک ہڑتال کردی ہے۔ اوباما صرف معافی مانگ کر تلافی کرنا چاہتے ہیں مگر کس کس بات کی تلافی کریں گے۔ امریکیوں کو بغداد کی ابوغرائب جیل کے واقعات تو یاد ہوں گے۔ گزشتہ جمعرات کو بھی امریکی تربیت یافتہ افغان فوجیوں نے دو امریکی مار دیے۔ یہ کام اگر عراق میں ہوتا تو کب کی امریکا سے نجات مل جاتی مگر وہاں تو شیعوں اور سنیوں کو آپس میں لڑا دیا گیا۔ امریکی صدر فرما رہے ہیں کہ ہم تو طے شدہ وقت پر نکل جائیں گے مگر پھر افغانوں کو اپنے ملک کی حفاظت خود کرنا ہوگی۔ شاید اکتوبر 2001ء سے پہلے امریکی ہی افغانستان کی حفاظت کررہے تھے۔ علامہ اقبال نے ابلیس کی مجلس شوریٰ کا حوالہ دیا ہے جس میں ابلیس کہتا ہے کہ
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو
صلیبی حملہ آوروں نے اس ابلیسی مشورے پر عمل کرکے ملا عمر کو تو کوہ و دمن سے نکلنے پر مجبور کردیا لیکن اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ غیرت دیں کا سبق دینے والی کتاب افغانوں کے پاس ہے اور جب تک یہ ہے کوئی نہ کوئی ملا پیدا ہوتا رہے گا۔ ایک عام فوجی، پولیس اہلکار، کوئی استاد یا عام افغانی بھی غیرت دیں کا مظاہرہ کرتا رہے گا۔

No comments:

Post a Comment