Search This Blog

Wednesday 28 March 2012

مصر ایک نئے انقلاب کے دہانے پر

مصر ایک نئے انقلاب کے دہانے پر

آصف جیلانی 

-ایک سال پہلے قاہرہ کے تحریر اسکوائر سے انقلاب کی جو لہر اٹھی تھی اس کے نتیجے میں حسنی مبارک کا 36سالہ طویل استبدادی دور ختم ہوا تھا، لیکن ان کی معزولی کے بعد بھی ان کے مقرر کردہ فیلڈ مارشل طنطاوی کی قیادت میں وہ فوج جو حسنی مبارک کے اقتدار کا بنیادی ستون تھی، برسراقتدار ہے۔ گو فوجی قیادت انقلاب کے بعد عام انتخابات کرانے پر مجبور ہوئی ہے اور پارلیمنٹ کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد نئے آئین کی تیاری اور اس کی منظوری کے لیے ریفرنڈم کے انعقاد اور اس کے بعد صدارتی انتخاب کا مرحلہ مکمل ہونے پر اقتدار کی منتقلی کا وعدہ پورا کرنے کی پابند ہے۔ فوجی قیادت نے کئی مراحل میں عام انتخابات کے انعقاد کا جو پیچیدہ طریقہ وضع کیا تھا اُس پر عام طور پر یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ اس کا مقصد ایک ایسی پارلیمنٹ تشکیل دینا ہے جس میں کوئی ایک جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کرپائے، اور ایسے عناصر کو جتوانا ہے جن کے ساتھ فوج اپنے مفادات کے لیے سودا کرسکے۔ لیکن فوج کی یہ تدبیریں اُس وقت الٹی ہوگئیں جب اخوان المسلمون نے انقلاب کے بعد اپنی سیاسی قسمت آزمانے کے لیے عام انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، اور اس مقصد کے لیے اخوان کے ایک اہم رہنما محمد سعد توفیق الکتاتنی کی قیادت میں حزب الحریہ والعدالہ (فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی) کے نام سے اپریل 2011ء میں نئی سیاسی پارٹی کی داغ بیل ڈالی۔ فوجی قیادت اور مغربی قوتیں اس وقت ہکا بکا رہ گئیں جب28 نومبر2011ء سے 11جنوری 2012ء تک جاری رہنے والے عام انتخابات میں اخوان کی سیاسی جماعت پارلیمنٹ کی 47 فی صد سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے ساتھ سلفی جماعت النور 24 فیصد نشستوں پر فتح مند رہی۔ یوں اسلامی تحریک 71 فیصد نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ یہ ایک غیر معمولی کامیابی ہے جو مصر کے عوام کی اکثریت کی خواہشات کی مظہر اور اس بات کا ثبوت ہے کہ صدر ناصر کے انقلاب کے بعد پچھلے ساٹھ برس کے دوران اخوان المسلمون کو کچلنے اور اس کا قلع قمع کرنے کی جو کوششیں کی گئی تھیں انہیں آزادانہ انتخابات کا موقع ملتے ہی عوام نے رد کردیا اور اخوان کے حق میں فیصلہ دیا۔ فوج کو یہ توقع تھی کہ نئی پارلیمنٹ میں مختلف سیاسی جماعتوں سے جوڑتوڑ کرکے وہ ملک کا ایک ایسا آئین مرتب کرنے میں کامیاب ہوجائے گی جس کے تحت فوج مکمل طور پر آزاد اور خودمختار حیثیت برقرار رکھ سکے گی اور اسے اپنی ساٹھ سال کی حکمرانی کے دور کے فیصلوں اور اقدامات کا جواب نہیں دینا پڑے گا، اور خاص طور پر انقلاب کے دوران خونریزی کے الزامات کے ممکنہ مقدمات سے استثنیٰ حاصل ہوجائے گا۔ انقلاب کے دوران فوج کی کارروائی میں 846 افراد جاں بحق اور دو ہزار زخمی ہوئے تھے۔ فوج کے یہ سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے، کیونکہ ملک کے نئے آئین کی تیاری کے لیے پارلیمنٹ نے ایک سو اراکین کی جو کمیٹی منتخب کی ہے اس میں نصف سے زیادہ اراکین اخوان کی سیاسی جماعت فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک طرف فوج اس صورت حال سے سخت پریشان ہے تو دوسری طرف پارلیمنٹ میں اپنے آپ کو آزاد خیال اور بائیں بازو کہلانے والی جماعتوں نے آئین ساز کمیٹی میں اخوان کی فتح پر احتجاج کی راہ اختیار کرتے ہوئے اس کمیٹی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ وہ اس کمیٹی کے مرتب کردہ آئین کو تسلیم نہیں کریں گی اور اس کے خلاف تحریک چلائیں گی۔ اس دوران اخوان المسلمون نے بھی معرکہ آرائی کا انداز اختیار کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ صدارتی انتخاب میں اپنا امیدوار کھڑا کرے گی، حالانکہ اس سے پہلے اس نے اعلان کیا تھا کہ اس کا صدارتی انتخاب لڑنے کا ارادہ نہیں ہے۔ دریں اثنا فیلڈ مارشل طنطاوی کی قیادت میں حکمران فوجی ٹولے نے مطالبہ شروع کردیا ہے کہ نئے آئین میں وہ تمام مراعات اور خصوصی حیثیت برقرار رکھی جائے جو گزشتہ ساٹھ سال سے فوج کو حاصل رہی ہے۔ لیکن اخوان اور سلفی جماعت فوج کی ’’مقدس‘‘ حیثیت ختم کرنے اور ماضی کے اقدامات کا جواب دہ قرار دینے پر مُصر ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اخوان المسلمون اور فوج دونوں نے اپنے اپنے مؤقف کے مطابق نئے آئین کے مسودے تیار کرلیے ہیں اور فوج کی طرف سے یہ کوشش ہے کہ اس بارے میں اتفاقِ رائے کے نام پر سودے بازی کی جائے۔ فوج نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قومی سلامتی کونسل کے قیام کی تجویز پیش کی ہے جس کا سربراہ صدرِ جمہوریہ ہوگا اور جس میں وزیراعظم، وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کے علاوہ مسلح افواج کے سربراہان اور فوجی انٹیلی جنس کے سربراہ شامل ہوں گے۔ مجوزہ قومی سلامتی کونسل کو قومی پالیسیوں پر حتمی فیصلے کا اختیار ہوگا، اس کونسل کو مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری کا بھی حق حاصل ہوگا، اور یہی کونسل دفاعی بجٹ اور جنگ و امن کے سوالات پر فیصلہ کرے گی۔ فوج آئین میں یہ بات بھی منوانا چاہتی ہے کہ مسلح افواج کے افراد کے خلاف فوجی یا قومی سلامتی کے معاملات سے متعلق مقدمات چلانے کا اختیار صرف فوجی عدالتوں کو ہوگا۔ ان تجاویز کی بدولت فوج اپنی آزاد اور مکمل خودمختار حیثیت برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اخوان المسلمون کی قیادت مسلح افواج کی خاص حیثیت کے خاتمے اور اسے پارلیمنٹ اور جمہوری حکومت کے ماتحت کرنے اور اس کے سامنے جواب دہ بنانے میں اٹل ہے۔ اخوان کی قیادت فوجی صنعتوں کو بھی پارلیمنٹ کے ماتحت بنانا چاہتی ہے جو اس وقت قومی معیشت میں 45 فیصد تک حصہ دار ہیں۔ مسلح افواج کی طرف سے اس کی پوری شدت سے مخالفت کی جارہی ہے۔ اخوان کی قیادت امریکا کی طرف سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کا سلسلہ بھی ختم کرنا چاہتی ہے، کیونکہ یہ امداد پوری کی پوری مسلح افواج کو دی جاتی ہے۔ غرض نئے آئین کے مسئلے پر اخوان المسلمون اور فوجی قیادت کے درمیان شدید معرکہ آرائی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیتی نظر آتی ہے جو ایک نئے انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔

No comments:

Post a Comment