Search This Blog

Friday, 30 March 2012

اولوں کے انتظار میں ایک برہنہ سر

اولوں کے انتظار میں ایک برہنہ سر

خالد احمد ـ 
امریکی ادب کے شاہکار ناول ’اَنکل ٹام، ز کیبن‘، "UNCLE TOM's CABIN" کا رہائشی سچائی اور دانائی کا سیاہ فام پیکر بالآخر امریکی سیاست کی جادونگری کے مرکز ’ وائٹ ہاﺅس‘، "WHITE HOUSE" کا رہائشی قرار پا گیا! سیاہ فام افریقی امریکیوں نے یہ سفر ایک دن میں طے نہیں کیا! لاکھوں نے ظلم و ستم کی بے شمار سرد اورسیاہ راتیں ٹھٹھرتے گزار دیں اور لاکھوں ہی دن دِہاڑے کوڑے کھاتے کھاتے زندگی کی بازی ہار گئے۔ افریقی امریکیوں کے حقوق کے لئے آواز اُٹھانے والے سفید فام امریکی بھی جانوں سے گزر گئے ! مگر اُن کی قربانیاں رائگاں نہیں گئیں! اُن کے خون نے جہاں سفید فام رگوں میں ٹھاٹھیں ماریں ! وہاں سیاہ فام رگوں میں ٹھاٹھیں مارتا خون بھی گرما دیا! حتیٰ کہ صرف 50سال کی مسلسل جدوجہد نے امریکی مزاج بدل کے رکھ دیا! اور جنابِ بارک حسین اوباما امریکہ کے صدر قرار پا گئے! ری پبلکن، جنابِ بارک حسین اوباما کا دورِ اقتدار مختصر کرنے کے لیے ایک ’چاکلیٹ ہیرو‘کی تلاش میں ہیں! اُن کا خیال ہے کہ ایک خوب صورت شخص ہی جنابِ بش سینئر اور جنابِ بش جونیئر کی پھیلائی ہوئی بدصورتی سمیٹ کر ٹھکانے لگا سکتا ہے! جبکہ ڈیموکریٹ اس بدصورتی کے خدوخال واضح تر کرنے میں مصروف ہیں! جنابِ بارک حسین اوباما صہیونی لابی کے سامنے ایران پر بے جواز حملے کے اخراجات کا بِل رکھ چکے ہیں! اور اب اُنہیں اپنے ووٹروں سے صرف ایک بات پوچھنا ہے کہ کیا وہ امریکہ کے لئے ایک اور بے مقصد جنگ میں کود پڑنا اور اپنے تمام وسائل اس بے مقصد جنگ کی بھینٹ چڑھا دینا پسند کریں گے؟یہ ایک ایسا سوال ہو گا، جس کا جواب صرف نفی میں ملے گا! اور جنابِ بارک حسین اوباما کے لئے دوسرا دورِ اقتدار بہت بڑی اکثریت کے ساتھ سامنا آجائے گا!
کتنی عجیب بات ہے کہ امریکی مزاج میں یہ انقلابی تبدیلی صہیونی مزاج میں ابھی تک کوئی تبدیلی منعکس نہیں کر سکی! صہیونی آج بھی اِس دُنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہیں! اور امریکی سیاست کی خواب گاہ سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں! ’کہ اِن کی زَر کی طلب بے سزا نہ چھوٹے گی! ‘ اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرتی مزاج میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آ رہی! دُنیا بھر کے مصائب ہماری جان کو آ چکے ہیں! مگر ہمیں خبر ہی نہیں کہ زَر کی طلب کے سوا بھی کوئی جذبہ زندگی کا مقصد ہو سکتا ہے! یار لوگ ’میامی‘ میں امریکہ کے سب سے خوب صورت سیاہ و سفید محل کی تعمیر کے بعد اُس کی تزئین و آرائش میں جتے ہیں! تاکہ محفوظ راستہ فراہم ہوتے ہی وہاں فروکش ہو سکیں! یہ بات ہماری نسبت وہ لوگ بہتر طور پر جانتے ہیں، جنہیں یار لوگوں کی قربت حاصل ہے! اور اُن کے قرابت دار نہ ہوتے ہوئے بھی اُن کے مقربین میں شمار کئے جاتے ہیں!
ہم سینئر صحافی جنابِ نجم سیٹھی کی ہر بات بہت غور سے سنتے ہیں! اور اُس کا تجزیہ کرتے ہیں! رات گئے اُنہوں نے بتایا کہ اگر عدالتِ عالیہ نے جنابِ سید یوسف رضا گیلانی کے لیے اڈیالہ جیل کا راستہ کھول دیا، تو، وہ عدالت سے سیدھے اڈیالہ پہنچیں گے ، جہاں جیل سپرنٹنڈنٹ اُنہیں سلیوٹ کرکے مہمان خانے میں لے جائیں گے! اُن کی چائے اور کافی کے ساتھ خاطر تواضع کریں گے! اور پھر جنابِ رحمن ملک ’ایوانِ وزیراعظم‘ کو وزیراعظم کے لئے ’سب جیل‘ قرار دینے کا حکم جاری فرما دیں گے! لہٰذا وہ ایک بار پھر ’پرزن وین‘ میں تشریف فرما ہوکر ’ایوانِ وزیراعظم‘ میںدوبارہ ’قید فرما‘ ہو جائیں گے! اور اُس کے بعد وہ وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کرکے نئی صورتِ حال پر نئے فیصلے صادر فرمائیں گے! جنابِ نجم سیٹھی کا فرمانا تھا کہ یہ کوئی ’مبتذل‘ بات نہیں! اس انداز میں سوچا جا رہا ہے! اور یہ ’متبادل‘ بہت سی دیگر ’متبادل‘ صورتوں میں سے ایک صورت کے طور پرسب سے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ زیرِ غور ہے! واضح رہے کہ کچھ الفاظ کا اِدھر اُدھر ہو جانا عین ممکن ہے ! مگر مفہوم صد فی صد یہی تھا! حتیٰ کہ جنابِ منیب الرحمن نے یہ بھی پوچھ لیا کہ وہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے وقت ’جیل کے لباس‘میں فروکش ہوں گے ؟ یا، عام لباس میں؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ساری مضحک صورتِ حال میں اِس سے زیادہ سنجیدہ سوال نہیں اُٹھایا جاسکتا تھا! عین ممکن ہے کہ یہ معاملہ بھی ’عدالتِ عظمیٰ‘ میں زیرِ بحث آئے! اور اس پر بھی فیصلے کے لئے وزیر اعظم کی طرف سے جنابِ چودھری اعتزاز احسن ہی پیشِ عدالت ہوں!
اس اکیلی بات سے واضح ہو رہا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس سمت رواں ہے؟ اور یہ سمت ہمیں کس طرف لے جا رہی ہے! امریکہ سے ہمارے مطالبات بڑھتے چلے جا رہے ہیں! ہمارا قد گھٹتا چلا جا رہا ہے! اور ہمارے ادارے چند مسخروں کے ہاتھ آ چکے ہیں! ہمیں ’سیمسن اینڈ ڈلائیلا‘کا آخری منظر یاد آ رہا ہے! ’سیمسن‘ کے بال بڑھ چکے ہیں! اُس کی غیرمعمولی توانائی واپس آ چکی ہے! اور اُسے سرِعام ذلیل کرنے کے لیے ’بونے مسخروں‘ کے جلو میں بادشاہ سلامت کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے! ’بونے مسخرے‘ گدھوں کی کھوپڑیوں سے مسلح ہیں! اور وہ بار بار ’سیمسن‘ کی پنڈلیوں پر گدھوں کی کھوپڑیوں کے کھلے ہوئے جبڑے قینچیوں کی طرح چلا کے اُسے کاٹ رہے ہیں! ہر وار پرنابینا ’سیمسن‘چونک پڑتا ہے! اور مسخرے ایسے ہر وار کے بعد قلابازیاں کھاکھا کے لوگوں کو ہنسا ہنسا کر بے حال کرتے چلے جا رہے ہیں!کیونکہ یہ ’تذلیل‘ایک منصوبے کا حصہ تھی! لہٰذا ’ڈلائیلا‘ بادشاہ سلامت کے پہلو سے اُٹھی! اور ’سیمسن‘ کا ہاتھ پکڑ کر اُسے قربان گاہ کے عین وسط میں لے گئی! اُس لمحے ’سیمسن‘ نے ’ڈلائیلا‘ سے پوچھا، ’قربان گاہ کے ستون کہاں ہیں؟‘..... ڈلائیلا کچھ کہے بغیر اُسے ایک جڑواں ستون کے پاس لے گئی! ’سیمسن‘ نے ان جڑواں ستونوں کے درمیان کھڑے ہوکر اُنہیں گرانے کی کوشش کرنا شروع کی،تو، لوگوں کا ہنس ہنس کے بُرا حال ہو گیا! مگر بادشاہ سلامت کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا! کیونکہ صرف وہ جانتے تھے کہ اب کیا ہو گا؟ ایک زلزلہ آگیں گڑگڑاہٹ پیدا ہوئی! اور آتش کدہ زمین پر آ رہا! یہ بلند و بالا آتش کدہ بادشاہ سلامت سمیت تمام لوگوں کے لیے موت بن گیا! ’ڈلائیلا‘ نے ’سیمسن‘ کے لیے قربان گاہ کی پتلی گلی پہلے سے کھلا رکھی تھی! نابینا ’سیمسن‘ وہاں سے صحیح سلامت نکل گیا! مگر ’ڈلائیلا‘ نے مرتے ہوئے بادشاہ سلامت کے ساتھ مر جانا قبول کر لیا! کیونکہ اُس نے بادشاہ سلامت کی ملکہ بننے کے لئے ’سیمسن‘ کے بال کاٹے تھے! وہ اپنے جرم کی سزا بھگتنا چاہتی تھی! اب یوں ہے کہ امریکہ میں صہیونی لابی امریکیوں کے بال کترنے کے لیے مستعد بیٹھی ہے! اور پاکستان میں ہم سب اپنے سر اپنے ہاتھوں مونڈدینے کے لیے ہمہ وقت تیار بیٹھے ہیں کہ ہم وہی کچھ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں، جسے مغرب بعض اوقات باامر
مجبوری کرتا ہے! مگر ہم اُسے فیشن سمجھ کر اپنا لیتے ہیں!


(کالم نگار کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اظہار کردہ خیالات انکے ذاتی ہیں۔ ہمارا ان خیالات سے اتفاق ضروری نہیں)

غیرت جگائو‘عافیہ کو لائو


غیرت جگائو‘عافیہ کو لائو

مظفر اعجاز 2012
-غیرت‘عزت‘ وقارقوم…وغیرہ یہ سب کیاہے…کیا ان چیزوں کی کوئی اہمیت ہے؟ کہاجاتاہے کہ غیرت ووقارکا سوداکرنے والی قومیں مٹ جاتی ہیں صفحہ ہستی سے بھی اور صفحہ تاریخ سے بھی۔ پاکستانی قوم نے 1971ء کے سانحہ کے بعد سے نہ توسبق سیکھا اور نہ غلطیوں کی اصلاح کی۔ اس کا نتیجہ زوال اورزوال ہی کی صورت میں نکلنا تھا جس فوج کو ہم دنیا کی بہترین پیشہ ورفوج کہتے تھے وہ اب پوری دنیا میں رسوائی کا سامناکررہی ہے۔ پاکستان میں ایک ایسی سیاسی جماعت اور ایسی سیاسی جماعتیں اس کا ناطقہ بندکررہی ہیں جن کے بارے میں کہاجاتاہے کہ ان جماعتوں کو پیدااورپرورش کرنے کا سارا کام فوج نے ہی کیاتھا لیکن بات یہ ہے کہ جس چیز کا بیج بویا جاتاہے فصل بھی اسی کی کاٹنی پڑتی ہے۔ پاکستان میں بار بار فوجی مداخلت‘ پھرفوجی اقتدار اوراس کے علاوہ خفیہ ایجنسیوں کا بے پناہ رسوخ اور معاملات میں دخل نے ایک طرف ان ایجنسیوں کو بے پناہ قوت بخش دی اور دوسری طرف اس طاقت نے اناکو کمزوربنادیا۔ آج بے پناہ طاقت رکھنے کے باوجود پاکستانی فوج پاکستان کے معاملات میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی اصلاح کرنے سے قاصرہیں۔ حالانکہ خرابیوں میں سے بے تحاشا اس کی اپنی پیداکردہ ہیں۔ ان ہی خرابیوں میں سے ایک جنرل پرویزمشرف کے دورکی پیداکردہ ہے اور وہ ہے ڈاکٹرعافیہ صدیقی‘ اسے پاکستانی ایجنسیوں نے 30 مارچ 2003ء کو کراچی سے اغواکیا افغانستان پہنچایا اور وہاں ایک قاتلانہ حملے میں زخمی کردیا اس کے زندہ بچ جانے کی اطلاع پاکر امریکیوں نے دوبارہ اسے اغواء کیا اور پھروہ کسی طرح امریکا پہنچادی گئی۔ آج 9 سال ہونے کو ہیں پاکستانی قوم نے اپنی عزت‘ غیرت‘ وقار سب دائوپرلگارکھے ہیں۔ 71ء کے سانحہ کا حساب نہیں چکایا۔ جنرل نیازی نے جو پستول دیا تھا وہ واپس نہیں لاسکے۔ سانحہ ایبٹ آباد کا بدلہ نہیں چکاسکے۔ ریمنڈڈیوس کو سزا نہیں دے سکے۔ کارگل کابدلہ نہیں لے سکے۔ کون سا ایسا کام ہے جو پاکستانی قوم نے کر دکھایا ہو۔ کرکٹ کا عالمی کپ جیت لینا یا ٹوئنٹی 20 کپ جیت لینا کوئی کارنامہ نہیں اپنی عزت کی حفاظت کرنا اور وقارکا سودانہ کرنا اصل بات ہے۔ امریکا نے تو آج تک کرکٹ کا ورلڈ کپ نہیں جیتا اور نہ ہی وہ ٹوئنٹی 20 کھیلتاہے لیکن اپنے ملک کے دہشت گرد قاتل ریمنڈڈیوس کو جیل سے چھڑاکرلے جاتاہے۔ ہمارا سو روپے والا بے غیرت وکیل کہتاہے کہ غیرت مند قومیں ریمنڈڈیوس جیسے آدمی کو لے جاتی ہیں۔ ہمارا سوال ہے کہ غیرت مند قوم اپنی بیٹی عافیہ کو کیوں نہیں لاسکی۔ سارا مسئلہ غیرت کا ہے۔ یہ مان لینا ذرامشکل کام ہے کہ بحیثیت قوم ہماری غیرت مرنہیں گئی ہے۔ تو کم ازکم سو ضروررہی ہے۔ یہ بات غیرت ہی کی تو ہے کہ سندھ میں راجا داہرکے مظالم پر ایک عورت واحجاجا کا نعرہ بلندکرتی ہے اورحجاج اپنے بھتیجے کو داہرکی سرکوبی کے لیے بھیج دیتاہے۔ اورپھر محمدبن قاسم کے قدم رکتے نہیں وہ دیبل سے ملتان بھی جاپہنچتاہے اور آج تک ایک عورت کی پکارپر ہند اور سندھ میں محمدبن قاسم کے نشانات ملتے ہیں۔ آج آواز اٹھائی جارہی ہے کہ پھرکوئی محمدبن قاسم اٹھے اور قوم کی بیٹی کی آوازپرلبیک کہے۔ لیکن کہیں ہمارے خیال میں اب کوئی محمدبن قاسم نہیں اٹھے گا۔ اگربنناہے تو پاکستانی نوجوانوں ہی کو محمد بن قاسم بنناہوگا۔ جس طرح فلسطینیوں نے یہودی مظالم اور مسلم حکمرانوں کی بے حسی دیکھ کر نعرہ لگایا تھا کلّناصلاح الدین ۔یعنی’’ہم سب صلاح الدین ہیں‘‘ تو پھرآج پاکستانی نوجوانوں کو بھی یہی نعرہ دیناہوگا کہ ہم سب محمدبن قاسم ہیں۔ راجہ داہرکی قیدمیں مسلمان خواتین کی آوازہزاروں میل دور حجاج بن یوسف تک پہنچ گئی لیکن آج ہمارے کانوں میں عافیہ کی آوازیں نہیں آرہیں۔ آج تو انٹرنیٹ ہے۔ فیس بک ہے۔ ٹوئٹرہے۔ ٹی وی چینلز کی لائیوکوریج ہے۔ پھر عافیہ کی آواز کیوں دب رہی ہے۔ اس لیے کہ غیرت سورہی ہے۔ آج غیرت جاگ جائے پھر دیکھیں قوم کی بیٹی کس طرح آزاد ہوکر وطن واپس آتی ہے۔ویسے تو یہ بات سب کو پتا ہے کہ 30 مارچ کو عافیہ کی امریکی قیدمیں9 سال پورے ہوجائیں گے۔ اس دوران کون سا ظلم ہے جو اس پر روا نہیں رکھا گیا۔ ذہنی جسمانی اذیتیں دی گئیں۔ ایسی اذیتیں جن کو دہراتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ۔ لیکن پتا نہیں یہ کیسی بے حسی ہے کہ سب کچھ جاننے کے باوجود قوم ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ قرآن پاک جلایاجاتاہے اور اسکارف چھینا جاتاہے برہنہ کیاجاتاہے۔ بھری عدالت میں تھپڑماراجاتاہے۔ ناکردہ گناہ پر 86 برس کی قید ہوتی ہے۔ الزام لگاکر ثابت نہیں کرپاتے پھربھی قیدکی سزاہوتی ہے۔ یہ سب کیاہے۔ چوہدری اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ غیرت مند قوم اپنا بندہ چھڑالیتی ہے انہوں نے سیدھاسادا الزام لگادیاہے کہ قوم بے غیرت ہوگئی ہے۔ کیا آج پھر ایک دن منالینا کافی ہوگا۔ دن منانے میں تو ہم سے آگے کوئی نہیں۔ بابائے قوم کا دن آزادی کا دن‘ قرارداد پاکستان کا دن‘ عہدکا دن‘ محروم کا دن‘ ربیع الاول کا دن‘ اور اب پھر قتل پر سوگ کا دن کا پیغام ہمارے دل میں نہیں اترتا۔ اب 30 مارچ بھی منالیں کچھ نہیں ہوگا جب تک قومی غیرت نہیں جاگے گی‘ کچھ نہیں ہوگا۔

Wednesday, 28 March 2012

مصر ایک نئے انقلاب کے دہانے پر

مصر ایک نئے انقلاب کے دہانے پر

آصف جیلانی 

-ایک سال پہلے قاہرہ کے تحریر اسکوائر سے انقلاب کی جو لہر اٹھی تھی اس کے نتیجے میں حسنی مبارک کا 36سالہ طویل استبدادی دور ختم ہوا تھا، لیکن ان کی معزولی کے بعد بھی ان کے مقرر کردہ فیلڈ مارشل طنطاوی کی قیادت میں وہ فوج جو حسنی مبارک کے اقتدار کا بنیادی ستون تھی، برسراقتدار ہے۔ گو فوجی قیادت انقلاب کے بعد عام انتخابات کرانے پر مجبور ہوئی ہے اور پارلیمنٹ کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد نئے آئین کی تیاری اور اس کی منظوری کے لیے ریفرنڈم کے انعقاد اور اس کے بعد صدارتی انتخاب کا مرحلہ مکمل ہونے پر اقتدار کی منتقلی کا وعدہ پورا کرنے کی پابند ہے۔ فوجی قیادت نے کئی مراحل میں عام انتخابات کے انعقاد کا جو پیچیدہ طریقہ وضع کیا تھا اُس پر عام طور پر یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ اس کا مقصد ایک ایسی پارلیمنٹ تشکیل دینا ہے جس میں کوئی ایک جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کرپائے، اور ایسے عناصر کو جتوانا ہے جن کے ساتھ فوج اپنے مفادات کے لیے سودا کرسکے۔ لیکن فوج کی یہ تدبیریں اُس وقت الٹی ہوگئیں جب اخوان المسلمون نے انقلاب کے بعد اپنی سیاسی قسمت آزمانے کے لیے عام انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا، اور اس مقصد کے لیے اخوان کے ایک اہم رہنما محمد سعد توفیق الکتاتنی کی قیادت میں حزب الحریہ والعدالہ (فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی) کے نام سے اپریل 2011ء میں نئی سیاسی پارٹی کی داغ بیل ڈالی۔ فوجی قیادت اور مغربی قوتیں اس وقت ہکا بکا رہ گئیں جب28 نومبر2011ء سے 11جنوری 2012ء تک جاری رہنے والے عام انتخابات میں اخوان کی سیاسی جماعت پارلیمنٹ کی 47 فی صد سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے ساتھ سلفی جماعت النور 24 فیصد نشستوں پر فتح مند رہی۔ یوں اسلامی تحریک 71 فیصد نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ یہ ایک غیر معمولی کامیابی ہے جو مصر کے عوام کی اکثریت کی خواہشات کی مظہر اور اس بات کا ثبوت ہے کہ صدر ناصر کے انقلاب کے بعد پچھلے ساٹھ برس کے دوران اخوان المسلمون کو کچلنے اور اس کا قلع قمع کرنے کی جو کوششیں کی گئی تھیں انہیں آزادانہ انتخابات کا موقع ملتے ہی عوام نے رد کردیا اور اخوان کے حق میں فیصلہ دیا۔ فوج کو یہ توقع تھی کہ نئی پارلیمنٹ میں مختلف سیاسی جماعتوں سے جوڑتوڑ کرکے وہ ملک کا ایک ایسا آئین مرتب کرنے میں کامیاب ہوجائے گی جس کے تحت فوج مکمل طور پر آزاد اور خودمختار حیثیت برقرار رکھ سکے گی اور اسے اپنی ساٹھ سال کی حکمرانی کے دور کے فیصلوں اور اقدامات کا جواب نہیں دینا پڑے گا، اور خاص طور پر انقلاب کے دوران خونریزی کے الزامات کے ممکنہ مقدمات سے استثنیٰ حاصل ہوجائے گا۔ انقلاب کے دوران فوج کی کارروائی میں 846 افراد جاں بحق اور دو ہزار زخمی ہوئے تھے۔ فوج کے یہ سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے، کیونکہ ملک کے نئے آئین کی تیاری کے لیے پارلیمنٹ نے ایک سو اراکین کی جو کمیٹی منتخب کی ہے اس میں نصف سے زیادہ اراکین اخوان کی سیاسی جماعت فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک طرف فوج اس صورت حال سے سخت پریشان ہے تو دوسری طرف پارلیمنٹ میں اپنے آپ کو آزاد خیال اور بائیں بازو کہلانے والی جماعتوں نے آئین ساز کمیٹی میں اخوان کی فتح پر احتجاج کی راہ اختیار کرتے ہوئے اس کمیٹی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ وہ اس کمیٹی کے مرتب کردہ آئین کو تسلیم نہیں کریں گی اور اس کے خلاف تحریک چلائیں گی۔ اس دوران اخوان المسلمون نے بھی معرکہ آرائی کا انداز اختیار کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ صدارتی انتخاب میں اپنا امیدوار کھڑا کرے گی، حالانکہ اس سے پہلے اس نے اعلان کیا تھا کہ اس کا صدارتی انتخاب لڑنے کا ارادہ نہیں ہے۔ دریں اثنا فیلڈ مارشل طنطاوی کی قیادت میں حکمران فوجی ٹولے نے مطالبہ شروع کردیا ہے کہ نئے آئین میں وہ تمام مراعات اور خصوصی حیثیت برقرار رکھی جائے جو گزشتہ ساٹھ سال سے فوج کو حاصل رہی ہے۔ لیکن اخوان اور سلفی جماعت فوج کی ’’مقدس‘‘ حیثیت ختم کرنے اور ماضی کے اقدامات کا جواب دہ قرار دینے پر مُصر ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اخوان المسلمون اور فوج دونوں نے اپنے اپنے مؤقف کے مطابق نئے آئین کے مسودے تیار کرلیے ہیں اور فوج کی طرف سے یہ کوشش ہے کہ اس بارے میں اتفاقِ رائے کے نام پر سودے بازی کی جائے۔ فوج نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قومی سلامتی کونسل کے قیام کی تجویز پیش کی ہے جس کا سربراہ صدرِ جمہوریہ ہوگا اور جس میں وزیراعظم، وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کے علاوہ مسلح افواج کے سربراہان اور فوجی انٹیلی جنس کے سربراہ شامل ہوں گے۔ مجوزہ قومی سلامتی کونسل کو قومی پالیسیوں پر حتمی فیصلے کا اختیار ہوگا، اس کونسل کو مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری کا بھی حق حاصل ہوگا، اور یہی کونسل دفاعی بجٹ اور جنگ و امن کے سوالات پر فیصلہ کرے گی۔ فوج آئین میں یہ بات بھی منوانا چاہتی ہے کہ مسلح افواج کے افراد کے خلاف فوجی یا قومی سلامتی کے معاملات سے متعلق مقدمات چلانے کا اختیار صرف فوجی عدالتوں کو ہوگا۔ ان تجاویز کی بدولت فوج اپنی آزاد اور مکمل خودمختار حیثیت برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اخوان المسلمون کی قیادت مسلح افواج کی خاص حیثیت کے خاتمے اور اسے پارلیمنٹ اور جمہوری حکومت کے ماتحت کرنے اور اس کے سامنے جواب دہ بنانے میں اٹل ہے۔ اخوان کی قیادت فوجی صنعتوں کو بھی پارلیمنٹ کے ماتحت بنانا چاہتی ہے جو اس وقت قومی معیشت میں 45 فیصد تک حصہ دار ہیں۔ مسلح افواج کی طرف سے اس کی پوری شدت سے مخالفت کی جارہی ہے۔ اخوان کی قیادت امریکا کی طرف سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کا سلسلہ بھی ختم کرنا چاہتی ہے، کیونکہ یہ امداد پوری کی پوری مسلح افواج کو دی جاتی ہے۔ غرض نئے آئین کے مسئلے پر اخوان المسلمون اور فوجی قیادت کے درمیان شدید معرکہ آرائی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیتی نظر آتی ہے جو ایک نئے انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔

یہ عجیب وغریب منط

خبر و نظر۲۸ مارچ
یہ عجیب وغریب منطق
حال ہی میں اخبارات نے یہ بحث چھیڑی تھی کہ ۲۰۰۲؁ءکے بعد سے ملک کے کسی حصے میں کوئی بڑا فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا، جو اِس بات کا مظہر ہے کہ ملک میں اب فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم ہوچکی ہے ۔ یہ بحث گجرات میں مسلم کشی کے دس سال پورے ہونے پر چھڑی تھی اور بعض مبصرین نے مشورہ دیا تھا کہ گجرات میں جو کچھ ہوا، اسے بھول کر مسلمانوں کو اب اپنی سماجی اور معاشی ترقی کی طرف یکسو ہوجانا چاہئے ۔ اسی تناظر میں مسلم ریزرویشن کا مسئلہ بھی زیر غور آیا اور ایک مخصوص ذہن وفکر کے کالم نگاروں نے خیال ظاہر کیا کہ اب چونکہ مسلمانوں کی معاشی اور سماجی حالت بہتر ہورہی ہے، اس لئے مسلم کمیونٹی کو ریزرویشن کے مطالبے سے دستبردار ہوجانا چاہئے۔ اس مضمون کاایک تبصرہ ۱۶/ مارچ کے ہندوستان ٹائمس میں شائع ہوا ہے ۔ مبصر رام چندر گوہا نے اس امر پر زوردیا ہے کہ اب چونکہ مسلمانوں کے حالات بہتر ہوگئے ہیں، اس لئے وہ کوئی ایسا مطالبہ نہ کریں جس سے ملک میں فرقہ واریت کو دوبارہ سر اٹھانے کا موقع ملے۔ اِس پُرفریب خیال کی تردید کچھ مبصروں اور مراسلہ نگاروں نے اُس وقت بھی مدلل طریقے سے کی تھی۔
ایک مبصر کی حق گوئی
اب رام پنیانی نے اپنے ایک تازہ تبصرے میں اِن دونوں مفروضات کو پُرزور انداز میں مسترد کردیا ہے، لکھا ہے کہ نہ تو ملک میں حقیقی فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم ہوئی ہے نہ مسلم کمیونٹی کی معاشی وسماجی حالت میں کوئی قابل ذکر بہتری آئی ہے۔ دس سال کے عرصے میں کوئی بڑا فرقہ وارانہ فساد نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمانوں کے خلاف عصبیت اور بھید بھائو ختم ہوگیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ بھید بھائو آج بھی کم وبیش پورے ملک میں اور زندگی کے ہر شعبے میں جاری ہے۔ فسادات میں پولس آج بھی جانبدار ہے جیسا کہ حال ہی میں راجستھان میں دیکھا گیا۔ حکومت نے ملک بھر میں یہ یکساں پالیسی اختیار کررکھی ہے کہ تشدد کے ہر واقعے کے بعد کچھ مسلمانوں کو پکڑ کر معاملہ ’’حل‘‘ کرلیا جاتا ہے۔ گجرات میں ۲۰۰۲؁ءکے واقعات کو بھولنے کی بات کہی جارہی ہے لیکن وہاں آج بھی مسلمان بدتر حالت میں ہیں۔ نہ مظلوموں کو انصاف ملا نہ ان کی بازآباد کاری کی گئی— جو لوگ محض فسادات نہ ہونے کی بنیاد پر مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم رکھنا چاہتے ہیں ، وہ غلطی پر ہیں۔ یہ رام پنیانی انگریزی کے ایک بے لاگ اور حقیقت پسند مبصر ہیں۔ ان کا یہ تبصرہ ۱۲/ مارچ کے ہندوستان ٹائمس میں شائع ہوا ہے۔
مزید گہرائی سے جائزہ لیں
رام پنیانی نے جن حقائق کی نشاندہی کی ہے، وہ بلاشبہ حقائق ہیں۔اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ رام پنیانی نے جرأت سے کام لیا ہے۔ تاہم اِس جرأت مندی کو وہ کچھ اور وسعت دیں اور صورت حال کے اسباب کا جائزہ مزید گہرائی سے لیں تو یقینا اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ اُسی منصوبہ بند سازش کا نتیجہ ہے جو برٹش راج کے آخری برسوں میں اور آزادی وطن سے چند سال قبل تیار کرلی گئی گئی تھی۔ پہلے تو ایسے حالات پیدا کردیئے گئے کہ برصغیر کے مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ اپنے لئے ایک علیٰحدہ مملکت کو اپنے مسائل کا حل سمجھنے لگا اور پھر بڑی عیاری کے ساتھ ایک چھوٹا سا ٹکڑا بہ شکل پاکستان انھیں دے دیا گیا اور اس طرح مسلمانوں کی متحدہ قوت توڑ دی گئی، ہندوستانی مسلمانوں کو مستقلاً یرغمال بناکر عملاً انھیں دوسرے درجہ کے شہری قرار دے دیاگیا۔ پھر تقسیم ملک کا تمام تر الزام ان کے سرمنڈھ کر ان کے خلاف متواتر پروپگنڈا تعلیمی نصاب، تاریخی کتب اور میڈیا کے ذریعے کیاگیا۔ اِس گہری اور دور رس چانکیائی سازش کے نتیجے میں وہی صورتحال پیدا ہونی تھی جس کا رونا رام پنیانی آج رو رہے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان مسلم کمیونٹی کو یہ پہنچا کہ اِس صورتحال میں الجھ کر وہ اپنا داعیانہ منصب اور امت وسط کا مقام ہی بھول گئی ﴿پ ر﴾

Tuesday, 27 March 2012

ریا کاری کا انعام۔۔۔۔۔از ابو طارق حجازی

ریا کاری کا انعام۔۔۔۔۔از ابو طارق حجازی
ابو طارق حجازی
 
ریاکاری کا انعامجب ایک وزیر صاحب کا انتقال ہوا تو وہ بہت مطمئن تھے کہ ان کی بخشش ضرور ہوجائے گی۔ ابھی پچھلے ہفتہ ہی ایک صحافی نے ( جو ان کا وظیفہ خوار تھا) ان کی ایک فوٹو البم تیار کی تھی جس میں ان کو پچاس سے زیادہ مشروعات کا افتتاح کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔جس میں بہت سے مدرسہ ، بہت سے اسکول اور بہت سے خیراتی ادارے شامل تھے۔ ہر جگہ ان کا نام پتھر پر کھود کر لگایاگیا تھا۔ ہرجگہ ان کی شان میں قصیدے پڑھے گئے اخباروں میں خبریں چھپیں اور خوب واہ واہ ہوئی تھی۔<جب وہ قبر میں اترے تو دیکھا کہ ان کے اعمال ایک بڑی ترازو میں تولے جارہے ہیں۔ اخباروں اور اشتہاروں کا ڈھیر ہے وہ سب کے سب ترازو کے پلڑے میں بھر دئیے گئے۔ اتنے میں اعلان ہوا کہ جن جن کاموں کے اخبار اور اشتہار چھپے ہیں ان کامعاوضہ دنیا میں ہی دے دیا گیا۔ لوگوں سے خوب واہ واہ کرادی گئی یہ اعلان سنتے ہی ایک فرشتے نے ایک پھونک ماری اور کاغذوں کا ساراڈھیر ہوا میں اڑگیا۔ ان کا پلڑا ہلکا ہوکر آسمان سے جالگا۔ وزیرصاحب ایک دم رونے لگے ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دنیا کی یہ واہ واہ ان کے سارے اعمال کو ضائع کردے گی اب ان کے پاس چند اسکولوں کا افتتاح رہ گیا تھا اس کے بارے میں اعلان ہوا کہ جن اداروں کے افتتاحی کتبوں پر ان کانام پتھروں پر کھدا ہوا ہے( یعنی جن کی واہ واہ مرنے کے بعد بھی جاری کی گئی ہے) وہ سارے ادارے ان کے نام سے نکال دئیے جائیں۔ اس اعلان پر تو وزیر صاحب دھاڑیں مارمار کر رونے لگے کیونکہ کوئی مدرسہ کوئی اسکول ایسا نہ تھا جس پر اپنے نام کا پتھر لگوانے کی انہوں نے پہلے سے تصدیق نہ کرلی ہو۔ وہ تمنا کرنے لگے کاش کوئی شخص جاکر ان تمام کتبوں کو توڑ دیتا جس پر ان کا نام کندہ تھا۔لیکن افسوس کوئی ان کی فریاد سننے والا نہ تھا۔اب انہوں نے اپنے اعمال کے پلڑے کو دیکھا وہ بالکل خالی پڑا تھا ان کا سارا بھرم ٹوٹ گیا۔ دنیا میں و ہ بڑے مخیر مانے جاتے تھے انہوں نے بڑے بڑے کام کئے لیکن شہرت کی چاٹ نے انکے سارے اعمال کو دیمک کی طرح چاٹ لیا۔وہ رو روکر عرش الہٰی کی طرف دیکھنے لگے اور رحم کی بھیک مانگنے لگے۔اتنے میں ایک فرشتہ ایک چھوٹی سی ڈبیہ لے کر آیا اور اس کو ان کے اعمال کے پلڑے میں رکھ دیا۔ اچانک وہ پلڑا نیچے کی طرف آگیا وہ حیرت سے اس ڈبیہ کو دیکھنے لگے کھول کر دیکھا تو یاد آیا کہ ایک دن سردیوں کی رات میں جب وہ گھرواپس آرہے تھے تو دیکھا کہ مسجد کی نالی کا پانی راستہ میں بہہ رہا ہے ۔ نالی بند ہے۔انہوں نے چاہا کہ اس کو کھول دیں لیکن کوئی ڈنڈا یا لکڑی نہیں ملی تو انہوں نے اپنا ہاتھ گندی نالی میں ڈال کر کوڑا نکال دیا۔ نالی صاف ہوگئی پانی بہنے لگا ۔ سڑک بھی صاف ہوگئی گھر آکر انہوں نے اپنا ہاتھ صابن سے دھولیا اس عمل کو سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا تھا۔ بس قادر مطلق نے اسی پر ان کی بخشش فرمادی۔

Sunday, 25 March 2012

About 70 percent of India is poor

About 70 percent of India is poor

 March 25 2012:

Debunking the government's claim that the number of poor in India has come down, a top adviser has claimed that around 70 percent of the country's 1.2 billion population is poor, and stressed the need for a multi-dimensional assessment of poverty.
"The government claim that poverty has come down is not valid... there is a need for a multi-dimensional assessment of poverty as around 70 percent of the population is poor," National Advisory Council member N.C. Saxena told IANS in an interview.
According to Saxena, the various poverty estimates the government relies on to assess the impact of developmental schemes are faulty as they fail to factor in the lack of nutritional diet, sanitation, drinking water, healthcare and educational facilities available to the people.
The former bureaucrat, who now is part of the NAC that reports to Congress president Sonia Gandhi, claimed that not only the National Sample Survey Organisation data is faulty, the ongoing Socio-Economic and Caste Census, which is expected to throw up the latest poverty estimates, is highly flawed.
"The NSSO data is unreliable and the SECC is highly flawed," said Saxena.
The National Advisory Council (NAC) was set up as an interface with civil society. The NAC provides policy and legislative inputs to the government with special focus on social policy and the rights of disadvantaged groups.

After the government faced flak over its latest poverty estimates, according to which anyone earning over Rs.28 per day in urban areas and Rs.26 per day in rural areas is not poor, Prime Minister Manmohan Singh said a multi-layered approach is required to assess poverty as the widely accepted Tendulkar committee report "is not all inclusive".
The government now plans to set up another expert panel to devise a new methodology to assess poverty levels in the country, said the prime minister.
The government recently revised its poverty estimates from earlier Rs.32 per day in urban areas and Rs.26 per day in rural areas based on 2011 prices, to the current estimate which is based on 2009 prices.
Using the Tendulkar panel report, the Planning Commission pegged poverty at 37.5 percent of the population.
Saxena said in reality out of about 200 centrally sponsored schemes, only 5 or 6 are linked to the poverty estimates, pegged at 37.5 percent by the Planning Commission.
Having a realistic assessment of poverty in not only crucial for the government to ensure that around Rs.80,000 crore that it spends on various welfare schemes annually reaches only the genuinely poor, it is also important for the United Progressive Alliance which hopes to roll out the ambitious National Food Security Bill, which aims to provide subsidised rations to around 65 percent of the 1.2 billion population some time next year.
courtesy----IANS

سنگھ پریوار کی نظر میں عورت کا مقام




دہشت گردی اور بے گناہ مسلمان

مسلمان پھر غریب بن گے

courtesy: Etemaad Hyd

تناظر

تناظر

شاہ نواز فاروقی 

-مولانا رومؒ کی ایک حکایت کا لب لباب یہ ہے کہ ہندوستان میں صدیوں پہلے چھ نابینا رہا کرتے تھے۔ وہ عالم تو نہ تھے مگر ان میں علم کی زبردست طلب موجود تھی۔ ایک بار انہیں معلوم ہوا کہ ان کے علاقے میں ہاتھی آیا ہے۔ انھوں نے ہاتھی کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا مگر انہیں معلوم نہیں تھا کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ مل جل کر ہاتھی دیکھنے پہنچے۔ نابینا افراد دیکھ نہیں سکتے، اس لیے وہ لمس کو اپنی آنکھ بناتے ہیں۔ نابینا ہاتھی کے قریب پہنچے تو ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر ہاتھی کا پیٹ چھوا اور کہا: ارے ہاتھی تو ’’ہمدرد‘‘ سا ہے، چنانچہ یہ بالکل دیوار کی طرح ہے۔ دوسرے نابینا نے ہاتھی کا پیر چھوا اور کہا کہ ہاتھی دیوار کی طرح تھوڑی ہے، یہ تو درخت کے تنے کی طرح ہے۔ تیسرے نابینا کا ہاتھ ہاتھی کے دانتوں پر پڑا جو چکنے اور نوکیلے تھے۔ چنانچہ اس نے اعلان کیا کہ ہاتھی نہ دیوار کی طرح ہے نہ درخت کے تنے کی طرح، بلکہ ہاتھی ’’نیزے‘‘ کے جیسا ہے۔ چوتھے نابینا کا ہاتھ ہاتھی کے کان پر پڑا۔ اس نے کان کو اچھی طرح چھوا اور فرمایا کہ ہاتھی دراصل ’’پنکھے‘‘ کی طرح ہے۔ پانچویں نابینا کے ہاتھ میں ہاتھی کی سونڈ آگئی، اس نے سونڈ کو اچھی طرح ٹٹولا اور فیصلہ سنایا کہ باقی نابینا غلط کہتے ہیں، ہاتھی ان کے بیانات کے برعکس ’’سانپ‘‘ کی طرح ہے۔ چھٹے نابینا نے اتفاق سے ہاتھی کی دُم پکڑ لی اور اس کو اچھی طرح محسوس کرکے کہا کہ اس کے تمام دوستوں کا خیال غلط ہے، اصل میں ہاتھی ’’رسّی‘‘ کے جیسا ہے۔ اس حکایت کا مفہوم عیاں ہے۔ زندگی کی حقیقت اور انسانوں کا باہمی تعلق ہاتھی اور نابینا افراد کا تعلق ہے۔ زندگی کی حقیقت ہمہ گیر اور ہمہ جہتی ہے اور اسے سمجھنے کے لیے ’’تناظر‘‘ ناگزیر ہے۔ لیکن انسانوں کی عظیم اکثریت نابینا افراد کی طرح زندگی کے ایک جزو کو کُل سمجھ لیتی ہے اور اسی پر اصرار کرتی ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ تناظر کا مفہوم کیا ہے؟ اس حکایت کی روشنی میں تناظر پورے ہاتھی یا زندگی کی کلیت اور اس کی معنویت کا بیان ہے۔ اس کلیت اور اس معنویت سے محروم ہو کر زندگی ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے اور اس کا جلال و جمال کہیں کھو جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت تناظر سے محروم کیوں ہوتی ہے؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت کو زندگی جیسی ملتی ہے وہ اس کو ویسے ہی قبول کرلیتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اسے زندگی جیسی ملی ہے وہ بس ویسی ہی ہے۔ زندگی کی اس سطح پر نہ تناظر موجود ہوتا ہے نہ اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس سطح پر زندگی کی تعریف انفرادی مفاد سے متعین ہوتی ہے۔ چنانچہ انسان کا انفرادی تناظر ہی انسان کا تناظر بن جاتا ہے۔ مفاد کا تصور منجمد نہیں، اس میں توسیع ہوسکتی ہے، اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ مفاد کے دائرے میں رہ کر زندگی کو دیکھنے والے انفرادی مفاد کی سطح سے بلند ہوتے ہیں تو گروہی یا طبقاتی مفاد کو پوجنے لگتے ہیں، اور پھر یہی مفاد ان کا تناظر یا Perspective بن جاتا ہے۔ مفاد کے ’’فلسفے‘‘ میں مزید ترقی ’’قومی مفاد‘‘ کو سامنے لاتی ہے، جو مفاد پرستی کی معراج ہے۔ لیکن قومی مفاد بھی تناظر سے اتنا ہی محروم ہوتا ہے جتنا کہ انفرادی مفاد۔ مفاد ’’ترقی‘‘ کرکے ذہنی و نفسیاتی حقیقت بنتا ہے تو تعصب میں ڈھل جاتا ہے۔ لسانی، نسلی اور جغرافیائی تعصب اس کی بڑی بڑی مثالیں ہیں۔ تعصب دراصل احساسِ کمتری کی معکوس صورت ہوتی ہے۔ یعنی تعصب میں احساسِ کمتری احساسِ برتری بن کر سامنے آتا ہے۔ تعصب کی اصل یہ ہے کہ یہ اس بات پر نہیں ہوتا کہ ہم برتر ہیں بلکہ اس بات پر ہوتا ہے کہ دوسرا کمتر ہے۔ تعصب کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے فلسفہ ہونے کا تاثر پیدا کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ تاریخ میں اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ کارل مارکس اور مائو نے طبقاتی مفاد اور طبقاتی تعصب کو ایک نظریہ اور تناظر بناکر پوری انسانی تاریخ پر پھیلا دیا۔ لیکن یہ معاش کے جزو کو کُل بنانے کی کوشش تھی، اس لیے مارکس کا تناظر حقیقی معنوں میں تناظر کہلانے کا مستحق نہ تھا۔ لیکن اگر ہم مارکس کے تناظر کو جزوی معنوں میں تناظر تسلیم کرلیں تو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تناظر اتنی اہم چیز ہے کہ وہ پوری تاریخ کو اپنے رنگ میں رنگنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال معروف ترقی پسند دانش ور سید سبط حسن کی کتاب ’’موسیٰ سے مارکس تک‘‘ ہے۔ اس کتاب میں سبط حسن نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ طبقاتی کشمکش صرف مارکس کے زمانے کی چیز نہیں ہے بلکہ یہ کشمکش حضرت موسیٰؑ کے عہد میں بھی برپا تھی۔ یعنی سبط حسن نے حق و باطل کی کشمکش کو بھی طبقاتی کشمکش کا رنگ دے دیا اور فرمایا کہ حضرت ابوذر غفاریؓ مسلمانوں کی تاریخ کے ’’پہلے سوشلسٹ‘‘ تھے۔ یہ تاریخ کا قتل عام ہے، لیکن تناظر کی قوت قتل عام کو بھی ’’علم‘‘ بنادیتی ہے۔ مفاد اور تعصب سے بلند سطح پر اطلاع کا مقام ہے۔ انسان مفاد اور تعصب سے پاک ہو تو بھی وہ اپنے مشاہدے اور تجربے کا اسیر ہوتا ہے۔ انسان کا مشاہدہ اور تجربہ کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو پھر بھی محدود ہوتا ہے اور وہ حقیقی تناظر کی فراہمی کے لیے کفایت نہیں کرتا۔ اس کی ایک مثال نظیر اکبر آبادی کی وہ نظم ہے جس میں انھوں نے کہا کہ بھوکے کو چاند میں بھی روٹیاں نظر آتی ہیں۔ یعنی بھوکے کو چودھویں کے چاند کی صورت بھی روٹی کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مثال یہ لطیفہ ہے کہ ایک شہزادی کو جب معلوم ہوا کہ لوگوں کے پاس کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے تو اس نے کہا کہ اگر ان کے پاس روٹی نہیں ہے تو وہ کیک کھالیں۔ ساحر لدھیانوی ترقی پسند تھے چنانچہ انھوں نے تاج محل کے بارے میں فرمایا کہ اِک شہنشاہ نے حسیں تاج محل بنواکر ہم غریبوں کی محبت کا مذاق اڑایا ہے۔ شکیل بدایونی غزل کی عشقیہ روایت کے امین تھے چنانچہ انھوں نے کہا کہ اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل، ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کسی اطلاع یا شے کو اپنے مشاہدے اور تجربے کی عینک سے دیکھتا ہے، اور چونکہ اس کا مشاہدہ اور تجربہ موضوعی یعنی Subjective اور محدود ہوتا ہے اس لیے اس کے ہاتھ میں حقیقت کے ہاتھی کی جو چیز آجاتی ہے اسی کی بنیاد پر وہ ہاتھی کی تعریف متعین کردیتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہاتھی کی کلیت یا Totality کو دیکھنے اور بیان کرنے والی نظر کہاں سے فراہم ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ حقیقی تناظر انسان کو صرف مذہب سے فراہم ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور انبیاء و مرسلین کی طرح حقیقت کی جامعیت اور کلیت کو کوئی نہیں جان سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب سے فراہم ہونے والے تناظر کی عمر ہزاروں سال ہوتی ہے۔ اس کے برعکس انسانی ساختہ تناظر پچاس، سو سال میں ازکارِِ رفتہ ثابت ہوجاتا ہے۔ یعنی وہ ازکارِِ رفتہ تو پہلے دن سے ہوتا ہے مگر پہلے دن اس کی فرسودگی ظاہر اور ثابت نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر نیوٹن کا نظریۂ کائنات 300 سال تک ایک تناظر بنارہا، لیکن آئن اسٹائن کے نظریۂ اضافیت نے اس کو فرسودہ ثابت کردیا، اور خود آئن اسٹائن کے نظریات کو کوانٹم فزکس کے نظریات نے پچاس سال میں چیلنج کردیا۔ مذہب کے دائرے میں آسمانی کتب اور پیغمبروں کے قول و عمل سے ذرا نیچے الہام کی روایت موجود ہوتی ہے۔ اس روایت کی اہمیت یہ ہے کہ امام جعفر صادقؒ نے فرمایا ہے کہ جس نے الہام کے بغیر قرآن پر کلام کیا وہ راندۂ درگاہ ہوا۔مذہب کے بعد انسان کو تمام علوم و فنون میں سب سے بہتر تناظر ادب بالخصوص شاعری سے فراہم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری روایت میں پڑی شاعری کو پیغمبروںکا جزو تک کہا گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال مولانا روم کی شاعری ہے جسے فارسی میں قرآن کہا گیا ہے۔ مولانا کی شاعرانہ سطح سے نیچے بھی ہماری شاعری تجربے اور تناظر کی بلند سطح کو سامنے لاتی ہے۔ مثلاً میر‘ غالب اور اقبال کی شاعری حقیقت کی کلیت کو اس طرح بیان کرتی ہیں کہ ایک، ڈیڑھ اور دو صدی کے بعد بھی یہ شاعری پرانی محسوس نہیں ہوتی۔

مکالمہ . شاہ نواز فاروقی

مکالمہ

شاہ نواز فاروقی 
 
-یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب ہم کراچی کے پریمیئر کالج میں انٹر کے طالب علم تھے۔ ہم نارتھ ناظم آباد سے برنس روڈ جانے کے لیے ٹو کے (2K) کی بس میں بیٹھے تھے۔ ہماری برابر والی نشست خالی تھی۔ اچانک ہماری ہی عمر کا ایک نوجوان ہمارے برابر آکر بیٹھ گیا۔ ہمارے ہاتھوں میں کتابیں دیکھ کر کہنے لگا: ’’اسٹوڈنٹ ہو؟ میں بھی اسٹوڈنٹ ہوں۔‘‘ اس کے بعد اس نے بغیر استفسار کے اپنا تعارف کرایا اور پھر وہ رواں ہوگیا۔ اس نے بتایا کہ اس کے خاندان میں کتنے لوگ ہیں اور کون کیا کرتا ہے؟ اس کے گھر کے مسائل کیا ہیں؟ وہ کیا کرنا چاہتا ہے اور کیا کررہا ہے؟ غرضیکہ اس نے آدھے گھنٹے میں اپنی پوری کہانی سنائی اور خدا حافظ کہہ کر ایک اسٹاپ پر اترگیا۔ ہمارے لیے یہ تجربہ حیران کن ہی نہیں رونگٹے کھڑے کردینے والا بھی تھا۔ ایسی ’’خود کلامی‘‘ نہ کبھی ہمارے مشاہدے اور تجربے میں آئی تھی نہ ہم نے ایسی خودکلامی کے بارے میں کبھی کسی سے کچھ سنا تھا۔ ہم نے پاگلوں اور بعض بوڑھوں کو ایسی خودکلامی میں مبتلا دیکھا تھا مگر کسی نوجوان کو اس طرح کی خودکلامی کا شکار ہوتے پہلی بار دیکھا تھا۔ ہم کئی روز تک اس واقعے کی معنویت پر غور کرتے رہے، اور اس کی جو سب سے بہتر توجیہہ ہماری سمجھ میں آئی وہ یہ تھی کہ بڑے شہروں کی تنہائی کراچی میں بھی در آئی ہے۔ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ جب وہ ایک خاص تناظر میں زندگی کو دیکھنے لگتا ہے تو زندگی پھر اسے ویسی ہی نظر آنے لگتی ہے۔ چنانچہ اس واقعے کے بعد ہمیں کئی ایسے افراد نظر آئے جو گلیوں یا شاہراہوں پر خود سے باتیں کرتے چلے جارہے تھے۔ بظاہر وہ ہر اعتبار سے صحت مند لوگ تھے مگر ان کی خودکلامی ان کی تنہائی کی چغلی کھا رہی تھی۔ آدمی تنہا ہوتا ہے تبھی وہ خودکلامی میں مبتلا ہوتا ہے۔ جو شخص معاشرے کا حصہ ہو وہ خودکلامی کا نہیں مکالمے کا عادی ہوتا ہے۔ لیکن اس مسئلے کو زیادہ گہرائی میں دیکھا اور دکھایا جاسکتا ہے۔ مذہب کی کائنات اپنی نہاد میں محفل، گفتگو اور مکالمے کی کائنات ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب کی کائنات ایک خدا مرکز کائنات ہے، اور جس کائنات میں خدا موجود ہو وہاں انسان کبھی تنہا نہیں ہوسکتا۔ خدا انبیا، مرسلین اور وحی کے ذریعے انسانوں سے مسلسل گفتگو کرتا رہا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اگرچہ نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا، قرآن مجید فرقانِ حمید انسانوں سے خدا کی دائمی گفتگو کی صورت میں قیامت تک موجود رہے گا۔ غور کیا جائے تو تمام مذاہب بالخصوص اسلام کا نظامِ عبادت علی الخصوص نماز کا عمل خدا سے براہِ راست گفتگو کی اعلیٰ ترین صورت ہے۔ دعا عبادت کا مغز ہے اور دعا بندے اور خدا کے درمیان ایک مستقل مکالمے کے سوا کچھ نہیں۔ اسلام جو خاندانی نظام تشکیل دیتا ہے اس میں مکالمہ سورج کی روشنی اور ہوا کی طرح فطری انداز میں موجود ہوتا ہے۔ اسلام پڑوسی کا یہ تصور پیش کرتا ہے کہ آپ کے گھر کی دائیں جانب چالیس گھر آپ کا پڑوس ہیں اور بائیں جانب بھی چالیس گھر آپ کے پڑوسیوں ہی کے ہیں، اور پڑوسیوں کی خبرگیری آپ پر فرض ہے۔ ظاہر ہے کہ پڑوسیوں کی خبر گیری مکالمے کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوسکتی۔ اِس خبرگیری سے نہ صرف یہ کہ مکالمے کی راہ ہموار ہوتی ہے بلکہ مکالمے کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ گناہ انسان کو روحانی، نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی تنہائی میں مبتلا کرتا ہے اور اسے خودکلامی کی جانب دھکیلتا ہے، اس لیے کہ گناہ ایک جانب خدا سے دوری کی علامت ہے اور دوسری جانب انسانوں سے فاصلے کا استعارہ۔ لیکن توبہ انسان کو تنہائی کی قید سے نکال کر اسے ایک بار پھر خدا کے روبرو کردیتی ہے۔ عیسائیت میں پادری کے سامنے ’’اعتراف ِگناہ‘‘ کی روایت کا تناظر بھی یہی ہے، اور اس کا اثر جدید نفسیات تک پر مرتب ہوا ہے۔ اس کا ثبوت تحلیلِ نفسی کا طریقہ کار ہے۔ دیکھا جائے تو تحلیلِ نفسی خدا کے بغیر معالج اور مریض سے مکالمے کی راہ ہموار کرکے مرض کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اگرچہ تحلیلِ نفسی مرض کی تشخیص کا ذریعہ ہے، لیکن تحلیلِ نفسی کے عمل میں مکالمے کی وجہ سے بجائے خود علاج کی ایک صورت موجود ہوتی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ مذہب مکالمے کی راہ کیسے ہموار کرتا ہے؟ مذہب میں انسانوں کے درمیان خدا بنیادی اور مرکزی حوالے کے طور پر موجود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انسانوں کے باہمی تعلقات محبت اور تعاون کی بنیاد پر استوار ہوجاتے ہیں۔ لیکن خدا کے درمیان سے ہٹتے ہی انسانی تعلق نفرت اور تصادم پر مبنی ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانوں کے تعلقات کے درمیان خدا کی موجودگی ان کے تعلق کو زیادہ سے زیادہ غیر شخصی یا Non Personal بنادیتی ہے، انسان اپنی شخصیت سے اوپر اٹھ کر سوچنے، محسوس کرنے اور عمل کرنے کے قابل ہوجاتا ہے، لیکن جیسے ہی خدا انسانوں کے درمیان سے غائب ہوتا ہے انسانوں کے تعلقات شخصی، ذاتی یعنی Personal ہوجاتے ہیں اور ان میں شخصی مفاد اور انا کا عنصر در آتا ہے، اور مفادات میں یکسانیت مشکل ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح انائیں مشکل ہی سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔ چنانچہ تعلقات کے درمیان خدا کی عدم موجودگی انفرادی، اجتماعی، یہاں تک کہ بین الاقوامی سطح پر بھی مفادات کے ٹکرائو کی راہ ہموار کرتی ہے۔ خدا کی عدم موجودگی میں انسانی تعلقات پر کیا گزرتی ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت مغرب کے لوگوں کی زندگی ہے۔ اس زندگی کی کلاسیکل مثال ژال پال سارتر کے دو اقوال ہیں۔ سارتر کا مشہور زمانہ فقرہ ہے: ’’انسان کو اِس دنیا میں مرنے کے لیے پھینک دیا گیا ہے‘‘۔ اس فقرے میں کائنات ایک بے خدا کائنات ہے۔ چنانچہ انسان پوری کائنات میں اکیلا ہے، مظلوم ہے، مقہور ہے، بے بس ہے، محروم ہے، اس کے لیے زندگی موت کے ہولناک انتظار کا نام ہے۔ سارتر کا ایک اور فقرہ مشہور زمانہ ہے: ’’دوسرے لوگ ہمارا جہنم ہیں‘‘۔ سارتر کے اس فقرے کی کائنات میں خدا خودمکتفی یا Self Sufficient ہے۔ اسے نہ صرف یہ کہ کسی دوسرے انسان کی ضرورت نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کا وجود اس کے لیے عذاب ہے۔ اس لیے کہ ’’دوسرے لوگ‘‘ ہماری زندگی میں حصے دار بن جاتے ہیں۔ وہ ہم پر نکتہ چینی کرتے ہیں، ہماری نگرانی کرتے ہیں، ہمیں اخلاقی پیمانوں سے ناپتے تولتے ہیں۔ مطلب یہ کہ دوسرے لوگوں سے ہمارے تعلقات کی ہر صورت منفی ہے۔ چنانچہ دوسرے لوگ ہمارا جہنم ہی ہوں گے۔ ایک بے خدا دنیا میں انسانوں کے باہمی تعلقات کی نوعیت اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے! ظاہر ہے کہ ایسی دنیا میں مکالمے کی کوئی ضرورت نہیں ہوسکتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انسانی زندگی میں مکالمے کی معنویت کا اور کردار کیا ہے؟ غور کیا جائے تو مکالمہ محبت کا دوسرا نام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مکالمہ ’’دوسرے‘‘ کے وجود کو نہ صرف یہ کہ تسلیم کرتا ہے بلکہ اس کی ضرورت اور اہمیت کا بھی اقرار کرتا ہے۔ محبت کا حسن اور اس کا کمال یہ ہے کہ محبت کرنے والے کتنے ہی ’’غیر مساوی‘‘ یا Unequal کیوں نہ ہوں، محبت انہیں مساوی یا Equal بنادیتی ہے۔ مکالمہ بھی ٹھیک یہی کام کرتا ہے۔ وہ غیر مساوی کو مساوی بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طاقت ور جب بھی کمزور کے ساتھ گفتگو کرتا ہے تو اس سے خودکلامی ہی برآمد ہوتی ہے، کیونکہ طاقت ور کمزور کو ذہنی اور نفسیاتی سطح پر مساوی تسلیم نہیں کرتا۔ مکالمہ چونکہ فریقین کو برابری کی سطح پر لاکھڑا کرتا ہے اس لیے دلیل ازخود مکالمے کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گفتگو پر ’’طاقت کی دلیل‘‘ کے بجائے ’’دلیل کی طاقت‘‘ کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو مکالمہ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ فریقین کے درمیان مشترکات بنیادی اور اختلافات ثانوی ہیں اور مکالمے کے ذریعے مشترکات میں اضافہ کیا جائے گا اور اختلافات کی تعداد کم کی جائے گی۔ مکالمہ زندگی کے تنوع کو تسلیم کرتا ہے اور تنوع میں وحدت تلاش کرتا ہے تاکہ وحدت اور کثرت دونوں کا تحفظ ممکن ہوسکے۔ مکالمے کی ان خوبیوں کو دیکھا جائے تو یہ سمجھنا دشوار نہیں رہتا کہ نتیجہ خیزی مکالمے کی بُنت کا حصہ ہوتی ہے۔ یعنی مکالمہ مرحلہ بہ مرحلہ آغاز سے منطقی انجام کی جانب سفر کرتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مکالمہ ایک انسانی، تخلیقی اور تہذیبی عمل ہے اور موجودہ عالمی منظرنامے میں اس کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں ہر سطح پر مکالمے کی آڑ میں خودکلامی برپا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا پر طاقت کی دلیل کا غلبہ ہے۔ طاقت ور افراد کمزور افراد کو دبا رہے ہیں۔ طاقت ور اقوام کمزور اقوام کو کچل رہی ہیں۔ دنیا میں ہر کوئی مکالمے کی بات کرتا ہے تاکہ خود کو ’’انسان‘‘ محسوس کرسکے، لیکن ہر کوئی مکالمے کے فلسفے پر خطِ تنسیخ پھیرتا ہے کیونکہ اس کا مسئلہ محبت، مشترکات کی تلاش اور دلیل کی بالادستی نہیں بلکہ ’’فتح‘‘ کا حصول ہے۔ دنیا میں مکالمہ برپا ہوتا تو ........ اور فلسطین کے مسائل کا وجود نہ ہوتا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی خودکلامی کی نیٹ پریکٹس کا میدان نہ ہوتی، اور سلامتی کونسل طاقت کی بنیاد پر گفتگو کا مرکز نہ ہوتی۔

Saturday, 24 March 2012

ماسکو یورپ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا شہربن گیا


ماسکو یورپ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا شہربن گیا



-ماسکو (مانیٹرنگ ڈیسک )ماسکو میں اس وقت 20 لاکھ سے زائد مسلمان رہتے ہیں

اور اس اعتبار سے وہ یورپ میں مسلمانوں کے بڑے شہروں میں سے ایک بن گیا

ہے۔یہی وجہ ہے کہ ماسکو میں موجود 4 مساجد نمازیوں کیلئے کافی نہیں ہیں۔ ہر

جمعہ کو نمازیوں کی تعداد اتنی ہوتی ہے کہ انہیں مساجد سے باہر برف پر نماز

پڑھنی پڑتی ہے۔جب نماز جمعہ ہو رہی ہوتی ہے تو کار سوار راستے کیلئے ہارن

بجا رہے ہوتے ہیں اور پیدل چلنے والے دشواریوں کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں۔نئے

مسلمانوں کی بڑی تعداد ان مہاجرین پر مشتمل ہے جو سوویت یونین کا حصہ رہنے

والی وسط ایشیائی ریاستوں سے ماسکو منتقل ہوئے ہیں۔غربت اور سوویت یونین کے

ختم ہونے کے بعد پیدا ہونے والے جھگڑوں کے نتیجے میں نئی زندگی شروع کرنے

کیلئے نکلنے والے ان لوگوں میں ازبک، تاجک اور کرغیزوں کی تعداد سب سے زیادہ

ہے۔ازبکستان سے آنے والے ایک نوجوان الوگ بیک کا کہنا ہے ہمیں اس بات پر تو

شکر گزار ہونا چاہیے کہ ماسکو میں مساجد ہیں لیکن شہر اچانک آنے والے لاکھوں

لوگوں کی میزبانی کیلئے تیار نہیںتاہم دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ حکام مسلمان

آبادی کی ضرورتوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ماسکو کی تاریخی مسجد کے پیش

امام حسین فخرت دینوف کا کہنا ہے کہ موجودہ سہولتیں ناکافی ہیں ۔ نئی مساجد

تعمیر کرنے کے اجازت دینے کے ہمارے مطابے کو حکام نظر انداز کر رہے ہیں،

اس لیے لوگوں کو مساجد سے باہر بارش میں اور برف پر نماز ادا کرنی ہو

گی۔ماسکو کی تاتار نامی قدیم مسجد کو ایک نئی بڑی عمارت میں منتقل کیا جا رہا ہے

لیکن اس کے باوجود تمام نمازیوں کیلئے مسجد کے اندر نماز ادا کرنا ممکن نہیں ہو

گا۔نئے لوگوں کی وجہ سے ماسکو میں جو تبدیلیاں آ رہی ہیں ،ماسکو کے شہری ان

پر مختلف آرا رکھتے ہیں ۔ مسجد کے پاس سے گزرنے والی 2 نوجوان خواتین کا

کہنا تھا کہ ماسکو ترقی کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ یہاں آ رہے ہیں اور

اتفاق ہے کہ ان میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اب اگر روسی یہاں چرچ بنا رہے

ہیں تو کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ مسلمانوں کو مساجد کی تعمیر سے روکے۔اس

کے برخلاف بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ باہر سے آنے والے ان لوگوں کی وجہ

سے روسی ثقافت اور زندگی کے طریقے تبدیل ہو رہے ہیں۔شہر میں نئے لوگوں کی

آمد پر کڑی پابندیاں لگانے کے حامی اور خود کو روزووٹ کہنے والے ایک قوم

پرست گروپ کے یوری گروسکی کا کہنا ہے کہ لوگ مذاق میں کہتے ہیں کہ

ماسکو، ماسکو آباد بنتا جا رہا ہے۔ذرا آپ ماسکو کی سڑکوں پر نکل کر دیکھیں آپ کو

سلاوک کم اور مسلمان زیادہ دکھائی دیں گے۔ اگر باہر سے لوگوں نے آنا ہی ہے تو

سلاوک ملکوں کے لوگوں کو آنا چاہیے لیکن ان مسلمانوں کو روکنا ہو گا۔روس میں

نقل مکانی کر کے آنے والے مسلمانوں پر باقاعدگی سے حملے ہونے لگے ہیں

اگرچہ اب ان میں کچھ کمی آئی ہے۔روس میں انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے

گروپ سووا کا کہنا ہے کہ 2008ء کے دوران نسل پرستانہ حملوں میں 57 اموات

اور196 افراد زخمی ہوئے جبکہ 2011 ء کے دوران7 افراد ہلاک اور 28 زخمی

ہوئے۔یہی نہیں نئے آنے والے اپنے ساتھ اپنی ثقافت اور رہن سہن بھی لائے ہیں،

اب ماسکو میں ایسی دکانیں اور کیفے بڑی تعداد میں دکھائی دیتے ہیں جن پر حلال

اشیاء دستیاب ہوتی ہیں اور ماسکو کی حلال ٹیک اووے دکانوں پر فروخت ہونے والے

سموسوں نے تو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کر لی ہے۔اس کے علاوہ ماسکو میں

اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں بھی ڈرامائی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں ایک

علی چسلاف بھی ہیں جو سابق آرتھوڈک پادری اور سیاستداں ہیں۔ وہ 12 سال قبل

مسلمان ہوئے اور اب ایک ایسا امدادی مرکز چلا رہے ہیں جو اسلام قبول کرنے

والے نئے لوگوں کی مدد کرتا ہے اور انہیں مشورے دیتا ہے۔ماسکو میں کھلنے والی

حلال دکانوں پر فروخت ہونے والے سموسے سب سے زیادہ مقبول ہیں،اس مرکز

میں کام کرنے والی عائشہ لاریسہ کا کہنا ہے کہ صرف ان کے مرکز میں اسلام

قبول کرنے والی 10ہزار عورتوں نے رجسٹریشن کرائی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم ان

عورتوں کو عبادت کرنا سکھاتے ہیں اور اگر انہیں اسلام قبول نہ کرنے والے رشتہ

داروں کی وجہ سے مسائل پیش آتے ہیں تو انہیں مشورے دیتے ہیں۔ اسلام ہمیشہ

ہی سے روس میں دوسرا بڑا مذہب رہا ہے لیکن یہ حقیقت اس سے پہلے اس طرح

ظاہر نہیں ہو رہی تھی جیسے اب دکھائی دیتی ہے۔

 

اللہ کےرسول (ص) اور بزرگا نِ دین کو بے عملوں سےکیا نسبت

اللہ کےرسول (ص) اور بزرگا نِ دین کو بے عملوں سےکیا نسبت

شمس جیلانی

 اس سے پہلے میں اسی موضوع پر لکھ چکا ہوں ۔ اب کل ایک مسئلہ  اورزیر بحث آگیا، بے عمل علماء کا؟ جس پر ایک عالم کا ہی قول درج کر کے میں نے جان چھڑائی کہ وہ فرما تے ہیں کہ“ جو عالم کہے اس پر عمل کرو  جو کرے اس پر نہیں“ اس میں جو نکتہ پو شیدہ  ہے! اس پربجا ئے ہنسنے کے رونے کو جی چا ہتا ہے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ کوئی عالم قر آن اور سنت کے خلاف ایک لفظ نہیں کہہ سکتا اس لیئے اس پر فورا“ پکڑا جا ئے گا۔ مگر کرنے پر پکڑ کا کوئی دنیا میں رواج نہیں  ہے،لہذا اب ہم اس قدر ڈھیٹ ہو  چکے ہیں کہ کرتے وہ ہیں جو ہما را دل چا ہتا؟ پھر چا ہتے ہیں کہ کوئی ٹوکے بھی نہیں۔ اس سے ایک دن پہلے ایک صا حب نے کہیں دہا ئی دی کہ “ بد یانت کہتے ہو ئے آپ نے یہ بھی خیال نہیں رکھا کہ میرا  ممدوح ایک گدی نشین پیر بھی ہے۔ اور اس کے لاکھوں مرید  ہیں  “ جبکہ پیروں کے اجداد کا دور تھا تو یہ گدیاں سر چشمہ ہدا یت تھیں وہاں لوگ جنت کا راستہ ڈھونڈنے جا تے تھے اور اب جہنم کا ۔ اور علماء  بھی نا ئب ِ رسول (ص) سمجھے جا تے تھے۔اور وہ اسے عمل سے ثابت بھی کر نے کی کو شش کرتے تھے۔ ان کی عظمت لوگوں کے دلوں میں اسی لیئے تھی ۔ اب وہ بھی بے کردار  ہوکر وہی احترام چا ہتے ہیں جو کہ ان کے اجداد کا تھا،اور وہ چاہتے ہیں کہ ہر برائی کر تے رہیں اور لوگ ان کی عزت بھی کریں ؟۔  جبکہ موجودہ  پیرمرید وں سےصرف اتنا واسطہ رکھتے ہیں کہ سال  کےسال نذرانہ وصول کر لیں ۔ اور مرید ان سے اس لیئے واسطہ رکھتے ہیں  کہ اگر پھینس جا ئیں کہیں بد معاشی کرتے ہو ئے تو پیر کی چٹھی یا فون ان کا شفیع ہو ؟ یعنی اب شفا عت ادھار کا سودا نہیں رہا دنیا میں بھی ملتی ہے ؟ لیکن ابھی  بھی جہاں جہالت ہے وہ ان سے ڈرتے بھی ہیں کہ با با سید ہیں بد دعا نہ کر دیں؟ جو اپنی دعا  خودقبول  نہیں کراسکتے  بے عملی کی وجہ سے۔ ان کی بدعا یا دعا دوسروں پر کیا اثر مرتب کرسکتی ہے؟ جبکہ حدیث یہ ہے کہ ایک لقمہ حرام کا کھانے سے چا لیس دن تک دعا قبول نہیں  ہوتی؟  توجنکا اوڑھنا  اور بچھونا حرام ہو ان سے کیا خوف  کھانااور کیا شفا عت کی امید رکھنا؟  ہم نے ایک پیر صا حب کو انٹر ویو دیتے سنا کہ ہما رے خلیفہ دیہاتیوں سے یہ کہہ کر ووٹ لیتے ہیں کہ یہ گیا رہویں والے پیر ہیں بد دعا کر دیں گے تو تمہا رے دودھ کے جانوروں کا دودھ سوکھ جا ئے گا اور لوگ اس سے ڈر کر ووٹ دیتے ہیں؟ حالانکہ  اس قسم کے ہتھ کنڈے الیکشن کے قوانین کے تحت استعمال کر نا جرم ہیں مگر وہاں قانون پر عمل کون کر تا ہے اور  یہ ہی معاملہ  علما ء کا ہے جو بے عمل ہیں ان سے رہنما ئی کی کیا توقع؟ آگے میں اپنا پہلے والا مضمون ووبارہ پیش کر رہا ہوں جو آپ  میں سے اکثر پہلے پڑھ چکے ہیں ۔ کیونکہ انہیں باتوں کو بار بار دہرانے کا کیا فا ئدہ؟ 

ہرسال کی طرح اس سال بھی ربیع الاول کے مہینے میں ہم دا خل ہو چکے ہیں جسے ہم پورے مہینے بڑے دھوم دھام سے منا تے ہیں اورہر طرح حضور(ص) سے الفت کا اظہار کرتےہیں جوکہ بلا شبہ کر نا چاہیئے۔ عملمائے کرام سیرت بیان فرما تے ہیں ،نعت گو اور نعت خواں حضور (ص)  کی تعریف بیان فرما تے ہیں۔ مگر جہاں تک اتباع ِ رسول (ص)  کاتعلق ہے اس پر کوئی بات نہیں کرتا ،بلکہ ہم نے تو ایک مولوی صاحب کویہ فرماتےسنا  ہےکہ میلاد منانے کے لیئے ہوتی ہے اور سیرت عمل کر نے کے لیئے ۔ دوسری طرف ایک طبقہ جس کو اپنی پاکبازی پر ناز ہے اور وہ اپنے سوا کسی کو مسلمان ہی نہیں سمجھتا، وہ سارا مہینہ اپنا زور ان کو بد عتی کہنے پر صرف کرتا ہے۔اگر بغور جا ئزہ لیا جا ئے تو دونوں کے یہاں مقصدیت کا فقدان ہے کہ وہ  ہےحضور (ص) کے اسوہ حسنہ کا ذکر کے لوگوں کو عمل کی طرف راغب کر نا ۔ جو دونوں طبقے بھولےہو ئے ہیں ۔ پچھلے دنوں ایک بہن نے ہم سب کی توجہ بہت ہی خوبصورت انداز میں اس طبقہ کی بے عملی کی طرف دلا ئی تھی جوکہ اب قصے کہانیوں میں باقی رہ گیا ہے؟ ۔ میں آگے اسی کو قارئین کی نذر کر نے جا رہا ہوں ۔ کیونکہ وہ تحریر ادب میں تھی  وہاں سےبلاگ میں آئی تھی ،  وہاں بہت تھوڑے لوگ پڑھتے ہیں۔ میں  اسےآج اپنے کالم میں اس لیئے پیش کر رہا ہوں کہ زیادہ لوگوں تک پہونچے، دوسرے یہ کہ ہمارے اخبار کی پالیسی ہی یہ ہے کہ ہم عمل کی طرف لوگوں کو راغب کریں اور یہ  ہی مقصد اس آیت کے دینے کا ہے جو سرورق پر روز ِ روشن کی طرح جگ مگا رہی کہ “ مسلمانوں وہ کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو “ قر آن میں یہ ہی ایک آیت اس مضمون کی نہیں ہے بلکہ اس کےعلاوہ بھی جتنی آیتوں میں ایمان لانے کا ذکر ہے اس کے فورا بعد نیک عمل پر عامل  ہونے کا حکم  بھی ہے۔ عمل کی ظاہر کسوٹی خدا نے ایک ہی رکھی  ہےوہ ہے نماز  جس کی بے انتہا تاکید فرما ئی ہے “ کیونکہ اس کے علاوہ نیکیا ں ریاکاری سے بچنے کے لیئےنہ دکھانے کا حکم ہے “ جبکہ ان کی کچھ شقیں، جیسے زکات ،حج ،وغیرہ کے لیئے صاحب ِ نصاب ہو نا شرط ہے  لیکن نماز کسی حالت میں بھی معاف نہیں ہے اور مردوں کو با جماعت ادا کرنے کا حکم ہے؟ اس کے لیئے ہادیِ برحق (ص) نے ارشاد فرما یا کہ مومن اورکافر میں فرق ہی یہ ہے کہ مومن نماز پڑھتا ہے جب کہ کافر نماز نہیں پڑھتا  “
اور نماز کی افادیت میں اللہ تعالیٰ نے قر آن میں فرما یا کہ یہ تمام برائیوں سے بچاتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے اور لوگوں کو کہتے بھی سنا ہے کہ نماز فرض ہے وہ ہم ادا کرتے ہیں اورجو ہم ہیر پھیر کرتے ہیں وہ ہما را کاروبار ہے ؟ جبکہ اس سلسلہ میں بھی حضور (ص)  نےفرمایا کہ اللہ تو اپنی رحمت سے  وہ گناہ معاف کر دے گا جو بندے نے اس کی فرا ئض کی ادا ئیگی میں کوتاہی برتی ہوگی مگر وہ معاف نہیں کرے گا جو بندوں کے حقوق اس کی طرف ہو نگے وہ صرف صا حب ِمعاملہ ہی معاف کر یں گے؟ یہاں تک تو ہم  نےعام لوگوں کی بات کی تھی اب آگے ان کی بات کرتے ہیں جوادارہ اور  اس کے بانی افراد کبھی سر چشمہ ہدا یت تھے اور وہاں سے لوگ  کامل ہوکر نکلتے تھے۔آج وہ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے؟  یعنی سلسلہ تصوف جسے عرف ِ عام میں پیرا مریدی اور خواص میں خانقاہی سلسلہ  کہتے ہیں جس کے سربراہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ “ایمان کے بغیر عمل کچھ نہیں اور عمل بغیر ایمان کچھ نہیں  “ دونوں چیزین لازم و ملزوم ہیں “ ان جملوں میں باب ِعلم نے پورا اسلام بیان کر دیا ہے۔ کیونکہ قر آن کے مطابق جس کا خدا پر ایمان نہیں ہے اس کا آخرت میں  بھی کوئی حصہ نہیں ہے اور جس کا خدا پر ایمان تو ہے مگر بے عمل ہے اس کا  بھی آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھیجا یہاں آخرت اچھی بنانے کے لیئے تھا۔
 اب آگے میں اپنے مضمون کو اور واضح کرنے کے لیئے ان کے سوالوں جواب پیش کر رہا ہوں۔
  “  پہلا سوال تو آپ کا یہ ہے کہ اس دور میں اللہ والے نہیں رہے۔ اس پر پھر اس سلسلہ میں دو صوفیوں کی مثالیں بھی دی ہیں۔ایک صاحب کی آپ نے مثال دی ہے کہ وہ علامہ اقبال کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں دو بیویوں کو طلاق دے کر صوفیانہ زندگی گزار رہےہیں۔ دوسری خاتون ہیں جو آپ کے اپنے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جو اب سب سے لا تعلق ہو کر صوفیانہ زندگی گزار رہی ہیں ۔ اس میں یہ آپکی بڑائی ہے کہ آپ نے اپنے خاندان کی بڑائی بیان نہیں کی حالانکہ آپ بھی ایک ایسے ہی خانوادے سے تعلق رکھتی ہیں، جو ہم جیسوں کو پتہ ہے کہ کبھی وہ بھی ہدایت کا سر چشمہ تھا۔چونکہ آپ نے کبھی ہمیں یا قارئین کو نہیں بتایا؟  اس لیئےہم بھی اپنے پڑھنے والوں کو نہیں بتا ئیں گے کہ ہمیں کیسے معلوم ہوا؟ 
اب جواب حاضر ہے۔ جبکہ میں جواب دیتے ہوئے اس کی صرف تر تیب بدلنا چاہو نگا کہ آخری سوال کا جواب بعد میں دونگا۔ جبکہ دوسرا پہلے اور تیسرا اس کے بعد؟
 پہلے کا جواب یہ ہے۔ ہم لوگوں کے یہاں شخصیت پرستی اس قدر آگئی ہے جو بڑھ کر بت پرستی تک پہونچ گئی ہے؟ آپ معلوم تا ریخ میں جا ئیں تو پتہ چلے گا کہ پہلی بت پرستی شخصیت پر ستی سے  ہی شروع ہو ئی ؟ سب سے پہلے آدم علیہ السلام کے بعد چار بزرگ ایسے گزر ے، جن کے نام قر آن میں موجود ہیں ۔ ان کی اولاد اور ان کے ماننے والوں نے ان کی یاد زندہ رکھنے کے لیئے کچھ کرنا چاہا، شیطان نے انہیں راستہ  دکھا یا کہ ان کی تصویر یں بنالی جا ئیں ۔ پھر اس نے اس سلسلہ میں مزید ترقی کی راہ دکھائی کہ انہیں کے بت بنا دیئے اور رفتہ رفتہ ان کی پو جا ہو نے لگی۔ جب لوگ گمرا ہی کی انتہا پر پہونچ گئے تو حضرت نوح علیہ السلام کو بھیجا گیا جوکہ تقریباً اتنے ہی عرصے تک تبلیغ کر تے رہے کہ جتنا عرصہ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد انہیں بگڑنے میں لگا یعنی کم و بیش ایک ہزار سال؟ آخرمیں انہوں نے بد دعا فر مائی؟
 اللہ سبحانہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب تک وہ عذاب نازل نہیں فرماتا تب تک کہ اس دور کے نبی (ع) بد عا نہ کریں ۔ وہاں طوفا ن آیا اور ان (ع) کے ہی ایک صاحبزادے کوڈبو کے یہ بتا دیا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ نبی کابیٹا بھی نبی (ع)جیسا ہو؟اس سلسلہ کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ جو آپ سب نے پڑ ھ رکھیں ہیں لہذا میں مضمون کو طول نہیں دینا چاہتا۔ یہ اس کا جواب ہے جوکہ آپکی پہلی مثال ہے؟
 دوسری مثال میں جن خاتون کا آپ نے ذکر کیا ہے ان کو میں نہیں جانتا مگر قیافے کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ بھی کسی ایسے ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جہاں شخصیت پرستی را ئج ہے؟ اور کوئی شخصیت جب مایوس ہو جاتی ہے تو اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ لہذا وہ بھی اسی طرف لوٹیں تو، مگر ان کے سامنے وہ اصل تعلیمات عملی طور پر بظاہر کہیں موجود نہیں تھیں جسکو وہ معیار بنا سکتیں ؟ لہذا جو اب اس کی بگڑی ہوئی شکل ہے وہ اسی پر عامل ہوگئی ہیں ؟
 اب رہا آپ کے تیسرے سوال کاجواب کہ کیا اللہ والوں سے جہاں خالی ہو گیا؟ تو عرض یہ ہے کہ جب ایسا ہو، توعذاب نازل ہو جا تا ہے۔ کیونکہ قرآن میں موجود ہے کہ جب تک کسی شہر میں اللہ والے موجودرہتے ہیں تب تک وہاں عذاب نازل نہیں ہو تا؟ جس کو قر آن میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً مکہ معظمہ کے بارے میں فرما یا کہ جب تک آپ (ص) اوراللہ والے وہا ں موجود ہیں، کفار کے عذاب طلب کرنے باوجود ان کا مطالبہ پو رانہیں کیا جا سکتا ؟
 جبکہ لوگوں کو ڈرانے کے لیئے وہ اپنی نشانی دکھاتا رہتا ہے وہ بھی قرآن میں بیان ہوا ہے کہ “ کیا تم دیکھتے نہیں کہ سال میں جو چھوٹی موٹی آفات آتی رہتی ہیں وہ ڈرانے کے لیئے ہوتی ہیں “
 جنکا ہم آجکل آئے دن اپنے ہاں مشاہدہ کر رہے ہیں؟
 اوپر کی وضاحت سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ دنیا کے قائم رہنے کے لیئے۔ اللہ والوں کا موجود رہنا ضروری ہے اور وہ موجود ہیں؟ اب آپکا سوال یہ کہ وہ دکھا ئی کیوں نہیں دیتے ؟ اس کےجواب کے لیئے جو لوگ اس سلسلہ کے ماہر اور رہنما تھے۔ ان کی طرف دیکھنا پڑے گا ۔ چونکہ آپ کوئی بھی صوفیا ئے کرام کا شجرہ اٹھا کر دیکھیں تو وہ حضور (ص) سے شروع ہو تا ہے؟ ان (ص) کے بعد سترہ یا اٹھارہ سلسلوں میں بالاتفاق را ئے دوسرا نام جو آتا ہے ،وہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا ہے۔ جبکہ ایک سلسلہ حضرت ابو بکرصدیق (رض) سے بھی مو سوم ہے ؟ اب ہما رے سامنے ان تینوں کی زندگی موجود ہے انہیں میں اور ان کے تابعین کی سیرتوں میں آپ کے ہر سوال کا جواب موجود ہے؟
 پہلے حضور (ص) سے شروع کر تے ہیں جو جیتا جاگتا قر آن تھے؟ جن کے اسوہ حسنہ کے مثالی ہونے کی تصدیق خود قر آ ن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمادی اور اپنی محبت کو بھی اس سے مشروط فرمادیاکہ ً آپ فرمادیجئے اگرتم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو ً ان (ص) کی سیرت ہمارے سامنے ہے جو ان کی یہ صفت ثابت کرتی ہے کہ وہ (ص)سراپا عمل تھے ۔ پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت ابو بکر (رض) کا کردار دیکھئے کیا وہ اپنے کر دار میں حضور (ص) کا پرتو نہیں تھے کیا ان کے یہاں کہیں پر حضور(ص) سے سرو مو فرق نظر آتا ہے ؟اس کاجواب ہر ایک یہ ہی دے گا کہ نہیں !
 اب حضور (ص) کا یہ ارشادِ گرامی پڑھ لیجئے۔   “وہ فلاح پاگیا جس نے میرا اتباع کیا یا میرے ان صحابہ (رض) کا اتباع کیا جو کہ آج پوری طرح میرا اتباع کر رہے ہیں ً“؟ ان تمام مثالوں سے یہ بات میرے خیال میں ثابت ہوجاتی ہے کہ کوئی بے عمل انکا ماننے والا نہیں ہوسکتا کیونکہ ان کے اتباع اور محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو جتنا قریب ہو گا وہ عمل میں بھی ان ہی جیسا ہی ہوگا؟
 لہذاجواب یہ ہی ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی ایسا نہیں ہے تو وہ مسلمان ہی نہیں ہے ،اور مسلمان نہ ہو تو صوفی  (پیر)کیسے ہو گا، کیونکہ قرآن ہر جگہ جہاں ایمان لا نے کی بات کرتا ہے اس کے فوراً بعد عمل کی بات کرتا ہے ،کہیں صرف کلمہ پڑھ لیناکافی نہیں کہتا؟ اس لیئے کہ اسلام نام ہی عمل کا ہے۔ا س کی روشنی میں کسی بے عمل، مغرور ، بد اخلاق اور گوشہ نشین کی گنجا ئش کہاں ہے؟ جواب ہمیشہ کی طرح قارئین پر چھوڑ تا ہوں ؟
 یہ تو ہم جڑ کی بات کر رہے تھے  پھر شاخوں کی بات کرینگے؟
 پھر یہ سلسلہ امام حسن ، امام حسین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ہو کر دوسرے نامور بزرگوں سے ہو تا ہوا گزرتا ہے، ان تمام مشہور بزرگوں میں سنت کے خلاف کوئی بات ملتی ہے، یا قول و فعل میں تضاد ملتا ہے ؟ جواب یقینی طور میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ سب کابھی یہی ہوگاکہ نہیں ؟اب اسی جواب سے پھر یہ سوال آپ کے ذہن میں پیدا ہو گا کہ اب جو خود کو انکا جانشین کہلاتے ہیں۔ ان میں یہ خرابیاں کہاں سے آئیں؟ جواب میں وہی بات دہراؤنگا کہ وراثت کی بناپر شخصیت پرستی سے۔ جبکہ ابتداء میں اس کی بنیاد تقویٰ پر تھی جوکہ ہم نے شخصیت پرستی کی دھول میں نظر انداز کردی۔جس طرح ہمیں حضور(ص) کے اخلاق اور کردار سے بحیثیت مسلمان کوئی نسبت نہیں ہے، اسی طرح ان کے جانشینوں کو اپنے اجداد (رض)سے کوئی نسبت نہیں ہے کیونکہ حضور (ص) کی ذاتِ گرامی ان کے لیئےمنبہ ہدایت تھی ؟ نہ ان میں بے عملی تھی نہ ان میں بد اخلاقی تھی نہ غرور تھا اور نہ ہی وہ وزارت کرتے تھے اور نہ ہی بد عنوان لوگوں کے حمایتی بنتے تھے۔ ہر ایک کا زور اس بات پر تھاکہ کو ئی انکا (رض)فعل خلاف ِقرآن اور سنت نہ ہو ؟ اس کی بہت سی مثالیں ہیں مگر یہاں ایک مثال دیکر بات ختم کر تا ہوں۔ سنیوں میں تمام سلسلوں میں جہاں ولایت کاسلسلہ ہے وہاں حضرت عبد القادر جیلانی علیہ رحمہ کو اپنا رہنما ماناجاتا ہے۔ ان کا قول یہ ہے کہ ً ایک شخص ہوا میں اڑ رہا ہو، پانی پر چل رہا ہومگر اس کا ایک فعل بھی خلاف سنت ہو تووہ شیطان ہے، ولی نہیں ً جبکہ ان کے ماننے والے ان کی کرامات تو بیان کر تے ہیں مگر کردار نہیں کہ وہ خلیفہ وقت اور اس وقت کے بے عمل علما ء اور صوفیا ئے کرام کے بارے میں ان کے منھ پر کیا ارشاد فرماتے تھے۔ وہ ان کی کتابوں میں پڑھ لیجئے؟


 اب سوال یہ ہے کہ اللہ والے دکھائی کیوں دیتے ؟ اس پر بھی میں حضرت عبد القادر جیلانی (رض) کی کتاب غنیہ الطالبین سے سندپیش کرتا ہوں کہ انہوں نے فرما یا کہ دنیا میں ہر وقت ٣٥ ہزار ولی  موجود رہتے ہیں، جن میں سے بہت سوں کوخود پتہ نہیں ہو تا کہ وہ ولی ہیں اور اللہ جو چاہتا ہے وہ ان سےکام لیتا ہے؟ رہا یہ کہ وہ ہمیں نظر کیوں نہیں آتے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چودہ سو سال میں  اس حساب سے  وہ کتنے اب تک گزر ے ہونگے اور ہم ان میں سے کتنوں کو جانتے ہیں ؟ ہم جنہیں جانتے ہیں انکی تعداد ہزاروں میں بھی بمشکل ہو گی جب کہ دنیا کی تا ریخ دیکھتے ہو ئے ، تعدادکرو ڑوں میں ہو نا چا ہیئے؟ وجہ یہ ہےکہ جن کے سپرد تبلیغ تھی وہی ظاہر ہو ئے انہیں کو ہم جانتے ہیں، جو دوسرے کاموں پر مامور تھے ان کو چونکہ شہرت اور کرا مات دکھانے کی ضرورت نہیں تھی لہذا نہ وہ مشہور ہوئے نہ ہم انہیں جانتے ہیں جبکہ نبی (ع)کو نبوت ظاہر کرنے کا حکم ہے اور ولی جوتبلیغ پر مامور نہیں ان کو خود کو مخفی رکھنے کا حکم ہے ؟جب کہ یہ سلسلہ بھی پہلے دن سے تھا۔ جس کا ثبوت قر آن میں حضرت خضر (ع)اور موسیٰ (ع) کے قصے میں موجود ہے۔ چونکہ اب اللہ کی کتاب مکمل ہو چکی تھی حضور(ص) کے بعد کوئی نبی (ع) نہیں آنا تھا، لہذا دین کو بچانے کے لیئے یہ سلسلہ اولیا ء بھی قائم رکھا گیا، جس نے جب بھی کوئی دین میں بگاڑ پیدا ہوا آگے بڑھ کر دین کی حفاظت کی اگر یہ سلسلہ بھی آج کی طرح پہلے ہی گمراہ ہو گیا ہو تا تو دین ہی نہیں ہوتا، مگر اللہ نے اس کی بقا کا وعدہ کیا ہوا ہے لہذا یہ بظاہر اضافی چیز پہلے حضور (ص) کوعطا فرما ئی گئی اور ان سے امت کو منتقل ہوئی؟ کیونکہ اس سے پہلے جو نبی(ع) آپکو قر آن میں ملیں گے ان کے ذمہ یتلو علیہم  (آیات پڑھ کر سنانے)کی خدمت تھی ، جبکہ اس کے ساتھ   یزکیھہم (تزکیہ کرنے) کی خدمت صر ف حضور (ص) کے ساتھ مقرر ہوئی ۔ یعنی اور نبی (ع) صرف اللہ کاکلام پڑھ کر سناتے تھے جبکہ ہمارے آقا (ص) کے سپرد اک اضافی خدمت یہ تھی کہ وہ ان کو پاک بھی فر ما ئیں۔ کیونکہ عملی طور  پرانہیں ہی کو دین کو نافذ کرنا تھا اور ان کے بعد یہ ہی تربیت یافتہ لوگ اقامت دین کر نے اور اللہ کا نظام چلانے کے ذمہ دار تھے ۔ اب رہا یہ سوال کہ ان کی پہچان کیا ہے۔ وہ سورہ البقر ہ میں آیت نمبر ٢٥٦، ٢٥٧میں بیان ہو ئی ہے ۔ کہ پہلی تاکید تو یہ ہے کہ “ زبردستی کسی کومسلمان مت بنا ؤ اس لیئے کہ ہم نے گمراہی سے ہدایت کو ممتاز فرمادیاہے اور ایمان والے وہی ہیں جو کفر اور طاغوت سے تا ئب ہوگئے اور اللہ پر ایمان لا ئے اور اس کے کڑے کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور وہ سننے اور جاننے والا ہے۔ دوسری آیت میں ارشاد ہو تا ہے “اللہ ایمان والوں کا ولی ہے ، جوکہ اندھیرے سے نکال کراجا لے کی طرف لاتا ہے۔اور کفار کا ولی طاغوت ہے جو نور سے ظلمات کی طرف کھینچتاہے یہ ہی لوگ کافر ہیں جو ہمیشہ جہنم میں پڑے رہیں گے “

Wednesday, 7 March 2012

دین و ادب ایکدوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں.

دین و ادب ایکدوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں.
زبیر حسن شیخ

انسان فطرتا ادب پسند واقع ہوا ہے. اسکی تخلیق میں ادب کا عنصر ودیعت کردیا گیا ہے اور اسکی واضح دلیل یہ ہے کہ آسمانی صحائف ادب کے منتہائے کمال کا مظہر رہے ہیں اور ان میں شاعرانہ لطافت اور نثری فصاحت و بلاغت شامل رہی ہیں. خالق حقیقی کے احکامات اور طرز بیان و تخاطب میں انسان کے لطیف احساسات اور شاعری و ادب کے تئیں رغبت کا خیال رکھاگیا ہے. کائنات کے رموز و نکات میں غور کرنے والوں کی تخصیص کی گئی ہے، انھیں مختلف القابات سے نوازا گیا ہے جو ادبا، شعرا، فلاسفہ، سائنسداں، مورخ اور ایسے ہی دیگر علوم کے ماہرین کے لیے مختص ہے. ادب کا یہ خاصّہ رہا ہے کہ وہ انسانی تہذیبی ارتقا سے متاثر ہوکر کائنات کے مختلف موضوعات کو اپنے دامن میں سمیٹتا رہا جن میں  فلسفہ، تاریخ، سیاست، روحانیت، جمالیات، نفسیات، عمرانیات، معاشیات، حیاتیات، سائینس وغیرہ شامل رہے. یہ وہی موضوعات ہیں جنہیں دین نے متعارف کرائے ہیں اور جنکے بنیادی اصول بھی پیش کئے ہیں. سن چھ سو سے سن گیارہ سو عیسوی تک،  حجاز، بغداد، دمشق، اندلس اور غرناطہ میں قران مجید کےاحکامات کی پیروی میں مذکورہ تمام موضوعات پر شد و مد سے غور و فکر کیا گیا اور ان علوم کی اساس قائم کی گئیں اور آنے والی نسل انسانی کے لئے بے نظیر ادبی مثالیں قائم کی گئیں. انہیں اساس  پر یوروپ میں نشاہ ثانیہ کا ظہور ہوا. مغربی فلاسفہ، سائنسداں اور دیگر ماہرین علوم کے افکارات کو پرواز کا حوصلہ اسی اساس سے حاصل ہوا، اور اکثر مغربی ادبا و علما نے فراخدلی سے اسکا اظہار بھی کیا.  صنعتی انقلاب کے بعد کچھ عرصہ تک ادب نے اصلاحی امور کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی لیکن اسکے بعد ادب کا اصلاحی موقف تبدیل ہوتا گیا. پھر وہ دور بھی آیا کہ ادب مادیت پرستی، سرمایہ داری، گروہ بندی، زرد صحافت اور سیاست غلیظہ کا شکار بن کر رہ گیا. 
تمہید کے پس منظر میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دین صرف عقائد کا نام نہیں بلکہ وہ انسان کی  انفرادی، اجتماعی، ظاہری، باطنی، روحانی، عقلی، قلبی، حسی الغزض تمام ضرورتوں کی رہنمائی بھی کرتا ہے. ادیب و شاعر  کے افکار پر دین کا جسقدر غلبہ ہوتا رہا اسی قدر وہ اسکی ادبی تخلیقات میں ظاہر ہوتا رہا. البتہ عالم دین اپنے فرائض کی انجام دہی میں ضرورتا آینہ داری بھی کرتا رہا اور ادب کے مختلف پیرائے کا استعمال بھی. ہرجید عالم دین ایک اعلی و معیاری ادیب واقع ہوا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر ادیب ایک عالم دین بھی ہو. ایک جیدعالم دین اور اصطلاحی "کٹھ ملا " میں زمین و آسمان کا فرق رہا ہے. "کٹھ ملا" اردو ادب میں ایک ایسا علامتی کردار رہا جو  اخلاقی قدروں سے منحرف ادبا کا کمزور  شکار  بنا رہا اور  جسے طنز و مزاح کے پہلو میں رکھ کر خوب داد و دہش وصول کی گئی. " کٹھ ملا" بھلے ہی دینی علوم پر دسترس رکھتا ہو لیکن ضروری نہیں کہ وہ حکمت بھی رکھتا ہو جو ایک جیدعالم دین کا اعجاز ہے، وہ دانشمندی بھی رکھتا ہو جو ایک جیدعالم دین عمر بھر کی عرق ریزی سے حاصل کرتا ہے. ایسے "کٹھ ملا" ہر دین و مذہب اور جماعت میں پائے جاتے رہے ہیں جو کبھی ادب کو شجر ممنوعہ قرار دیتے رہے تو کبھی دین کو کسی تارک الدنیا کی میراث، کبھی حفیظ میرٹھی جیسے ادبا و شعرا کے افکارات کو جماعتی اصولوں کے ترازو میں تولا کرتے رہے تو کبھی جماعت کے سابقون اور اولون کی محنت شاقہ پر اپنی ناتجربہ کاری سے پانی پھیر ا کرتے رہے . ایسے حضرات کے دینی اخلاص پر شبہ کرنا فی الحقیقت بے جا ہوگا لیکن انکی غیر دانشمندی سے ادب کے تئیں جو تنفر پیدا ہوا وہ دین و ادب کے باہمی روابط کی بیخ کنی کا باعث بنتا رہا. اسی طرح ادب میں وہ ادبا بھی پیدا ہوتے رہے جو نرے ادیب ثابت ہوئے اور باہمی روابط کی اس بیخ کنی میں برابر کے حصے دار بھی. ایک نرا ادیب اخلاقی اقدار کے اصولوں سے پہلو تہی کر اپنے افکار و عمل سے دنیا کو جنت ثابت کرنے پر بضد رہا، ہمیشہ  ادب میں دین کے داخلہ سے خائف رہا کہ کہیں ان دیکھی جنت کے عوض میں دیکھی دکھائی جنت اس سے نہ چھن جائے.  الغرض یہ دونوں کردار  حقیقت سے فرار چاہتے رہے، اس طالب علم کی طرح جو تعلیم تو جیسے تیسے حاصل کر لیتا ہے لیکن امتحان گاہ میں بیٹھنے کا خیال آتے ہی حواس باختہ ہو جاتا ہے اور  امتحان دینے کا قائل نہیں ہوتا.  یہ دونوں علامتی کردار اپنے افکارات کے سفر میں ترقی بھی کرتے دیکھے گئے اور پھر کٹھ ملا کو عالم دین بنتے دیکھاگیا اور نرے ادیب کو صالح ادیب.  
کسی "کٹھ ملا" اور نرے ادیب  کو تمہید میں بیان کردہ حقائق کو قبول کرنے میں شاید عار محسوس ہوگا اور انکے مطالعہ میں شاید نہ آیا ہو کہ قرآن مجید جہاں تمہید میں بیان کردہ موضوعات کے اصول و قواعد پیش کرتا ہے ونہیں علم معانی، علم بیان، علم بدیع، تشبیہات و استعارات، تصریف و تضمین اور ایسے ہی سینکڑوں ادبی اصولوں اور قواعد کے متعلق رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے. دین و ادب میں باہمی ربط کی صرف  یہ ایک مثال کٹھ ملا اور نرے ادیب کے موقف کو رد کرنے کے لئے کافی ہے؛ . عہد فاروقی کے نامور شاعر حضرت خالد بن صعق نے اپنے کلام میں معاشرہ کی آئینہ داری فرماتے ہوئے، حکومت کے عمال کی دولت میں غیر معمولی اضافہ کا ذکر فرمایا تھا. جب انکے اشعار امیرالمومنین کے علم میں آئے تو انہوں نے بروقت فیصلے صادر فرمائے اور معاشرہ کے اس ناسور کی روک تھام کے لیے لاثانی قانون وضع کئے اور اسے نافذ بھی کیا. 
ایک عام ادیب کی مثال ایک سایہ دار درخت کی طرح  ہے لیکن ایک صالح ادیب کی مثال ایسے درخت کی ہے جو سایہ کے ساتھ ساتھ پھل اور پھول بھی دیتا ہے اور جسکی بدولت بے شمار چمن وجود میں آتے ہیں. ایک نرا ادیب چند ہم خیال و ہم اطوار حضرات کے افکار و اعمال کو زندگی کی سچائیوں سے تعبیر کرتا ہے. زندگی کی انہیں سچائیوں کی آئینہ داری کرنے کے لئے دین کے پاس بہترین اور قابل تقلید مثالیں موجود ہیں،  جہاں برہنگی کو ثابت کرنے میں ادب کی رسوائی کا خدشہ نہیں ہوتا،  جہاں جمالیاتی حس الفاظ کے بندھ توڑ کر جنسیات پر نہیں اتر آتی اور جہاں لطیف احساسات لہوو لعب کے ملبہ تلے دب نہیں جاتے. دین نے ایسے ہی بےحد نازک احساسات کے اظہار کے لئے بہترین اسالیب پیش کیے ہیں جو انسان کے لطیف احساسات کا پاس رکھنے کی تعلیم دیتے ہیں، اور جو آج بھی اکثر ادبا و شعرا حضرات کے افکار میں نظر آتے ہیں. یہی فن اصل میں ادب ہے ورنہ افکار و بیان و اظہار کی بے بسی ہے  جو ادب کے نام پر اکثر مغربی طرز فکر و عمل میں نظر آتی ہے، اور جسے چند ادبا لوازمات میں شمار کرتے آئے ہیں اور اسکی ابتدا کو ادب کی نشاہ ثانیہ.  نرا ادیب "عروبا اترابا" میں پوشیدہ شوخی اور ناز و اندام  کو شاعری میں متعارف نہیں کرا پاتا اور کٹھ ملا اس ناز و اندام کو جمالیاتی حس کی میزان پر رکھنے سے خوف کھاتا ہے. نرا ادیب نثر میں "انتم لباس لھن و ھنا لباس لکم" جیسی فصاحت و بلاغت کی عکاسی کرنے کو ادب نہیں سمجھتا اور کٹھ ملا اس کی ادبی تشریحات  کو زہد و تقوی سے انحراف.
اردو ادب کا قیام و عروج دین کی بنیاد پر ہی قائم رہا ہے اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ اردو کے نامور شعرا و ادبا کا تعلیمی پس منظر دینی علوم سے مزین رہا اور ان میں بلا امتیاز مذہب و ملت  کلاسیکی، ترقی پسند اور رجعت پسند سب شعرا و ادبا شامل ہیں. ان میں چند وہ نام بھی ہیں جو دینی علوم میں مہارت رکھتے تھے اور اس کا استعمال کر انہوں نے دین و ادب کے باہمی ربط کو اجاگر کیا، لافانی ادب تخلیق کیا اور معاشرہ کی اصلاح بھی کی اور فلاحی کام بھی کئے. اسی طرح اردو ادب میں ایسے سینکڑوں علمائے دین ہیں جنہوں نے اپنی ادبی قابلیت کا استعمال کر دینی کارہائے نمایاں انجام دئے. ان کے علاوہ اردو ادب میں وہ معتبر نام بھی  ہیں جن پر ادب کو ہمیشہ ناز رہا اور انکا پس منظر بھی دینی علوم سے مزین رہا، جن میں بلا امتیاز دین و مذہب و مکتب سب شامل ہیں. اول الذکر ادبا اور علمائے دین دونوں نے اپنی زندگی معاشرہ کی اصلاح کے لئے وقف کردی تھی اور اس کار خیر میں  اپنے افکار، اپنی تحریر، تصانیف، کلام اور خطبات کے ذریعے معاشرہ کی آئینہ داری فرمائی اور اصلاحی کارنامے بھی انجام دیے، اور اپنے کردار اور سیرت کا عملی نمونہ پیش کیا. ان حضرات میں ایک قدر مشترک رہی کہ دینی اساس سے انکے افکارات اسقدر پیوست رہے کہ انکی سیرت انکے کارہائے نمایاں میں ظاہر ہوتی رہی، اور ادیب و شاعر کے مقام سے انہیں ایک درجہ بلند مقام عطا کرتی رہی. موخر الذکر ادبا نے بھی اپنے افکار، کلام  اور اپنی تصانیف سے معاشرہ کی نہ یہ کہ آئینہ داری کی بلکہ اپنے اپنے طور پر بلواسطہ اصلاح کی کوششیں بھی فرمائیں. لیکن ان میں سے چند ادبا و شعرا کے افکار میں اکثر و بیشتر غلو اور لغویات  کی کثرت پائی گئی، اور وہ  اپنے افکار و کردار کا وہ نمونہ بھی نہیں پیش کرسکے جو انکے ہمعصر اور اول الذکر حضرات نے پیش کیا، جام و بادہ کا نشہ اور اس پر ادب کا نیا نیا خمار جس نے اکثر ادبا و شعرا کو نرا ادیب بنا کر رکھ دیا تھا. لیکن جب جب دینی افکارات کا غلبہ ہوا تو انہوں ایسے افکارات بھی پیش کیے جو تاریخ میں ضرب المثل قرار دئے گیے اور جید علمائے دین کے علاوہ ایک دنیا نے ان سے استفادہ کیا. 
بیسویں صدی کے نصف کے بعد، عمومی طور پر پر دیکھا جائے تواردو ادب نے معاشرہ کو اندھی ادبی تقلید، تنقید برائے تنقید و تنقیص  یا ستائش کے علاوہ کچھ نہیں دیا. اور اس کا تذکرہ خود اکثر ادبا و شعرا نے بھی اپنے مضامین اور بیانات میں کیا ہے. انگریزی ادب  کی تقلید میں گروہ بندی ہوتی رہی اور عام طور پر ادب کو اپنے اپنے ادبی اکھاڑوں تک محدود کر دیاگیا. چند حضرات ملکر مسلسل تنقید بر تنقید و تنقیص سے ادب کے صفحات سیاہ کرتے رہے. مغربی افکار و تحقیق کو خدائی دعوی سمجھتے رہے اور اپنی جبلی صفات اور تہذیبی روایت کا گلا گھونٹتے رہے. جبکہ اس سے آگے بڑھکر بہت کچھ سوچا اور لکھا جاسکتا تھا. جو ادبا و شعرا ترقی پسند مکتب فکر سے متاثر رہے ان میں سے بھی اکثر و بیشتر کا تعلیمی پس منظر دینی رہا. یہ حضرات اپنے افکار و مقاصد میں متحد رہے اور اپنے دین و ایمان سے بڑھکر اپنے مکتب فکر کے وفا دار رہے. ان میں اکثر ادبا کبھی کہیں اپنے دین سے چوری چھپے جڑے بھی رہے. اکثر ادبا کا ہدف سیاست کی راہوں سے چل کر اپنے مقصد کو حاصل کرنا تھا اور جسکے لئے وہ مختلف مغربی مکتب فکر  کے تالابوں میں غواصی کرتے رہے. یہ وہی فکری تالاب ہیں جو جلد ہی خشک ہوگئے اور   جنکا وجود پچاس سو سال سے زیادہ قائم نہیں رہا. ترقی پسند حضرات کے علاوہ دیگر مکاتب فکر کے ادبا و شعرا بھی معاشرہ کے لئے کچھ خاص نہیں کر پائے. ان میں سے اکثر ، قدما کے پرستار تو ضرور رہے لیکن انکا پرتو ثابت نہ ہوسکے. معاشرہ کو اب اصلاح کار ادبا و شعرا کی پہلے سے زیاد ضرورت ہے. اردو ادب پر چھایا یہ جمود توڑا جاناچاہیے جو پچھلی صدیوں میں بھی وقتا فوقتا نظر آتا رہا اور جسکی حشر سامانیاں تاریخ و ادب میں رقم کی گئیں ہیں.
اس بات کا احساس ہر " کٹھ ملا" اور "نرے ادیب"  کو ضرور ہونا چاہیے کہ دین و ادب کے باہمی روابط میں ہی معاشرہ کی اصلاح کا پہلو مضمر ہے اور یہ ایکدوسرے کے لئے ایسے ہی لازم و ملزوم ہیں جیسے پھول کے ساتھ خوشبو. دونوں کا تعلق انسان کی روحانی غذا سے ہے. دعا ہے کہ یہ روحانی غذا ملاوٹ سے پاک ہو اور روحانی حفظان صحت کے اصولوں پر کاربند ہو.
"وما توفیقی الا باللہ"

Tuesday, 6 March 2012

کیاہماری مثال اُس گدھے کی سی ہے جو...؟؟؟

کیاہماری مثال اُس گدھے کی سی ہے جو...؟؟؟
.از۔ محمداعظم عظیم اعظم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں ایک حکایت یاد آگئی ہے جسے ہم اگلی سطور میں بیان کریں گے مگر اِس سے پہلے ہم یہاںیہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ ہماری مثال حکایت والے اُس گدھے کی سی ہے جس کا مالک اِنتہائی چالاک لالچی اور شاطر قسم کا ہے جو ہرروزاپنے گدھے کو صرف صبح چارہ دیتاہے اور باقی دو وقت کا چارہ ایک ڈنڈے کے ساتھ باندھ کر گدھے کے منہ کے آگے لٹکا دیتاہے اورخود گدھے پربیٹھ کر دن بھر اُس سے محنت لیتارہتاہے یوں بیچارہ گدھا دوپہر سے شام تک اُس چارے کی جستجومیں منہمک رہتاہے اور مالک کا کام بھی چلتارہتاہے باقی آپ سمجھدار ہیں خود جان لیں ہم یہاں کیاکہناچاہتے ہیں ۔

اور اِسی طرح کسی زمانے کی بات ہے کہ ایک باپ کے کئی بچے تھے جن کی کفالت کی ذمہ داری اِس کے کاندھوں پر تھی اِس کاذریعہ معاش سوائے ایک گدھا گاڑی کے اور کچھ نہیں تھا جب تک بچے چھوٹے تھے وہ جیسے تیسے اِنہیں روکھی سوکھی کھلاتارہااور اِن کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو پوراکرتارہامگر جب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچے بھی جوان ہوتے رہے اور اِن کی ضروریات زندگی بھی بڑھتی رہیں تو اِن بچوں کے باپ نے سوچاکہ اَب چونکہ میں بوڑھاہورہاہے اِس سے اتناکام نہیں ہوپاتاکہ جس سے روزانہ کا گھرکا خرچ چل سکے گا لہذااِس نے اپنی بیوی (بچوں کی ماں )سے مشورہ کیا کہ سب سے بڑے بیٹے کو اپنے ساتھ کام پر لے جایاکرے گا تاکہ ہم دونوں باپ بیٹھے مل کر کام کریں گے تو آمدنی بھی کچھ بڑھے گی اور گھر کا خرچ بھی پوراہوسکے گا یوں یہ دونوں باپ بیٹے روزانہ صبح کام پرچلے جاتے اور شام کو اپنی محنت اور مشقت کے مطابق کماکر لاتے تو گھر کا خرچ پوراہوتارہا۔ ہاں البتہ! بیٹے کو باپ کے ساتھ کام پر جانے کی وجہ سے شام کو گھر میں آنے والی آمدنی میں قدرے اضافہ ضرور ہوگیاتھا جس میں سے بیوی کچھ خرچ کرتی تو اُسی آمدنی میں سے کچھ رقم بچابھی لیتی اور اِسی دوران اِس نے محلے میں ایک کمیٹی بھی ڈال لی تھی دن بھر محنت مشقت کرکے جب میاں بیوی سونے کے لئے جاتے توروزمرہ کی باتوں کے بعد دونوں یہ بات ضرور کرتے کہ اَب ہمارے بیٹے نے اپنی ذمہ داریاں اچھی طرح نبھانی شروع کردی ہیں کل کو اگر ذراسے ہمارے مالی حالات بہتر ہوجائیں تو اِس کی شادی کردیں تو اور اچھاہوگا اِن میاں بیوی کا یہ روز کا معمول تھا کہ یہ سونے سے پہلے یہ بات ضرور کیاکرتے تھے اور اِن کا یہ محنتی بیٹا اِن کے منہ سے اپنی شادی سے متعلق کی جانے والی ساری باتیں سُن کر روز خوش ہوتااور اِسی خوشی کے عالم میں سوجاتا....اوراگلی صُبح تازہ دم ہوکر نیا جوش اور ولولہ لئے باپ کے ساتھ کام پر چل دیتا یوں یہ سلسلہ کئی سالوں تک چلتارہااِس دوران اِس کی ماں کی کئی کمیٹیاں آئیں اور گئیں اور گھر کے مالی حالات پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہوگئے تھے

ایک رات جب خلافِ توقع میاں بیوی بات کئے بغیر سوگئے تو بیٹے کو تشویش لاحق ہوئی تواِس سے رہانہ گیااور اِس نے کروٹ بدل کر باپ اور ماں کو باآواز بلند مخاطب کیا اور اِنہیں سوتے سے اُٹھانے کے بعدبولا...”ابّا...ابّاکیا بات ہے...؟؟آج تم نے میری شادی کی بات نہیں کی...کروں نا میری شادی کی بات ....“اِس سے پہلے کہ بیٹااور کچھ بولتاباپ نے اِنہتائی غصے کی حالت میں بیٹے کو ددیکھااورغراکر کہا ” ابے سوجابے ... آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے...اور تیرے کو اپنی شادی کی پڑی ہے ...بڑاآیا ہے شادی والا...ہم تجھ کو سُنانے کے لئے جھوٹ بولتے ہیں کہ تیری شادی کردیں گے تو ،تُواِسے سچ سمجھ رہاہے...جب تک میں تیرے لئے علیحدہ گدھاگاڑی نہیں خریدلیتااُس وقت تک تیری کوئی شادی وادی نہیں ہوگی اور اَب جو تو نے آئندہ اپنی شادی کا سوچا اور مجھ کو کہا....“باپ کوغصے میں دیکھ کر بیٹاسہم سا گیااور پھر کروٹ بدل کر یہ سوچنے لگا چلوابّامیری شادی توکریں گے ناںمگرپہلے میرے لئے ایک اور گدھاگاڑی کابھی بندوبست کردیں گے پھرشادی بھی کردیں گے ...“اور پھر بیٹاابّا کی طرف سے ایک اور خوشی کا عندیہ ملنے کے بعد دل ہی دل میں خوش ہوتاہوا سوگیایہ جانے بغیر کے ابّا اپنے اِ س ارادے کو بھی مستقبل قریب میں پوراکرتے ہیں کہ نہیں....یااِنہوں نے اِسے خوش کرنے کے لئے یہ کہا ہے۔

قارئین حضرات ..!آپ کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ آج امریکاکے نزدیک ہماری مثال حکایت والے اُس گدھے اور اِس بیٹے جیسی ہے جو دن بھر ڈنڈے کے ساتھ بندھے چارے کے حصول کے خاطر دوڑتارہتاہے مگر اِسے وہ حاصل نہیں ہوتا اوراُس بیٹے کی طرح ہے جواپنی شادی اور علیحدہ گدھاگاڑی کے چکر میں دن رات محنت کرکے اپنا وجود ہلکان کئے دے رہاہے مگر اِن دونوں کے حصے میں اپنے کفیل سے سوائے ڈانٹ ڈپٹ ،مار اور پھٹکار اور جھوٹی تسلیوں کے اورکچھ نہیں آتاہے۔اوراِس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کا رویہ بھی ہمارے ساتھ گدھے کے مالک اور بیٹے کے باپ کی طرح کا ہے جو ہمیںگھاس کی گڈی دیکھاکر اور ہمیں خوشیاں دینے کا جھوٹاوعدہ کرکے دن بھر ہم سے اپنے مطلب کام تو لیتاہے مگر نہ تو ہمیں ٹھیک طرح کھانا دیتاہے اور نہ ہی خوشیاں..... اور جہاں سے بھی ہمیں ضروریات پوری ہورہی ہوتیں ہیں اِن میں بھی روڑے اٹکاتاہے اَب یہ بات تو ہمارے حکمرانوں کو سمجھنی چاہئے کہ وہ امریکا کی کسی بھی ایسی دھمکی میں نہ آئیں جس کی وجہ سے ہماری ترقی اور خوشخالی کی راہیں بندہوجائیں اور یہ اپنے مفادات کے لئے ہمیں استعمال کرتارہے۔

یہودیوں کا یار لعنتی کردار

یہودیوں کا یار لعنتی کردار
نواز میرانی....

کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے کہ انسان کو کسی دوسرے انسان کے ساتھ خدا واسطے کا بیر ہو جاتا ہے اور وہ اس کی شکل دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا‘ لیکن ذرا زیادہ علم والے‘ شکل وصورت دیکھ کر انسانی عیوب و اوصاف کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے کسی بھی انسان کے بارے میں صحیح رائے قائم کر لیتے ہیں۔ اسی کو قیافہ شناسی کہتے ہیں‘ بلکہ وہ اس علم کو دوسروں کو بیوقوف بنا کر روزی کمانے کا دھندا بھی بنا لیتے ہیں۔ مگر اوباما کے معاملے میں معاملہ یکسر مختلف ہے۔ اس کے حلیہ‘ وضع قطع اور ظاہری شکل کے بارے میں دنیا کے لوگ جو رائے قائم کرتے ہیں‘ خصوصاً ہمارے ملک میں اگر وہ ہوتا تو متروکہ وقف املاک کا چیئرمین بننا تو دور کی بات ہے‘ وہ یہاں سٹیبلشمنٹ کے محکمے میں کلرک بھی نہ ہو سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ انسان اپنی عزت خود بناتا ہے۔ یعنی اس کا کردار‘ فعل‘ بول چال اور عمل ہی اس کی عزت میں اضافے یا کمی کا باعث بن جاتا ہے‘ مگر جہاں وہ اور اس کی بیگم کبھی عوام کے سامنے بیٹھکیں لگانا شروع کر دیں‘ کبھی بے ہنگم رقص کرنا‘ یا کبھی بے سرا گانا گانا شروع کر دیں تو اس کی عقل کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ دراصل حکمران جب سودا بازی کے نتیجے میں برسراقتدار آتے ہیں تو پھر ان سے سنجیدہ اور متین بیانات کی توقع رکھنا عبث ہے۔ خصوصاً وہ شخص جس سے ہمارے ”رنگروٹ“ بھی اپنے بالوں کا زیادہ بہتر خیال رکھتے ہیں اس کو یہودی لابی امریکہ کے صدر کے طور پر ویسے ہی نہیں لائی۔ امریکی شودر اگر پڑھ لکھ نہ جاتا تو بندوق کی نوک پہ ہم وطنوں سے پرس‘ موبائل اور ڈالر چھین رہا ہوتا۔

توہین قرآن کا مرتکب ہونے والا بے غیرت پادری جونز‘ جس نے قرآن پاک کو بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی سے اعلانیہ اور وقت مقرر کر کے سرعام جلا دیا تھا‘ کیا یہ اوباما کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ لعین جونز کو اس قابل مذمت فعل سے باز رکھتا۔ یہ تو مسلمانوں پہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ وہ ابنیائے کرام پہ اتری ہوئی تمام الہامی کتب کا دل وجان سے نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ اگر وہ ان کتب اور ان کے نبیوں پہ یقین و ایمان نہ رکھیں تو ان کا ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا اور اگر خدانخواستہ ایسی قبیح حرکت کسی مسلمان سے سرزد ہو جائے تو وہ کافر‘ بلکہ مرتد ہو جاتا ہے اور اس کی سزا سے پوری دنیا آگاہ ہے‘ لیکن یہاں تو معاملہ الٹ تھا۔ جونز کو اوباما کی آشیرباد حاصل ہے اور تھی‘ اس سے قبل گوانتا ناموبے جیل میں قرآن پاک کی تضحیک و توہین کے جو پے در واقعات ہوئے ہیں اور اس کے بعد حال ہی میں امریکی فوجیوں نے افغانستان میں قرآن پاک کے نسخوں کو جلانے کا جو عمداً فعل کیا ہے کیا وہ قابل معافی ہے؟ اگرچہ اس پہ اوباما نے معافی مانگ کر امت مسلمہ کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر اب اس بدبخت (اوباما) نے یہ بیان دے کر کہ ”انہوں نے معافی مانگ کر دراصل اپنے ان امریکیوں کی زندگی بچانے کی کوشش کی ہے جو وہاں تعینات ہیں“۔ یعنی اس نے بالواسطہ اس فعل کی مذمت نہیں کی۔ اگر اوباما کے بارے میں کہے گئے میرے الفاظ پر کسی کو اعتراض ہے تو ان کا اوباما کے ان بیانات کے بارے میں کیا خیال ہے جو وہ تمام مسلمان ممالک خصوصاً ایران‘ افغانستان‘ شام اور پاکستان کے بارے میں دیتے رہنا عادت بنا چکا ہے۔ گزشتہ جمعرات کو اوباما نے کہا کہ اسرائیل کا دفاع ہمارا مقدس فریضہ ہے۔ یہی بات بش بھی کہتا تھا کہ اسے الہام ہوا ہے کہ وہ مسلمانوں کو خون میں نہلا دے اور مسلمانوں کو قتل کرنا وہ باعث ثواب سمجھتا تھا۔ اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ ایران کو کسی صورت ایٹمی طاقت نہیں بننے دے گا اور ہم جو کہتے ہیں کرتے ہیں۔ اس سے قبل وہ ایوب خان اور ضیاءالحق کے ساتھ ایسا کر چکے ہیں جو ایران‘ افغانستان‘ ترکی اور پاکستان کی کنفیڈریشن اور اتحاد بلکہ ویزہ فری ملک بنانے کیلئے کوشاں تھے۔ اب ایران پاکستان گیس لائن منصوبے بنانے والوں کی اللہ خیر رکھے.... ب
اوباما نے کہا کہ وہ اسرائیل کے ایران پہ حملے کے وقت اس کو پوری سکیورٹی فراہم کرے گا اور اس کی حفاظت کے بندوبست کو یقینی بنائے گا اور اسے ہر ممکن معیاری فوجی برتری فراہم کریں گے‘ کیونکہ اسرائیل مشکل ہمسایوں یعنی مسلمان ممالک کے درمیان گھرا ہوا ہے اور ایران خود بھی دہشت پسند ملک ہے اور ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے بعد دہشت گردوں کے عزائم کو تقویت ملے گی‘ بلکہ ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ بھی لگ سکتے ہیں۔ یہی بات وہ پاکستان کے بارے میں بھی ہمیشہ سے کرتا آیا ہے مگر کیا اس سے بڑا دہشت گرد بھی اس دنیا میں ہو سکتا ہے کہ جو دوسروں کی مقدس کتاب کو سرعام جلا دے.... کیا امریکہ کے ایٹمی اثاثے ان دہشت گردوں کی دستبرد سے محفوظ ہیں‘ جبکہ امریکہ کے صدر کے بیانات اور اس کے شہریوں کے فعل ایک متوازن شخص کے طور پر نہیں بلکہ ایک مجہول‘ پاگل سر پھرے اور حواس باختہ اشخاص جیسے ہیں کہ جو ریمنڈ ڈیوس جیسے شخص کے بارے میں براہ راست بیانات دیتا تھا اور اپنی (کالونی) سے وہ قاتل کو اس طرح سے لے گیا جیسے وہ اب ڈاکٹر شکیل کو امریکہ کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دے کر لے جانا چاہتا ہے۔ انسانی حقوق کے منہ پر ڈاکٹر عافیہ کی سزا اور جیل میں جنسی تشدد بھی اسی ابنارمل صدر کے منہ پر طمانچہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ قبل از وقت حملے سے ایران کو مظلوم بننے کا موقع مل جائے گا‘ لیکن اسے کیا معلوم کہ مظلوم کی بددعا تو عرشِ الٰہی کو بھی ہلا دیتی ہے .... جس کا نظارہ عنقریب دنیا دیکھ لے گی انشاءاللہ .... ووہ دن دور نہیں جب اقتصادی طور پر تباہ شدہ امریکی ڈھانچہ تباہ ہو کر دھڑام سے زمین بوس ہونے والا ہے!!!

اسامہ کا ذکراب بھی زندہ ہے

اسامہ کا ذکراب بھی زندہ ہے
روزنامہ جسارت

- اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی اورامریکی حملے کے بعداسامہ کی لاش لے جاکرسمندربردکرنے کا پورا معاملہ اب تک مشکوک ہے۔ امریکی حکومت نے دعویٰ کیاتھا کہ اسامہ کو اسلامی طریقے سے نمازجنازہ پڑھواکر سمندرمیں ڈالاگیا۔ اس وقت بھی یہ بات حلق سے نہیں اتری تھی اور یہ اعتراض بھی کیاگیا تھا کہ لاش کو سمندربردکرنا ہرگزاسلامی طریقہ نہیں ہے الاّیہ کہ بحری سفرکے دوران کوئی انتقال کرجائے اور ساحل کئی دن کی مسافت پرہو۔ سوال یہ اٹھا تھاکہ امریکاکو اپنے سب سے بڑے دشمن کی لاش کو سمندرمیں پھینکنے کی ایسی جلدی کیاتھی۔ یہ تو اس کی ایک بڑی فتح تھی جس کے پیش نظر امریکا اپنی وحشی فطرت کے مطابق لاش کی نمائش ضرور کرتا۔ مگرآناً فاناً ڈی این اے ٹیسٹ بھی ہوگیا اورلاش ٹھکانے لگادی گئی۔ دنیا کے پاس امریکی دعوے کے سوا کوئی ثبوت نہیں کہ ایبٹ آباد سے اسامہ ہی کی لاش لے جائی گئی۔ اس دعوے کا استقبال اس پر اظہارخوشی پاکستان کے وزیراعظم اور صدر نے کیا اور اسے ایک ’’عظیم فتح‘‘ قراردیاگیا ۔اس ضمن میں اوربھی افواہیں سامنے آئی ہیں کہ صدرآصف علی زرداری کو امریکی حملے کا علم تھا اور انہوں نے امریکی ہیلی کاپٹروں کو نہ روکنے کی ہدایت کی تھی مگر ان افواہوں کی تصدیق نہیں ہوسکے گی۔ اب وکی لیکس نے انکشاف کیاہے کہ اسامہ بن لادن کی لاش کو سمندربرد نہیںکیاگیا بلکہ سی آئی اے کے طیارے میں امریکی ریاست ڈلویرمیں واقع فوجی اڈے میں پہنچایاگیا۔ پھر میری لینڈ کے ایک طبی مرکزمیں لاش کا معائنہ کیاگیا اس کی تصاویر گئیں‘انگلیوں کے نشانات اورڈی این اے حاصل کیے گئے۔ بظاہرتوایک نجی امریکی ادارے اسٹراٹ فور کی خفیہ انٹیلی جنس فائلوں سے یہ معلومات حاصل کی گئی ہیں تاہم یہ قرین قیاس ہے کیونکہ امریکا پوری تصدیق کے بغیر اسامہ کی لاش کو سمندر برد نہیں کرسکتاتھا۔ یہ امریکا اور سی آئی کا خصوصی انداز واردات ہے کہ ہرمعاملہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اب امریکا ہی میں سرگرم نجی ادارے پول کھول رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسامہ کی لاش پر مشق ستم کرنے کے بعد ان کی تدفین باقاعدہ اسلامی طریقے سے ہوئی یا نہیں۔ اس کے امکانات نہیں ہیں کیونکہ امریکا تو زندوںکا احترام نہیںکرتا‘ مسلمانوںکی لاشوں کاکیاکرے گا۔کچھ ہی عرصہ پہلے افغانستان میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی لاشوں پر بدبخت امریکیوں کی طرف سے پیشاب کرنے کی گھنائونی حرکت سامنے آچکی ہے۔ بہرحال اسامہ تو شہید ہوگئے اب ان کی لاش کے ساتھ کیا ہوا اس سے ان کو فرق نہیں پڑتا لیکن پاکستانی حکمرانوں کے دوستوں کا فریب مسلسل سامنے آرہاہے۔

اسرائیل کے تحفظ کا امریکی عزم

اسرائیل کے تحفظ کا امریکی عزم

- امریکی صدربارک اوباما نے لگی لپٹی رکھے بغیرصرف اسرائیل کا تحفظ کرنے کا عزم دوہرایاہے اور ایران کے خلاف فوج سمیت پوری امریکی طاقت استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے۔ دیگرامریکی صدورکی طرح اوباما کی بھی یہ مجبوری ہے کہ صہیونیوں کی حمایت کے بغیر امریکا کا اقتدارحاصل نہیں ہوسکتا۔ امریکا میں نئے صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں چنانچہ اوبامانے اسرائیل کو خوش کرنے کی مہم تیزکردی ہے۔ انہوں نے اسرائیل کے دہشت گرد وزیراعظم بن جامن نیتن یاہو کو سفیر امن کا خطاب دیا اور صدر شمعون پیریزکو امریکاکا اعلیٰ ترین شہری اعزاز‘ صدارتی تمغہ برائے آزادی دینے کا اعلان بھی کیا۔ اوباما نے واشنگٹن میں یہودی لابی امریکن اسرائیل پبلک افیئرزکمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیاکہ امریکا اسرائیل کے تحفظ کے عزم پرقائم ہے اور ایران کے جوہری ہتھیاروں کے منصوبے کو روکنے کے لیے ہرطرح کی طاقت استعمال کرے گا۔ یہ ایک طرف تو اپنے پروردہ اسرائیل کے لیے تسلّی ہے اور دوسری طرف اوباماایک مسلم ملک کے خلاف نیا محاذ کھولنے جارہے ہیں۔ درحقیقت کئی عشروں سے ایران پرپابندیاں لگاکر امریکا یہ محاذتوکھول ہی چکاہے۔ پہلے وہ افغانستان اورعراق میں الجھاہوا تھا اب اسے نئے محاذ کی ضرورت ہے تاکہ امریکی عوام کی توجہ تباہ حال معیشت کی طرف سے ہٹائی جاسکے۔ مگر ایسا ممکن نہیں ہے۔ امریکی عوام سڑکوں پرنکلے ہوئے ہیں اوریہ جان چکے ہیں کہ امریکی حکمرانوں نے بے مقصد جنگیں لڑکر امریکا کی معیشت کو تباہ کردیاہے۔ دیکھنایہ ہے کہ نئی مدت صدارت کے لیے یہودی لابی کس حدتک اوباماکا ساتھ دے گی۔ ان کی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن بھی یہودیوں کے بل بوتے پر جیتی ہیں جس کے عوض انہوں نے اپنی اکلوتی لڑکی بھی یہودیوںکو دے دی ہے۔ اوباماکا دعویٰ ہے کہ عالمی دبائو ایران کو ایٹمی پیش رفت پر مذاکرات کے لیے مجبورکردے گا۔ وہ اس پرخوش ہیں کہ امریکی کوششوں نے ایران کو تنہا کردیاہے اور اس کی قیادت تقسیم ہوگئی ہے۔ ایران کے خلاف امریکاکئی محاذوں پرلڑرہاہے۔ اوباما کے پیش رو بش نے ایران کے اندر انتشارکے لیے کروڑوں ڈالرمختص کیے تھے اور اب بھی اس پر عمل ہورہاہے۔ ایران میں قیادت کی تقسیم کا جو اشارہ اوبامانے دیاہے اس کے کچھ آثارایران کے حالیہ انتخابات میں نظرآئے ہیں۔ پارلیمانی انتخابات میں موجودہ صدر احمدی نژاد کے حامیوںکو بری طرح شکست ہوئی ہے اور خیال کیاجارہاہے اگلے برس ہونے والے صدارتی انتخاب میں احمدی نژاد بے اختیار ہوجائیں گے۔ اس وقت ایران کے رہبراعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے حامیوں نے 75 فیصد نشستیں حاصل کرلی ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ایرانیوں نے اصلاح پسندوں کو مستردکردیاتھا جن کا موقف تھا کہ وہ امریکا سے محاذ آرائی نہیں چاہتے۔ ممکن تھا کہ اصلاح پسند اگر برسراقتدارآجاتے توایٹمی پروگرام امریکاکی مرضی کے مطابق ختم کردیاجاتا تاہم خامنہ ای کے حامیوں کی حکومت آگئی تو بھی ایران کے جوہری موقف میں تبدیلی کا امکان نہیں۔ خامنہ ای اور احمدی نژاد میں کئی معاملات پراختلافات ہیں لیکن خارجہ حکمت عملی اورامریکا سے تعلقات کے مسئلہ پرکوئی اختلاف نہیں۔ خامنہ ای آیت اللہ خمینی کے جانشین ہیں جنہوں نے امریکا کو شیطان بزرگ کا لقب دیاتھا۔ چنانچہ ضروری نہیںکہ ایران میں قیادت کی تبدیلی سے امریکاکے مذموم عزائم بھی پورے ہوں۔ بظاہرتواوباما نے مذاکرات کا دروازہ بندنہ کرنے کا عندیہ دیاہے لیکن جس اسرائیلی وزیراعظم کو وہ امن کا سفیر قراردے رہے ہیں یہ وہی ہیں جنہوں نے امریکا کے حالیہ دورے میں پوری دنیاپرزوردیاتھا کہ ایران کے جوہری پروگرام کو ہرقیمت پر روکاجائے کیونکہ یہی وہ سب سے بڑا خطرہ ہے جو اسرائیل کو درپیش ہے۔ نیتن یاہو نے مزیدکہاتھا کہ بین الاقوامی برادری کو ایران پر یہ واضح کردینا چاہیے کہ اگر وہ جوہری پروگرام سے باز نہ آیا تو ایک فوجی کارروائی کے لیے تیار رہے‘ مغربی ممالک گفتگو اور معاشی مقاطع سے ایران کے جوہری پروگرام کو نہیں روک سکتے۔ اور اس پراوباما نے بھی کہا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام کے مسئلہ پر امریکا اسرائیل کے ساتھ ہے۔ واشنگٹن میں یہودی لابی سے خطاب کرتے ہوئے اوباما نے اسرائیل کو اس بات کا یقین دلایاہے کہ ایران کے خلاف فوجی حملہ سمیت ہرطرح کی طاقت استعمال کی جائے گی۔ اب یہ بات تو پرانی ہوگئی کہ ایران کے جوہری پروگرام پر خوف زدہ امریکا اور مغربی ممالک کو اسرائیل کے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم نظرنہیں آتے اور نہ ہی اس کی ایٹمی تنصیبات کی فکرہے کیونکہ یہ یہودی بم ہیں‘ عیسائی بم ہیں یا ہندوبم ہیں جو شاید انسانیت کے لیے ایسے خطرناک نہ ہوں جیساکوئی اسلامی بم ہوسکتاہے جبکہ ایران تو بارہا یقین دلاچکاہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ اسرائیلی دہشت گردوں کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح امریکااورمغربی ممالک اب ایران پرحملہ کردیں۔ یہ بھی تو یہودی دماغ ہی کی کارستانی تھی کہ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد امریکا کو باورکرایا کہ اب اس کا سب سے بڑا دشمن اسلام اور مسلمان ہیں۔ اس کو پختہ کرنے کے لیے ہی نائن الیون کا ڈراما رچایاگیا۔بہرحال ایران پرپابندیوں کے نتیجے میں تیل کی ترسیل میں رکاوٹ سے مغرب کو بھی دشواریوں کا سامنا ہوگا مگر اسرائیل تو خوش رہے گا۔

Monday, 5 March 2012

غیرت دیں کا امتحان

غیرت دیں کا امتحان
علی خان

رنج وغم کے ساتھ طیش اور غصہ فراواں ہے۔ ہونا بھی چاہیے، یہ مسلمانوں کے دین وایمان کا معاملہ ہے۔ یہ کسی ایسی کتاب کا معاملہ نہیں جس پر اعتقاد رکھنے والے خود اس کا احترام نہیں کرتے اور آسمانی کتابوں کو اس قدر مسخ کردیا ہے کہ اب وہ انسانوں کا ایسا کارنامہ بن کر رہ گئی ہیں جن کے ہر ایڈیشن میں تضاد ہے۔ قرآن کریم تو اللہ کی آخری کتاب ہے جس کے زیروزبر میں بھی تبدیلی نہیں ہوئی۔ لیکن بات صرف اتنی نہیں ہے۔ تمام جہانوں کے ربّ کا یہ کلام تمام بنی نوع انسان کے لیے سرچشمہ ہدایت ہے لیکن جو اس پر ایمان لائے ان کے لیے تو اس کا احترام اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہے۔ اسی لیے افغانستان میں کتنے ہی لوگ اپنی جان قربان کرچکے ہیں اور بے حرمتی کرنے والوں کی جان لے رہے ہیں۔ یورپ وامریکا کے خدا بیزار اور دنیا دار اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ ایک مسلمان کے نزدیک قرآن کریم اور نبی آخر الزماںؐ کی حرمت کیا مقام رکھتی ہے۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ’’تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں جب تک وہ اپنے والدین اور دنیا کی ہر شے سے زیادہ مجھے محبوب نہ رکھے۔‘‘ یہ تو پیغام بر سے محبت کا تقاضہ ہے تو پیغام کی اہمیت کیا ہوگی؟ یہ بھی ممکن ہے کہ مسلمانوں کے دشمن قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت سے خوب واقف ہوں یہ دیکھنا چاہتے ہوں کہ اُمت مسلمہ میں کتنی جان باقی رہ گئی ہے۔ وہ یہ امتحان گاہے گاہے کسی نہ کسی شکل میں لیتے رہتے ہیں۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ عالم اسلام پر ایسے حکمران مسلط ہیں جن کو دین وایمان سے کوئی غرض نہیں اور ان کی پوری کوشش ہے کہ مسلمان بھی ان کی طرح نئے خدائوں کے آگے سر جھکا دیں۔ جیسا کہ معمر قزافی اپنی سبز کتاب کو قرآن کریم سے زیادہ اہمیت دیتا تھا۔ تیونس، مصر، شام اور کتنے ہی مسلم ممالک ایسے ہیں جہاں کے حکمران یورپ وامریکا کے سامنے سجدہ ریز ہیں اور ایک سجدے کو گراں سمجھنے والے ہر طاقت کے آگے سر جھکا رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی دہشت گردوں کے ہاتھوں قرآن کریم کی بے حرمتی کا جو تازہ واقعہ ہوا ہے غالباً اس کی اطلاع ایوانوں تک نہیں پہنچی یا پہنچی بھی تو ادراک نہیں ہوا کہ کیا سانحہ ہوگیا۔ ممکن ہے ایک دوسرے سے پوچھتے ہوں کہ یہ ہنگامہ کس بات پر ہورہا ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ حکمرانوں کو قرآن کریم کی حرمت اور تقدس کا علم نہیں
؟۔۔۔۔۔ مسلمانوں کے تو56 سے زیادہ ممالک ہیں اور کیا یہ اُمت مسلمہ کا اجتماعی مسئلہ نہیں ہے اور کون کون اس پر بولا ہے، کس نے امریکا کی مذمت کی ہے؟ لیکن ایسی جرأت کس میں ہے۔ وہ جو امریکا کے سہارے اپنے اپنے ملک میں حکمرانی اور اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں وہ کیا بولیں گے۔ وہ ایک تنظیم اسلامی کانفرنس کے نام سے ہوتی تھی۔ جب بنی تھی تو گمان تھا کہ امت مسلمہ کی نمائندگی کرے گی عرصے سے لاپتا ہے۔ منہ میں گھونگنیاں بھر کے بیٹھنا شاید اسی کو کہتے ہیں۔ لیکن گھونگنیاں بھی کبھی تو حلق سے نیچے اتر جاتی ہوں گی۔ اگر تنظیم اسلامی کانفرنس یا او آئی سی میں کچھ جان ہوتی تو یہ مسلم اقوام متحدہ کا کردار ادا کرسکتی تھی۔ اب تو بڑی طاقتوں کی ’’اقوام متحدہ‘‘ ہی سب کے لیے سب کچھ ہے۔ فیصلہ مسلم ممالک کے خلاف ہو تو بھی مسلم حکمران یہ کہہ کر بے بسی کا اظہار کردیتے ہیں کہ ہم کیا کریں، اقوام متحدہ کا فیصلہ ہے، اس کی خلاف ورزی کیوں کر کی جائے۔ لعنت ہے ایسی بزدلی پر۔ یہ بزدلی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب موت کا خوف غالب آجائے اور زندگی سے محبت ہوجائے، وہ زندگی جو بہرحال ختم ہوتی ہے اور وقت مقررہ سے زیادہ ایک سانس کی بھی گنجائش نہیں۔ لیکن حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ ’’قیامت کے بوریے‘‘ سمیٹیں گے۔ انہیں مرنا ہی نہیں ہے۔ خودکش حملہ آور یقیناً بہت برے لوگ ہیں اور ہرگز کسی تعریف کے مستحق نہیں، بے گناہوں کے قاتل ہیں لیکن یہ تو ماننا پڑے گا کہ اپنے مقصد کی خاطر جان قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے خواہ ان کا مقصد کتنا ہی مذموم قرار دیا جائے۔ جان دینا آسان نہیں ہوتا۔ افغانستان میں امریکی اور ناٹو افواج کے خلاف احتجاج کرنے والے افغان عوام بھی خوب جانتے ہیں کہ انتہائی ظالم فوجوں کے مقابل آرہے ہیں جو جدید ترین اسلحہ رکھتے ہیں۔ پھر بھی جان قربان کررہے ہیں۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں لیکن جس نے زندگی دی ہے اس کی راہ میں قربان کردی جائے تو ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں، اس راہ میں مارے جانے والے زندہ رہتے ہیں اور اپنے ربّ کی طرف سے رزق پاتے ہیں لیکن ہر ایک کو اس کا شعور کہاں۔ میرے سامنے ایک رپورٹ پڑی ہوئی ہے۔ انگریزی میں ہے۔ کہا گیا ہے کہ 2001ء کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ افغانستان میں طالبان، پولیس، فوج، شیعہ، پشتون، ازبک اور ترکمان امریکا کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔ افغانستان میں قابض امریکی فوج کا سب سے بڑا عسکری اڈہ بگرام کئی دن سے محاصرے میں ہے۔ مشتعل افغان کوشش کررہے ہیں کہ اڈے میں گھس کر امریکی کمانڈروں کو باہر کھینچ لائیں۔ افغانستان میں دیگر امریکی فوجی اڈے بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا کے مغرور صدر بارک اوباما نے اپنے فوجیوں کے ہاتھوں قرآن کریم کی بے حرمتی پر معافی مانگی ہے۔ یہ معافی ہرگز نہ مانگی جاتی اگر افغان عوام متحد ہو کر احتجاج نہ کرتے۔ ورنہ تو امریکی فوجیوں نے یہ کام پہلی مرتبہ نہیں کیا۔ گوانتاناموبے میں تو یہ بدبخت قرآن کریم کو فلش میں بہا کر بے بس مسلمان قیدیوں کے جذبہ ایمانی سے کھیلتے رہے ہیں۔ یورپی ممالک نے مقدس ترین ہستی کے کارٹون بنانے پر آج تک معافی کیا کسی شرمندگی تک کا اظہار نہیں کیا کیونکہ وہاں اسلام دشمنوں کا غلبہ ہے اور عالم اسلام نزع کے عالم میں ہے۔ کبھی مسلمانوں کے ایک خلیفہ نے دھمکی دی تھی کہ قرآن کریم کی بے حرمتی کی گئی تو پورے عالم اسلام میں ایک بھی کلیسا اپنی بنیادوں پر کھڑا نہیں رہ سکے گا۔ آج کے حکمرانوں میں یہ دم، خم ہی نہیں۔ بے شمار اندیشے، خوف اور خدشے لاحق ہیں، مفادات اپنی جگہ۔ بھوکوں مر جانے کا خوف۔ یہ خدشہ کہ پابندیاں لگ گئیں تو رزق کون دے گا۔ اب کہاں یاد کہ رازق حقیقی کون ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن دھمکی دیتی ہے کہ ایران سے لین دین کرنے پر پاکستان پر بھی پابندیاں لگا دیں تو اس کی معیشت تباہ ہو جائے گی جو پہلے ہی اچھی نہیں ہے۔ اتنا ہی سوچ لیا جائے کہ برسوں تک امریکا کی غلامی کے باوجود کیا حاصل ہوا، یہ تباہ حال معیشت، تخریب کاری، دھماکے، ڈرون حملےوغیرہ۔ اس سے زیادہ اور کیا ہوگا جو اب ہورہا ہے۔ کیا اللہ اپنے بندوں کو کافی نہیں اور کیا وہ آج بھی اپنی ہوائوں کو تیز تر چلنے اور سمندروں کو ساحلوں پر چڑھ جانے کا حکم نہیں دے سکتا۔ وہ قرآن کریم جس کی بے حرمتی اسلام دشمن کررہے ہیں، کبھی اسے کھول کر دیکھیں تو یہ تسلی ملے گی کہ اگر اللہ کی اطاعت کرو گے تو آسمان سے رزق برسے گا اور زمین سے اُبلے گا۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ’’جانتا ہوں ثو اب طاعت وزہد۔ پر طبیعت ادھر نہیں آتی۔‘‘ طبیعت تو کہیں اور کسی اور پر آگئی ہے۔ ہمارے حکمران امریکا کے اشاروں پر چلنے کو ہی حکمت سمجھتے ہیں۔
بقول حضرت عزیز جبران انصاری:
بہ نام دور اندیشی کھلائے کیسے کیسے گُل
حماقت کے سجے ہیں ہر طرف بازار اب کے بھی
(کہیں یہ نام حیران نہ کر دیاجائے) ہمیں گمان ہے کہ استاد کا اشارہ حکمرانوں کی طرف نہیں ہوگا کیونکہ اب بات اشارے، کنایے سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ صحافیوں کی ایک تقریب میں ہم نے ایک عمر رسیدہ صحافی کی اشاروں کنایوں میں بات کرنے پر کہہ دیا کہ اب آپ کی عمر اشارے کرنے کی نہیں رہی۔ برا مان گئے۔ کہنے لگے، بدگمانی دور کرلیں، ابھی یہ مرحلہ نہیں آیا۔ حالانکہ ایک عمر ایسی آجاتی ہے جب انسان کا حال یہ ہوتا ہے کہ ’’گو ہاتھ کو جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے۔‘‘ اب اس کیفیت میں تو آنکھوں سے اشارہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال پاکستان ہی کیا تقریباً تمام مسلم ممالک کے ایوانوں میں حماقت کے جمعہ بازار سجے ہوئے ہیں اور ضروری نہیں کہ یہ بازار صرف جمعہ کو لگتے ہوں۔ ہمارے علاقہ میں تو اتوار کو لگنے والا بازار بھی جمعہ بازار کہلاتا ہے۔ اب افغان عوام تو جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور امریکا کے وائسرائے جو صدر افغانستان جناب حامد کرزئی کہلاتے ہیں، اپنے عوام کو مشورہ دے رہے ہیں کہ بس بہت ہوگیا، اب ٹھنڈے ہو کر بیٹھ جائو ورنہ افغانستان کے دشمن اس اشتعال سے فائدہ اٹھا لیں گے۔ کوئی پوچھے کہ افغانستان کے دشمن کون ہیں؟ کیا یہ وہی نہیں جو افغانوں کی خودی، افغانستان کی سالمیت اور آزادی کو پامال کرکے گزشتہ 10 سال سے قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اورجنہوں نے آپ کو بھی کابل کے محدود سے علاقہ میں قبضہ دے رکھا ہے کہ بس یہیں تک رہنا۔ مگر اب تو خود یہ قابض صلیبی اپنے قلعہ بند اڈوں سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں کر پارہے۔ برطانیہ نے نکل بھاگنے کی تیاریاں کرلی ہیں۔ افغانستان کے حالات کا تجزیہ کرنے والی ٹیم کی رپورٹ یہ ہے کہ ناٹو اور امریکی فوجیوں کو یہ نہیں معلوم کہ وہ افغان طالبان کے ہاتھوں مارے جائیں گے یا افغان پولیس اور فوج ہی میں سے کوئی انہیں نشانہ بنائے گا۔ افغان پولیس اور فوج کے ایسے اہلکاروں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جن کی بندوقوں کا رخ امریکی فوجیوں کی طرف ہوگیا ہے جنہوں نے ان کی تربیت کی تھی۔ ویسے پیدائشی جنگجو افغانوں کو فوجی تربیت دینا بھی ایک اچھا مذاق ہے۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ امریکی اور ناٹو فوجی افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور پُرپیچ وادیوں میں لڑنے کے لیے افغانوں سے تربیت حاصل کرتے اور کچھ نہیں تو روسی فوجیوں ہی سے سبق لے لیتے۔ افغانستان میں فوجی افسروں، پولیس اہلکاروں اور استادوں تک نے قرآن کریم کی بے حرمتی پر امریکیوں کو قتل کرکے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے افغان مشن کے سربراہ بان کوئش نے افغانوں کے احتجاج کو جائز قرار دیتے ہوئے اتحادی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اُدھر قرآن کریم کی بے حرمتی پر گوانتاناموبے کے امریکی عقوبت خانے کے قیدیوں نے بھوک ہڑتال کردی ہے۔ اوباما صرف معافی مانگ کر تلافی کرنا چاہتے ہیں مگر کس کس بات کی تلافی کریں گے۔ امریکیوں کو بغداد کی ابوغرائب جیل کے واقعات تو یاد ہوں گے۔ گزشتہ جمعرات کو بھی امریکی تربیت یافتہ افغان فوجیوں نے دو امریکی مار دیے۔ یہ کام اگر عراق میں ہوتا تو کب کی امریکا سے نجات مل جاتی مگر وہاں تو شیعوں اور سنیوں کو آپس میں لڑا دیا گیا۔ امریکی صدر فرما رہے ہیں کہ ہم تو طے شدہ وقت پر نکل جائیں گے مگر پھر افغانوں کو اپنے ملک کی حفاظت خود کرنا ہوگی۔ شاید اکتوبر 2001ء سے پہلے امریکی ہی افغانستان کی حفاظت کررہے تھے۔ علامہ اقبال نے ابلیس کی مجلس شوریٰ کا حوالہ دیا ہے جس میں ابلیس کہتا ہے کہ
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو
صلیبی حملہ آوروں نے اس ابلیسی مشورے پر عمل کرکے ملا عمر کو تو کوہ و دمن سے نکلنے پر مجبور کردیا لیکن اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ غیرت دیں کا سبق دینے والی کتاب افغانوں کے پاس ہے اور جب تک یہ ہے کوئی نہ کوئی ملا پیدا ہوتا رہے گا۔ ایک عام فوجی، پولیس اہلکار، کوئی استاد یا عام افغانی بھی غیرت دیں کا مظاہرہ کرتا رہے گا۔