دین و ادب ایکدوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں.
زبیر حسن شیخ
انسان فطرتا ادب پسند واقع ہوا ہے. اسکی تخلیق میں ادب کا عنصر ودیعت کردیا گیا ہے اور اسکی واضح دلیل یہ ہے کہ آسمانی صحائف ادب کے منتہائے کمال کا مظہر رہے ہیں اور ان میں شاعرانہ لطافت اور نثری فصاحت و بلاغت شامل رہی ہیں. خالق حقیقی کے احکامات اور طرز بیان و تخاطب میں انسان کے لطیف احساسات اور شاعری و ادب کے تئیں رغبت کا خیال رکھاگیا ہے. کائنات کے رموز و نکات میں غور کرنے والوں کی تخصیص کی گئی ہے، انھیں مختلف القابات سے نوازا گیا ہے جو ادبا، شعرا، فلاسفہ، سائنسداں، مورخ اور ایسے ہی دیگر علوم کے ماہرین کے لیے مختص ہے. ادب کا یہ خاصّہ رہا ہے کہ وہ انسانی تہذیبی ارتقا سے متاثر ہوکر کائنات کے مختلف موضوعات کو اپنے دامن میں سمیٹتا رہا جن میں فلسفہ، تاریخ، سیاست، روحانیت، جمالیات، نفسیات، عمرانیات، معاشیات، حیاتیات، سائینس وغیرہ شامل رہے. یہ وہی موضوعات ہیں جنہیں دین نے متعارف کرائے ہیں اور جنکے بنیادی اصول بھی پیش کئے ہیں. سن چھ سو سے سن گیارہ سو عیسوی تک، حجاز، بغداد، دمشق، اندلس اور غرناطہ میں قران مجید کےاحکامات کی پیروی میں مذکورہ تمام موضوعات پر شد و مد سے غور و فکر کیا گیا اور ان علوم کی اساس قائم کی گئیں اور آنے والی نسل انسانی کے لئے بے نظیر ادبی مثالیں قائم کی گئیں. انہیں اساس پر یوروپ میں نشاہ ثانیہ کا ظہور ہوا. مغربی فلاسفہ، سائنسداں اور دیگر ماہرین علوم کے افکارات کو پرواز کا حوصلہ اسی اساس سے حاصل ہوا، اور اکثر مغربی ادبا و علما نے فراخدلی سے اسکا اظہار بھی کیا. صنعتی انقلاب کے بعد کچھ عرصہ تک ادب نے اصلاحی امور کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی لیکن اسکے بعد ادب کا اصلاحی موقف تبدیل ہوتا گیا. پھر وہ دور بھی آیا کہ ادب مادیت پرستی، سرمایہ داری، گروہ بندی، زرد صحافت اور سیاست غلیظہ کا شکار بن کر رہ گیا.
تمہید کے پس منظر میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دین صرف عقائد کا نام نہیں بلکہ وہ انسان کی انفرادی، اجتماعی، ظاہری، باطنی، روحانی، عقلی، قلبی، حسی الغزض تمام ضرورتوں کی رہنمائی بھی کرتا ہے. ادیب و شاعر کے افکار پر دین کا جسقدر غلبہ ہوتا رہا اسی قدر وہ اسکی ادبی تخلیقات میں ظاہر ہوتا رہا. البتہ عالم دین اپنے فرائض کی انجام دہی میں ضرورتا آینہ داری بھی کرتا رہا اور ادب کے مختلف پیرائے کا استعمال بھی. ہرجید عالم دین ایک اعلی و معیاری ادیب واقع ہوا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر ادیب ایک عالم دین بھی ہو. ایک جیدعالم دین اور اصطلاحی "کٹھ ملا " میں زمین و آسمان کا فرق رہا ہے. "کٹھ ملا" اردو ادب میں ایک ایسا علامتی کردار رہا جو اخلاقی قدروں سے منحرف ادبا کا کمزور شکار بنا رہا اور جسے طنز و مزاح کے پہلو میں رکھ کر خوب داد و دہش وصول کی گئی. " کٹھ ملا" بھلے ہی دینی علوم پر دسترس رکھتا ہو لیکن ضروری نہیں کہ وہ حکمت بھی رکھتا ہو جو ایک جیدعالم دین کا اعجاز ہے، وہ دانشمندی بھی رکھتا ہو جو ایک جیدعالم دین عمر بھر کی عرق ریزی سے حاصل کرتا ہے. ایسے "کٹھ ملا" ہر دین و مذہب اور جماعت میں پائے جاتے رہے ہیں جو کبھی ادب کو شجر ممنوعہ قرار دیتے رہے تو کبھی دین کو کسی تارک الدنیا کی میراث، کبھی حفیظ میرٹھی جیسے ادبا و شعرا کے افکارات کو جماعتی اصولوں کے ترازو میں تولا کرتے رہے تو کبھی جماعت کے سابقون اور اولون کی محنت شاقہ پر اپنی ناتجربہ کاری سے پانی پھیر ا کرتے رہے . ایسے حضرات کے دینی اخلاص پر شبہ کرنا فی الحقیقت بے جا ہوگا لیکن انکی غیر دانشمندی سے ادب کے تئیں جو تنفر پیدا ہوا وہ دین و ادب کے باہمی روابط کی بیخ کنی کا باعث بنتا رہا. اسی طرح ادب میں وہ ادبا بھی پیدا ہوتے رہے جو نرے ادیب ثابت ہوئے اور باہمی روابط کی اس بیخ کنی میں برابر کے حصے دار بھی. ایک نرا ادیب اخلاقی اقدار کے اصولوں سے پہلو تہی کر اپنے افکار و عمل سے دنیا کو جنت ثابت کرنے پر بضد رہا، ہمیشہ ادب میں دین کے داخلہ سے خائف رہا کہ کہیں ان دیکھی جنت کے عوض میں دیکھی دکھائی جنت اس سے نہ چھن جائے. الغرض یہ دونوں کردار حقیقت سے فرار چاہتے رہے، اس طالب علم کی طرح جو تعلیم تو جیسے تیسے حاصل کر لیتا ہے لیکن امتحان گاہ میں بیٹھنے کا خیال آتے ہی حواس باختہ ہو جاتا ہے اور امتحان دینے کا قائل نہیں ہوتا. یہ دونوں علامتی کردار اپنے افکارات کے سفر میں ترقی بھی کرتے دیکھے گئے اور پھر کٹھ ملا کو عالم دین بنتے دیکھاگیا اور نرے ادیب کو صالح ادیب.
کسی "کٹھ ملا" اور نرے ادیب کو تمہید میں بیان کردہ حقائق کو قبول کرنے میں شاید عار محسوس ہوگا اور انکے مطالعہ میں شاید نہ آیا ہو کہ قرآن مجید جہاں تمہید میں بیان کردہ موضوعات کے اصول و قواعد پیش کرتا ہے ونہیں علم معانی، علم بیان، علم بدیع، تشبیہات و استعارات، تصریف و تضمین اور ایسے ہی سینکڑوں ادبی اصولوں اور قواعد کے متعلق رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے. دین و ادب میں باہمی ربط کی صرف یہ ایک مثال کٹھ ملا اور نرے ادیب کے موقف کو رد کرنے کے لئے کافی ہے؛ . عہد فاروقی کے نامور شاعر حضرت خالد بن صعق نے اپنے کلام میں معاشرہ کی آئینہ داری فرماتے ہوئے، حکومت کے عمال کی دولت میں غیر معمولی اضافہ کا ذکر فرمایا تھا. جب انکے اشعار امیرالمومنین کے علم میں آئے تو انہوں نے بروقت فیصلے صادر فرمائے اور معاشرہ کے اس ناسور کی روک تھام کے لیے لاثانی قانون وضع کئے اور اسے نافذ بھی کیا.
ایک عام ادیب کی مثال ایک سایہ دار درخت کی طرح ہے لیکن ایک صالح ادیب کی مثال ایسے درخت کی ہے جو سایہ کے ساتھ ساتھ پھل اور پھول بھی دیتا ہے اور جسکی بدولت بے شمار چمن وجود میں آتے ہیں. ایک نرا ادیب چند ہم خیال و ہم اطوار حضرات کے افکار و اعمال کو زندگی کی سچائیوں سے تعبیر کرتا ہے. زندگی کی انہیں سچائیوں کی آئینہ داری کرنے کے لئے دین کے پاس بہترین اور قابل تقلید مثالیں موجود ہیں، جہاں برہنگی کو ثابت کرنے میں ادب کی رسوائی کا خدشہ نہیں ہوتا، جہاں جمالیاتی حس الفاظ کے بندھ توڑ کر جنسیات پر نہیں اتر آتی اور جہاں لطیف احساسات لہوو لعب کے ملبہ تلے دب نہیں جاتے. دین نے ایسے ہی بےحد نازک احساسات کے اظہار کے لئے بہترین اسالیب پیش کیے ہیں جو انسان کے لطیف احساسات کا پاس رکھنے کی تعلیم دیتے ہیں، اور جو آج بھی اکثر ادبا و شعرا حضرات کے افکار میں نظر آتے ہیں. یہی فن اصل میں ادب ہے ورنہ افکار و بیان و اظہار کی بے بسی ہے جو ادب کے نام پر اکثر مغربی طرز فکر و عمل میں نظر آتی ہے، اور جسے چند ادبا لوازمات میں شمار کرتے آئے ہیں اور اسکی ابتدا کو ادب کی نشاہ ثانیہ. نرا ادیب "عروبا اترابا" میں پوشیدہ شوخی اور ناز و اندام کو شاعری میں متعارف نہیں کرا پاتا اور کٹھ ملا اس ناز و اندام کو جمالیاتی حس کی میزان پر رکھنے سے خوف کھاتا ہے. نرا ادیب نثر میں "انتم لباس لھن و ھنا لباس لکم" جیسی فصاحت و بلاغت کی عکاسی کرنے کو ادب نہیں سمجھتا اور کٹھ ملا اس کی ادبی تشریحات کو زہد و تقوی سے انحراف.
اردو ادب کا قیام و عروج دین کی بنیاد پر ہی قائم رہا ہے اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ اردو کے نامور شعرا و ادبا کا تعلیمی پس منظر دینی علوم سے مزین رہا اور ان میں بلا امتیاز مذہب و ملت کلاسیکی، ترقی پسند اور رجعت پسند سب شعرا و ادبا شامل ہیں. ان میں چند وہ نام بھی ہیں جو دینی علوم میں مہارت رکھتے تھے اور اس کا استعمال کر انہوں نے دین و ادب کے باہمی ربط کو اجاگر کیا، لافانی ادب تخلیق کیا اور معاشرہ کی اصلاح بھی کی اور فلاحی کام بھی کئے. اسی طرح اردو ادب میں ایسے سینکڑوں علمائے دین ہیں جنہوں نے اپنی ادبی قابلیت کا استعمال کر دینی کارہائے نمایاں انجام دئے. ان کے علاوہ اردو ادب میں وہ معتبر نام بھی ہیں جن پر ادب کو ہمیشہ ناز رہا اور انکا پس منظر بھی دینی علوم سے مزین رہا، جن میں بلا امتیاز دین و مذہب و مکتب سب شامل ہیں. اول الذکر ادبا اور علمائے دین دونوں نے اپنی زندگی معاشرہ کی اصلاح کے لئے وقف کردی تھی اور اس کار خیر میں اپنے افکار، اپنی تحریر، تصانیف، کلام اور خطبات کے ذریعے معاشرہ کی آئینہ داری فرمائی اور اصلاحی کارنامے بھی انجام دیے، اور اپنے کردار اور سیرت کا عملی نمونہ پیش کیا. ان حضرات میں ایک قدر مشترک رہی کہ دینی اساس سے انکے افکارات اسقدر پیوست رہے کہ انکی سیرت انکے کارہائے نمایاں میں ظاہر ہوتی رہی، اور ادیب و شاعر کے مقام سے انہیں ایک درجہ بلند مقام عطا کرتی رہی. موخر الذکر ادبا نے بھی اپنے افکار، کلام اور اپنی تصانیف سے معاشرہ کی نہ یہ کہ آئینہ داری کی بلکہ اپنے اپنے طور پر بلواسطہ اصلاح کی کوششیں بھی فرمائیں. لیکن ان میں سے چند ادبا و شعرا کے افکار میں اکثر و بیشتر غلو اور لغویات کی کثرت پائی گئی، اور وہ اپنے افکار و کردار کا وہ نمونہ بھی نہیں پیش کرسکے جو انکے ہمعصر اور اول الذکر حضرات نے پیش کیا، جام و بادہ کا نشہ اور اس پر ادب کا نیا نیا خمار جس نے اکثر ادبا و شعرا کو نرا ادیب بنا کر رکھ دیا تھا. لیکن جب جب دینی افکارات کا غلبہ ہوا تو انہوں ایسے افکارات بھی پیش کیے جو تاریخ میں ضرب المثل قرار دئے گیے اور جید علمائے دین کے علاوہ ایک دنیا نے ان سے استفادہ کیا.
بیسویں صدی کے نصف کے بعد، عمومی طور پر پر دیکھا جائے تواردو ادب نے معاشرہ کو اندھی ادبی تقلید، تنقید برائے تنقید و تنقیص یا ستائش کے علاوہ کچھ نہیں دیا. اور اس کا تذکرہ خود اکثر ادبا و شعرا نے بھی اپنے مضامین اور بیانات میں کیا ہے. انگریزی ادب کی تقلید میں گروہ بندی ہوتی رہی اور عام طور پر ادب کو اپنے اپنے ادبی اکھاڑوں تک محدود کر دیاگیا. چند حضرات ملکر مسلسل تنقید بر تنقید و تنقیص سے ادب کے صفحات سیاہ کرتے رہے. مغربی افکار و تحقیق کو خدائی دعوی سمجھتے رہے اور اپنی جبلی صفات اور تہذیبی روایت کا گلا گھونٹتے رہے. جبکہ اس سے آگے بڑھکر بہت کچھ سوچا اور لکھا جاسکتا تھا. جو ادبا و شعرا ترقی پسند مکتب فکر سے متاثر رہے ان میں سے بھی اکثر و بیشتر کا تعلیمی پس منظر دینی رہا. یہ حضرات اپنے افکار و مقاصد میں متحد رہے اور اپنے دین و ایمان سے بڑھکر اپنے مکتب فکر کے وفا دار رہے. ان میں اکثر ادبا کبھی کہیں اپنے دین سے چوری چھپے جڑے بھی رہے. اکثر ادبا کا ہدف سیاست کی راہوں سے چل کر اپنے مقصد کو حاصل کرنا تھا اور جسکے لئے وہ مختلف مغربی مکتب فکر کے تالابوں میں غواصی کرتے رہے. یہ وہی فکری تالاب ہیں جو جلد ہی خشک ہوگئے اور جنکا وجود پچاس سو سال سے زیادہ قائم نہیں رہا. ترقی پسند حضرات کے علاوہ دیگر مکاتب فکر کے ادبا و شعرا بھی معاشرہ کے لئے کچھ خاص نہیں کر پائے. ان میں سے اکثر ، قدما کے پرستار تو ضرور رہے لیکن انکا پرتو ثابت نہ ہوسکے. معاشرہ کو اب اصلاح کار ادبا و شعرا کی پہلے سے زیاد ضرورت ہے. اردو ادب پر چھایا یہ جمود توڑا جاناچاہیے جو پچھلی صدیوں میں بھی وقتا فوقتا نظر آتا رہا اور جسکی حشر سامانیاں تاریخ و ادب میں رقم کی گئیں ہیں.
اس بات کا احساس ہر " کٹھ ملا" اور "نرے ادیب" کو ضرور ہونا چاہیے کہ دین و ادب کے باہمی روابط میں ہی معاشرہ کی اصلاح کا پہلو مضمر ہے اور یہ ایکدوسرے کے لئے ایسے ہی لازم و ملزوم ہیں جیسے پھول کے ساتھ خوشبو. دونوں کا تعلق انسان کی روحانی غذا سے ہے. دعا ہے کہ یہ روحانی غذا ملاوٹ سے پاک ہو اور روحانی حفظان صحت کے اصولوں پر کاربند ہو.
"وما توفیقی الا باللہ"
زبیر حسن شیخ
انسان فطرتا ادب پسند واقع ہوا ہے. اسکی تخلیق میں ادب کا عنصر ودیعت کردیا گیا ہے اور اسکی واضح دلیل یہ ہے کہ آسمانی صحائف ادب کے منتہائے کمال کا مظہر رہے ہیں اور ان میں شاعرانہ لطافت اور نثری فصاحت و بلاغت شامل رہی ہیں. خالق حقیقی کے احکامات اور طرز بیان و تخاطب میں انسان کے لطیف احساسات اور شاعری و ادب کے تئیں رغبت کا خیال رکھاگیا ہے. کائنات کے رموز و نکات میں غور کرنے والوں کی تخصیص کی گئی ہے، انھیں مختلف القابات سے نوازا گیا ہے جو ادبا، شعرا، فلاسفہ، سائنسداں، مورخ اور ایسے ہی دیگر علوم کے ماہرین کے لیے مختص ہے. ادب کا یہ خاصّہ رہا ہے کہ وہ انسانی تہذیبی ارتقا سے متاثر ہوکر کائنات کے مختلف موضوعات کو اپنے دامن میں سمیٹتا رہا جن میں فلسفہ، تاریخ، سیاست، روحانیت، جمالیات، نفسیات، عمرانیات، معاشیات، حیاتیات، سائینس وغیرہ شامل رہے. یہ وہی موضوعات ہیں جنہیں دین نے متعارف کرائے ہیں اور جنکے بنیادی اصول بھی پیش کئے ہیں. سن چھ سو سے سن گیارہ سو عیسوی تک، حجاز، بغداد، دمشق، اندلس اور غرناطہ میں قران مجید کےاحکامات کی پیروی میں مذکورہ تمام موضوعات پر شد و مد سے غور و فکر کیا گیا اور ان علوم کی اساس قائم کی گئیں اور آنے والی نسل انسانی کے لئے بے نظیر ادبی مثالیں قائم کی گئیں. انہیں اساس پر یوروپ میں نشاہ ثانیہ کا ظہور ہوا. مغربی فلاسفہ، سائنسداں اور دیگر ماہرین علوم کے افکارات کو پرواز کا حوصلہ اسی اساس سے حاصل ہوا، اور اکثر مغربی ادبا و علما نے فراخدلی سے اسکا اظہار بھی کیا. صنعتی انقلاب کے بعد کچھ عرصہ تک ادب نے اصلاحی امور کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی لیکن اسکے بعد ادب کا اصلاحی موقف تبدیل ہوتا گیا. پھر وہ دور بھی آیا کہ ادب مادیت پرستی، سرمایہ داری، گروہ بندی، زرد صحافت اور سیاست غلیظہ کا شکار بن کر رہ گیا.
تمہید کے پس منظر میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دین صرف عقائد کا نام نہیں بلکہ وہ انسان کی انفرادی، اجتماعی، ظاہری، باطنی، روحانی، عقلی، قلبی، حسی الغزض تمام ضرورتوں کی رہنمائی بھی کرتا ہے. ادیب و شاعر کے افکار پر دین کا جسقدر غلبہ ہوتا رہا اسی قدر وہ اسکی ادبی تخلیقات میں ظاہر ہوتا رہا. البتہ عالم دین اپنے فرائض کی انجام دہی میں ضرورتا آینہ داری بھی کرتا رہا اور ادب کے مختلف پیرائے کا استعمال بھی. ہرجید عالم دین ایک اعلی و معیاری ادیب واقع ہوا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر ادیب ایک عالم دین بھی ہو. ایک جیدعالم دین اور اصطلاحی "کٹھ ملا " میں زمین و آسمان کا فرق رہا ہے. "کٹھ ملا" اردو ادب میں ایک ایسا علامتی کردار رہا جو اخلاقی قدروں سے منحرف ادبا کا کمزور شکار بنا رہا اور جسے طنز و مزاح کے پہلو میں رکھ کر خوب داد و دہش وصول کی گئی. " کٹھ ملا" بھلے ہی دینی علوم پر دسترس رکھتا ہو لیکن ضروری نہیں کہ وہ حکمت بھی رکھتا ہو جو ایک جیدعالم دین کا اعجاز ہے، وہ دانشمندی بھی رکھتا ہو جو ایک جیدعالم دین عمر بھر کی عرق ریزی سے حاصل کرتا ہے. ایسے "کٹھ ملا" ہر دین و مذہب اور جماعت میں پائے جاتے رہے ہیں جو کبھی ادب کو شجر ممنوعہ قرار دیتے رہے تو کبھی دین کو کسی تارک الدنیا کی میراث، کبھی حفیظ میرٹھی جیسے ادبا و شعرا کے افکارات کو جماعتی اصولوں کے ترازو میں تولا کرتے رہے تو کبھی جماعت کے سابقون اور اولون کی محنت شاقہ پر اپنی ناتجربہ کاری سے پانی پھیر ا کرتے رہے . ایسے حضرات کے دینی اخلاص پر شبہ کرنا فی الحقیقت بے جا ہوگا لیکن انکی غیر دانشمندی سے ادب کے تئیں جو تنفر پیدا ہوا وہ دین و ادب کے باہمی روابط کی بیخ کنی کا باعث بنتا رہا. اسی طرح ادب میں وہ ادبا بھی پیدا ہوتے رہے جو نرے ادیب ثابت ہوئے اور باہمی روابط کی اس بیخ کنی میں برابر کے حصے دار بھی. ایک نرا ادیب اخلاقی اقدار کے اصولوں سے پہلو تہی کر اپنے افکار و عمل سے دنیا کو جنت ثابت کرنے پر بضد رہا، ہمیشہ ادب میں دین کے داخلہ سے خائف رہا کہ کہیں ان دیکھی جنت کے عوض میں دیکھی دکھائی جنت اس سے نہ چھن جائے. الغرض یہ دونوں کردار حقیقت سے فرار چاہتے رہے، اس طالب علم کی طرح جو تعلیم تو جیسے تیسے حاصل کر لیتا ہے لیکن امتحان گاہ میں بیٹھنے کا خیال آتے ہی حواس باختہ ہو جاتا ہے اور امتحان دینے کا قائل نہیں ہوتا. یہ دونوں علامتی کردار اپنے افکارات کے سفر میں ترقی بھی کرتے دیکھے گئے اور پھر کٹھ ملا کو عالم دین بنتے دیکھاگیا اور نرے ادیب کو صالح ادیب.
کسی "کٹھ ملا" اور نرے ادیب کو تمہید میں بیان کردہ حقائق کو قبول کرنے میں شاید عار محسوس ہوگا اور انکے مطالعہ میں شاید نہ آیا ہو کہ قرآن مجید جہاں تمہید میں بیان کردہ موضوعات کے اصول و قواعد پیش کرتا ہے ونہیں علم معانی، علم بیان، علم بدیع، تشبیہات و استعارات، تصریف و تضمین اور ایسے ہی سینکڑوں ادبی اصولوں اور قواعد کے متعلق رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے. دین و ادب میں باہمی ربط کی صرف یہ ایک مثال کٹھ ملا اور نرے ادیب کے موقف کو رد کرنے کے لئے کافی ہے؛ . عہد فاروقی کے نامور شاعر حضرت خالد بن صعق نے اپنے کلام میں معاشرہ کی آئینہ داری فرماتے ہوئے، حکومت کے عمال کی دولت میں غیر معمولی اضافہ کا ذکر فرمایا تھا. جب انکے اشعار امیرالمومنین کے علم میں آئے تو انہوں نے بروقت فیصلے صادر فرمائے اور معاشرہ کے اس ناسور کی روک تھام کے لیے لاثانی قانون وضع کئے اور اسے نافذ بھی کیا.
ایک عام ادیب کی مثال ایک سایہ دار درخت کی طرح ہے لیکن ایک صالح ادیب کی مثال ایسے درخت کی ہے جو سایہ کے ساتھ ساتھ پھل اور پھول بھی دیتا ہے اور جسکی بدولت بے شمار چمن وجود میں آتے ہیں. ایک نرا ادیب چند ہم خیال و ہم اطوار حضرات کے افکار و اعمال کو زندگی کی سچائیوں سے تعبیر کرتا ہے. زندگی کی انہیں سچائیوں کی آئینہ داری کرنے کے لئے دین کے پاس بہترین اور قابل تقلید مثالیں موجود ہیں، جہاں برہنگی کو ثابت کرنے میں ادب کی رسوائی کا خدشہ نہیں ہوتا، جہاں جمالیاتی حس الفاظ کے بندھ توڑ کر جنسیات پر نہیں اتر آتی اور جہاں لطیف احساسات لہوو لعب کے ملبہ تلے دب نہیں جاتے. دین نے ایسے ہی بےحد نازک احساسات کے اظہار کے لئے بہترین اسالیب پیش کیے ہیں جو انسان کے لطیف احساسات کا پاس رکھنے کی تعلیم دیتے ہیں، اور جو آج بھی اکثر ادبا و شعرا حضرات کے افکار میں نظر آتے ہیں. یہی فن اصل میں ادب ہے ورنہ افکار و بیان و اظہار کی بے بسی ہے جو ادب کے نام پر اکثر مغربی طرز فکر و عمل میں نظر آتی ہے، اور جسے چند ادبا لوازمات میں شمار کرتے آئے ہیں اور اسکی ابتدا کو ادب کی نشاہ ثانیہ. نرا ادیب "عروبا اترابا" میں پوشیدہ شوخی اور ناز و اندام کو شاعری میں متعارف نہیں کرا پاتا اور کٹھ ملا اس ناز و اندام کو جمالیاتی حس کی میزان پر رکھنے سے خوف کھاتا ہے. نرا ادیب نثر میں "انتم لباس لھن و ھنا لباس لکم" جیسی فصاحت و بلاغت کی عکاسی کرنے کو ادب نہیں سمجھتا اور کٹھ ملا اس کی ادبی تشریحات کو زہد و تقوی سے انحراف.
اردو ادب کا قیام و عروج دین کی بنیاد پر ہی قائم رہا ہے اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ اردو کے نامور شعرا و ادبا کا تعلیمی پس منظر دینی علوم سے مزین رہا اور ان میں بلا امتیاز مذہب و ملت کلاسیکی، ترقی پسند اور رجعت پسند سب شعرا و ادبا شامل ہیں. ان میں چند وہ نام بھی ہیں جو دینی علوم میں مہارت رکھتے تھے اور اس کا استعمال کر انہوں نے دین و ادب کے باہمی ربط کو اجاگر کیا، لافانی ادب تخلیق کیا اور معاشرہ کی اصلاح بھی کی اور فلاحی کام بھی کئے. اسی طرح اردو ادب میں ایسے سینکڑوں علمائے دین ہیں جنہوں نے اپنی ادبی قابلیت کا استعمال کر دینی کارہائے نمایاں انجام دئے. ان کے علاوہ اردو ادب میں وہ معتبر نام بھی ہیں جن پر ادب کو ہمیشہ ناز رہا اور انکا پس منظر بھی دینی علوم سے مزین رہا، جن میں بلا امتیاز دین و مذہب و مکتب سب شامل ہیں. اول الذکر ادبا اور علمائے دین دونوں نے اپنی زندگی معاشرہ کی اصلاح کے لئے وقف کردی تھی اور اس کار خیر میں اپنے افکار، اپنی تحریر، تصانیف، کلام اور خطبات کے ذریعے معاشرہ کی آئینہ داری فرمائی اور اصلاحی کارنامے بھی انجام دیے، اور اپنے کردار اور سیرت کا عملی نمونہ پیش کیا. ان حضرات میں ایک قدر مشترک رہی کہ دینی اساس سے انکے افکارات اسقدر پیوست رہے کہ انکی سیرت انکے کارہائے نمایاں میں ظاہر ہوتی رہی، اور ادیب و شاعر کے مقام سے انہیں ایک درجہ بلند مقام عطا کرتی رہی. موخر الذکر ادبا نے بھی اپنے افکار، کلام اور اپنی تصانیف سے معاشرہ کی نہ یہ کہ آئینہ داری کی بلکہ اپنے اپنے طور پر بلواسطہ اصلاح کی کوششیں بھی فرمائیں. لیکن ان میں سے چند ادبا و شعرا کے افکار میں اکثر و بیشتر غلو اور لغویات کی کثرت پائی گئی، اور وہ اپنے افکار و کردار کا وہ نمونہ بھی نہیں پیش کرسکے جو انکے ہمعصر اور اول الذکر حضرات نے پیش کیا، جام و بادہ کا نشہ اور اس پر ادب کا نیا نیا خمار جس نے اکثر ادبا و شعرا کو نرا ادیب بنا کر رکھ دیا تھا. لیکن جب جب دینی افکارات کا غلبہ ہوا تو انہوں ایسے افکارات بھی پیش کیے جو تاریخ میں ضرب المثل قرار دئے گیے اور جید علمائے دین کے علاوہ ایک دنیا نے ان سے استفادہ کیا.
بیسویں صدی کے نصف کے بعد، عمومی طور پر پر دیکھا جائے تواردو ادب نے معاشرہ کو اندھی ادبی تقلید، تنقید برائے تنقید و تنقیص یا ستائش کے علاوہ کچھ نہیں دیا. اور اس کا تذکرہ خود اکثر ادبا و شعرا نے بھی اپنے مضامین اور بیانات میں کیا ہے. انگریزی ادب کی تقلید میں گروہ بندی ہوتی رہی اور عام طور پر ادب کو اپنے اپنے ادبی اکھاڑوں تک محدود کر دیاگیا. چند حضرات ملکر مسلسل تنقید بر تنقید و تنقیص سے ادب کے صفحات سیاہ کرتے رہے. مغربی افکار و تحقیق کو خدائی دعوی سمجھتے رہے اور اپنی جبلی صفات اور تہذیبی روایت کا گلا گھونٹتے رہے. جبکہ اس سے آگے بڑھکر بہت کچھ سوچا اور لکھا جاسکتا تھا. جو ادبا و شعرا ترقی پسند مکتب فکر سے متاثر رہے ان میں سے بھی اکثر و بیشتر کا تعلیمی پس منظر دینی رہا. یہ حضرات اپنے افکار و مقاصد میں متحد رہے اور اپنے دین و ایمان سے بڑھکر اپنے مکتب فکر کے وفا دار رہے. ان میں اکثر ادبا کبھی کہیں اپنے دین سے چوری چھپے جڑے بھی رہے. اکثر ادبا کا ہدف سیاست کی راہوں سے چل کر اپنے مقصد کو حاصل کرنا تھا اور جسکے لئے وہ مختلف مغربی مکتب فکر کے تالابوں میں غواصی کرتے رہے. یہ وہی فکری تالاب ہیں جو جلد ہی خشک ہوگئے اور جنکا وجود پچاس سو سال سے زیادہ قائم نہیں رہا. ترقی پسند حضرات کے علاوہ دیگر مکاتب فکر کے ادبا و شعرا بھی معاشرہ کے لئے کچھ خاص نہیں کر پائے. ان میں سے اکثر ، قدما کے پرستار تو ضرور رہے لیکن انکا پرتو ثابت نہ ہوسکے. معاشرہ کو اب اصلاح کار ادبا و شعرا کی پہلے سے زیاد ضرورت ہے. اردو ادب پر چھایا یہ جمود توڑا جاناچاہیے جو پچھلی صدیوں میں بھی وقتا فوقتا نظر آتا رہا اور جسکی حشر سامانیاں تاریخ و ادب میں رقم کی گئیں ہیں.
اس بات کا احساس ہر " کٹھ ملا" اور "نرے ادیب" کو ضرور ہونا چاہیے کہ دین و ادب کے باہمی روابط میں ہی معاشرہ کی اصلاح کا پہلو مضمر ہے اور یہ ایکدوسرے کے لئے ایسے ہی لازم و ملزوم ہیں جیسے پھول کے ساتھ خوشبو. دونوں کا تعلق انسان کی روحانی غذا سے ہے. دعا ہے کہ یہ روحانی غذا ملاوٹ سے پاک ہو اور روحانی حفظان صحت کے اصولوں پر کاربند ہو.
"وما توفیقی الا باللہ"
No comments:
Post a Comment