خبر و نظر۲۸ مارچ
یہ عجیب وغریب منطق
حال ہی میں اخبارات نے یہ بحث چھیڑی تھی کہ ۲۰۰۲ءکے
بعد سے ملک کے کسی حصے میں کوئی بڑا فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا، جو اِس
بات کا مظہر ہے کہ ملک میں اب فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم ہوچکی ہے ۔ یہ بحث
گجرات میں مسلم کشی کے دس سال پورے ہونے پر چھڑی تھی اور بعض مبصرین نے
مشورہ دیا تھا کہ گجرات میں جو کچھ ہوا، اسے بھول کر مسلمانوں کو اب اپنی
سماجی اور معاشی ترقی کی طرف یکسو ہوجانا چاہئے ۔ اسی تناظر میں مسلم
ریزرویشن کا مسئلہ بھی زیر غور آیا اور ایک مخصوص ذہن وفکر کے کالم نگاروں
نے خیال ظاہر کیا کہ اب چونکہ مسلمانوں کی معاشی اور سماجی حالت بہتر ہورہی
ہے، اس لئے مسلم کمیونٹی کو ریزرویشن کے مطالبے سے دستبردار ہوجانا چاہئے۔
اس مضمون کاایک تبصرہ ۱۶/ مارچ
کے ہندوستان ٹائمس میں شائع ہوا ہے ۔ مبصر رام چندر گوہا نے اس امر پر
زوردیا ہے کہ اب چونکہ مسلمانوں کے حالات بہتر ہوگئے ہیں، اس لئے وہ کوئی
ایسا مطالبہ نہ کریں جس سے ملک میں فرقہ واریت کو دوبارہ سر اٹھانے کا موقع
ملے۔ اِس پُرفریب خیال کی تردید کچھ مبصروں اور مراسلہ نگاروں نے اُس وقت
بھی مدلل طریقے سے کی تھی۔
ایک مبصر کی حق گوئی
اب
رام پنیانی نے اپنے ایک تازہ تبصرے میں اِن دونوں مفروضات کو پُرزور انداز
میں مسترد کردیا ہے، لکھا ہے کہ نہ تو ملک میں حقیقی فرقہ وارانہ ہم آہنگی
قائم ہوئی ہے نہ مسلم کمیونٹی کی معاشی وسماجی حالت میں کوئی قابل ذکر
بہتری آئی ہے۔ دس سال کے عرصے میں کوئی بڑا فرقہ وارانہ فساد نہ ہونے کا
مطلب یہ نہیں کہ مسلمانوں کے خلاف عصبیت اور بھید بھائو ختم ہوگیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ بھید بھائو آج بھی کم وبیش پورے ملک میں اور زندگی کے ہر
شعبے میں جاری ہے۔ فسادات میں پولس آج بھی جانبدار ہے جیسا کہ حال ہی میں
راجستھان میں دیکھا گیا۔ حکومت نے ملک بھر میں یہ یکساں پالیسی اختیار
کررکھی ہے کہ تشدد کے ہر واقعے کے بعد کچھ مسلمانوں کو پکڑ کر معاملہ
’’حل‘‘ کرلیا جاتا ہے۔ گجرات میں ۲۰۰۲ءکے
واقعات کو بھولنے کی بات کہی جارہی ہے لیکن وہاں آج بھی مسلمان بدتر حالت
میں ہیں۔ نہ مظلوموں کو انصاف ملا نہ ان کی بازآباد کاری کی گئی— جو لوگ
محض فسادات نہ ہونے کی بنیاد پر مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم رکھنا چاہتے
ہیں ، وہ غلطی پر ہیں۔ یہ رام پنیانی انگریزی کے ایک بے لاگ اور حقیقت
پسند مبصر ہیں۔ ان کا یہ تبصرہ ۱۲/ مارچ کے ہندوستان ٹائمس میں شائع ہوا ہے۔
مزید گہرائی سے جائزہ لیں
رام
پنیانی نے جن حقائق کی نشاندہی کی ہے، وہ بلاشبہ حقائق ہیں۔اِس میں بھی
کوئی شک نہیں کہ رام پنیانی نے جرأت سے کام لیا ہے۔ تاہم اِس جرأت مندی
کو وہ کچھ اور وسعت دیں اور صورت حال کے اسباب کا جائزہ مزید گہرائی سے لیں
تو یقینا اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ اُسی منصوبہ بند سازش کا نتیجہ ہے
جو برٹش راج کے آخری برسوں میں اور آزادی وطن سے چند سال قبل تیار کرلی گئی
گئی تھی۔ پہلے تو ایسے حالات پیدا کردیئے گئے کہ برصغیر کے مسلمانوں کا
ایک بڑا حصہ اپنے لئے ایک علیٰحدہ مملکت کو اپنے مسائل کا حل سمجھنے لگا
اور پھر بڑی عیاری کے ساتھ ایک چھوٹا سا ٹکڑا بہ شکل پاکستان انھیں دے دیا
گیا اور اس طرح مسلمانوں کی متحدہ قوت توڑ دی گئی، ہندوستانی مسلمانوں کو
مستقلاً یرغمال بناکر عملاً انھیں دوسرے درجہ کے شہری قرار دے دیاگیا۔ پھر
تقسیم ملک کا تمام تر الزام ان کے سرمنڈھ کر ان کے خلاف متواتر پروپگنڈا
تعلیمی نصاب، تاریخی کتب اور میڈیا کے ذریعے کیاگیا۔ اِس گہری اور دور رس
چانکیائی سازش کے نتیجے میں وہی صورتحال پیدا ہونی تھی جس کا رونا رام
پنیانی آج رو رہے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان مسلم کمیونٹی کو یہ پہنچا کہ اِس
صورتحال میں الجھ کر وہ اپنا داعیانہ منصب اور امت وسط کا مقام ہی بھول گئی
﴿پ ر﴾
No comments:
Post a Comment