Search This Blog

Tuesday, 6 March 2012

اسرائیل کے تحفظ کا امریکی عزم

اسرائیل کے تحفظ کا امریکی عزم

- امریکی صدربارک اوباما نے لگی لپٹی رکھے بغیرصرف اسرائیل کا تحفظ کرنے کا عزم دوہرایاہے اور ایران کے خلاف فوج سمیت پوری امریکی طاقت استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے۔ دیگرامریکی صدورکی طرح اوباما کی بھی یہ مجبوری ہے کہ صہیونیوں کی حمایت کے بغیر امریکا کا اقتدارحاصل نہیں ہوسکتا۔ امریکا میں نئے صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں چنانچہ اوبامانے اسرائیل کو خوش کرنے کی مہم تیزکردی ہے۔ انہوں نے اسرائیل کے دہشت گرد وزیراعظم بن جامن نیتن یاہو کو سفیر امن کا خطاب دیا اور صدر شمعون پیریزکو امریکاکا اعلیٰ ترین شہری اعزاز‘ صدارتی تمغہ برائے آزادی دینے کا اعلان بھی کیا۔ اوباما نے واشنگٹن میں یہودی لابی امریکن اسرائیل پبلک افیئرزکمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیاکہ امریکا اسرائیل کے تحفظ کے عزم پرقائم ہے اور ایران کے جوہری ہتھیاروں کے منصوبے کو روکنے کے لیے ہرطرح کی طاقت استعمال کرے گا۔ یہ ایک طرف تو اپنے پروردہ اسرائیل کے لیے تسلّی ہے اور دوسری طرف اوباماایک مسلم ملک کے خلاف نیا محاذ کھولنے جارہے ہیں۔ درحقیقت کئی عشروں سے ایران پرپابندیاں لگاکر امریکا یہ محاذتوکھول ہی چکاہے۔ پہلے وہ افغانستان اورعراق میں الجھاہوا تھا اب اسے نئے محاذ کی ضرورت ہے تاکہ امریکی عوام کی توجہ تباہ حال معیشت کی طرف سے ہٹائی جاسکے۔ مگر ایسا ممکن نہیں ہے۔ امریکی عوام سڑکوں پرنکلے ہوئے ہیں اوریہ جان چکے ہیں کہ امریکی حکمرانوں نے بے مقصد جنگیں لڑکر امریکا کی معیشت کو تباہ کردیاہے۔ دیکھنایہ ہے کہ نئی مدت صدارت کے لیے یہودی لابی کس حدتک اوباماکا ساتھ دے گی۔ ان کی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن بھی یہودیوں کے بل بوتے پر جیتی ہیں جس کے عوض انہوں نے اپنی اکلوتی لڑکی بھی یہودیوںکو دے دی ہے۔ اوباماکا دعویٰ ہے کہ عالمی دبائو ایران کو ایٹمی پیش رفت پر مذاکرات کے لیے مجبورکردے گا۔ وہ اس پرخوش ہیں کہ امریکی کوششوں نے ایران کو تنہا کردیاہے اور اس کی قیادت تقسیم ہوگئی ہے۔ ایران کے خلاف امریکاکئی محاذوں پرلڑرہاہے۔ اوباما کے پیش رو بش نے ایران کے اندر انتشارکے لیے کروڑوں ڈالرمختص کیے تھے اور اب بھی اس پر عمل ہورہاہے۔ ایران میں قیادت کی تقسیم کا جو اشارہ اوبامانے دیاہے اس کے کچھ آثارایران کے حالیہ انتخابات میں نظرآئے ہیں۔ پارلیمانی انتخابات میں موجودہ صدر احمدی نژاد کے حامیوںکو بری طرح شکست ہوئی ہے اور خیال کیاجارہاہے اگلے برس ہونے والے صدارتی انتخاب میں احمدی نژاد بے اختیار ہوجائیں گے۔ اس وقت ایران کے رہبراعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے حامیوں نے 75 فیصد نشستیں حاصل کرلی ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ایرانیوں نے اصلاح پسندوں کو مستردکردیاتھا جن کا موقف تھا کہ وہ امریکا سے محاذ آرائی نہیں چاہتے۔ ممکن تھا کہ اصلاح پسند اگر برسراقتدارآجاتے توایٹمی پروگرام امریکاکی مرضی کے مطابق ختم کردیاجاتا تاہم خامنہ ای کے حامیوں کی حکومت آگئی تو بھی ایران کے جوہری موقف میں تبدیلی کا امکان نہیں۔ خامنہ ای اور احمدی نژاد میں کئی معاملات پراختلافات ہیں لیکن خارجہ حکمت عملی اورامریکا سے تعلقات کے مسئلہ پرکوئی اختلاف نہیں۔ خامنہ ای آیت اللہ خمینی کے جانشین ہیں جنہوں نے امریکا کو شیطان بزرگ کا لقب دیاتھا۔ چنانچہ ضروری نہیںکہ ایران میں قیادت کی تبدیلی سے امریکاکے مذموم عزائم بھی پورے ہوں۔ بظاہرتواوباما نے مذاکرات کا دروازہ بندنہ کرنے کا عندیہ دیاہے لیکن جس اسرائیلی وزیراعظم کو وہ امن کا سفیر قراردے رہے ہیں یہ وہی ہیں جنہوں نے امریکا کے حالیہ دورے میں پوری دنیاپرزوردیاتھا کہ ایران کے جوہری پروگرام کو ہرقیمت پر روکاجائے کیونکہ یہی وہ سب سے بڑا خطرہ ہے جو اسرائیل کو درپیش ہے۔ نیتن یاہو نے مزیدکہاتھا کہ بین الاقوامی برادری کو ایران پر یہ واضح کردینا چاہیے کہ اگر وہ جوہری پروگرام سے باز نہ آیا تو ایک فوجی کارروائی کے لیے تیار رہے‘ مغربی ممالک گفتگو اور معاشی مقاطع سے ایران کے جوہری پروگرام کو نہیں روک سکتے۔ اور اس پراوباما نے بھی کہا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام کے مسئلہ پر امریکا اسرائیل کے ساتھ ہے۔ واشنگٹن میں یہودی لابی سے خطاب کرتے ہوئے اوباما نے اسرائیل کو اس بات کا یقین دلایاہے کہ ایران کے خلاف فوجی حملہ سمیت ہرطرح کی طاقت استعمال کی جائے گی۔ اب یہ بات تو پرانی ہوگئی کہ ایران کے جوہری پروگرام پر خوف زدہ امریکا اور مغربی ممالک کو اسرائیل کے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم نظرنہیں آتے اور نہ ہی اس کی ایٹمی تنصیبات کی فکرہے کیونکہ یہ یہودی بم ہیں‘ عیسائی بم ہیں یا ہندوبم ہیں جو شاید انسانیت کے لیے ایسے خطرناک نہ ہوں جیساکوئی اسلامی بم ہوسکتاہے جبکہ ایران تو بارہا یقین دلاچکاہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ اسرائیلی دہشت گردوں کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح امریکااورمغربی ممالک اب ایران پرحملہ کردیں۔ یہ بھی تو یہودی دماغ ہی کی کارستانی تھی کہ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد امریکا کو باورکرایا کہ اب اس کا سب سے بڑا دشمن اسلام اور مسلمان ہیں۔ اس کو پختہ کرنے کے لیے ہی نائن الیون کا ڈراما رچایاگیا۔بہرحال ایران پرپابندیوں کے نتیجے میں تیل کی ترسیل میں رکاوٹ سے مغرب کو بھی دشواریوں کا سامنا ہوگا مگر اسرائیل تو خوش رہے گا۔

No comments:

Post a Comment