تناظر
شاہ نواز فاروقی
-مولانا رومؒ کی ایک حکایت کا لب لباب یہ ہے کہ ہندوستان میں صدیوں پہلے چھ
نابینا رہا کرتے تھے۔ وہ عالم تو نہ تھے مگر ان میں علم کی زبردست طلب
موجود تھی۔ ایک بار انہیں معلوم ہوا کہ ان کے علاقے میں ہاتھی آیا ہے۔
انھوں نے ہاتھی کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا مگر انہیں معلوم نہیں تھا
کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ مل جل کر ہاتھی دیکھنے پہنچے۔ نابینا
افراد دیکھ نہیں سکتے، اس لیے وہ لمس کو اپنی آنکھ بناتے ہیں۔ نابینا ہاتھی
کے قریب پہنچے تو ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر ہاتھی کا پیٹ چھوا اور کہا:
ارے ہاتھی تو ’’ہمدرد‘‘ سا ہے، چنانچہ یہ بالکل دیوار کی طرح ہے۔ دوسرے
نابینا نے ہاتھی کا پیر چھوا اور کہا کہ ہاتھی دیوار کی طرح تھوڑی ہے، یہ
تو درخت کے تنے کی طرح ہے۔ تیسرے نابینا کا ہاتھ ہاتھی کے دانتوں پر پڑا جو
چکنے اور نوکیلے تھے۔ چنانچہ اس نے اعلان کیا کہ ہاتھی نہ دیوار کی طرح ہے
نہ درخت کے تنے کی طرح، بلکہ ہاتھی ’’نیزے‘‘ کے جیسا ہے۔ چوتھے نابینا کا
ہاتھ ہاتھی کے کان پر پڑا۔ اس نے کان کو اچھی طرح چھوا اور فرمایا کہ ہاتھی
دراصل ’’پنکھے‘‘ کی طرح ہے۔ پانچویں نابینا کے ہاتھ میں ہاتھی کی سونڈ
آگئی، اس نے سونڈ کو اچھی طرح ٹٹولا اور فیصلہ سنایا کہ باقی نابینا غلط
کہتے ہیں، ہاتھی ان کے بیانات کے برعکس ’’سانپ‘‘ کی طرح ہے۔ چھٹے نابینا نے
اتفاق سے ہاتھی کی دُم پکڑ لی اور اس کو اچھی طرح محسوس کرکے کہا کہ اس کے
تمام دوستوں کا خیال غلط ہے، اصل میں ہاتھی ’’رسّی‘‘ کے جیسا ہے۔
اس حکایت کا مفہوم عیاں ہے۔ زندگی کی حقیقت اور انسانوں کا باہمی تعلق
ہاتھی اور نابینا افراد کا تعلق ہے۔ زندگی کی حقیقت ہمہ گیر اور ہمہ جہتی
ہے اور اسے سمجھنے کے لیے ’’تناظر‘‘ ناگزیر ہے۔ لیکن انسانوں کی عظیم
اکثریت نابینا افراد کی طرح زندگی کے ایک جزو کو کُل سمجھ لیتی ہے اور اسی
پر اصرار کرتی ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ تناظر کا مفہوم کیا ہے؟ اس حکایت کی
روشنی میں تناظر پورے ہاتھی یا زندگی کی کلیت اور اس کی معنویت کا بیان ہے۔
اس کلیت اور اس معنویت سے محروم ہو کر زندگی ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے اور اس
کا جلال و جمال کہیں کھو جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت
تناظر سے محروم کیوں ہوتی ہے؟
اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت کو زندگی جیسی ملتی ہے وہ
اس کو ویسے ہی قبول کرلیتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اسے زندگی جیسی ملی ہے وہ
بس ویسی ہی ہے۔ زندگی کی اس سطح پر نہ تناظر موجود ہوتا ہے نہ اس کی ضرورت
محسوس ہوتی ہے۔ اس سطح پر زندگی کی تعریف انفرادی مفاد سے متعین ہوتی ہے۔
چنانچہ انسان کا انفرادی تناظر ہی انسان کا تناظر بن جاتا ہے۔ مفاد کا تصور
منجمد نہیں، اس میں توسیع ہوسکتی ہے، اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ مفاد کے
دائرے میں رہ کر زندگی کو دیکھنے والے انفرادی مفاد کی سطح سے بلند ہوتے
ہیں تو گروہی یا طبقاتی مفاد کو پوجنے لگتے ہیں، اور پھر یہی مفاد ان کا
تناظر یا Perspective بن جاتا ہے۔ مفاد کے ’’فلسفے‘‘ میں مزید ترقی ’’قومی
مفاد‘‘ کو سامنے لاتی ہے، جو مفاد پرستی کی معراج ہے۔ لیکن قومی مفاد بھی
تناظر سے اتنا ہی محروم ہوتا ہے جتنا کہ انفرادی مفاد۔
مفاد ’’ترقی‘‘ کرکے ذہنی و نفسیاتی حقیقت بنتا ہے تو تعصب میں ڈھل جاتا ہے۔
لسانی، نسلی اور جغرافیائی تعصب اس کی بڑی بڑی مثالیں ہیں۔ تعصب دراصل
احساسِ کمتری کی معکوس صورت ہوتی ہے۔ یعنی تعصب میں احساسِ کمتری احساسِ
برتری بن کر سامنے آتا ہے۔ تعصب کی اصل یہ ہے کہ یہ اس بات پر نہیں ہوتا کہ
ہم برتر ہیں بلکہ اس بات پر ہوتا ہے کہ دوسرا کمتر ہے۔ تعصب کا کمال یہ ہے
کہ وہ اپنے فلسفہ ہونے کا تاثر پیدا کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ تاریخ میں
اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ کارل مارکس اور مائو نے طبقاتی مفاد اور
طبقاتی تعصب کو ایک نظریہ اور تناظر بناکر پوری انسانی تاریخ پر پھیلا دیا۔
لیکن یہ معاش کے جزو کو کُل بنانے کی کوشش تھی، اس لیے مارکس کا تناظر
حقیقی معنوں میں تناظر کہلانے کا مستحق نہ تھا۔ لیکن اگر ہم مارکس کے تناظر
کو جزوی معنوں میں تناظر تسلیم کرلیں تو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ
تناظر اتنی اہم چیز ہے کہ وہ پوری تاریخ کو اپنے رنگ میں رنگنے کی صلاحیت
رکھتا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال معروف ترقی پسند دانش ور سید سبط حسن کی
کتاب ’’موسیٰ سے مارکس تک‘‘ ہے۔ اس کتاب میں سبط حسن نے ثابت کرنے کی کوشش
کی ہے کہ طبقاتی کشمکش صرف مارکس کے زمانے کی چیز نہیں ہے بلکہ یہ کشمکش
حضرت موسیٰؑ کے عہد میں بھی برپا تھی۔ یعنی سبط حسن نے حق و باطل کی کشمکش
کو بھی طبقاتی کشمکش کا رنگ دے دیا اور فرمایا کہ حضرت ابوذر غفاریؓ
مسلمانوں کی تاریخ کے ’’پہلے سوشلسٹ‘‘ تھے۔ یہ تاریخ کا قتل عام ہے، لیکن
تناظر کی قوت قتل عام کو بھی ’’علم‘‘ بنادیتی ہے۔
مفاد اور تعصب سے بلند سطح پر اطلاع کا مقام ہے۔ انسان مفاد اور تعصب سے
پاک ہو تو بھی وہ اپنے مشاہدے اور تجربے کا اسیر ہوتا ہے۔ انسان کا مشاہدہ
اور تجربہ کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو پھر بھی محدود ہوتا ہے اور وہ حقیقی
تناظر کی فراہمی کے لیے کفایت نہیں کرتا۔ اس کی ایک مثال نظیر اکبر آبادی
کی وہ نظم ہے جس میں انھوں نے کہا کہ بھوکے کو چاند میں بھی روٹیاں نظر آتی
ہیں۔ یعنی بھوکے کو چودھویں کے چاند کی صورت بھی روٹی کی طرح محسوس ہوتی
ہے۔ اس کے برعکس مثال یہ لطیفہ ہے کہ ایک شہزادی کو جب معلوم ہوا کہ لوگوں
کے پاس کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے تو اس نے کہا کہ اگر ان کے پاس روٹی نہیں
ہے تو وہ کیک کھالیں۔ ساحر لدھیانوی ترقی پسند تھے چنانچہ انھوں نے تاج
محل کے بارے میں فرمایا کہ اِک شہنشاہ نے حسیں تاج محل بنواکر ہم غریبوں کی
محبت کا مذاق اڑایا ہے۔ شکیل بدایونی غزل کی عشقیہ روایت کے امین تھے
چنانچہ انھوں نے کہا کہ اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل، ساری دنیا کو
محبت کی نشانی دی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کسی اطلاع یا شے کو اپنے
مشاہدے اور تجربے کی عینک سے دیکھتا ہے، اور چونکہ اس کا مشاہدہ اور تجربہ
موضوعی یعنی Subjective اور محدود ہوتا ہے اس لیے اس کے ہاتھ میں حقیقت کے
ہاتھی کی جو چیز آجاتی ہے اسی کی بنیاد پر وہ ہاتھی کی تعریف متعین کردیتا
ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہاتھی کی کلیت یا
Totality کو دیکھنے اور بیان کرنے والی نظر کہاں سے فراہم ہوسکتی ہے؟
اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ حقیقی تناظر انسان کو صرف مذہب سے فراہم
ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور انبیاء و مرسلین کی طرح
حقیقت کی جامعیت اور کلیت کو کوئی نہیں جان سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب سے
فراہم ہونے والے تناظر کی عمر ہزاروں سال ہوتی ہے۔ اس کے برعکس انسانی
ساختہ تناظر پچاس، سو سال میں ازکارِِ رفتہ ثابت ہوجاتا ہے۔ یعنی وہ
ازکارِِ رفتہ تو پہلے دن سے ہوتا ہے مگر پہلے دن اس کی فرسودگی ظاہر اور
ثابت نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر نیوٹن کا نظریۂ کائنات 300 سال تک ایک
تناظر بنارہا، لیکن آئن اسٹائن کے نظریۂ اضافیت نے اس کو فرسودہ ثابت
کردیا، اور خود آئن اسٹائن کے نظریات کو کوانٹم فزکس کے نظریات نے پچاس
سال میں چیلنج کردیا۔ مذہب کے دائرے میں آسمانی کتب اور پیغمبروں کے قول و
عمل سے ذرا نیچے الہام کی روایت موجود ہوتی ہے۔ اس روایت کی اہمیت یہ ہے کہ
امام جعفر صادقؒ نے فرمایا ہے کہ جس نے الہام کے بغیر قرآن پر کلام کیا وہ
راندۂ درگاہ ہوا۔مذہب کے بعد انسان کو تمام علوم و فنون میں سب سے بہتر
تناظر ادب بالخصوص شاعری سے فراہم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری روایت میں
پڑی شاعری کو پیغمبروںکا جزو تک کہا گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال مولانا
روم کی شاعری ہے جسے فارسی میں قرآن کہا گیا ہے۔ مولانا کی شاعرانہ سطح سے
نیچے بھی ہماری شاعری تجربے اور تناظر کی بلند سطح کو سامنے لاتی ہے۔ مثلاً
میر‘ غالب اور اقبال کی شاعری حقیقت کی کلیت کو اس طرح بیان کرتی ہیں کہ
ایک، ڈیڑھ اور دو صدی کے بعد بھی یہ شاعری پرانی محسوس نہیں ہوتی۔
No comments:
Post a Comment