دیدارِ امامِ حرم...ہے گرم خبر .....
سلمان فیصل
آج
امام حرم سعود بن ابراہیم
الشریم کی امامت میں صلاۃ فجر جامعہ اسلامیہ سنابل کی عالی شان زیر تعمیر
مسجد عمر بن الخطاب میں ادا کی۔ دہلی میں امام حرم کی آمد دو مارچ کو ہوچکی
تھی اور اسی دن صلاۃ جمعہ اُن کی امامت میں دہلی کے رام لیلا میدان میں
ہزاروں فرزندان توحید نے اداکی تھی۔امام حرم کی امامت میں سینچر کی صبح
صلاۃ فجر کا اہتمام جامعہ اسلامیہ سنابل کیمپس میں واقع جامع مسجد میں مرکز
ابوالکلام آزاد اویکننگ سنٹر کی جانب سے کیا گیا تھا۔ اس اہتمام کو عام
کرنے کے لیے جمعہ کے خطبوں میں، پمفلٹ اور اخبار میں اشتہارات کے علاوہ
سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ facebook وغیرہ کا بھی استعمال
کیا گیا تھا۔ پچھلے سال بھی امام حرم کی آمد ہوئی تھی تب وہ شیخ سدیس تھے
اور امسال شیخ شریم ہیں۔ پچھلے سال نہ دیدار کرسکا اور نہ ان کی امامت میں
نماز ادا کرسکا۔ دراصل بھیڑ بھاڑ والی جگہو ں اور بڑے بڑے اجلاسوں میں جہاں
لوگوں کا جم غفیر ہوتا ہے وہاں مجھے ذرا الجھن سی ہوتی ہے۔اسی الجھن میں
پچھلے سال ایسی سعادت سے محروم رہا۔اللہ کرے یہ الجھن جلد از جلد ختم ہو
جائے۔ لیکن امسال معلوم ہوا کہ سنابل میں صلاۃ فجر امام حرم کی امامت میں
ادا کی جائے گی تو دل میں یہ خیال آیا کہ صبح صادق کے وقت کا معاملہ ہے، کم
ہی تعداد میں لوگ پہنچیں گے۔ یہ سوچ کر عزم
مصمم کرلیا کہ سینچر کی نماز فجر سنابل میں ادا کی جائی گی۔انشاء اللہ...
صبح
۵ بجے اٹھ کر تیار ہوا اور سوا پانچ بجے اپنے والد محترم کے ساتھ بائک سے
نکل پڑا۔ اپنی گلی سے نکل رہا تھاتو خالی سڑکیں دیکھ کرخیال آیا کہ آج تو
امام حرم کے بالکل پیچھے ہی نماز ادا کرنے کا موقع ملے گا۔ لیکن بٹلا ہاؤس
کی شاہراہ پر پہنچا تو دنگ رہ گیا۔ عقیدت مندوں کے قافلے جوق در جوق سنابل
کی طرف چلے جا رہے تھے۔ رات کا وقت تھا، سواری نہیں تھی، کسی کو آٹو مل گیا
تو ٹھیک
ورنہ لوگ پیدل ہی چلے جا رہے ہیں۔ جب اوکھلا ہیڈ سے آگے بڑھے تو کئی
گاڑیاں ادھر ہی کورواں دواں نظر آئیں اور اندازہ ہونے لگا کہ یہاں بھی کثیر
تعداد میں لوگ پہنچیں گے۔ جب شاہین باغ میں سنابل کیمپس پہنچے تو روڈ پر
گاڑی پارک کرنے کی بھی جگہیں بھی تقریبا فُل ہوتی جارہی تھیں اور دور تک
لوگ اپنی گاڑیاں پارک کرکے کیمپس میں داخل ہورہے تھے۔سنابل کیمپس جہاں سے
شروع ہوتا ہے وہاں اس ادارے کا ابوالکلام آزاد بوائز اسکول قائم ہے۔ اور
سنابل کیمپس میں داخل ہونے کا صدر دروازہ ذرا اور آگے ہے۔ جب اسکول کے گیٹ
کے پاس ہم پہنچے تووہاں پولس اہلکار بیرےئر لگائے
صف بستہ نظر آئے۔ ذرا آگے کی طرف نظر اٹھی تو عالی شان مسجد کا جنوبی
دروازہ نظر آیا، صدر دروازے پر سیکورٹی کے سخت انتظامات تھے اور استقبالیہ
بینر تلے مرکز کے اساتذہ اور دیگر اسٹاف نظر آئے۔ بات سمجھ میں آ گئی کہ
امام حرم اسکول کے احاطے سے گزر کر مسجد تک پہنچیں گے اور جنوبی دروازے سے
داخل ہوں گے۔ خیر ہم آگے بڑھ گئے اورایک جگہ اپنی بائک سائڈ میں لگائی اور
چل پڑے سنابل کیمپس کے صدر دروازے کی جانب۔ کیمپس میں داخل ہوئے، مسجد کے
سامنے پہنچے تو دیکھا کہ مسجد کے شمال کی جانب اسٹیج تیار کیا گیا تھا جہاں
امام حرم کا درس ہونا تھا۔ لوگ مسجد کے اندر
جوق در جوق داخل ہورہے تھے۔اسٹیج کی طرف کوئی نہیں جار ہاتھا۔ مسجد کے
اندر جب داخل ہوئے تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ آدھی سے زیادہ مسجد بھر چکی
تھی۔ یہ مسجد بھی کوئی چھوٹی موٹی مسجد نہیں بلکہ دہلی میں آزادی کے بعد
بننے والی اب تک کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں تقریباً دس ہزار نمازی بیک
وقت نماز ادا کرسکتے ہیں۔ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سینٹر کی ایک اطلاع
کے مطابق اس مسجد میں بیک وقت 5500(پانچ ہزار پانچ سو)مرد اور 2000(دو
ہزار)سے زائد عورتیں صلاۃادا کر سکتے ہیں ۔ ایسے عمر رسیدہ مرد وخواتین جو
زینے نہ چڑھ سکیں ان کے لیے لوور گراؤنڈ فلور میں الگ الگ
صلاۃ ادا کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔جو ساڑھے پانچ ہزار مردوں اور دو ہزار
خواتین کے علاوہ ہوں گے۔ اس مسجد میں سینکڑوں ستون ہیں اور صرف لوور
گراونڈ فلور (بیسمنٹ) میں177ستون ہیں۔اسلامی طرز تعمیر کی یہ مسجد سہ منزلہ
ہے جس میں لوور گراؤنڈ فلور میں کار پارکنگ، مردوں اور عورتوں کے لیے الگ
الگ ٹوائلٹ، باتھ روم اور وضو خانے ہوں گے۔ لوور گراؤنڈ فلور کا رقبہ
3503.29اسکوائر میٹر ، گراؤنڈ فلور کا رقبہ 2284.19 اسکوائر میٹر اور فرسٹ
فلور کا رقبہ 1638 اسکوائر میٹر ہے۔ اس مسجد کا مجموعی ایریا
7,425.48اسکوائر میٹر ہے۔گراؤنڈ فلور مرد مصلیوں کے لیے مخصوص ہے اور فرسٹ
فلور خواتین کے لیے ۔
گرچہ
یہ ابھی زیر تعمیر ہے لیکن پھربھی ڈھانچہ کھڑا ہو چکا ہے اور نمازیوں کی
جو جگہیں ہیں وہاں دریاں بچھا دی گئیں تھیں اور بہترین انتظام کیا گیا تھا۔
جب مسجد میں مغرب کی جانب منبر کی طرف بڑھے تو معلوم ہوا کہ سیکورٹی کے مد
نظر یہاں مسجد میں بھی ایک خاص حد تک بَلّیوں سے راستہ روک کر آگے کچھ
جگہیں خاص کر دی گئیں تھیں۔ جنوب کی جانب ایک جگہ راستہ بنایا گیا تھا اندر
جانے کے لیے وہاں سنابل میں زیر تعلیم عالیہ کے طلبا کا ایک
دستہ مستعد نظر آیا جو عوام کو اندر جانے سے روک رہا تھا۔ وہاں صرف جامعہ
اسلامیہ سنابل ، معہد التعلیم الاسلامی اور معہد عثمان بن عفان لتحفیظ
القرآن الکریم کے طلبا کایا مرکز ابوالکلام آزاد اویکننگ سنٹر کے عمائدین و
ملازمین کا داخلہ ممکن تھا ۔ ہاں جن حضرات کے پاس ادارے کی جانب سے جاری
کردہ ’پاس‘تھا، وہ بھی اند رجا سکتے تھے۔لہٰذا اس خاص حد سے واپس آنا پڑا
گرچہ اند رکچھ جگہیں خالی پڑی تھیں کیونکہ ہمارے پاس نہ مرکز کا valid آئی
کارڈ تھا اور نہ پاس۔ گرچہ ہم بھی کبھی اس ادارے کے طالب علم تھے اور گیارہ
سال اس ادارے کے معاہد میں گزار کر بہت کچھ
سیکھ چکے ہیں اور یہیں پر ہماری تربیت ہوئی جن کی بدولت ہم اس وقت کچھ
لکھنے پڑھنے یا کچھ کرنے کے قابل ہو سکے ہیں۔
بہر
کیف ہم بھی ایک کونے میں دری پر بیٹھ گئے ۔ کچھ دیر میں اذان ہوئی اور
اذان کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ سے فارغ ہوئے تو ذراشور سا اٹھا ، معلوم
ہواکہ جنوب والے دروازے سے امام حرم تشریف لا رہے ہیں۔ آگے کی صف میں بیٹھے
لوگ دیدار کے شوق میں کھڑے ہونے لگتے تو پیچھے والے انھیں بو ل بول کر
بٹھا دیتے، ۴۔۵ منٹ تک یہی سلسلہ چلا۔ امام حرم کی
آمد کے بعد حاضرین اپنے اپنے انداز میں امام حرم کی عقیدت، ان کی عظمت، ان
کے احترام اور ان کے علمی مقام و مرتبے پر تبصرہ بھی کرتے رہے۔کچھ دیر کے
بعد صلاۃ فجرکی اقامت ہوئی اور لوگ صف بندی کرنے لگے۔ امام حرم نے اپنی خوش
الحان آواز میں قرأت کی اور نماز ادا کرائی۔ نماز کے بعد اعلان کیا گیا کہ
تمام حضرات اسٹیج کے سامنے چلیں جہاں بیٹھنے کا بھی انتظام کیا گیا تھا،
وہیں امام حرم خطاب فرمائیں گے۔ اعلان ابھی مکمل بھی نہیں ہوا تھا اور
لوگوں کے سمجھ میں آگیا تھا کہ اب کیاکرنا ہے۔ فوراً لوگوں نے اپنی چپلیں
بغلوں میں دبائیں اور دوڑ پڑے مسجد سے نکل کر
اسٹیج تک پہنچنے کے لیے۔ ہم نے اس موقع پر چستی و پھرتی سے کام لیا اور
چونکہ مسجد کے شمالی دروازے کے قریب تھے اس لیے جلدی سے چپل اٹھائی اور
بھاگتے ہوئے نکل پڑے مسجد سے اور دوڑنے والوں کی صف میں شامل ہوکر اسٹیج کے
قریب پہنچ گئے۔ جب مقررہ حد تک پہنچ گئے اوربَلّیوں نے ہمیں آگے بڑھنے سے
روک دیا تو وہیں کنارے کھڑے ہوگئے ۔اب پیچھے جومڑکے دیکھا توفرط حیرت سے
دنگ رہ گئے۔ پورا میدان بھر چکا تھا۔ اگر یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ تل
دھرنے کی بھی جگہ نہ تھی۔
اسٹیج
کے پاس طلبا، اساتذہ اور دیگر اسٹاف کاایک عملہ سرگرم نظر آنے لگا اور
اسٹیج کی کارروائیاں ہونے لگیں اور اس تیاری کو اسٹیج کے سامنے بیٹھے اور
کھڑے ناضرین اشتیاق سے انھیں دیکھ رہے تھے اور سب کے خیالوں میں یہی چل رہا
ہوگا کہ ابھی امام حرم اسی اسٹیج پرآکراپنے رخِ انور کے دیدار کا موقع
عنایت فرمائیں گے۔ ٹھوڑی دیر میں دیکھا کہ ایک پولس گاڑی کے پیچھے دو
مرسڈیز اور دو کاریں چلی آرہی ہیں۔ چونکہ ہم حاضرین کی جانب سے اسٹیج کے
دائیں جانب کھڑے تھے اور ادھر ہی و ہ راستہ تھا جہاں سے امام حرم کو آنا
تھا۔ جب گاڑیاں آنے لگیں تو لوگ اٹھ اٹھ
کر دیکھنے لگے۔ لیکن یہ گاڑیاں رُکے بغیر اسی راستے پر اسٹیج کے پیچھے چلی
گئیں۔ لوگوں میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں۔ ہم نے اپنے پرانے طالب علمی کے
زمانے کے تجربے سے اندازہ لگایا کہ شیوخ حضرات کو اس جانب لے جایا گیا ہے
جہاں سنابل کی مرکزی لائبری اور ہاسٹل واقع ہے۔ ہم نے یہی اندازہ لگایا کہ
امام حرم کو لائبری کا دورا کرایا گیا گیا اور بعدمیں معلوم ہوا کہ ہمارا
اندازہ صد فیصد درست تھا۔ تقریباً بیس پچیس منٹ کے بعد پھر سے گاڑیوں کے
ہارن کی آواز آئی ۔ پہلے پولس کی گاڑی نظر آئی پھر اس کے پیچھے دو مرسڈیز۔
گاڑیاں رکیں۔ اسٹیج کے پاس موجود عملے نے
امام حرم کے کارواں کا استقبال کیا اور انھیں اسٹیج پر لے جا یا گیا۔ ہجوم
میں بدستور امام حرم کے تعلق سے نیک تبصرے جاری تھی اور اپنی اپنی معلومات
کے مطابق ہر شخص ان کے علمی مرتبت پر اظہار خیال کر رہا تھا۔
بہر
کیف حسب روایت تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ سنابل کے استاذ
اورصدر شیخ عبدالبر سنابلی المدنی صاحب پروگرام کی نظامت فرما رہے تھے۔ ان
کا انداز گفتگو بہت عمدہ ہے۔ بہت ٹھہر ٹھہر کر صاف اور ششتہ انداز میں
تقریر کرتے ہیں۔ کلاس
میں بھی وہی انداز ہوتا ہے۔ اگر کسی ناگواربات پرسختی سے بھی کچھ کہتے ہیں
تو لگتا ہے کہ بہت مشفقانہ انداز میں کوئی درخواست کر رہے ہوں۔ ان کی
انکساری طلبا کیا سب کے دلوں کو موہ لیتی ہے۔وہ امام حرم کے واسطے عربی میں
اور حاضرین کی فہم کے واسطے اردو یعنی دونو زبان میں نظامت فر مارہے تھے۔
تلاوت کلام پاک کے بعد سنابل کے ہی ایک طالب علم نے عربی زبان میں امام حرم
اور ان کے ساتھ تشریف لائے سعودی ایمبیسی کے سفیر اور ان کے ساتھیوں کا
استقبال کیا اور مرکز کاایک تعارف بھی پیش کیا۔ سنابل کی یہ روایت رہی ہے
کہ جب بھی مہمان سنابل کے دورے پر آتا ہے اور ان
کے اعزاز میں تقریب ہوتی ہے تو طلبا کی تقریری صلاحیتوں کے نمونے ان کے
سامنے ضرور پیش کیے جاتے ہیں اور اردو ، عربی کے ساتھ انگریزی میں بھی طلبا
تقریری کرتے ہیں۔ یہاں بھی اس روایت کو برقرار رکھا گیا لیکن وقت کی تنگی
اور امام حرم کی مصروفیت کے سبب صرف ایک نموذج پر اکتفا کیا گیا اور ایک
طالب علم نے انگریزی زبان میں اخلاق حسنہ کے موضوع پر ایک بلیغ تقریر پیش
کی۔ اس کے بعد امام حرم سعود بن ابراہیم الشریم صاحب مائک پر تشریف لائے
اور انھوں نے مجمع کوخطاب فرمایا۔ انھوں نے کہا کہ میں اس ادارے میں آج سے
پچیس سال قبل آیا تھا۔ تب اور اب میں بہت فرق ہے۔
اُس وقت یہ ادارہ اپنے عہد طفلی میں تھا اور اِس نے ترقیوں کے منازل طے
کرکے آج یہ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔ انھوں نے ادارے کے صدر
مولانا عبدالحمید رحمانی صاحب کو اس کامیابی پر مبارکباد دی اور جس مقصد کو
لے کے وہ چلے ہیں ان میں مزید ترقی کے لیے دعا بھی کی۔ امام حرم نے اپنے
خطاب میں علم اور اخلاص کے موضوع پر سامعین سے گفتگو کی اور کہا کہ تمھارے
ذریعے اگر ایک آدمی کو بھی اللہ تعالی ہدایت دے تو یہ سرخ اونٹوں سے بھی
زیادہ قیمتی ہے۔ دعوت و تبلیغ کا کام حکمت کے ساتھ ، تشدد اور نفرت سے دو
ررہ کر ہی ہونا چاہیے۔ لیکن مصلحت اور حکمت کا یہ
مطلب یہ نہیں کہ صحیح اسلامی عقیدے سے دست کشی اختیار کر لی جائے ، عقیدہ
میں ذر ہ برابر بھی کوتاہی ناقابل قبول ہے۔امام حرم نے فرمایا کہ ہم
انسانوں کے کندھوں پر اللہ تعالی کی ایک عظیم امانت ہے او ر اس امانت کی
ادائیگی دوشرطوں کے ساتھ ممکن ہے۔ ایک ایسا علم جس میں رسول ﷺ کے اتباع کو
لاز پکڑا گیا ہو اور دوسرے اخلاص۔تقریباً پندرہ منٹ تک امام حرم بولتے رہے
اور حاضرین خاموشی سے سنتے رہے۔ گرچہ حاضرین کی ایک بڑی تعداد عربی زبان
سمجھنے سے قاصر تھی۔ لیکن یہ امام حرم کی تقریر اور ان کی جادو بیانی کا
سحر تھا۔ ان کے خطاب کے دوران اس قدر خاموشی اور
سکون تھا جو آج کل جمعہ کے خطبہ میں بھی نہیں پایا جاتا ہے جبکہ حدیث نبوی
کے مطابق جمعہ کے خطبے کے دوران گفتگو ممنوع ہے بلکہ یہاں تک کہ اگر کوئی
گفتگو کر رہا ہے تو اس کو زبانی منع کرنے سے بھی روکا گیاہے۔ جمعہ میں تو
لوگ یہ بھول جاتے ہیں لیکن آج جب کہ امام حرم خطاب فرمارہے تو ایسا لگتا ہے
کہ سب نے یہ حدیث پڑھی اور اس پر عمل ضروری ہے ورنہ سیدھا جہنم میں جائیں
گے۔
امام
حرم کی تقریر ختم ہوئی اور اس کے بعد سنابل کے ایک قابل رشک استاذ شیخ
وسیم
احمد سنابلی ریاضی صاب نے امام حرم کی باتوں کا اردو زبان میں خلاصہ پیش
کیا تاکہ حاضرین صرف تبرک کے طور پر امام حرم کو سن کر نہ چلے جائیں بلکہ
ان کی نصیحتوں کو سمجھیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کریں۔اس کے بعد ا س
ادارے کے صدر مولانا عبدالحمید رحمانی صاحب مائک پر تشریف لائے اور انھوں
نے مختصراً صدارتی کلمات پیش کیے۔ گرچہ اب وہ طاقت نہ رہی ان میں، لیکن آج
بھی وہ بولتے ہیں تو سامعین ہمہ تن گوش ہوکر انھیں سنتے ہیں۔ ان کی خطابت
بہت مشہور ہے۔لیکن آج ان کی ضعیفی کی وجہ سے ہمیں وہ رعب نظر نہیں آیا جو
ان کے جمعے کے خطبے میں نظر آتا تھا۔ جوگا
بائی کی جامع مسجد ابو بکر صدیق میں جمعہ کے خطبے میں لوگوں کا ازدہام صرف
اس لیے ہو تا تھا کہ مولانا کی سحر آفریں تقریر سے مستفید ہونا ہے۔ بہر
حال انھوں نے امام حرم کا استقبال کیا او ر ان کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں
نے ادارے کو ان کی ضیافت کا موقع عنایت فرمایا۔آخرمیں ادارے کے موجود ہ روح
رواں، فعال اورسرگرم رکن اور سنابل کے استاذ شیخ محمد رحمانی نے تمام
مہمانوں او ر حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد شریعت کالج کا سنگ بنیاد
امام حرم کے ہاتھوں رکھا جانا تھا۔ ہم جہاں کھڑے تھے ا س سے چند قدم دور ہی
سنگ بنیاد کے لیے جگہ مختص کی گئی تھی اور اس کا
انتظام کیا گیاتھا۔ فی الوقت سنابل اور معہد میں عارضی کلاس روم میں درس و
تدریس کا انتظام ہے او ر انھیں عارضی درس گاہوں سے فارغ ہونے والے طلبا نے
علم و عمل کے میدان میں بہترین کارنامے انجام دیے ہیں۔ کسی بھی معہد،
اسکول، کالج اور یونی ورسٹی کا مقام مرتبہ اور اس کا وقار ان کے طلبا سے
ہوتا ہے۔ اگر طلبانے وہاں سے تعلیم حاصل کرکے زندگی کے دوسرے شعبوں او ر
علم و عمل کے میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہیں تب ہی اس ادارے کی عزت
اوراس کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔یہاں بھی اسی عارضی کلاس روم سے طلبا نے
تعلیم حاصل کرکے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اور
اس ادارے کی عظمت میں اضافے کیے ہیں۔ اسی عارضی کلاس روم کو شریعت کالج
میں تبدیل کرنے کا خواب مولانا عبدالحمید رحمانی صاحب کی آنکھوں میں برسو ں
سے ہے۔ آج اسی شریعت کالج کا سنگ بنیاد امام حرم کے ہاتھوں رکھا جانا ہے۔
اللہ کرے جلد از جدل یہ سنگ بنیاد شریعت کالج میں تبدیل ہو جائے۔ پروگرام
کے اختتام کے بعد اسٹیج پر موجود اساتذہ اور دیگر لوگوں کے جھرمٹ میں سنگ
بنیاد رکھنے کے لیے امام حرم اس خاص جگہ پر تشریف لائے۔ لوگوں کا ہجوم ایک
بار پھر ان کے دیدار کے لیے اس جگہ کی طرف جانے کے لیے زور آزمائی کر رہا
تھا ورایڑیوں کے بَل اٹھ اٹھ کر انھیں دیکھنے
کی کوشش کررہاتھا۔ جولوگ اس خاص جگہ سے قریب بَلّیوں کے قریب تھے انھیں
پیچھے سے آنے والے دباؤ نے کافی پریشان کیا اور اس دباؤ کے زور سے ایک جگہ
بَلیوں سے بندھی رسّیاں ٹوٹنے لگیں ۔ ایسا لگا کے اس دباؤ میں رسیاں ٹوٹ
جائیں گے او رہجوم کا زور امام حرم تک پہنچ جائے گا۔ مگر ان بَلّیوں اور
رسّیوں میں بھی اللہ تبارک و تعالی نے اتنی جان ڈال دی تھی کہ امام حرم کی
حفاظت کے لیے یہ بھی ڈٹی رہیں اور خود کو بکھرنے نہیں دیا۔ کاش اسی طرح
مسلمانان عالم بھی متحد ہو جائیں، پھر انھیں کوئی طاقت ہلا نہیں سکتی، مگر
موجودہ صورت حال کے پیش نظر یہ ذرا مشکل نظر آتا
ہے۔
امام
حرم کے ہاتھوں سنگ بنیاد رکھا گیا اور اسکے بعد امام حرم پولس کی حفاظتی
دستے کے درمیاں اپنی مرسڈیز میں سوار ہوکر دوسرے جگہ کسی اور پروگرا م کے
لیے کوچ کر گئے۔ جس طرح طوفان کے ختم ہونے کے بعد خس و خاشاک رہ جاتے ہیں۔
اسی طرح امام حرم کے جانے کے بعد عوام منتشرہو گئی تھی او ر سنابل کیمپس
دھیرے دھیرے خالی ہورہا تھا۔ چند ہی منٹ میں وہاں صرف اسیٹج ،کرسیاں،
دریاں، بَلّیوں کی قطاریں رہ گئیں تھیں اور ان کے سمیٹنے والے ملازمین اپنے
اپنے کاموں پر لگ چکے تھے۔ طلبا کو ہدایت دی جاچکی تھی کہ وہ
اپنے اپنے کلاس روم میں چلے جائیں۔ تھوڑی ہی دیر میں میدان خالی پڑاتھا
اور صرف خس و خاشاک وہاں رہ گئے تھے۔ ہم نے بھی ایک نظر اس میدان پرڈالی
اوراپنے کچھ پرانے ساتھیوں کے ساتھ محو گفتگو کیمپس سے باہر آئے او ر اپنے
گھر کی راہ لی۔
سلمان فیصل
۳مارچ ۲۰۱۲
No comments:
Post a Comment