Search This Blog

Friday 30 March 2012

غیرت جگائو‘عافیہ کو لائو


غیرت جگائو‘عافیہ کو لائو

مظفر اعجاز 2012
-غیرت‘عزت‘ وقارقوم…وغیرہ یہ سب کیاہے…کیا ان چیزوں کی کوئی اہمیت ہے؟ کہاجاتاہے کہ غیرت ووقارکا سوداکرنے والی قومیں مٹ جاتی ہیں صفحہ ہستی سے بھی اور صفحہ تاریخ سے بھی۔ پاکستانی قوم نے 1971ء کے سانحہ کے بعد سے نہ توسبق سیکھا اور نہ غلطیوں کی اصلاح کی۔ اس کا نتیجہ زوال اورزوال ہی کی صورت میں نکلنا تھا جس فوج کو ہم دنیا کی بہترین پیشہ ورفوج کہتے تھے وہ اب پوری دنیا میں رسوائی کا سامناکررہی ہے۔ پاکستان میں ایک ایسی سیاسی جماعت اور ایسی سیاسی جماعتیں اس کا ناطقہ بندکررہی ہیں جن کے بارے میں کہاجاتاہے کہ ان جماعتوں کو پیدااورپرورش کرنے کا سارا کام فوج نے ہی کیاتھا لیکن بات یہ ہے کہ جس چیز کا بیج بویا جاتاہے فصل بھی اسی کی کاٹنی پڑتی ہے۔ پاکستان میں بار بار فوجی مداخلت‘ پھرفوجی اقتدار اوراس کے علاوہ خفیہ ایجنسیوں کا بے پناہ رسوخ اور معاملات میں دخل نے ایک طرف ان ایجنسیوں کو بے پناہ قوت بخش دی اور دوسری طرف اس طاقت نے اناکو کمزوربنادیا۔ آج بے پناہ طاقت رکھنے کے باوجود پاکستانی فوج پاکستان کے معاملات میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی اصلاح کرنے سے قاصرہیں۔ حالانکہ خرابیوں میں سے بے تحاشا اس کی اپنی پیداکردہ ہیں۔ ان ہی خرابیوں میں سے ایک جنرل پرویزمشرف کے دورکی پیداکردہ ہے اور وہ ہے ڈاکٹرعافیہ صدیقی‘ اسے پاکستانی ایجنسیوں نے 30 مارچ 2003ء کو کراچی سے اغواکیا افغانستان پہنچایا اور وہاں ایک قاتلانہ حملے میں زخمی کردیا اس کے زندہ بچ جانے کی اطلاع پاکر امریکیوں نے دوبارہ اسے اغواء کیا اور پھروہ کسی طرح امریکا پہنچادی گئی۔ آج 9 سال ہونے کو ہیں پاکستانی قوم نے اپنی عزت‘ غیرت‘ وقار سب دائوپرلگارکھے ہیں۔ 71ء کے سانحہ کا حساب نہیں چکایا۔ جنرل نیازی نے جو پستول دیا تھا وہ واپس نہیں لاسکے۔ سانحہ ایبٹ آباد کا بدلہ نہیں چکاسکے۔ ریمنڈڈیوس کو سزا نہیں دے سکے۔ کارگل کابدلہ نہیں لے سکے۔ کون سا ایسا کام ہے جو پاکستانی قوم نے کر دکھایا ہو۔ کرکٹ کا عالمی کپ جیت لینا یا ٹوئنٹی 20 کپ جیت لینا کوئی کارنامہ نہیں اپنی عزت کی حفاظت کرنا اور وقارکا سودانہ کرنا اصل بات ہے۔ امریکا نے تو آج تک کرکٹ کا ورلڈ کپ نہیں جیتا اور نہ ہی وہ ٹوئنٹی 20 کھیلتاہے لیکن اپنے ملک کے دہشت گرد قاتل ریمنڈڈیوس کو جیل سے چھڑاکرلے جاتاہے۔ ہمارا سو روپے والا بے غیرت وکیل کہتاہے کہ غیرت مند قومیں ریمنڈڈیوس جیسے آدمی کو لے جاتی ہیں۔ ہمارا سوال ہے کہ غیرت مند قوم اپنی بیٹی عافیہ کو کیوں نہیں لاسکی۔ سارا مسئلہ غیرت کا ہے۔ یہ مان لینا ذرامشکل کام ہے کہ بحیثیت قوم ہماری غیرت مرنہیں گئی ہے۔ تو کم ازکم سو ضروررہی ہے۔ یہ بات غیرت ہی کی تو ہے کہ سندھ میں راجا داہرکے مظالم پر ایک عورت واحجاجا کا نعرہ بلندکرتی ہے اورحجاج اپنے بھتیجے کو داہرکی سرکوبی کے لیے بھیج دیتاہے۔ اورپھر محمدبن قاسم کے قدم رکتے نہیں وہ دیبل سے ملتان بھی جاپہنچتاہے اور آج تک ایک عورت کی پکارپر ہند اور سندھ میں محمدبن قاسم کے نشانات ملتے ہیں۔ آج آواز اٹھائی جارہی ہے کہ پھرکوئی محمدبن قاسم اٹھے اور قوم کی بیٹی کی آوازپرلبیک کہے۔ لیکن کہیں ہمارے خیال میں اب کوئی محمدبن قاسم نہیں اٹھے گا۔ اگربنناہے تو پاکستانی نوجوانوں ہی کو محمد بن قاسم بنناہوگا۔ جس طرح فلسطینیوں نے یہودی مظالم اور مسلم حکمرانوں کی بے حسی دیکھ کر نعرہ لگایا تھا کلّناصلاح الدین ۔یعنی’’ہم سب صلاح الدین ہیں‘‘ تو پھرآج پاکستانی نوجوانوں کو بھی یہی نعرہ دیناہوگا کہ ہم سب محمدبن قاسم ہیں۔ راجہ داہرکی قیدمیں مسلمان خواتین کی آوازہزاروں میل دور حجاج بن یوسف تک پہنچ گئی لیکن آج ہمارے کانوں میں عافیہ کی آوازیں نہیں آرہیں۔ آج تو انٹرنیٹ ہے۔ فیس بک ہے۔ ٹوئٹرہے۔ ٹی وی چینلز کی لائیوکوریج ہے۔ پھر عافیہ کی آواز کیوں دب رہی ہے۔ اس لیے کہ غیرت سورہی ہے۔ آج غیرت جاگ جائے پھر دیکھیں قوم کی بیٹی کس طرح آزاد ہوکر وطن واپس آتی ہے۔ویسے تو یہ بات سب کو پتا ہے کہ 30 مارچ کو عافیہ کی امریکی قیدمیں9 سال پورے ہوجائیں گے۔ اس دوران کون سا ظلم ہے جو اس پر روا نہیں رکھا گیا۔ ذہنی جسمانی اذیتیں دی گئیں۔ ایسی اذیتیں جن کو دہراتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ۔ لیکن پتا نہیں یہ کیسی بے حسی ہے کہ سب کچھ جاننے کے باوجود قوم ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ قرآن پاک جلایاجاتاہے اور اسکارف چھینا جاتاہے برہنہ کیاجاتاہے۔ بھری عدالت میں تھپڑماراجاتاہے۔ ناکردہ گناہ پر 86 برس کی قید ہوتی ہے۔ الزام لگاکر ثابت نہیں کرپاتے پھربھی قیدکی سزاہوتی ہے۔ یہ سب کیاہے۔ چوہدری اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ غیرت مند قوم اپنا بندہ چھڑالیتی ہے انہوں نے سیدھاسادا الزام لگادیاہے کہ قوم بے غیرت ہوگئی ہے۔ کیا آج پھر ایک دن منالینا کافی ہوگا۔ دن منانے میں تو ہم سے آگے کوئی نہیں۔ بابائے قوم کا دن آزادی کا دن‘ قرارداد پاکستان کا دن‘ عہدکا دن‘ محروم کا دن‘ ربیع الاول کا دن‘ اور اب پھر قتل پر سوگ کا دن کا پیغام ہمارے دل میں نہیں اترتا۔ اب 30 مارچ بھی منالیں کچھ نہیں ہوگا جب تک قومی غیرت نہیں جاگے گی‘ کچھ نہیں ہوگا۔

No comments:

Post a Comment