Search This Blog

Thursday, 1 March 2012

اب تو ہر وادی میں ہے

اب تو ہر وادی میں ہے

عامرہ احسان ـ

یہ گلوبل ویلج جس میں چھ ارب انسان آباد ہیں جس کا چوہدری امریکہ بنا بیٹھا ہے۔ آ ئیے اس پر ایک نگاہ ڈالیں۔ یہ جس نظام شمسی کا حصہ ہے اس کا سورج زمین سے تین لاکھ گنا بڑا ہے۔ اس سورج کے گرد نو سیارے گھوم رہے ہیں۔ انکے 54 چاند ہیں۔ یہ پورا نظام کائنات نہیں ہے۔ صرف ہماری کہکشاں (Galaxy) جس کا حصہ ہماری زمین ہے اس میں 250 ارب سورج ہیں جن کے اپنے اپنے سیارے ہیں۔ اس طرح کی کھربوں کہکشائیں اور بھی ہیں اور یہ وہ کائنات ہے جس تک انسان صدیوں کی محنت اور تحقیق کے بعد پہنچا ہے۔ یہ عظیم الشان کائنات جو کامل (Perfect) اور متوازن ہے جس میں کوئی خلل اور کجی نہیں اس کا خالق، مالک اور رب، اللہ ہے جسکے وجود پر مسلمان، عیسائی یہودی ان تینوں حیثیتوں کے اعتبار سے یکساں ایمان رکھتے ہیں۔ یہ وہی رب ہے (تربیت دینے والا، پالنے والا) جس نے انسانوں کی تربیت کےلئے انبیاءبھیجے الہامی کتب نازل فرمائیں۔ 

حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ‘ پر تورات اور انجیل نازل ہوئی۔ اسی تسلسل میں ختم الانبیاءمحمد صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے جن کی آمد کی خوشخبری انہی انبیاءکے ذریعے دی گئی اور یہ حسن اتفاق ہے کہ ترکی میں قدیم آرامی زبان میں مکتوب پانچویں صدی میں تحریر کردہ انجیل مقدس کا نایاب نسخہ دریافت ہُوا ہے جس میں حضرت عیسیٰ ؑکی زبان مبارک سے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی بشارت دی گئی ہے۔ لہٰذا ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے امام اور نبی آخرالزمان اور آخری الہامی کتاب کا نزول جن کے مبارک قلب پر ہُوا وہ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ قرآن پاک ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی کتاب مقدس ہے اور نبی پاک ان مسلمانوں کیلئے رشتے میں انکے والدین، اولاد اور دنیا بھر کے انسانوں سے برتر اور اولیٰ ہیں۔ کیا دنیا جہان کو تعلیم دینے، خواندگی، تہذیب، سکھانے کے ٹھیکیداروں کیلئے یہ بات ثابت سمجھنی بہت مشکل ہے کہ انہیں قرآن پاک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو احترام دینا ہے؟ دنیا بھر میں اپنی یونیورسٹیوں کی دھاک بٹھانے والے اس بنیادی اخلاقیات سے عاری ہیں کہ علم و حکمت اور دانائی سے لبریز ایک کتاب اگر آپ پڑھنے، سمجھنے، ایمان لانے، قبول کرنے، برتنے کا ذوق نہیں رکھتے تو اسے جلانے اور اس کی بدترین توہین کرنے کا حق آپ کو کس نے دیا ہے؟

ایک مہذب انسان تو قلم اور حرف کا احترام کرتا ہے۔ فزکس، کیمسٹری کی کتاب بھی نہ پھاڑے گا نہ پھینکے گا نہ جوتوں تلے روندے گا نہ غلاظت سے لتھیڑے گا۔ لیکن یہ تہذیب کے عالمی ٹھیکیدار ذرا اپنے گریبان میں جھانکیں اور گزشتہ دس سالوں میں قرآن پاک اور نبی کریم کےخلاف بداخلاقی، بدتہذیبی کی بدترین حدوں کو چھو لینے والی اس مہم بارے کوئی دلیل تو لائیں۔ شائستگی، اخلاق کی کسی لغت میں اس رویے کی گنجائش ادنیٰ ترین درجے میں بھی بنتی ہے۔ ایک نارمل، صحیح الدماغ سلیم الفطرت انسان خواہ وہ افریقہ کے جنگلوں میں بھی پلا ہو رشتوں کی پہچان رکھتا ہے۔ ماں باپ کا احترام جانتا ہے اور یہ آئی وی لیگ یونیورسٹیوں والے، تھنک ٹینکوں میں سر دئیے دانشوریوں کے گھونٹ بھرنے والے ماں باپ سے اولیٰ رشتے.... نبی اور پیغمبر کی پہچان سے عاری ہیں؟ یہ کون سی تہذیب ہے جہاں فلوریڈا کا پادری عالمی قرآن جلانے کا دن مناتا ہے مارچ 2011ءمیں؟ اور چرچ کے باہر لگے پوسٹر (قرآن ) کو جلا ڈالو، اس پر گولیاں برسا، اسے پھاڑ ڈالو، دنیا بھر کے میڈیا کی نگاہوں میں آتے ہیں۔ فلوجہ کی مسجد میں امریکی سپاہیوں کے جوتوں تلے اور بطور تکیہ سر تلے قرآن رکھے ہیں؟ جہاں مسلمانوں کو ذہنی اذیت دینے کےلئے خانہ کعبہ کی طرز پر نیویارک میں ”ایپل مکہ“ کے نام سے شراب خانہ تعمیر کیا جاتا ہے۔ بداخلاقیوں کی ان گھناونی حرکتوں کا ڈراپ سین (جو بگرام، قندھار، گوانتا نامو، عراق، امریکہ یورپ میں بار ہا ہوئیں) افغانستان میں قرآن پاک کی تکلیف دہ بے حرمتی کا تازہ ترین واقعہ ہے۔ یہ امر لائق توجہ ہے کہ ان تمام سنگین حرکتوں کے باوجود دنیا بھر میں کبھی کوئی ایک واقعہ بھی کسی مسلمان کے ہاتھوں انجیل یا تورات کی ادنیٰ ترین گستاخی کا بھی جواباً دس سالوں میں یا اس سے پہلے رپورٹ نہیں ہوا۔ باوجودیکہ یہ کتب محرّفہ ہیں۔ لیکن چونکہ ہم تمام انبیاءاور آسمانی کتب پر ایمان رکھتے ہیں۔ اپنی ماووں کی گودوں میں، اپنے حقیقی باپوں کے سایہ عاطفت میں تہذیب و تربیت کے گہواروں میں پلے ہیں اسلئے موازنہ کر لیجئے اخلاق و تہذیب کے تفاوت کا۔ دنیائے کفر کو اس کا جواب جس زبان میں دیا جانا ضروری تھا وہ فرض افغانوں نے اُمت کی طرف سے ادا کر دیا ہے۔ شاید سارے قرض چکانے کا ٹھیکہ افغانستان نے لے رکھا ہے! جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے لہٰذا اوباما نے فوری معافی مانگ لی۔ امریکہ دوڑا لپکا مذمت کرنے کو اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کی یقین دہانیاں کروانے کو۔ مگر کہاں جناب! افغان عوام غم و غصے کی آگ میں پھنک رہے ہیں، غیرت دینی (دس سال علاج کے باوجود) مغربی اداروں، امریکہ نیٹو کے اڈوں پر حملہ آور ہے۔ جمہوریت اور آزادی کی نیلم پری دھواں دھواں ہے۔

امریکہ نیٹو کے مشیران سر پر پاوں رکھ کر واپس دوڑ گئے ہیں۔ 2 امریکی مشیر تابوتوں کی صورت لوٹے ہیں کیونکہ انہوں نے افغان انٹیلی جنس اہلکار کو مظاہرین کے حوالے سے بے نقط سُنا ڈالیں اور مغلظات بک دیں۔ افغان فوجی نے مشتعل ہو کر قرآن اور مظاہرین کےخلاف بدزبانی پر 8 راونڈ گولیوں کے برسا دئیے۔ قندوز میں نیٹو اڈے پر حملہ کر کے سات زخمی کر ڈالے۔ برطانیہ نے خوفزدہ ہو کر اپنا سفارتی عملہ واپس بلا لیا۔ برطانیہ اور فرانس نے اپنے مشن معطل کر دئیے۔ گرتی دیواروں کو طالبان آخری دھکا دے رہے ہیں۔ عوام الناس کے اندر امریکہ نیٹو سے نفرت کا پکتا ہُوا لاوہ یکایک پھٹ پڑا ہے۔ لوگ طالبان کو مستقبل قریب میں واپس آتا دیکھ کر ان سے سازگاری کے خواہاں ہیں۔ طالبان سے تعلق استوار کر رہے ہیں ہَوا کا رُخ بدلتا دیکھ کر اور اب منظرنامہ دن بدن واضح ہوتا جا رہا ہے۔ اقبالؒ کے سوال کا جواب آ رہا ہے ’کونسی وادی میں ہے‘ ....؟
اب تو ہر وادی میں ہے اب تو ہر منزل میں ہے
عشقِ بلا کا قافلہ سخت جاں! 

اب جبکہ امریکہ افغانستان سے نکل بھاگنے کی تیاری میں ہے کیا ہی اچھا ہو کہ وہ ہماری طرف سے امریکہ دوست سیاستدانوں کا تحفہ قبول کر کے ان سب کو بھی اپنے ساتھ امریکہ لے جائے۔ امریکہ پر یہ حق تو ان وفاداروں کا بنتا ہے کہ امریکہ میں ایک ’میر جعفر آ باد‘ بنا کر وہاں بو علی، عبداللہ صالح، حسنی مبارک، پرویز مشرف اور ہماری موجودہ ہمہ نوع حکمران کھیپ کو لے جائے۔ ،،،،،،،،،، امریکہ کا حشر نشر دیکھیں اور ایسے میں پاکستان میں آسکر ایوارڈ جیت کر ’سافٹ امیج‘ کے شوق میں ایک شرمناک فلم پر بغلیں بجائی جا رہی ہیں۔ 

قبل ازیں سعودی عورت، طالبان سے متعلق اور مشرقی تیمور میں مسلمانوں کے خون پر تعمیر ہونےوالی ریاست پر (Birth of a Nation) فلمیں بنانے کا ’اعزاز‘ بھی حاصل کر چکی ہے۔ تعجب ہے کہ مظلوم عافیہ اور فلسطینی بچے، عورتیں (غزہ) انکی نظر سے اوجھل ہیں! شدید سردی میں لاپتہ افراد کے اہل خاندان عورتیں بچے ضعیف مردوں کے کیمپ پر بھی نظرِ کرم نہ ہوئی۔ نہ ہی ڈرون زدہ پرخچے اڑتے مظلومین پر کوئی دستاویزی فلم بنی‘ پاکستان کے مقابل امریکی عورت پر ہزاروں ایسی فلمیں بن سکتی ہیں جہاں عورت ظلم کی چکی میں (آزادی کے حسین پردے تلے) پس رہی ہے‘ ہم یہی کہہ سکتے ہیں
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ بند ذرا قبا دیکھ 

امریکہ میں خواتین اور بچوں پر تشدد کے اعداد و شمار ایسے خوفناک ہیں کہ اقوام متحدہ نے بھی امریکہ کو جھاڑ پلا دی۔ پناہ بخُدا! او آئی سی کے پلیٹ فارم سے مظلوم مغربی عورت کی آواز دنیا تک پہنچانے، آگاہی (Awareness اور دادرسی کےلئے بھی کچھ کرنا چاہئے!

No comments:

Post a Comment