Search This Blog

Saturday 3 March 2012

ممبئی تم لو...... مہاراشٹر پر ہماری حکمرانی چلنے دو

سمیع احمد قریشی

کانگریس کے زیر سایہ ہماری پیاری سیکولر جمہوریت
 پر ہندوتو کے سائے!
کانگریس نے ممبئی کو شیوسینا کے حوالہ کردیا

ممبئی تم لو...... مہاراشٹر پر ہماری حکمرانی چلنے دو۔ فرقہ پرستوں کے ساتھ مفاہمت نئی بات نہیں
ممبئی۔ آخر کوممبئی میونسپل کارپوریشن پر بھگوا برادر شیوسینا اور اُس کی حلیف بی جے پی کو الیکشن میں کانگریس اور راشٹر وادی کانگریس کے مقابلہ میں زیادہ سیٹوں پر کامیابی ، اسقدر مل چکی ہے کہ اب وہ ممبئی میونسپل کارپوریشن پر یقینی طور پر اقتدار میں آجائیں گی۔ کچھ دنوں میں اُن کا میئر منتخب ہوگا۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن ، ہمارے ملک میں انتہائی اہمیت و افادیت کی حامل ہے۔ اس کا سالانہ بجٹ تقریباً 22ہزار کرور روپے ہے۔ جو ملک کی کسیاک چھوٹے سے صوبے سے بھی زیادہ ہے۔ ممبئی شہر پورے ملک میں انتہائی اہم صنعتی شہر ہے۔ اِسے اگر پورے ملک کی صنعتی راجدھانی کہا جائے تو غلط نہیں۔ یہاں تقریباً ایک کروڑ کی آبادی ہے۔ یہاں پورے ملک سے آئے ہوئے لوگ خاطر خواہ تعداد میں سالہا سال سے روزی روٹی کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ ممبئی شہر کو بنانے بسانے میں اِن کا بھی اہم مثبت کردار ہے۔ ممبئی کی نصف سے زیادہ اابادی جھگّی جھونپڑیوں اور چالیوں میں آباد ہے۔ یہاں گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں ممبئی کی ساری پارلیمانی سیٹوں پر کانگریس اور راشٹروادی کانگریس کے امیدوار کامیاب ہوئے تو دوسری جانب گزشتہ اسمبلی الیکشن میں 34 اسمبلی کی سیٹوں پر آدھے سے زیادہ انگریس و راشٹروادی کانگریس نے کامیابی حاصل کی۔ ممبئی اک کاسمو پولیٹن شہر ہے۔ اس کا مزاج سیکولر ہے۔ یہاں کے رائے دہندگان میں اکثریت سیکولرازم و بھائی چارہ ماننے والوں کی میں بدقسمتی سے گزشتہ 19سالوں سے ممبئی میونسپل کارپوریشن پر شیوسینا جیسی فرقہ پرست جماعت کا اقتدار ہے۔ اپنے قیام کے روز اول سے آج تک فرقہ پرست شیوسینا کے ہاتھوں ممبئی کی لسانی مذہبی اقلیتوں کو ہی نہیں بلکہ تمام انصاف پسندوں اور انسانیت دوستوں کو اُٹھانا پڑرہا ہے۔ یہی حال ہے نونرمان سینا کا۔ شیوسینا کی کوکھ سے ہی جنم لینے والی راج ٹھاکرے کی نونرمان سینا ہے۔ گزشتہ ماضی قریب میں خاص طور پر ممبئی میں مقیم اتربھارتی، بہاری وغیرہ کے ساتھ نونرمان سینا کا ظلم و بربریت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
سیکولر ، انصاف پسند پارٹیوں کی آپسی لڑائی، ناقص کارکردگی، سیکولر ووٹوں کی تقسیم اکثر و بیشتر فرقہ پرست پارٹیوں کی کامیابی کا باعث ہوا کرتی ہیں۔ یہی کچھ حالیہ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے الیکشن میں ہوا۔ اک جانب کانگریس اور راشٹروادی کانگریس میں انتخابی مفاہمت ہوئی۔ اس سے ممبئی شہر کے مسلم اور اتربھارتی ، خاطر خواہ علاقوں میں سماج وادی کا اثر ہے۔ اِسے کانگریس اور راشٹروادی کانگریس کے انتخابی مفاہمت سے دور رکھا گیا۔ کاش کہ اسے سماج وادی پارٹی کو بھی انتخابی مفاہمت میں شامل کیا جاتا تاکہ سیکولر ووٹوں کی مزید تقسیم نہ ہو اور شیوسینا، نونرمان سینا، بی جے پی جیسی پارٹیوں کو کراری شکست ہو۔
فرقہ پرست شیوسینا اپنے قیام سے کانگریس کی نور نظر رہی ہے۔ واقف کار حلقوں کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر کانگریس میں شامل ’’مراٹھا‘‘ لیڈران نے شیوسینا کو بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ ابتداء میں شیوسینا کا کام ممبئی میں برسہا برس پہلے، کمیونسٹوں کو ختم کرنا بھی تھا تاکہ کانگریس کو تقویت ملے۔ اسی کے ساتھ شروع ہی سے شیوسینا نے ممبئی میں لسانی اقلیتوں کو بے پناہ زک پہنچائی۔ اسی کے ساتھ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بھی کم ناروا سلوک نہیں کیا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد 92-93ء ؁ کے فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کا بے پناہ جاتی و مالی نقصان ہوا۔ کانگریس راج میں بذات خود پولس نے مسلمانوں کے ساتھ جانبدارانہ سلوک کیا۔ یہ تمام باتیں حکومت مہاراشٹر کے قائم کردہ ’سری کرشنا کمیشن‘ کی رپورٹ میں کھل کر ہے۔ کانگریس کی حکومت نے اپنے مینی فیسٹو میں بھی سری کرشنا کمیشن کی سفارشات پر عمل کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ آخر کتنے خاطی پولس والوں اور شرپسند شیوسینکوں کے خلاف کارروائی کی؟ کس قدر مالی و جانی سطح پر متاثر افاد کی باز آبادکاری کی نیز مالی مدد دی؟ یہ سب غیر اطمینان بخش ہے۔ شیوسینا ہی سے الگ ہونے والی نونرمان سینا نے گزشتہ کئی سالوں سے مہاراشٹر و ممبئی میں اتربھارتیوں اور بہاریوں کے ساتھ ’باہری‘ ہونے کے نام پر ظلم و ستم کررہی ہے۔ جگ ظاہر ہے کانگریسی حکومت ان کے خلاف معیاری کارروائی کرنے سے مجبور ہے۔ آخر کیوں؟ مہاراشٹر کی کانگریس نے گویا شیوسینا اور نونرمان سینا کے ظلم و بربریت سے آنکھ موڑ لی ہے۔
کانگریس انسانیت ، سیکولرازم ، بھائی چارہ جیسے اہم اصولوں پر مبنی باتوں کو ماننے والی پارٹی ہے۔ فرقہ پرستوں کے خلاف محاذ آرائی کرنا، اس کے فرائض میں شامل ہے۔ ملک کی آزادی کے بعد، انسانیت دوستی، سیکولراز م جیسی اہم باتیں، کانگریس کے لیے خالی خولی باتیں رہیں۔ اپنے سیاسی مفاد جو عارضی رہے۔ اس کی خاطر کانگریس نے انسانیت دوستی ، سیکولرازم سے کنارہ اختیار کرلیا اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ کانگریسی راج میں بے انتہا حق تلفی ہوئی۔ جسے لکھا جائے تو اک ضخیم کتاب درکار ہوگی۔ فرقہ وارانہ فسادات، معاشی بدحالی، مذہبی آزادی، متعدد و بے شمار مسائل میں ، کانگریس نے سیکولر و جمہوری کردار کا دعویٰ کرنے کے باوجود، مسلمانوں کے ساتھ اپنے انتہائی نکمے پن کا ثبوت دیا۔ جس سے آزادی کے بعد سے آج تک مسلمان انتہائی متاثر ہے۔ حالیہ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے چناؤ میں کانگریسی مفاہمت واضح ثبوت ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے اور دکھانے کے اور ہیں۔ شیوسینا جیسی فرقہ پرست کو ممبئی میونسپل کارپوریشن میں اقتدار سے دور کیا جاسکتا تھا۔ اگر کانگریس اسے نیک نیتی و تہہ دل سے چاہتی! واقف کاروں حلقوں کا کہنا ہے کہ ممبئی میونسپل کارپوریشن سے فرقہ پرست شیوسینا کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے ممبئی میونسپل کارپوریشن کے چناؤ میں کانگریس اور راشٹروادی کانگریس کے درمیان انتخابی مفاہمت صرف دکھاوے کے لیے تھی۔ کارپوریشن میں اقتدار ، شیوسینا ہی کا برقرار رکھنا، کانگریس کا منشا تھا۔
ورنہ کانگریس یوں ناقص کارکردگی نہ دکھلاتی۔ مبینہ طور پر کانگریس کے لیڈر کرپا شنکر جن پر ہزاروں کروڑ، بدعنوانیوں میں کمانے کا الزام ہے۔ اُنہوں نے مبینہ طو رپر کارپوریشن کے چناؤ میں ٹکٹ کے بٹوارے میں کروڑوں کی بدعنوانی کی۔ اک نہیں کئی موجودہ و سابق ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ کے لڑکوں رشتہ داروں کو کانگریس کا ٹکٹ دیا۔ پیسے کمائے۔ یہ سب کے سب متعدد و کانگریسی امیدوار چناؤ ہار کر شیوسینا کی کامیابی کا باعث ہے۔ گویا انہیں ٹکٹ ہارنے کے لیے دیا گیا تھا۔!
کانگریس کی انتخابی مہم کو جان بوجھ کر غیر معیاری و پھسڈی رکھا گیا۔ سماج وادی پارٹی سے انتخابی مفاہمت کرکے سیکولر ووٹوں کی تقسیم روکی جاسکتی تھی۔ سماج وادی پارٹی کا ممبئی کے مسلم و اتربھارتیوں میں خاطر خواہ اثر ہے۔ اُس نے اکیلے چناؤ لڑا۔ پہلے سے زیادہ سیٹیں آئیں۔ کافی جگہ پر سماج وادی کی بناء پر سیکولر ووٹ تقسیم ہوئے۔ تقریباً 20۔15 سیٹیں سماج وادی پارٹی کی بناء پر کانگریس اور راشٹروادی کانگریس کی بجائے شیوسینا اور منسے کے کھاتے میں چلی گئیں۔
شیوسینا کا سالہا سال کا سیاسی سفر ہے۔ اس سفر میں مہاراشٹر کانگریس کی اکثر و بیشتر سرپرستی رہی۔ مہاراشٹر کے سابق کانگریسی وزیر اعلیٰ وی. پی. نائیک۔ عبدالرحمن انتولے، وسنت دادا پاٹل کے زمانے میں شیوسینا کو اپنی ساکھ مضبوط کرنے کا موقع ملا۔ عبدالرحمن انتولے جب مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ تھے ۔ شیوسینا گویا ختم ہورہی تھی۔ انتولے نے شیوسینا کے کئی لیڈران کو کانگریس کی مدد سے لیجسلیٹیو کونسل کا ممبر بنایا۔ اسی کے ساتھ کئی اہم سرکاری کمیٹی کی ممبرشپ اور چیئرمین شپ دی۔ وسنت دادا پاٹل جب مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ تھے 1984ء ؁ کے ممبئی میونسپل کارپوریشن کے چناؤ کے وقت یہ انکشاف کیا کہ ممبئی کانگریس کے صدر مرلی دیورا، ممبئی کو مہاراشٹر سے الگ کرنے کے لیے مرکز سے رجوع ہوئے ہیں۔ ان کا یہ بیان ممبئی میں شیوسینا کی جیت اور کانگریس کی غیر متوقع شکست کا باعث بنا۔ لگتا ہے مہاراشٹر میں کانگریس میں شامل کانگریس کے اعلیٰ مراٹھا لیڈروں کو شیوسینا سے درپردہ محبت ہے۔ اُنہیں ملک کے دستور کا سیکولر و جمہوری کے ساتھ ساتھ کانگریس کے سیکولر ہونے کی پرواہ نہیں۔ جو کام وہ خود قانوناً نہیں کرسکتے۔ لگتا ہے اُسے شیوسینا سے کروانا آتا ہے۔ جو ممبئی میں سالہا سال سے لسانی و مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کررہی ہے۔
یہ بھی سیاسی پنڈت بتلا رہے ہیں کہ کانگریس نے جان بوجھ کر شیوسینا کے حوالے ممبئی کارپوریشن کردی ہے۔ اس نظریہ کے تحت کہ تم (شیوسینا) ممبئی لے لو۔ اِس کے آگے مہاراشٹر میں قدم مت بڑھاوا۔ مہاراشٹر کانگریس کے حوالے کردہ ممبئی کے علاوہ ممبئی کے باہر پورے مہاراشٹر میں مت پھولو پھلو۔ یوں کانگریس جیسی پارٹی نے سیکولرازم اور انسانیت دوستی کا نقاب پھر اپنے چہرے سے ہٹا کر، اپنے ہندوتو، ہونے کا ثبوت دیا۔ وقت کا مورخ اسے بھی اچھی طرح لکھے گا۔ جس طرح گوڈسے، ہٹلر، مسولینی، چنگیز خان کے کارناموں کو لکھا گیا ہے۔ فرقہ پرستوں کے ساتھ کانگریس کی ڈھکی چھپی مفاہمت کوئی نئی بات نہیں۔ آخر کیوں نہیں کرکرے کی رپورٹ پر کانگریس کی مرکزی سرکار نے ہندو فرقہ پرستوں پر لگام نہیں کسی۔ آخر کیوں نئی سالہا سال سے مسلم پسماندگان کو ہندو پسماندگان کی طرح ریزرویشن کی سہولتیں دی جاتیں؟ آخر بیلنس رکھنے ہی کے لیے مسلم تنظیموں کے ارکان پر عتاب کیوں؟ واضح ثبوت ہونے کے باوجو دبجرنگ دل وشوہندو پریشد، درگاواہنی، سناتن سنستھا و دیگر ہندوتوا تنظیموں کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں۔ یہ سب کچھ اقلیتوں و مسلمانوں کانقصان نہیں ہے بلکہ ہمارے پیارے ملک ہندوستان کی ترقی و تعمیر و بقاء کے لیے بھی خطرہ ہے۔ یہ کہنا بے جا نہیں کہ آخر کانگریس ہی کی بناء پر ہماری پیاری سیکولر جمہوریت پر ہندوتو کے سائے گہرے پڑتے جارہے ہیں۔ یہ بیماری کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہورہی ہے۔ اپنے عارضی فائدے کے لیے کانگریس کب تک فرقہ پرستوں کو تقویت دیتی رہے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ کانگریس اپنے نوجوان قائید راہل گاندھی کی قیادت میں فرقہ پرستوں سے محاذ آرائی میں کوئی کاٹ کسر باقی نہیں رکھے گی۔ ورنہ ہمارے پیارے ملک کا کیا ہوگا؟ یہ اک اہم سوال ہے۔ 

سمیع احمد قریشی
میٹ والی چال، روم نمبر68، دادا صاحب پھالکے روڈ، دادر، ممبئی
فون نمبر: 9323986725

No comments:

Post a Comment