Search This Blog

Saturday, 3 March 2012

گجرات فسادات کی دسویں برسی پر اک جبر وقت ہے کہ۔۔۔

گجرات فسادات کی دسویں برسی پر
اک جبر وقت ہے کہ۔۔۔
سہیل انجم
 
انسانی تاریخ کے بدترین مسلم کش فسادات کے، جو کہ گاندھی کی دھرتی پر’’ہٹلر ثانی‘‘ کی سربراہی میں انجام دیے گئے تھے، دس سال ہو چکے ہیں۔ لیکن مسلمانان گجرات کے لیے وقت تو جیسے ٹھہر گیا ہے۔ وہ آج بھی ۲۷ فروری ۲۰۰۲ سے آگے نہیں بڑھ پائے ہیں۔ حالانکہ اس درمیان گنگا اور جمنا کا جانے کتنا پانی بہہ گیا ہے لیکن مظلومین گجرات کی آنکھوں سے ٹپکنے والا آنسو اب بھی پلکوں پر رکا ہوا ہے۔ یہ آنسو نہیں ہے بلکہ گجرات کے مسلمانوں کی مظلومی کی داستان درد انگیز ہے اور اسی کے ساتھ وزیر اعلی نریندر مودی کی سفاکی اور مسلم دشمنی کا جیتا جاگتا ثبوت بھی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب آنکھیں پتھرا جاتی ہیں تو خشک ہو جاتی ہیں اور ان سے ٹپکنے والا لہو بھی جانے کہاں چلا جاتا ہے۔ لیکن کیا گجرات کے فساد زدگان کی آنکھیں بھی خشک ہو گئی ہیں۔ وہ پتھرا تو گئی ہیں انصاف کا انتظار کرتے کرتے لیکن ان سے اب بھی لہو ٹپک رہا ہے اور ہندوستان کے ضمیر کو آواز دے رہا ہے اور انصاف کا مطالبہ کر رہا ہے۔ وقت کا جبر گجرات کے مسلمانوں پر یوں مسلط ہو گیا ہے کہ اس کو سہنے اور برداشت کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے۔
فسادات کے دس سال پورے ہونے پر گجرات میں مختلف مقامات پر تو متعدد پروگراموں کا انقعقاد کیا گیا دہلی اور دوسرے شہروں میں بھی پروگرام منعقد کیے گئے جہاں آزاد ہندوستان کے بھیانک ترین دنوں کو یاد کیا گیا اور ان دنگوں کی نذر ہو جانے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ گجرات ہندو احیا پسند جماعت آر ایس ایس کی ایک ایسی تجربہ گاہ ہے جہاں مسلمانوں کو تجربات کی بھٹی کا ایندھن بنایا گیا ہے۔ یوں تو گجرات میں پہلے بھی فسادات ہوتے رہے ہیں۔ آزادی کے پہلے بھی اور آزادی کے بعد بھی۔ لیکن یہ جو فساد تھا یہ فساد نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کی نسلی تطہیر تھی۔ نریندر مودی کو گجرات کا وزیر اعلی بنا کر اسی لیے بھیجا گیا تھا کہ وہ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل کریں۔ انھوں نے اس پر عمل کر کے دکھایا۔ آج ہندوستان کے نقشے پر دو گجرات قائم ہو گئے ہیں۔ ایک وہ گجرات ہے جو آر ایس ایس اور نریندر مودی کا گجرات ہے اور دوسرا وہ گجرات ہے جو مظلوم مسلمانوں کا گجرات ہے۔ سینئر پولیس آفیسر وی این رائے نے فسادات کے دوران ہندوستانی پولیس کی فرقہ وارانہ سوچ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ کرفیو کے دوران ہندو اور مسلم علاقے ہندوستان اور پاکستان میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ لیکن گجرات میں تو فسادات ختم ہونے کے دس سال بعد بھی ہندوستان اور پاکستان قائم ہیں۔ ہندو علاقے ہندوستان ہیں اور مسلم علاقے پاکستان بنا دیے گئے ہیں۔نریندر مودی گجرات کی نام نہاد ترقی کا بہت ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور بی جے پی اور یہاں تک کہ بعض اوقات مرکزی حکومت کے کچھ مودی نواز وزرا بھی اس پروپیگنڈے میں شریک ہو جاتے ہیں۔ لیکن کیا یہی ترقی ہے کہ ایک فرقے کو اس کے ثمرات سے فیضیاب ہونے کے وافر مواقع ملیں اور دوسرے فرقے کو اس سے محروم کر دیا جائے۔ آج آپ احمد آباد چلے جائیں یا کسی دوسرے شہر میں، تقریباً یہی صورت حال نظر آئے گی۔ مسلم علاقے تمام قسم کی بنیادی سہولتوں سے محروم اور غیر مسلم علاقے ان سہولتوں سے پوری طرح لیس۔ احمدآباد میں تو پورے شہر کا کوڑا کچرا ایک مسلم کالونی کے پاس ڈالا جاتا ہے جس سے وہاں کے باشندے مختلف قسم کے امراض کے ہمیشہ شکار بنے رہتے ہیں۔ 
فسادات کی دس سالہ برسی پر نیوز چینلوں نے جو رپورٹیں پیش کی ہیں اور اخبارات میں جو رپورٹیں شائع ہوئی ہیں وہ اس بات کی چغلی کھاتی ہیں کہ وزیر اعلی نریندر مودی چھ کروڑ گجراتیوں کی جو بات کرتے ہیں وہ محض ایک دکھاوا ہے ایک فریب ہے۔ وہ در اصل ان لوگوں کو گجراتی مانتے ہیں جو ہندو ہیں اور ان لوگوں کو گجراتی نہیں مانتے جو مسلمان کہلاتے ہیں۔ وہ انہیں پہلے تو انسان ہی نہیں مانتے اور اگر مانتے بھی ہیں تو ہندوستانی نہیں بلکہ پاکستانی مانتے ہیں اسی لیے ان کے نزدیک یہ لوگ کسی بھی قسم کی سہولت کے حقدار نہیں ہیں۔ مودی کہتے ہیں کہ وہ ہندو مسلم کی پالیسی پر عمل نہیں کرتے او ران کے یہاں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے وہ اقلیت اور اکثریت کی نہیں بلکہ صرف گجراتی کی بات کرتے ہیں۔ لیکن ان کے اعمال اور ان کے طریقہ ہائے کار یہ بتاتے ہیں کہ ان کے نزیک اگر کوئی پالیسی ہے تو وہ ہندو مسلم پالیسی ہی ہے۔اور اس پالیسی میں مسلمانوں کی جگہ غیر مراعات یافتہ شہریوں کی ہے اور ہندووں کی حیثیت مراعات یافتہ شہریوں کی ہے۔ 
وزیر اعلی نریندر مودی ہندوستان کے وہ واحد وزیر اعلی ہیں جن پر ملک کے مسلمانوں کو تو چھوڑیے ملک کی عدلیہ کو بھی بھروسہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گجرات فسادات سے متعلق کئی معاملات کی جانچ سی بی آئی سے کرائی گئی اور کئی معاملوں کی سماعت گجرات سے باہر ہوئی۔ ملک کی عدالت عظمی بھی ان پر اور ان کے ایڈمنسٹریشن پر بھروسہ نہیں کرتی اسی لیے جب انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے مطالبہ کیا تو سپریم کورٹ نے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی جس نے فسادات کی جانچ کی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس دوران وہاں ہونے والے فرضی انکاونٹروں کی جانچ کے لیے بھی ایس آئی ٹی قائم کی گئی۔ نریندر مودی اس لحاظ سے ملک کے اب تک کے تمام وزرائے اعلی پر سبقت لے گئے ہیں کہ کسی بھی وزیر اعلی کو سپریم کورٹ اور احمد آباد ہائی کورٹ اور چھوٹی عدالتوں سے اتنی پھٹکار اور لتاڑ نہیں ملی ہوگی جتنی کہ مودی کو حاصل ہو چکی ہے۔ مودی نے اس سلسلے میں ایک ریکارڈ قام کر دیا ہے۔ کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا جب کوئی نہ کوئی عدالت مودی کی سرزنش نہ کرتی ہو۔ لیکن مودی ہیں کہ بے حیائی و بے غیرتی کی مورت بنے ہوئے ہیں۔ ان کو ذرا بھی شرم نہیں آتی۔ ان کو اس کا بالکل احساس نہیں ہے کہ عدلیہ کے نزدیک وہ انتہائی غیر معتبر اور بے بھروسہ آدمی ہیں۔ کسی بھی شریف اور غیرت مند انسان کے لیے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اسے بار بار پھٹکارا جائے اور بار بار جھڑکا جائے۔ لیکن وا ہ رے مودی! ذرا بھی غیرت نہیں آتی ذرا بھی شرم نہیں آتی۔
جب بھی الیکشن قریب آتا ہے نریندر مودی کوئی نہ کوئی ڈرامہ اسٹیج کرنے لگتے ہیں۔ اب انھوں نے نام نہاد سدبھاونا کا ڈرامہ شروع کر دیا ہے۔ لیکن ان کا سد بھاونا مشن کتنا ’’بد بھاونا‘‘ مشن ہے کہ اس میں بھی مسلمانوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان کی سدبھاونا صرف غیر مسلموں کے لیے ہے۔ وہ مسلمانوں کو اس لائق نہیں سمجھتے کہ انھیں بھی اس مہم میں جوڑیں اور ان کو بھی ساتھ لے کر چلیں۔ مودی کس قدر مسلم دشمن ہیں اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج تک انھوں نے ان مسلم علاقوں کا دورہ نہیں کیا جہاں فروری ۲۰۰۲ میں قیامت صغری برپا کی گئی تھی۔ انھوں نے آج تک ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ گجرات کے فسادات پر ان کو ندامت ہے، ان کو شرمندگی ہے اور انھیں اس کا بہت افسوس ہے۔ انھیں آج تک اس کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ مسلمانوں سے جا کر ملیں اور ان کے مسائل کو جاننے کی کوشش کریں۔ بلکہ اس کے برعکس انھوں نے اپنی کارروائیوں اور پالیسیوں سے ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ہندووں اور مسلمانوں کے مابین خلیج اور وسیع ہو گئی ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور یکجہتی کی اکا دکا مثالو ں کو چھوڑ کر ہندووں اور مسلمانوں میں اب بھی میل جول کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ مسلمانو ں کا سماجی اور اقتصادی مقاطعہ کر دیا گیا ہے۔ نہ تو مسلمانوں کو کسی ہندو علاقے میں پراپرٹی خریدنے کی اجازت ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے ساتھ کوئی تجارت کی جاتی ہے۔ ان کا پوری طرح سے بائیکاٹ کر دیا گیا ہے اور وہ اپنے مسائل کے گرداب میں ہچکولے کھانے پر مجبور ہیں۔ 
لیکن وہ وقت دور نہیں جب مظلومین گجرات کی آہیں رنگ لائیں گی اور نریندر مودی کو اپنے کیے کی سزا ملے گی۔ وہ صرف اس وقت تک اپنی سزاؤں سے بچے ہوئے ہیں جب تک کہ گجرات کے وزیر اعلی کی کرسی پر فائز ہیں۔ وقت نے ان کے لیے سزاؤں کی تعین کر دیا ہے جوں ہی وہ اقتدار سے باہر ہوئے ان کے اعمال ان کی گردن کو دھر دبوچیں گے اور پھر انھیں اپنی رہائی کی کوئی صورت نظر نہیں آئے گی۔ آج گجرات کے مسلمان اس کیفیت سے دوچار ہیں کہ : اک جبر وقت ہے کہ سہے جا رہے ہیں ہم، اور اس کو زندگی بھی کہے جا رہے ہیں ہم۔ لیکن کل ان کا ہوگا اور ان کے ایک ایک زخم کی مرہم پاشی ہوگی اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں ہے وہ آکر رہے گا۔ یہ تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے جس سے مودی کو مفر نہیں۔
--

No comments:

Post a Comment