Search This Blog

Sunday 25 March 2012

مکالمہ . شاہ نواز فاروقی

مکالمہ

شاہ نواز فاروقی 
 
-یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب ہم کراچی کے پریمیئر کالج میں انٹر کے طالب علم تھے۔ ہم نارتھ ناظم آباد سے برنس روڈ جانے کے لیے ٹو کے (2K) کی بس میں بیٹھے تھے۔ ہماری برابر والی نشست خالی تھی۔ اچانک ہماری ہی عمر کا ایک نوجوان ہمارے برابر آکر بیٹھ گیا۔ ہمارے ہاتھوں میں کتابیں دیکھ کر کہنے لگا: ’’اسٹوڈنٹ ہو؟ میں بھی اسٹوڈنٹ ہوں۔‘‘ اس کے بعد اس نے بغیر استفسار کے اپنا تعارف کرایا اور پھر وہ رواں ہوگیا۔ اس نے بتایا کہ اس کے خاندان میں کتنے لوگ ہیں اور کون کیا کرتا ہے؟ اس کے گھر کے مسائل کیا ہیں؟ وہ کیا کرنا چاہتا ہے اور کیا کررہا ہے؟ غرضیکہ اس نے آدھے گھنٹے میں اپنی پوری کہانی سنائی اور خدا حافظ کہہ کر ایک اسٹاپ پر اترگیا۔ ہمارے لیے یہ تجربہ حیران کن ہی نہیں رونگٹے کھڑے کردینے والا بھی تھا۔ ایسی ’’خود کلامی‘‘ نہ کبھی ہمارے مشاہدے اور تجربے میں آئی تھی نہ ہم نے ایسی خودکلامی کے بارے میں کبھی کسی سے کچھ سنا تھا۔ ہم نے پاگلوں اور بعض بوڑھوں کو ایسی خودکلامی میں مبتلا دیکھا تھا مگر کسی نوجوان کو اس طرح کی خودکلامی کا شکار ہوتے پہلی بار دیکھا تھا۔ ہم کئی روز تک اس واقعے کی معنویت پر غور کرتے رہے، اور اس کی جو سب سے بہتر توجیہہ ہماری سمجھ میں آئی وہ یہ تھی کہ بڑے شہروں کی تنہائی کراچی میں بھی در آئی ہے۔ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ جب وہ ایک خاص تناظر میں زندگی کو دیکھنے لگتا ہے تو زندگی پھر اسے ویسی ہی نظر آنے لگتی ہے۔ چنانچہ اس واقعے کے بعد ہمیں کئی ایسے افراد نظر آئے جو گلیوں یا شاہراہوں پر خود سے باتیں کرتے چلے جارہے تھے۔ بظاہر وہ ہر اعتبار سے صحت مند لوگ تھے مگر ان کی خودکلامی ان کی تنہائی کی چغلی کھا رہی تھی۔ آدمی تنہا ہوتا ہے تبھی وہ خودکلامی میں مبتلا ہوتا ہے۔ جو شخص معاشرے کا حصہ ہو وہ خودکلامی کا نہیں مکالمے کا عادی ہوتا ہے۔ لیکن اس مسئلے کو زیادہ گہرائی میں دیکھا اور دکھایا جاسکتا ہے۔ مذہب کی کائنات اپنی نہاد میں محفل، گفتگو اور مکالمے کی کائنات ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب کی کائنات ایک خدا مرکز کائنات ہے، اور جس کائنات میں خدا موجود ہو وہاں انسان کبھی تنہا نہیں ہوسکتا۔ خدا انبیا، مرسلین اور وحی کے ذریعے انسانوں سے مسلسل گفتگو کرتا رہا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اگرچہ نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا، قرآن مجید فرقانِ حمید انسانوں سے خدا کی دائمی گفتگو کی صورت میں قیامت تک موجود رہے گا۔ غور کیا جائے تو تمام مذاہب بالخصوص اسلام کا نظامِ عبادت علی الخصوص نماز کا عمل خدا سے براہِ راست گفتگو کی اعلیٰ ترین صورت ہے۔ دعا عبادت کا مغز ہے اور دعا بندے اور خدا کے درمیان ایک مستقل مکالمے کے سوا کچھ نہیں۔ اسلام جو خاندانی نظام تشکیل دیتا ہے اس میں مکالمہ سورج کی روشنی اور ہوا کی طرح فطری انداز میں موجود ہوتا ہے۔ اسلام پڑوسی کا یہ تصور پیش کرتا ہے کہ آپ کے گھر کی دائیں جانب چالیس گھر آپ کا پڑوس ہیں اور بائیں جانب بھی چالیس گھر آپ کے پڑوسیوں ہی کے ہیں، اور پڑوسیوں کی خبرگیری آپ پر فرض ہے۔ ظاہر ہے کہ پڑوسیوں کی خبر گیری مکالمے کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوسکتی۔ اِس خبرگیری سے نہ صرف یہ کہ مکالمے کی راہ ہموار ہوتی ہے بلکہ مکالمے کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ گناہ انسان کو روحانی، نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی تنہائی میں مبتلا کرتا ہے اور اسے خودکلامی کی جانب دھکیلتا ہے، اس لیے کہ گناہ ایک جانب خدا سے دوری کی علامت ہے اور دوسری جانب انسانوں سے فاصلے کا استعارہ۔ لیکن توبہ انسان کو تنہائی کی قید سے نکال کر اسے ایک بار پھر خدا کے روبرو کردیتی ہے۔ عیسائیت میں پادری کے سامنے ’’اعتراف ِگناہ‘‘ کی روایت کا تناظر بھی یہی ہے، اور اس کا اثر جدید نفسیات تک پر مرتب ہوا ہے۔ اس کا ثبوت تحلیلِ نفسی کا طریقہ کار ہے۔ دیکھا جائے تو تحلیلِ نفسی خدا کے بغیر معالج اور مریض سے مکالمے کی راہ ہموار کرکے مرض کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اگرچہ تحلیلِ نفسی مرض کی تشخیص کا ذریعہ ہے، لیکن تحلیلِ نفسی کے عمل میں مکالمے کی وجہ سے بجائے خود علاج کی ایک صورت موجود ہوتی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ مذہب مکالمے کی راہ کیسے ہموار کرتا ہے؟ مذہب میں انسانوں کے درمیان خدا بنیادی اور مرکزی حوالے کے طور پر موجود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انسانوں کے باہمی تعلقات محبت اور تعاون کی بنیاد پر استوار ہوجاتے ہیں۔ لیکن خدا کے درمیان سے ہٹتے ہی انسانی تعلق نفرت اور تصادم پر مبنی ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانوں کے تعلقات کے درمیان خدا کی موجودگی ان کے تعلق کو زیادہ سے زیادہ غیر شخصی یا Non Personal بنادیتی ہے، انسان اپنی شخصیت سے اوپر اٹھ کر سوچنے، محسوس کرنے اور عمل کرنے کے قابل ہوجاتا ہے، لیکن جیسے ہی خدا انسانوں کے درمیان سے غائب ہوتا ہے انسانوں کے تعلقات شخصی، ذاتی یعنی Personal ہوجاتے ہیں اور ان میں شخصی مفاد اور انا کا عنصر در آتا ہے، اور مفادات میں یکسانیت مشکل ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح انائیں مشکل ہی سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔ چنانچہ تعلقات کے درمیان خدا کی عدم موجودگی انفرادی، اجتماعی، یہاں تک کہ بین الاقوامی سطح پر بھی مفادات کے ٹکرائو کی راہ ہموار کرتی ہے۔ خدا کی عدم موجودگی میں انسانی تعلقات پر کیا گزرتی ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت مغرب کے لوگوں کی زندگی ہے۔ اس زندگی کی کلاسیکل مثال ژال پال سارتر کے دو اقوال ہیں۔ سارتر کا مشہور زمانہ فقرہ ہے: ’’انسان کو اِس دنیا میں مرنے کے لیے پھینک دیا گیا ہے‘‘۔ اس فقرے میں کائنات ایک بے خدا کائنات ہے۔ چنانچہ انسان پوری کائنات میں اکیلا ہے، مظلوم ہے، مقہور ہے، بے بس ہے، محروم ہے، اس کے لیے زندگی موت کے ہولناک انتظار کا نام ہے۔ سارتر کا ایک اور فقرہ مشہور زمانہ ہے: ’’دوسرے لوگ ہمارا جہنم ہیں‘‘۔ سارتر کے اس فقرے کی کائنات میں خدا خودمکتفی یا Self Sufficient ہے۔ اسے نہ صرف یہ کہ کسی دوسرے انسان کی ضرورت نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کا وجود اس کے لیے عذاب ہے۔ اس لیے کہ ’’دوسرے لوگ‘‘ ہماری زندگی میں حصے دار بن جاتے ہیں۔ وہ ہم پر نکتہ چینی کرتے ہیں، ہماری نگرانی کرتے ہیں، ہمیں اخلاقی پیمانوں سے ناپتے تولتے ہیں۔ مطلب یہ کہ دوسرے لوگوں سے ہمارے تعلقات کی ہر صورت منفی ہے۔ چنانچہ دوسرے لوگ ہمارا جہنم ہی ہوں گے۔ ایک بے خدا دنیا میں انسانوں کے باہمی تعلقات کی نوعیت اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے! ظاہر ہے کہ ایسی دنیا میں مکالمے کی کوئی ضرورت نہیں ہوسکتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انسانی زندگی میں مکالمے کی معنویت کا اور کردار کیا ہے؟ غور کیا جائے تو مکالمہ محبت کا دوسرا نام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مکالمہ ’’دوسرے‘‘ کے وجود کو نہ صرف یہ کہ تسلیم کرتا ہے بلکہ اس کی ضرورت اور اہمیت کا بھی اقرار کرتا ہے۔ محبت کا حسن اور اس کا کمال یہ ہے کہ محبت کرنے والے کتنے ہی ’’غیر مساوی‘‘ یا Unequal کیوں نہ ہوں، محبت انہیں مساوی یا Equal بنادیتی ہے۔ مکالمہ بھی ٹھیک یہی کام کرتا ہے۔ وہ غیر مساوی کو مساوی بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طاقت ور جب بھی کمزور کے ساتھ گفتگو کرتا ہے تو اس سے خودکلامی ہی برآمد ہوتی ہے، کیونکہ طاقت ور کمزور کو ذہنی اور نفسیاتی سطح پر مساوی تسلیم نہیں کرتا۔ مکالمہ چونکہ فریقین کو برابری کی سطح پر لاکھڑا کرتا ہے اس لیے دلیل ازخود مکالمے کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گفتگو پر ’’طاقت کی دلیل‘‘ کے بجائے ’’دلیل کی طاقت‘‘ کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو مکالمہ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ فریقین کے درمیان مشترکات بنیادی اور اختلافات ثانوی ہیں اور مکالمے کے ذریعے مشترکات میں اضافہ کیا جائے گا اور اختلافات کی تعداد کم کی جائے گی۔ مکالمہ زندگی کے تنوع کو تسلیم کرتا ہے اور تنوع میں وحدت تلاش کرتا ہے تاکہ وحدت اور کثرت دونوں کا تحفظ ممکن ہوسکے۔ مکالمے کی ان خوبیوں کو دیکھا جائے تو یہ سمجھنا دشوار نہیں رہتا کہ نتیجہ خیزی مکالمے کی بُنت کا حصہ ہوتی ہے۔ یعنی مکالمہ مرحلہ بہ مرحلہ آغاز سے منطقی انجام کی جانب سفر کرتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مکالمہ ایک انسانی، تخلیقی اور تہذیبی عمل ہے اور موجودہ عالمی منظرنامے میں اس کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں ہر سطح پر مکالمے کی آڑ میں خودکلامی برپا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا پر طاقت کی دلیل کا غلبہ ہے۔ طاقت ور افراد کمزور افراد کو دبا رہے ہیں۔ طاقت ور اقوام کمزور اقوام کو کچل رہی ہیں۔ دنیا میں ہر کوئی مکالمے کی بات کرتا ہے تاکہ خود کو ’’انسان‘‘ محسوس کرسکے، لیکن ہر کوئی مکالمے کے فلسفے پر خطِ تنسیخ پھیرتا ہے کیونکہ اس کا مسئلہ محبت، مشترکات کی تلاش اور دلیل کی بالادستی نہیں بلکہ ’’فتح‘‘ کا حصول ہے۔ دنیا میں مکالمہ برپا ہوتا تو ........ اور فلسطین کے مسائل کا وجود نہ ہوتا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی خودکلامی کی نیٹ پریکٹس کا میدان نہ ہوتی، اور سلامتی کونسل طاقت کی بنیاد پر گفتگو کا مرکز نہ ہوتی۔

No comments:

Post a Comment