Search This Blog

Tuesday 27 March 2012

ریا کاری کا انعام۔۔۔۔۔از ابو طارق حجازی

ریا کاری کا انعام۔۔۔۔۔از ابو طارق حجازی
ابو طارق حجازی
 
ریاکاری کا انعامجب ایک وزیر صاحب کا انتقال ہوا تو وہ بہت مطمئن تھے کہ ان کی بخشش ضرور ہوجائے گی۔ ابھی پچھلے ہفتہ ہی ایک صحافی نے ( جو ان کا وظیفہ خوار تھا) ان کی ایک فوٹو البم تیار کی تھی جس میں ان کو پچاس سے زیادہ مشروعات کا افتتاح کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔جس میں بہت سے مدرسہ ، بہت سے اسکول اور بہت سے خیراتی ادارے شامل تھے۔ ہر جگہ ان کا نام پتھر پر کھود کر لگایاگیا تھا۔ ہرجگہ ان کی شان میں قصیدے پڑھے گئے اخباروں میں خبریں چھپیں اور خوب واہ واہ ہوئی تھی۔<جب وہ قبر میں اترے تو دیکھا کہ ان کے اعمال ایک بڑی ترازو میں تولے جارہے ہیں۔ اخباروں اور اشتہاروں کا ڈھیر ہے وہ سب کے سب ترازو کے پلڑے میں بھر دئیے گئے۔ اتنے میں اعلان ہوا کہ جن جن کاموں کے اخبار اور اشتہار چھپے ہیں ان کامعاوضہ دنیا میں ہی دے دیا گیا۔ لوگوں سے خوب واہ واہ کرادی گئی یہ اعلان سنتے ہی ایک فرشتے نے ایک پھونک ماری اور کاغذوں کا ساراڈھیر ہوا میں اڑگیا۔ ان کا پلڑا ہلکا ہوکر آسمان سے جالگا۔ وزیرصاحب ایک دم رونے لگے ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دنیا کی یہ واہ واہ ان کے سارے اعمال کو ضائع کردے گی اب ان کے پاس چند اسکولوں کا افتتاح رہ گیا تھا اس کے بارے میں اعلان ہوا کہ جن اداروں کے افتتاحی کتبوں پر ان کانام پتھروں پر کھدا ہوا ہے( یعنی جن کی واہ واہ مرنے کے بعد بھی جاری کی گئی ہے) وہ سارے ادارے ان کے نام سے نکال دئیے جائیں۔ اس اعلان پر تو وزیر صاحب دھاڑیں مارمار کر رونے لگے کیونکہ کوئی مدرسہ کوئی اسکول ایسا نہ تھا جس پر اپنے نام کا پتھر لگوانے کی انہوں نے پہلے سے تصدیق نہ کرلی ہو۔ وہ تمنا کرنے لگے کاش کوئی شخص جاکر ان تمام کتبوں کو توڑ دیتا جس پر ان کا نام کندہ تھا۔لیکن افسوس کوئی ان کی فریاد سننے والا نہ تھا۔اب انہوں نے اپنے اعمال کے پلڑے کو دیکھا وہ بالکل خالی پڑا تھا ان کا سارا بھرم ٹوٹ گیا۔ دنیا میں و ہ بڑے مخیر مانے جاتے تھے انہوں نے بڑے بڑے کام کئے لیکن شہرت کی چاٹ نے انکے سارے اعمال کو دیمک کی طرح چاٹ لیا۔وہ رو روکر عرش الہٰی کی طرف دیکھنے لگے اور رحم کی بھیک مانگنے لگے۔اتنے میں ایک فرشتہ ایک چھوٹی سی ڈبیہ لے کر آیا اور اس کو ان کے اعمال کے پلڑے میں رکھ دیا۔ اچانک وہ پلڑا نیچے کی طرف آگیا وہ حیرت سے اس ڈبیہ کو دیکھنے لگے کھول کر دیکھا تو یاد آیا کہ ایک دن سردیوں کی رات میں جب وہ گھرواپس آرہے تھے تو دیکھا کہ مسجد کی نالی کا پانی راستہ میں بہہ رہا ہے ۔ نالی بند ہے۔انہوں نے چاہا کہ اس کو کھول دیں لیکن کوئی ڈنڈا یا لکڑی نہیں ملی تو انہوں نے اپنا ہاتھ گندی نالی میں ڈال کر کوڑا نکال دیا۔ نالی صاف ہوگئی پانی بہنے لگا ۔ سڑک بھی صاف ہوگئی گھر آکر انہوں نے اپنا ہاتھ صابن سے دھولیا اس عمل کو سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا تھا۔ بس قادر مطلق نے اسی پر ان کی بخشش فرمادی۔

No comments:

Post a Comment