الفاظ و معنی میں تفاوت نہیں لیکن
عرب انقلابات کے بعد جہاں دنیا کے بد عنوان سیاست دانوں کے کان کھڑے ہو گئے ملک عزیز میں بھی جہاں کہ گرام پنچایت سے لیکر کارپوریشن اور پارلیمنٹ تک بدعنوانی کے دلدل میں دھنسی ہوئی ہے۔اس موضوع پر مشہور و معروف صحافی کرن تھاپر اور جگ ثریا نے روشنی ڈالتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا ہندوستان میں بھی تیونس اور مصر کی تاریخ دوہرائے جانے کی گنجائش ہے ۔وزیر اعظم نے حالات کو بھانپتے ہوئے کہا کہ چونکہ ہمارے یہاں اقتدار کی تبدیلی کا نظام پہلے ہی سے موجود ہے اس لئے یہاں پر مصر کی تاریخ دوہرائے جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔مگر کہیں نہ کہیں ان کے اس بیان میں اس اعتراف کی گنجائش بھی شامل رہی ہیکہ ہندوستانی عوام میں بھی ملک کے موجودہ سیاسی صورتحال اور سیاستدانوں کی بدعنوانی کے خلاف بیزاری اور بے چینی پائی جاتی ہے۔جیسا کہ اپنے اس بیان سے پہلے وزیر اعظم خود مخلوط حکومت کی ناکامی اور سیاست دانوں کی لوٹ کھسوٹ اور مہنگائی کی بے قابو صورت حال سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے پارلیمانی نظام کے مستقبل پر سوال اٹھاچکے ہیں۔بابا رام دیو نے تو عربوں کی اس عوامی بیداری کے بعد سے ہی ہندوستانی سیاست دانوں کے خلاف بیان بازی کا محاذ کھول دیا تھا مگر جب سیاست دانوں کے خؒ اف عوام کو متحد کرنے کا وقت آیا تو عوام کا یہ سپہ سالار زنانہ لباس پہن کر بھاگ نکلا ۔وہ لوگ جو آزادی کے بعد سے ہی سناتن تہذیب کی بالا دستی کا خواب دیکھ رہے ہیں انہوں نے خاموشی کے ساتھ انا ہزارے کی پشت پناہی کرنا شروع کردیا جیسا کہ بعد میں آر ایس ایس کے سر سنچالک موہن بھاگوت نے اس کا اعتراف بھی کیا ۔اور پھر جب انا ہزارے نے بدعنوانی کے خلاف سرکار سے لوک پال بل لانے کیلئے دباؤ ڈالا تو ہمارے قومی میڈیا نے انا ہزارے کی اس تحریک کو اس طرح پیش کرنا شروع کردیا جیسے کہ چند گھنٹوں میں ہندوستان کی کروڑوں عوام دلی کے لال قلعہ چوک کا محاصرہ کرلے گی ۔امید تھی کہ عوام کے دباؤ میں آکر منموہن حکومت اپنا استعفیٰ پیش کردیگی مگر ہوا یہ کہ ایک دگ وجئے سنگھ نے اکیلے انا اور ان کے ساتھیوں کی ہوا نکال دی ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ دگ وجئے سنگھ اور ان کی سرکار حق پر تھی اور انا ہزارے کی تحریک باطل تھی۔
دراصل انگریزوں سے آزادی کے بعد ہمارے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے جو نصاب تیار کیا گیا اس میں الیکشن اور انتخاب کے رلاوہ بد عنوان حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے آزادی اور انقلاب کا کوئی طریقہ بتایا ہی نہیں گیا ،جبکہ الیکشن اور انتخابات کا ڈرامہ بھی اب عوام کے لئے محض تفریح کا ذریعہ بن چکا ہے۔ہماری اخلاقی صورت حال میں گراوٹ کا اندازہ اس طرح بھی کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے سامنے ہر روز ہمارا میڈیا ظلم اور نا انصافی کے مناظر پیش کر تا ہے مگر ہم ہر روز کسی نہ کسی عورت کی عصمت دری قتل اور خود کشی کے واقعات سے نہ صرف مشتعل نہیں ہوتے بلکہ فحاشی اور جرائم کے باقاعدہ ایسے چینل موجود ہیں اور اخبارات شائع ہورہے ہیں جسے ہم مزے لے لے کر سنتے دیکھتے اور پڑھتے ہیں ۔غور کیجئے کہ اس طرح کے دردناک اور سنسنی خیز مناظر ہمارے ذہن و دماغ کو نہیں جھنجھوڑپاتے تو پھر سیاستدانوں کی بد عنوانی اور چوری سے ہم کیوں مشتعل اور متحرک ہونے لگے،جبکہ ترقی قور مسابقت کی بنیاد پر قائم موجودہ تعلیمی نظام نے خود ہر نوجوان کے ذہن میں بد عنوانی اور فحاشی کا زہر گھول دیا ہے۔کرن تھاپر اور جگ ثریا نے شاید موجودہ نسل کی اسی ذہنیت کے مطالعے کے بعد یہ لکھنے کی جرات کی ہوگی کہ اگر کوئی مخلص قیادت کسی بھی طرح کے سیاسی انقلاب کا پرچم لیکر آگے بڑھتی ہے تو شاید آخر میں اسے اپنے علاوہ دوسرے کا چہرہ دیکھنا بھی نصیب نہ ہو۔اس کا اندازہ انا اور ان کے ساتھیوں کو بھی اس وقت ہو بھی گیا جب ممبئی کے ایم ایم آر ڈی میدان میں صرف ڈیڑھ سے دوہزار لوگ ہی جمع ہوسکے ان میں سے بھی زیادہ تر نوجوان کرسمس کی چھٹی کی وجہ سے صرف انا کی زیارت کے لئے پہنچ گئے تھے۔ایسا نہیں ہے کہ جو نہیں پہنچے وہ انا ہزارے کو ناپسند کرتے تھے مگر عوام کی اس عدم دلچسپی کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ جس لوک پال کی انا ہزارے مانگ کر رہے ہیں اس جماعت میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ نئے سرے سے یا بعد میں کوئی راجہ کوئی یدی یورپا اور کلماڈی کے علاوہ مایا وتی اور جے للیتا جیسی مہارانیاں شامل نہیں ہونگی جبکہ جمہوریت کا یہ ساٹیھ سالہ ناکام تجربہ بھی ہم نے چاندنی چوک سے لیکر جلیا نوالہ باغ میں ہزاروں لاکھوں عوام کے خون میں ڈوبی ہوئی آزادی کے بعد حاصل کیا ہے۔مگر کیا ہم آزادی کے اس مقصد کو بھی حاصل کر سکے ؟یعنی انصاف جو کہ کسی بھی ملک اور ریاست کے عام شہری کو مفت اور بغیر کسی روکاوٹ کے حاصل ہو جانا چاہئے پر اس کے اطراف میں بھی قانونی دلالوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔
اسی پس منظر میں جمہوریت کے متوالوں کو آزادی کا تحفہ دیتے وقت برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے ملکہ وکٹوریہ کو آگاہ کیا کہ جن لوگوں کو ہم اقتدار سونپ رہے ہیں یہ بد قماش لوگ اپنی عوام کو ایک وقت کی خوراک اور صحت و تعلیم کی مفت سہولت فراہم کرنا تو دور کی بات ہے مفت میں حاصل ہونے والے پانی کی بوتل پر بھی ٹیکس لگادیں گے۔ ذرا غور کیجئے کہ چرچل نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب ہماری سیاست میں محمد علی جناح ،گاندھی،نہرو،پٹیل اور ابو الکلام آزاد جیسے قد آور معزز لیڈران موجود تھے ،جنہیں ہم پیار سے قائد اعظم،مہاتما،باپو،سرداراور امام الہندکہتے ہیں۔صرف تیس سال کے اندر اندر ایک وقت ایسا بھی دیکھنا پڑا کہ پورے ملک میں ایمر جنسی کے حالات پیدا ہو گئے۔انہیں حالات کی ترجمانی کرتے ہوئے کسی شاعر نے کہا تھا کہ
برباد گلستان کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا
رشید کوثر فاروقی نے اسی بات کو ادبی لحجے میں یوں کہا ہے کہ پہلے اک بادشاہ کا رونا تھا ۔اب تو جنگل ہے شہر یاروں کا
وقت کے مفکروں اور دانشوروں نے اپنے ان خیالات کا اظہار بھی ایسے وقت میں کیا تھا جبکہ ملک میں جئے پرکاش نارائن،رام منوہر لوہیااور بہوگنا جیسے مخلص کہے جانے والے سیاسی لیڈران بھی موجود تھے اور کسی حد تک عوام نے ان لیڈران کی آواز پر لبیک بھی کہا ۔مگر کیا یہ لوگ بھی حالات کی اصلاح کر سکے؟
اصل مسئلہ کسی بھی طرح کی تبدیلی اور انقلاب کا نہیں ہے جو کہ فرد لیکر اس پوری کائنات میں اپنے آپ ہو بھی رہا ہے اور جیسا کہ ہر پانچ سال میں ہمارے یہاں سیاسی انقلابات آتے رہتے ہیں ۔مسئلہ انقلابات کے واضح رخ اور نظریے کا ہے جو بغیر صالح قیادت کے ممکن نہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ اس قیادت کو ایک صالح جماعت اور قوم کی بھی حمایت حاصل ہونی چاہئے ۔مگر صالح ہونے کا دعویٰ تو سبھی کرتے ہیں سوال ایسے افراد اور قوم کی شناخت کا ہے۔اقبال نے ایسے قائد کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے کہاہے کہ نظر شناس سخن دلنواز جاں پرسوز۔۔یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
اور پھر اس جماعت کے بارے میں بھی بتایا جو میر کارواں کے ساتھ شامل ہو پرواز ہے دونوں کی مگر ایک فضا میں ۔۔کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور
ہماری دنیا میں انسانوں کے علاوہ حیوانوں میں بھی دو طرح کے گروہ پائے جاتے ہیں۔ایک وہ جو مواقع پیدا کرتے ہیں اور دوسروں کو فائدہ پہنچا کر خوش ہوتے ہیں اور دوسرا وہ جو صرف اپنے فائدے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں ۔شاہین اپنی خوراک خود تلاش کرتا ہے اور خود شکار کرتا ہے،جبکہ کرگس اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کوئی مردار دکھائی دے اور وہ شکم شیر ہو۔انسانوں میں بھی ایک طبقے کی تعلیم و تربیت اس طرح سے ہوتی رہی ہے کہ خود اپنے رزق کی تلاش میں رہتے ہیں اور اس رزق سے دوسروں کو فائدہ پہنچا کر خوش ہوتے ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ جن لوگوں نے یا جن قوموں نے اقوام عالم کو اپنی فکر اپنی تعلیم اور اپنی دولت اور جدو جہد سے فائدہ پہنچا نے کی کوشش کی وہی اقتدار کے مالک رہے ہیں اور وہی غالب اور اشرف بھی کہلائے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ علم انسان کی ہدایت اور جہالت گمراہی کا سبب بنتی ہے مگر جب کسی معاشرے میں بچوں کو جہالت کی ہی تعلیم دی جائے تو اس علم کو کس نظریے سے دیکھا جائے ۔جس کی تازہ مثال آج کی سیکولر نظام تعلیم ہے جس نے انسانوں کی ایک بھیڑ کو ترقی ،برتری اور مسابقت کی دور میں شامل کرکے ریس کا گھوڑا بنادیا ہے،جہاں وہ صرف اپنے بارے میں سوچنے کے لئے مجبور ہے ۔یعنی اپنا ملک اپنا محلہ اپنا خاندان اور اپنی ذات ۔مگر اب جبکہ ہر شخص کی وفا داری کی کسوٹی دوسرے ملک اور خاندان کی نفرت پر تولی اور پرکھی جائے تو ہر شخص ہر معاشرہ نفرت کی اس آگ سے کیسے بچ سکتا ہے۔یعنی پہلے جو انسان بندر تھا بعد میں گھوڑا ہوا اور اب کتے کی طرح ایک دوسرے کو کاٹنے کی تاک میں ہے۔ایسے میں اگر کتے کو گھوڑے کی طاقت یعنی ہزاروں Horse Power کی ایٹمی طاقت حاصل ہوجائے تو کیا ہم انسانوں کے اس گروہ سے کسی اصلاح یا انقلاب کی امید کرسکتے ہیں ۔ہم نے دیکھا کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں یوروپ نے خود یوروپ کو اپنے مہلک اور خطرناک ہتھیاروں سے تباہ کیا ۔اس کے برعکس اسلامی نظام تعلیم کا تصور اس بنیاد پر قائم ہے کہ انسان ایک بہترین جماعت ہے جو آپس میں ایک دوسرے کی بھلائی کے لئے پیدا کی گئی ہے۔جو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ۔جب ایک معاشرے میں اس طرح کی تعلیم عام ہوتی رہے یا اسکے انسان ہونے کا مطلب بتایا جاتا رہے تو ایسے میں ہر شخص مسابقت کی نہیں مساوات کی رسی میں پروئے جاتے ہیں ۔پوری دنیا میں اسلام اسی نظریے کی بنیاد پر غالب آیا اور اقوام عالم نے مسلمانوں کا نہیں بلکہ اس نظریے کا استقبال کیا جہاں ہر شخص کو ان لوگوں کے بارے میں بھی سوچنے کی تعلیم دی جاتی ہے جو ان کے بارے میں نہیں سوچتے ۔عرب انقلابات میں عربوں کی کامیابی اور دیگر ممالک کی سیکولر تحریکوں کی ناکامیابی میں یہی وہ فرق ہے جو صرف اور صرف فرقانی تعلیم سے ہی ممکن ہے۔
عمر فراہی۔موبائل،09699353811
No comments:
Post a Comment