Search This Blog

Friday, 2 March 2012

قرآن کی بے حرمتی

قرآن کی بے حرمتی
پروفیسر شمیم اختر

مقبوضہ افغانستان میں قابض امریکی اور یورپی افواج کے ہاتھوں قرآن کی بے حرمتی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سبّ وشتم کی مہم تو صلیبی صہیونی ٹولے کی پالیسی نہیں بلکہ اس کا مشن ہے۔ یہود و نصاریٰ ان اشتعال انگیز حرکات سے مسلم امہ کے دل سے قرآن پر ایمان اور ختمِ نبوت پر اعتقاد نکال دینا چاہتے ہیں، لیکن سلمان رشدی کی ہرزہ سرائی ہو یا ڈنمارک کے اخبارات کے تضحیکی خاکی.... یہ دنیا کے ایک ارب کلمہ گو مسلمانوں کا نہ صرف ایمان تازہ کرتے ہیں بلکہ ان میں یکجہتی اور جذبہ ¿ جہاد کو مہمیز دیتے ہیں۔ کابل کے شمال میں امریکی فوجی اڈے بگرام میں قرآن کے نسخوں کو نذرِآتش کرنے پر خود افغان فوج اور پٹھو کرزئی کی پولیس کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا وہ قابض امریکی اور ناٹو فوج، اور سب سے زیادہ ابرہہ ثانی کے لیے نوشتہ ¿ دیوار ثابت ہوا، کیونکہ بگرام جیسے قلعہ بند حصار پر یہ خبر سنتے ہی 21 فروری کو دو ہزار افغانوں کی یلغار غیر متوقع تھی، کیونکہ وہاں تو دور دور تک کوئی پرندہ پر نہیں مار سکتا، کسی عام شہری کا ادھر گزر امر محال ہے (ڈان 22 فروری2012ئ)۔ لیکن جب پہرے دار، چوکیدار، سپاہی خود امریکیوں پر ہلہ بول دیں تو ان میں اور عوام میں کوئی فرق یا کوئی فاصلہ باقی نہیں رہ جاتا، چنانچہ اس مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے امریکی فوجیوں نے گولیاں چلائیں جبکہ ہجوم نے امریکی اڈے پر تعینات فوجیوں پر دستی اور پیٹرول بم پھینکے۔ امریکیوں کے قرآن جلانے کی خبر پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور شمالی افغانستان کے صوبے قندز میں بھی امریکی اڈے پر افغان شہریوں نے حملہ کردیا، جبکہ لغمان کے دارالحکومت مہترلم (Mihtarlam) میں واقع امریکی اڈے پر ہزاروں افراد نے حملہ کردیا اور اس کی چہار دیواری پر چڑھ گئے۔ ادھر عوام نے پکیسا میں فرانس کے اڈے پر بھی چڑھائی کردی (ڈان 24 فروری 2012ئ)۔ اس پر فرانس اور جرمنی اتنے خوفزدہ ہوگئے کہ سرکوزی نے تو اس واقعہ سے پہلے ہی اپنی فوج 2014ءکے بجائے 2013ءمیں افغانستان سے واپس بلانے کا اعلان کردیا تھا کیونکہ جنوری میں افغان فوجیوں نے چار فرانسیسی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، البتہ جرمنی کو اب ہوش آیا، اس کی وزارت دفاع کے ترجمان Stefan paris نے کہاکہ جرمن فوج اس واردات سے قبل ہی شمالی علاقوں سے واپس بلالی گئی تھی (ڈان 27 فروری 2012ئ)۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قابض فوج کے پاوں اکھڑ گئے ہیں اور وہ جلد از جلد میدانِ جنگ سے فرار ہوا چاہتی ہی، صرف امریکہ کے جنگجو عناصر نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنالیا ہی، سو ان کا حشر بڑا عبرتناک ہوگا۔ جب صورت حال قابض فوج کے قابو سے باہر ہوگئی تو افغانستان میں امریکی فوج کے سپہ سالار John Allen اور امریکہ کے اطالوی نژاد سیکریٹری دفاع Leon Panetta نے عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے قرآن کی بے حرمتی پر حامد کرزئی اور افغان عوام سے غیر مشروط طور پر معافی مانگ لی اور اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا (ڈان 22 فروری 2012ئ)۔ اس کے بعد اوباما نے بھی معافی مانگنے میں دیر نہیں کی، البتہ 11 ہزار میل دور بیٹھے اسے یہ معلوم ہوگیا کہ امریکی فوجیوں کا یہ فعل غیر ارادی اور اتفاقیہ تھا جس کی ذمہ داری کا تعین کیا جائے گا (ڈان 24 فروری 2012ئ)۔ لعنت ہو ان یہود و نصاریٰ پر کہ کمبخت معافی مانگنے میں بھی ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ جب اس بات کا تعین ہی نہیں ہوا کہ قرآن پاک کو نذرِ آتش کرنے کا فعل سہواً تھا یا عمداً، تو اس نے یہ کیسے کہہ دیا کہ یہ فعل غیر ارادی تھا؟ لیکن کیا امریکی پادری ٹیری جونس (Terry Jones) کا فعل بھی سہواً سرزد ہوا تھا جب اس نے بہت پہلے سے اپنے ناپاک ارادے کا اظہار کیا تھا کہ وہ قرآن مجید کو سرعام نذرِآتش کرے گا۔ اور اس جرم میں وہ تنہا نہیں تھا بلکہ امریکہ کے طول و عرض سے اس کی حمایت میں جتنی آوازیں اٹھی تھیں اتنی اس کے خلاف نہیں اٹھیں۔ کیا طالبان نے کبھی انجیل کے نسخے جلائی؟ یا ایرانیوں، پاکستانیوں اور عربوں نے کبھی انجیل، حضرت عیسیٰ اور بی بی مریم کی بے حرمتی کی؟ پھر بنیاد پرست، انتہا پسند، شدت پسند، جنونی اور جنگجو کون ہی، مسلمان یا یہود و نصاریٰ؟ کیا پاپائے روم بینی ڈکٹ نے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بازنطینی بادشاہ کے قول سے اتفاق کرتے ہوئے دہشت گرد نہیں کہا؟ ایک طرف تو جان ایلن، لیون پناٹا اور اوباما افغان عوام کی شورش پر طاقت سے قابو پانے کی کوشش میں ناکام ہوکر ان سے معافی مانگتے ہیں تو دوسری طرف امریکی فوجی مشیر وزارت دفاع کے دفتر میں بیٹھے افغان حکام کی موجودگی میں ٹیلی وژن پر کابل، قندز، لغمان میں برپا امریکہ مخالف مظاہرے کی نشر کردہ فلم دیکھ دیکھ کر ان پر توہین آمیز تبصرے کررہے ہیں، یہاں تک تو ان کے افغان ماتحت خون کے گھونٹ پی رہے ہیں، لیکن جب ان ملعونوں نے قرآن کریم کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کیے تو 25 سالہ مردِ مجاہد عبدالصبور کا پیمانہ صبر چھلک اٹھا اور اس نے ان دو ملاعین کو گولی مارکر واصلِ جہنم کردیا۔ اتوار 26 فروری تک اس شورش میں بشمول ان دو ملاعین، 30 افراد ہلاک اور 200 زخمی ہوگئے (ڈان 27 فروری 2012ئ)۔ اس کا یہ اثر تو ہوا کہ امریکیوں نے افغانستان کی وزارتوں میں تعینات سارے امریکی افسران کو واپس بلالیا۔ امریکہ کے تمام سول اور فوجی (اصل میں دونوں ایک ہیں) فکری توپخانے (Think Tanks) ذرا تجزبہ کریں کہ کیا افغانستان پر امریکہ کا قبضہ قائم رہ سکتا ہی، یا وہ اس پر اپنی مرضی کی حکومت مسلط کرسکتا ہی؟ کیا ڈیڑھ لاکھ افغان فوج اور ڈیڑھ لاکھ افغان پولیس جنہیں امریکہ اور بھارت تربیت دے رہے ہیں، امریکی افواج کے انخلا کے بعد اس کے مفادات کا تحفظ کرسکیں گی؟ حالیہ خبروں سے یہ پتا چلا کہ کسی افغان خانساماں نے امریکی فوجی میس (Mess) میں امریکیوں کے کھانے میں زہر ملا دیا تھا لیکن یہ معلوم نہ ہوسکا کہ ان میں سے کتنے جہنم رسید ہوگئے۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟ احتیاط کا تقاضا تو یہ ہے کہ ڈیڑھ لاکھ امریکی اور ناٹو فوج کے لیے خانساماں بھی انہی ملکوں سے بلانا پڑے گا، یا پھر انہیں ٹین کے بند ڈبوں کی خوراک پر گزارا کرنا ہوگا، اور ہاں چائے اور قہوہ بھی خود ہی بناکر پینا ہوگا، اور شراب میں بھی بدستِ خود منرل واٹر ملانا پڑے گا، یا پھر امریکی، برطانوی، فرانسیسی، اطالوی، ولندیزی بارٹنڈر (ساقی) درآمد کرنا پڑے گا۔ بالفاظِ دیگر دشمن ملک کی فوجیں کسی دوسرے ملک میں دیر تک نہیں ٹھیر سکتیں، نہ ہی ان کے ایجنٹ۔ امریکی ذرائع ابلاغ نے یہ تاثر دیا ہے کہ افغانستان میں صورت حال روبہ معمول ہورہی ہی، لیکن دوشنبہ 27 فروری کو ایک مشتعل ہجوم نے جسے امریکی طالبان سمجھتے ہیں، جلال آباد میں ہوائی اڈے پر ناٹو افواج پر کار بم دھماکہ کرکے 19 افراد کو ہلاک کردیا جن میں 6 عام شہری، ایک افغان فوجی اور دو چوکیدار تھے۔ خبر کے مطابق گورے بال بال بچ گئے۔ (ڈان 28 فروری 2012ئ) امریکہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ جس ملک پر قبضہ کرتے ہیں اسے کھنڈر اور بنجر بنادیتے ہیں اور مقامی آبادی پر ایسے مظالم ڈھاتے ہیں کہ آدم خوروں کو بھی اس پر شرم آتی ہے۔ اوباما قرآن کی بے حرمتی کو غیر ارادی فعل قرار دیتا ہے لیکن گوانتاناموبی، ابوغریب اور بگرام کے عقوبت خانوں میں جارج بش کے حکم پر مشتبہ افراد کو تفتیش کے دوران جو جسمانی، جنسی اور ذہنی اذیت پہنچائی جاتی رہی وہ اب بھی جاری ہے اور منصوبہ بندی کے ساتھ کی جاتی ہے۔ افغانستان کے شہر کابل میں قرآنی آیات کو فٹ بال پر لکھ کر اسے ٹھوکروں پر رکھا جاتا رہا، جبکہ قرآن کے بکھرے ہوئے اوراق کو امریکی فوجی پامال کرتے رہے یا انہیں مسلمان قیدیوں کے سامنے پرزے پرزے کرکے نعوذ باللہ نالیوں میں بہادیتی.... یہ سب غیر ارادی حرکتیں ہیں؟ ایسی قوم کے رہنما جب اوباما جیسے ہوں جس نے 11 ستمبر2001ءکے بعد دھمکی دی تھی کہ اب اگر ایسی واردات ہو تو امریکہ کو خانہ کعبہ پر بمباری کردینا چاہیی، اُن سے اس کے علاوہ اور کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اسلام دشمنی میں ساری حدیں پار کرسکتے ہیں۔ ادھر ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار Newt Gingrich Ricksantorum اور Tim Pawlenty صدر اوباما سے ناراض ہیں کہ اس نے افغانوں سے معافی کیوں مانگی، کیونکہ وہ اس کے مستحق نہیں ہیں کہ امریکی صدر ان سے معافی مانگے۔

No comments:

Post a Comment