Search This Blog
Friday, 24 August 2012
Wednesday, 22 August 2012
EID- DAURE PUR ASHOD KA MUSALMAN
عید:دور ِ پُرآ شوب کا مسلماں
کہیں نیم جا ں وہ کہیں بے اَماں
ڈاکٹرغطریف شہبازندوی
کہیں نیم جا ں وہ کہیں بے اَماں
ڈاکٹرغطریف شہبازندوی
عید
الفطر کے موقع پر خو ں کے آ نسو دلا دینے والے ان مصا ئب و ابتلا ؤں کو
چھوڑ کر ہم اس کالم میں شام کے خو ں آ شام حا لا ت کا مختصر جا ئز ہ لیتے
ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہا ں مسلمان کن نا گفتہ بہ حا لا ت کے تختہ ٔ مشق
بنے ہو ئے ہیں۔ شام (سیریا) کی سرزمین وہ ہے جس کو خود قرآن پاک میں متعد
مقامات پر مقدس وبابرکت قراردیاگیاہے ۔زبان ِرسالت سے جس کے لئے شام کو
لازم پکڑو،شام کے لیے خوش خبری ہواوراسلام کی چھاؤنی جیسے الفاظ آئے ہیں ،
جس کے لیے آ پ ﷺ نے اے اللہ! ہمارے شام میں برکت دے ، کی دعافرمائی ہے
اورجس کی برکت وفضیلت میں اتنی حدیثیں آئی ہیں کہ کسی اورسرزمین کے تقدس
کے بارے میں نہیںآئیں۔وہ شام جہاں سیدنا بلالؓ ، امین ِامت ابوعبیدہ بن
الجراحؓ ،اللہ کی تلوار خالدبن ولیدؓ،کسرائے عرب امیرمعاویہ ؓ ،ام المومنین
ام حبیبہ ؓ،معاذبن جبل ؓ ابودرداء ؓ،سعدبن عبادہ ؓ،ابی بن کعبؓ،اورحضرت
دحیہ کلبی ؓجیسے کبارصحابہ ؓ آسودہ ٔ خاک ہیں،جہاں عمربن عبدالعزیزؒجیسے
خلیفہ ٔ راشد،صلاح الدین ایوبیؒ ؒؒجیسے مجاہدکے علاوہ ابن الصلاحؒ،ذہبی
ؒ،ترمذیؒ ؒؒؒ،ابن کثیرؒ،ابن عساکرؒ،اورنوویؒ اورابن تیمیہؒ جیسے ائمہ ٔ
اعلام کی آرام گاہیں ہیں،وہی شام آج لہولہان ہے اورعالم اسلام پر اس کے
سلسلہ میں بے حسی طاری ہے۔
دوسال
ہونے کو آرہے ہیں جب مارچ 2011 میں شام میں انقلاب کی شروعات ہوئی ۔یہ
انقلاب عالم عرب کے دوسرے ممالک تیونس ،مصراورلیبیامیں آنے والے عوامی
انقلابوںسے بھی inspire ہواتھااورخودسیریامیں
ا س انقلاب کی جڑیں بہت گہری تھیں۔اس کی وجہ 1970سے چلے آرہے اسدخانوادے
کی جابرانہ وآمرانہ سفاک علوی حکومت ہے جوفوج کی مددسے سیریاکے مسلمانوںپر
کسی عفریت کی طرح مسلط ہے۔ واضح رہے کہ شام پر علوی نصیری مسلط ہیں جو
مسلما نو ں کے سواد اعظم کے بدترین دشمن ہیں کیو نکہ یہ ایک غالی فرقہ ہے
جس کو خودراسخ العقیدہ مسلما ن دائرہ اسلام سے خا رج مانتے ہیں ۔ یہ سب لوگ
عرصہ ہائے دراز سے پیشہ ٔ سپہ گری سے وابستہ رہے ہیںاوربیسویں صدی کے
آغاز میں جب عرب دنیانے اپنی پہلی ہمالیائی غلطی بلکہ اسلام کے ساتھ غداری
کی تھی کہ خلافت ِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرکے انگریزوں اور فرانسیسیوں سے
ہاتھ ملالیاتھا،اس وقت اس علوی نصیری فرقہ کو فرانس نے اپنے وسیع مقاصدکے
لیے گودلے لیاتھا ۔اس نے ان کو فوجی تربیت دی اوراکثر یتی مسلما نوںکے خلاف
لڑنے کے لئے تیارکردیاتھا۔اس کے بعدحافظ الاسدجیسے آ مر فوجی جنرل کے
ہاتھ ان کی قیادت آگئی تواس نے نہ صرف ملک کے اقتدار پر قبضہ کرلیابلکہ
شام کے دروبست پر اورزندگی کے ہرشعبہ میں کلیدی عہدوںپر اپنے چہیتوں کو
مسلط کردیا۔
گزشتہ
سال ما رچ میں شروع حکو مت مخا لف مظا ہر ے آغاز میں بالکل پر امن تھے
اوربر سر احتجا ج مظا ہر ین کا مطالبہ جابرانہ ملکی قوانین میں تبدیلی اور
سیاسی نظام میں مثبت تبدیلیاں لائے اور ظالم وجابرصدربشارالاسدکے نظام
کوختم کرنے کا مقصد ظاہرنہیں کیا گیا تھا مگر جب بشارالاسدکی حکومت نے کسی
بھی مطالبہ کوسننے اورماننے سے قطعی انکارکرکے پرامن مظاہرین کا استقبال
گولیوں،توپوںکے دہانوں اور قید وبندسے کیا۔ان کو سیریاکے بدنام زمانہ جیلوں
میںڈال کر شدید ٹارچر و تعذیب کی انتہاکردی تویہ پر امن مظاہرے منظم سیاسی
احتجاج میں بدل گئے اور خاصے دنوں تک دمشق ،حلب ،اریحا، ریف ،غوطہ ،حمص
وغیرہ شہروں میں روزانہ یہ مظاہرے نکلنے لگے ۔ احتجاجیوں نے کئی پلیٹ فارم
منظم کیے ،حقوق انسانی کے گروپ بنے ، انہوں نے باہر کی دنیا سے رابطہ کیا ۔
بشار الاسد اور اس کے ظالم وجابر باپ کرنل حافظ الاسدکے زمانہ سے جو لوگ
اس نظام کے خلاف تھے اور سیریا سے بھاگ کرفرانس ،ترکی اور دوسرے یوروپی
ممالک میں پناہ لئے ہوئے تھے ، انہوں نے فرانس اور ترکی میں اپنے آپ کو
منظم کرنا شروع کردیا۔ سیریائی اپوزیشن پارٹیوں نے احتجاجیوں کی حمایت کی
اور بشارا لاسد کے نظام کے خلاف سیاسی عمل کے لئے زور ڈالنا شروع
کردیا۔انہوںنے کئی محاذبنائے جن میں سب سے بڑے محاذ کے صدربرہان غلیوم
ہیں۔اب انقلاب کانشانہ موجودہ نظام کو ختم کرنااوراس کی جگہ ایک جمہوری
واسلامی سیریاکی تشکیل تھی ۔
سیریامیں
انقلاب کی بڑی وجہ داخلی ہے کہ وہاں 1970سے جب کرنل حافظ الاسدنے فوجی
بغاوت کرکے جمہوری وعوامی حکومت کا تختہ پلٹ دیاتھااورجن لوگوںنے بھی ان کے
خلاف کوئی آواز اٹھائی ان کو سختی سے کچل کررکھ دیاتھاانسانی حقوق بری
طرح پامال ہورہے ہیں ۔ اسی خوںخوارحافظ الاسدنے حماۃ شہرمیں اخوان المسلمون
سے تعلق رکھنے والے انقلابیوںکو بری طرح بمباری کرکے ہلاک کردیاتھا ۔اس کی
خونریزی سے تیں ہزاردین پسندمسلمان شہیدہوئے تھے ۔اس کے بعدسے
سیریاجمہوریت پسندوںاورمذہبی لوگوںکے لیے ایک کھلا قیدخانہ بن گیا۔جولوگ
پابندی سے نماز پڑھتے انٹیلی جنس کے لوگ ان کے پیچھے لگ جاتے ،پریس کی
آزادی سلب کرلی گئی ۔ حلا ت کے دبا ؤ میںآزادخیال صحافی
اوردانشوراورادیب اورعلماء ایک ایک کرکے سیریاکو چھوڑ کر چلے گئے یااسدکے
عقوبت خانوںمیں پوری عمریں گزارکردنیاسے چلے گئے ۔کتنے لوگوںکوپولیس نے پکڑ
ا اور پھر ان کا کوئی پتہ نہیں چل سکا۔
جب
یہ تا زہ انقلاب شروع ہواتو اپنے ڈکٹیٹرباپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بشار
الاسد نے ان نہتے اور غیرمسلح احتجاجیوں کے خلاف ہر شہر میں فوج اتار دی
اور فوج نے راکٹوں، فوجی ہیلی کاپٹروں، توپوں اور ٹینکوں کے ساتھ ان کے گلی
محلوں پر چڑھائی کردی ۔ مختلف شہروں میں بہت سے کمپاؤنڈ، مارکیٹیں اور
محلے اڑادیے گئے ۔ پورے کے پورے محلے قبرستان بنا دیے گئے ۔ بہت سارے
علاقوں، خاص طور پر ریف ِدمشق ،حلب اور غوطہ ،دیرالزور،درعااورادلب جیسے
شہروںمیں یہ وحشیانہ کاروائیاں اب بھی جاری ہیں ۔جس وقت یہ سطریں لکھی
جارہی ہیںحلب اوروسطی دمشق میں سیریاکی سرکاری فوج اورآزادفوج کے
جیالوںمیں معرکہ آرائی جاری ہے۔ روزانہ سودوسوآدمی شہیدکئے جارہے ہیں۔اب
تک ۵۱ ہزار
سے زیادہ بے قصور عوام فوج کے جبر وتشدد کا نشانہ بن چکے ہیں اورا س سے
کئی گناکو جیلوںمیں سڑیاجارہاہے۔ کتنے علماء کو اغوا کر لیا گیا ہے ، کتنوں
کو مارڈ الا گیا ہے اور کتنی ہی مسجدیں زمیں بوس کی جا چکی ہیں، اس کا کو
ئی شما ر نہیں۔ شام کے مظلوم عوام اپنا دوسرا رمضان ان ناگفتہ بہ حالات میں
گزار رہے ہیں،جب حلب کا فوجی محاصرہ کیا ہوا ہے اور فوجی ہیلی کاپٹروں سے
اس پر بمباری جاری ہے۔ لوگوں کو کھانے پینے کے سامان کی قلت ہے ،دواعلاج
دستیاب نہیں ،بڑے پیمانے پر نوجوانوںاورلڑکوںکی بے محابا گرفتاریاں مسلسل
جاری ہیں۔شورش زدہ علاقوںکی لائٹ کاٹ دی جاتی ہے ،ان کی پانی کی سپلائی روک
دی جاتی ہے ،غرض وہ انہتائی شدیدحالات سے دوچارہیں،جس کی تھوڑی سی جھلک
’’الجزیرہ‘‘ کی رپورٹوںاوراس کی سیریافائل (ملف سوریا ) میں دیکھی جاسکتی
ہے ۔ اب ا ندازہ کیاجاسکتاہے کہ ان کی عیدکیسی ہوگی !!
سیریاکی
حکومت نے غیرملکی صحافیوںاورـذرائع ابلاغ پر مکمل طورپر پابندی لگائی ہوئی
ہے اورانہی صحافیوںکو ملک میں داخلہ کی اجازت ملتی ہے جن کو مختلف ممالک
میں اس کے سفارت خانے بھیجتے ہیں،جوظاہرہے کہ وہی خبریں دیتے ہیں جن سے
انقلابیوںکی شبیہ خراب ہو اور حکومت کی امیج بنے ۔غیرملکی ریلیف ورک بھی
نہیں ہونے دیاجارہاہے اورامدادی سامان مستحقوں تک نہیں پہنچ پاتاکیونکہ
شامی سرکاری فوج کے علاوہ حکومت کے مسلح مخبرجوسادے کپڑوںمیں ہوتے
ہیں،ہرجگہ پھیلے ہوئے ہیں اور لوگوں کوخوف زدہ اورہراساں کرنے کاسب سے
بڑاآلہ بنے ہوئے ہیں،جن کوسیریامیں الشبیحہ کہتے ہیں اردومیں ان کو’’کرایہ
کے قاتل‘‘ کہہ سکتے ہیں۔بشارالاسدکابھائی ماہرالاسدسیریائی انٹیلی جنس
کاسربراہ اورانتہائی سفاکانہ طبیعت رکھتاہے ،اس کوشام میں ماہرالجزار(قسائی
)کہتے ہیں۔اس نے نوجوانوںکو قیدکرنے اور ٹارچر کرنے کا رکارڈ قائم کیاہے
اورحقوق انسانی کی وہ خلاف ورزیاں کی ہیں جن پر جنگی جرائم کا مقدمہ
چلایاجاناچاہیے۔
مہینوں
تک سیاسی لڑنے اور پرامن مطالبات کے بعد آخر خود شام کی سرکاری فوج سے
فوجیوں کے بھاگنے اورانقلابیوںمیں شامل ہونے کا عمل شروع ہوااورکرنل ریاض
الاسعدکی قیادت میں الجیش السوری الحر(آزادسیریائی فوج )کی بنیادڈالی گئی
۔شروع میں اس کے اندر صرف چندہزارنفرتھے اب ترکی کی فوجی تربیت اوراسلحہ کی
سپلائی کے باعث یہ آزادفوج بھی بہترپوزیشن میں ہے اورسرکاری فوج سے لوہا
لے رہی ہے مگراس فوج کے پاس اورانقلابی رضاکاروںکے پاس ہلکے پھلکے اسلحے
ہیں ،ان کے پاس نہ بمبارجہازہیں نہ ٹینک اور توپ ،مگرظالم وجابرنظام سے
آزادی حاصل کرنے کا جذبہ ہے جوان کو اپنی جوانیاںلگانے اور جانیں قربانیں
کرنے کے لیے مہمیز کررہا ہے ۔
شامی
مہاجرین کی تعداد ترکی میں سرکاری اعدادوشمارکے مطابق تعدادساٹھ ہزارتک
پہہنچ چکی ہے ۔بشارالاسدنے ریاض الحجاب کو جوان کے پرانے وفادارتھے
،وزیراعظم بنادیاتھا لیکن گزشتہ ہفتہ وہ بشارالاسدکا ساتھ چھوڑکر
انقلابیوںسے مل گئے اورشام سے نکل گئے ہیں ۔ ابھی وہ عمان میں ہیں
اورانہوںنے شامی فوج سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے شہریوںکا قتل عام نہ کریں
اوربشار الاسدکا ساتھ چھوڑکر عوام کا ساتھ دیں۔
سترہ
مہینے کی لگاتارجدوجہدکرنے والے اورایک وحشی فوج سے نبردآزماشام کے ان
انقلابیوںمیں بڑاحصہ ان مذہبی لوگوںکا ہے جواخوان المسلمون کی فکرکے حامل
ہیںیاسلفی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں ۔اس کے علاوہ ایک قلیل تعدادان لوگوںکی
بھی ہے جونیم مذہبی یالبرل ہیں مگرجمہوریت اوراستبدادی نظام سے آزادی
چاہتے ہیں۔ان سترہ مہینوںکے اندر شامی قوم پر قیامت گزرگئی ہے ،وہ ببدترین
عذاب جھیل رہی ہے مگرابھی تک ہزاروں بیٹوںاورفرزندوںکی قربانیاں دے کربھی
اس نے حوصلہ نہیں کھویاہے۔اس سلسلہ میں بدقسمتی سے57 رکن ممالک والی اوآئی
سی اور عرب لیگ عالم اسلام کی دونوںتنظیمیں ان مظلوموںکی کوئی مددکرنے
اورشام کے بحران کاکوئی حل نکالنے میں ناکام رہی ہیں ۔عرب لیگ نے اب سے کئی
مہینے پہلے اپنے دوسومبصرین شام میں تعینات کیے تھے اورحکومت سے اپیل تھی
کہ وہ خون خرابہ بندکردے مگرہزارزبانی دعووںاورعالمی برادری سے کیے گئے
وعدوںکے باوجودحکومت نے اپنے تمام جارحانہ اقدامات جاری رکھے ۔ نتیجہ یہ ہے
کہ کئی بارعرب لیگ نے امن منصوبے پیش کیے مگرحکومت نے سردمہری سے کام
لیااوراپناظلم وجبرترک نہیں کیا۔عالمی قوتوں میں روس اورچین کی ہمدردیاں
شام کو حاصل ہیں کیونکہ دونوںملکوںکے وسیع تجارتی مفادات اس سے جڑے ہوئے
ہیں۔چونکہ برسراقتدار بعث پارٹی کمیونزم کا عربی ورژن ہے ،اس لئے روس سے اس
کی زبردست قربت چلی آرہی ہے ،یہاں کہ 1956سے دونوں میں دفاعی معاہدہ بھی
چلاآرہاہے ۔اسی لئے روس سلامتی کونسل میں اس کے خلاف
ہرقراردادکوویٹوکردیتاہے اوراس نے اس کا اعلان بھی کررکھاہے ۔ یہی وجہ ہے
کہ شام کو ناٹو کارروائی کا خوف نہیں ہے ۔عرب علماء اور ان میں خاص طورپر
شیخ یوسف القرضاوی نے واضح پر اس جابرنظام حکومت کے خلاف فتوی دیاہے اور اس
نظام کو بیخ وبن سے اکھاڑپھینکنے کی اورشام کے مظلوم سنی مسلمانوںکی
تائیدوحمایت کی اپیل کی ہے۔ان کے علاوہ شام کے شیخ محمدغسان نجار،شیخ ہشیم
المالح،سلفی جماعت کے شیخ عدنان عرعور،جامع اموی کے سابق خطیب معاذ الخطیب
الحسنی اورنمایاں کردلیڈرسب انقلاب کے حامی ہیں اوراس میں شامل ہو کر ہرطرح
کی قربانیاں دے رہے ہیں ۔نیز دنیاکے مختلف ممالک میں سیریائی سفارت کاروں
نے بھی اپنی حکومت سے انحراف شروع کردیا ہے۔
اقوام
متحدہ اوردوسرے عالمی ادارے بھی اس محاذپر ناکام ثابت ہوئے ہیں ۔یواین
اوکے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کو اقوام متحدہ نے اپناسفیربناکرخصوصی
مشن پر سیریابھیجاتھا ۔ان کا مشن سیریامیں امن کا قیام ،سیاسی اصلاحات میں
تیزی لانااورحکومت کواس پر راضی کرنا تھا کہ وہ فوج کوشہروںاورآبادیوںسے
ہٹاکرواپس بیرکوںمیں بھیجے اورانقلابیوںکے ساتھ گفت وشنیدکرے مگربالآخریہ
ان کا مشن بھی سیریا حکومت کی ہٹ دھرمی کے آگے فیل ہوگیا۔سچی بات گرچہ تلخ
تویہ ہے کہ امریکہ اورناٹووغیرہ اگرکوئی کاروائی سیریاکے خلاف کرتے ہیں تو
اس کے خلاف سب سے زیادہ غل بھی مسلمان اورعرب ہی مچائیںگے اورہنگامہ کریں
گے کہ صلیبی دنیاایک اورمسلم ملک پر چڑھ دوڑی مگر وہ خوداپناگھردرست کرنے
کی کوشش نہیں کرتے ،اورالمیہ یہ ہے کہ ہم ہروقت مغرب کو کوستے کاٹتے بھی
ہیںاور اپنے مسائل کے حل کے لئے بھی مغربی دنیاکی طرف ہی دیکھتے ہیں!ہفتہ
عشرہ قبل مکہ میں تنظیم اسلامی کانفرنس کے وزراء خارجہ کی چوٹی کانفرنس
ہوئی ،اس کے صدرنے پہلے ہی یہ
عندیہ دیا کہ سیریاکو تنظیم سے نکالاجاسکتاہے ، فی الحال شام کو او آ ئی
سی سے معطل کیا گیا ہے ۔یادرہے کہ ایک ڈیڑھ ماہ قبل اس کوعرب لیگ سے بھی
نکال دیا گیا ہے ۔امریکہ اوردوسرے مغربی ملکوں نے شام پر اقتصادی پابندی
عائد کررکھی ہیں ،اس کے ساتھ کاروبارکی بندش کے علاوہ درجنوںاشخاص کے اثاثے
بھی منجمدکردئے ہیں اور ان پر سفرکرنے پر بھی پابندی ہے ۔امریکہ نے تنظیم
اسلامی کانفرنس پر زوردیا کہ وہ شام میں فوجی مداخلت کرے ۔واقعہ یہ ہے کہ
ایک مسلم دشمن قوت کے منہ سے ہی سہی ، یہ ایک صحیح مشورہ ہے اورمسلم ملکوں
کو بہت پہلے ہی یہ قدم اٹھالیناچاہیے تھامگرمسلمانان عالم کی قیادتوںکا
جورخ ہے اس سے نہیں لگتاکہ وہ کوئی ٹھوس قدم اٹھاسکیںگے ۔
لیبیامیں
انقلاب اسی طرح رونماہواتھا کہ عوام نے اقتداروقت کے خلاف ہتھیاراٹھالئے
اورمحض چندمہینے میں قذافی کا خاتمہ کردیا۔ سیریا میں یہ تجربہ اس لئے نہیں
دہرایاجاسکتاکہ لیبیادنیامیں تن تنہاپڑگیاتھااورآس پاس کے کسی ملک نے اس
کی حمایت نہیں کی تھی جب کہ مشرق وسطیٰ میں سیریا،ایران اورحزب اللہ کی ایک
تکون بن گئی ہے جس پر سوائے کف افسوس ملنے کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا
۔اوریہ محورہم مسلک بھی ہے ۔ان کے مقابلے میں سیریاکے اکثریتی مسلما نو ں
کی بڑی نازک پوزیشن ہے ۔ وہ سچ مچ بے یار ومددگارہیں،مغربی دنیاان کی
مددنہیں کررہی ،اقوام متحدہ اورحقوق انسانی کے دوسرے ادارے ان کے لئے زبانی
جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھتے ۔پڑوسی عرب ممالک منافق حکمرانوںکے قبضہ میں
ہیں،جو پون صدی سے چلے آرہے مشرق وسطیٰ کے ناسور یعنی مسئلہ فلسطین کو حل
نہ کراسکے توان سے سیریاکے مسئلہ کے حل کی توقع رکھناخودفریبی کے سواکچھ
نہیں۔البتہ سعودی عرب، قطر اور دوسرے ممالک نے ریلیف پہنچائی ہے اوراخلاقی
طورپر انقلابیوںکی مددکی ہے۔
حیرت
ہوتی ہے کہ ہندوستانی مسلمان جوروایتی طورپر پوری امت مسلمہ کے لئے تڑپتے
ہیں اورہمیشہ امیرمینائی کے اس شعرکے مصداق ثابت ہوئے ہیں ؎
خنجرچلے کہیں پر تڑپتے ہیں ہم امیرؔ سارے جہاں کادردہمارے دلوںمیں ہے
سیریاکے
مظلوم مسلمانوںکے لئے کیوں بے حس بن گئے ہیں ؟ان کے اخبارات وجرائدخاموش
،ان کی ملی تنظیمیں جوہرچھوٹے بڑے مسئلہ پر غل مچانے میں اپناجواب
نہیںرکھتیں وہ بھی خاموش ۔میرااندازہ ہے (کاش کہ یہ انداز ہ غلط ہو!)کہ ان
کے کسی اجلاس اورکسی کانفرنس نے اس لمبی مدت میں سیریاکے مسئلہ
پرانقلابیوںکی حمایت اورجابرحکومت کی مذمت میں کوئی قراردادجاری نہیں کی
۔صرف فقہ اکیڈمی کااستثناء ہے جس نے اپنے علی گڑھ کے سیمنارمیں اس مضمون کی
باضابطہ ایک قرارداد پاس کی تھی ۔اس کے علاوہ مادرعلمی دارالعلوم ندوۃ
العلماء کے عربی رسائل الرائداورالبعث میںشام پر برابرمضامین شائع ہوتے رہے
ہیں۔اردومیںہندوستانی علماء ودانشوروںمیں صرف پروفیسر محسن عثمانی ندوی کی
کئی چھوٹی بڑی تحریریں اس سلسلہ میں شائع ہوئی ہیں اورموقع موقع سے ان کے
مضامین کئی اخبارات ورسائل میں آئے ہیں اورانہوںنے اپناخون جگرصفحہ قرطاس
پر انڈیلاہے ۔ان کے علاوہ بالکل سناٹاہے اورہزاروںعلماء ودانشوروںکی
بھیڑمیں کوئی نہیں جو ملی غیرت کا ثبوت دے اورمصلحتوںکا دامن چھوڑکرحق کے
دوبول بول سکے ۔یہاں تک کہ وہ تنظیمیں اوروہ لوگ بھی جوخودکو اخوان
المسلمون کاہم خیال بتاتے ہیں،وہ بھی مصلحتوںکے اسیرہیں۔
بدنام
زمانہ مفلو ج شامی صدر بشارالا سدجن کے ہاتھ سے زمین آہستہ آہستہ سرک
رہی ہے۔ ہوش کے ناخن نہیں لے رہے ہیں۔حا لا نکہ اب وہ دن دورنہیں جب ان کے
وحشی خانوادے اوران کے وفاداروںکا وہی حشر ہو گا جو حسنی مبا رک ،قذافی ،بن
علی، صالح جیسے جا بر حکمرا نو ں کا ہو ا، شا می صدر کا بھی یوم حساب شروع
ہوگااوران ظالموںکوخوددنیاکے اندرہی اسی حشرسے دوچارہوناہوگاجس سے ان کے
جیسے سینکڑوںجابراورآمردوچارہوچکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ آزادپیشہ مصنف ،مترجم وصحافی اورڈائرکٹرفاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز C-303/3شاہین باغ جامعہ نگرنئی دہلی 110025
ٓای میل : mohammad.ghitreef@gmail.com
ghitreef1@yahoo.com
Sunday, 19 August 2012
EID - TAZA DAM HOJA JAHDE MUSALSAL KE LIYE
عیدالفطر ۔ تازہ دم ہو جا جہد مسلسل کے لئے۔۔۔۔
ایاز الشیخ گلبرگہ
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ۖنے:رمضان میں رکھنے والا روزہ اللہ کی بارگاہ میںپیش ہوگا اور رمضان سفارش و شفاعت کرتے ہوئے کہے گا:اے رب!میں نے اس کو کھانے پینے اور شہوت سے دن بھر روکے رکھا تھا،اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔اس کی تائید کرتے ہوئے قرآن بارگاہِ ایزدی میں عرض کرے گا:اے رب!میں نے اسے رات کے آرام سے روکے رکھا، تو میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما۔ اللہ ان دونوں کی سفارش قبول کرے گا اور اس کو دنیا و آخرت میں بہتر اجر سے نوازے گا۔
چاند رات فرشتوں میں خوشی کے مارے دھوم مچ جاتی ہے اور اللہ رب العزت ان پر جلوہ فرماتے ہوئے دریافت کرتا ہے کہ بتاو، مزدور اپنی مزدوری پور ی کرچکے تو اس کی جزا کیا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں اس کو پوری پوری اجرت ملنی چاہیے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: اے فرشتو! تم گواہ رہو میں نے محمد ۖکے روزہ داروں کو بخش دیا اور ان کے لیے جنت واجب کردی۔ اسی لیے یہ رات لیل الجائزہ انعام کی رات کے نام سے مشہور ہے۔ ایک لمحہ رک کر سوچیں!ہم میں سے کتنے ہیں جو اس رات میں پوری مزدوری ضائع کردیتے ہیں؟حدیث پاک میں آپ ۖ نے ارشاد فرمایا: جو شخص دونوں عیدوں کی راتوں کو شب بیداری کرے گا نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ تو اس بندے کا دل نہیں مرے گا ، جس دن اوروں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: اے فرشتو!تم گواہ رہو، ان کے رمضان کے روزے اور نمازوں کی وجہ سے میں اپنے بندوں سے خوش ہوگیا ہوں اور ان کو بخش دیا ہے۔ اور فرماتا ہے:اے میرے بندو! تم مجھ سے مانگو میں اپنی عزت اور جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس اجتماع میں دنیا وآخرت کی جو کچھ بھلائی مجھ سے مانگو گے میں دوں گا اور تمھارا خصوصی خیال رکھوں گا اور جب تک میری ناراضی سے ڈرتے رہو گے، تمھاری خطاوں اور لغزشوں سے درگزر کرتا رہوں گا اور مجھے اپنی بزرگی اور عزت کی قسم ہے! نہ تمھیں رسوا وذلیل کروں گا اور نہ مجرمین کے سامنے تمھاری رسوائی ہونے دوں گا۔ تم سب کو میںنے معاف کردیا، تم نے مجھے راضی کرنے کی کوشش کی، میں تم سے راضی ہوگیا یہ اعلان اور انعام ِ بخشش سن کر فرشتے جھوم اٹھتے ہیں اور مومنین کی کامیابی پر جشن مناتے ہیں۔
عیدالفطر کا تہوار اس امر پر خوشی کا اظہار ہے کہ ہم نے رمضان المبارک کے دوران اللہ تعالیٰ کی رحمت کی فصل اکٹھی کی ہے۔ اس مبارک مہینے کے دوران جو تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا احساس اور اپنے اوپر ضبط حاصل کیا جاتا ہے، اسے سال کے باقی مہینوں میں برقرار رکھا جائے اور اپنی روزمرہ زندگی میں بھی اسے استعمال میں لایا جائے۔ عید درحقیقت ان لوگوں کی ہے جنہوں نیرمضان المبارک کے روزے رکھے ہیں اور اس ماہ مبارک کی تمام عبادتیں ادا کر کے اپنے دامن مراد کو نیکیوں سے بھر لیا ہے اور امتحان میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ عید ان لوگوں کی نہیں ہے جنہوں نے اس ماہ کو غفلت اور لاپرواہی میں ضائع کر دیا اور امتحان میں ناکام ہو گئے۔ کسی نے سچ کہا ہے : لیس العید لمن لبس الجدید۔۔۔۔نما العید لمن خاف الوعید "عید اس کی نہیں جس نے نئے اور زرق برق لباس پہن لیے،عید اس کی ہے جو اللہ کی وعید سے ڈرگیا۔" یعنی رمضان المبارک کے روزے رکھ کر متقی اور پرہیزگار بن گیا اور ایفائے عہد وذمہ داری کے امتحان میں کامیاب ہوگیا۔عید کا دن وعید کے دن سے مشابہت رکھتا ہے۔ قرآن حکیم کے الفاظ میں: کچھ چہرے اس روز دمک رہے ہوں گے، ہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے اور کچھ چہروں پر اس روز خاک اڑ رہی ہوگی اور کلونس چھائی ہوئی ہوگی (سورہ عبس)۔ تروتازہ اور خوش باش چہروں والے ہی تو ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے صیام و قیام کی نعمت مکمل فرمائی۔ لہذا اس دن وہ خوش ہوں گے اور یقینا ان کا حق ہے کہ وہ خوش ہوں۔ دوسری طرف وہ چہرے جن پر کلونس چھائی ہوگی، یہی وہ چہرے ہوں گے جنھوں نے اللہ کی نعمت کی قدر نہ کی اور قیام و صیام کے بارے میں اللہ تعالی کے حکم کی پروا نہ کی۔ ان کے لیے عید کا دن وعید کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہماری عید کا یہ روز بے ہودگی، بے مقصدیت اور شہوت پرستی کے لیے آزاد ہوجانے کا دن نہیں ہے، جیساکہ بعض قوموں اور ملکوں کا وتیرا ہے کہ ان کی عید شہوت، اباحیت اور لذت پرستی کا نام ہے۔ مسلمانوں کی عید اللہ کی کبریائی کے اقرار و اظہار اور اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے شروع ہوتی ہے۔ اس کا مقصد اللہ تعالی کے ساتھ تعلق استوار کرنا ہے۔ اس دن کا پہلا عمل اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور دوسرا اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا ہے۔ اللہ کی کبریائی___ تکبیر، ہم مسلمانوں کی عیدوں کی شان ہے۔ یہ تکبیر ___اللہ اکبر، مسلمانوں کا شعار ہے۔ مسلمان روزانہ پانچ وقت اپنی نماز میں اسی عظیم کلمے کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ روزانہ پانچ وقت نماز کے لیے کیا جانے ولا اعلان اذان اسی کلمے سے شروع ہوتی ہے۔ نماز کی اقامت کا آغاز اسی کلمے سے ہوتا ہے۔ جانور کو ذبح کرتے وقت مسلمان اسی کلمے کو ادا کرتا ہے۔ یہ بہت عظیم کلمہ ہے___ اللہ اکبر! اللہ اکبر ہر موقع پر مسلمانوں کا شعار ہوتا ہے۔ مسلمان میدانِ جہاد کے معرکے میں داخل ہو تو اللہ اکبر ___ یہ نعرئہ تکبیر دشمن کے دل میں خوف و دہشت طاری کر دیتا ہے۔ اللہ اکبر عید کی شان ہے۔ اسی لیے یہ تکبیر پڑھتے ہوئے عیدگاہ کی طرف جائو: اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ ، واللہ اکبر، اللہ اکبر، وللہ الحمد۔
عید کے معنی ہر پابندی سے آزاد ہونا نہیں ہے۔ عید اللہ تعالی کے ساتھ جڑے تعلق کو توڑ دینے کا نام نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کا رویہ بن گیا ہے کہ رمضان ختم ہوا تو مسجد کے ساتھ تعلق بھی ختم ہوگیا۔ عبادت اور اطاعت کے کاموں سے بھی ہاتھ روک لیا۔ نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص رمضان کو معبود مان کر روزہ رکھتا اور عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہو کہ رمضان ختم ہوگیا، اور جو اللہ کو معبود مان کر اس کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ و جاوید ہے، اسے کبھی فنانہیں! جس شخص کے روزے اور قیام اللہ کی بارگاہ میں قبولیت پا چکے ہوں، اس کی بھی تو کوئی علامت ہوگی! اس کی علامت یہ ہے کہ اس صیام و قیام کے اثرات ہم اس شخص کی زندگی میں رمضان کے بعد بھی دیکھ سکیں گے۔اللہ تعالی سورہ محمد ۖ میں فرماتے ہیں: ''اور وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے، اور انھیں ان کے حصے کا تقوی عطا فرماتا ہے''۔ نیکی قبول ہوجانے کی علامت اس کے بعد بھی نیکی کا جاری رہنا ہے، اور برائی کی سزا کی علامت اس کے بعد بھی برائی کرتے رہنا ہے۔ لہذاللہ اور اسکے حبیب ۖکے ساتھ دائمی تعلق استوار کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: تم جہاں بھی ہو، اللہ سے ڈرتے رہو۔
امت محمدیہ ۖ کا ایک امتیاز ہے، اور اس امتیاز کی کلید ایمان ہے۔ اسے ایمان کے ذریعے متحرک کیجیے، یہ حرکت میں آجائے گی۔ ایمان کے ذریعے اس کی قیادت
کیجیے، یہ پیچھے چلنے کے لیے تیار ہوجائے گی۔ اسے اللہ تعالی پر ایمان کے جذبات کے ذریعے حرکت دی جائے تو ایک بہترین امت تیار ہوسکتی ہے۔ یہ بڑی بڑی رکاوٹوں کو عبور کرلیتی ہے، مشکل ترین اہداف کو حاصل کرلیتی ہے، اور بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتی ہے۔ یہ خالد بن ولید، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی کا دور واپس لاسکتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے اس امت کے دشمن خائف ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ امت اسلام کی بنیاد پر متحرک نہ ہوجائے۔
آج ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جو فتنوں کا دور ہے، آزمایشوں کا دور ہے۔ نبی کریم ۖنے ہمیں اس دور سے ڈرایا ہے جس میں فتنے سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں ماریں گے، جن کی وجہ سے لوگ اپنے عقائد سے گمراہ ہوجائیں گے۔ رسول اللہ ۖفرماتے ہیں: لوگ ان فتنوں کے کاموں کی طرف اس طرح بڑھیں گے جیسے سخت اندھیری رات چھا جاتی ہے۔ آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اور شام کو کافر ہوگا، شام کو ایمان کی حالت میں ہوگا اور صبح کافر ہوگا۔ آدمی دنیا کی بہت تھوڑی قیمت پر اپنے دین کو بیچ دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں جن فتنوں سے ڈرایا گیا ہے ان میں عورتوں کا سرکش ہوجانا، جوانوں کا فسق میں مبتلا ہوجانا، جہاد کا ترک کر دیا جانا، امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل نہ ہونا، بلکہ ان پیمانوں ہی کا بدل جانا، یعنی لوگوں کا اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھنے لگنا بھی شامل ہیں۔اس امت کے لیے ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ قرآن و سنت رسول ۖ ہی ہے، انسانوں کے وضع کردہ قوانین نہیں۔ کتاب و سنت ہی اسے بحرانوں سے نکال سکتے ہیں۔ ہمارے اوپر یہ فرض ہے کہ ہم ان کی طرف واپس آئیں اوران کی ہدایت پر چلیں۔
آج ہمارا عقیدہ، ہمارا دین، ہماری تہذیب، ہمارے مساجد ومدارس، ہماری جان ومال اور عزت وآبرو سب خطرے میں ہیں۔ اسلام دشمن طاقتیں ہر سطح پر مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ آج دنیا میں سب سے سستی چیز مسلمان کی جان ہے۔ خون مسلم کی ارازانی کا ہم برما، عراق، شام، فلسطین، افغانستان ، چیچنیا، صومالیہ، مالی ،آسام اور دنیا کے دیگر خطوں میں دیکھ رہے ہیں۔ غور کریں کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس واسطے ہے کہ مسلمان دین سے دور ہوگئے ہیں۔ ہم میں اتفاق واتحاد نہیں ہے۔ خلافت عثمانیہ کے ختم ہو جانے کے بعد مسلمانوں کا کوئی متحدہ پلیٹ فارم نہیں۔ آج ان کی کوئی اجتماعی فوج اور طاقت نہیں۔ ان میں کوئی رابطہ اور تعاون نہیں۔ سب ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں اور ریوڑ سے الگ ہو جانے والی بکری کی طرح باری باری انسان نما بھیڑ یوں کا شکار ہورہے ہیں۔
اللہ کا وعدہ ہے کہ "و لینصرن اللہ من ینصرہ"، ) اور جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے یقینا اللہ اس کی مدد فرماتا ہے)۔رب العالمین تاکید کے ساتھ فرماتا ہے کہ اگر تم اس کی مدد کروگے وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا؛ اگر معمولی اور مادی نگاہوں سے دیکھا جائے تو ممکن ہے کہ یہ غیر ممکن نظر آئے؛ لیکن بہت سی چیزی بعید از قیاس نظر آتی تھی جو واقع ہوئیں۔دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں نے اللہ پر بھروسہ کیا اور جدوجہد کی اللہ نے ان ظلم سے نجات دی۔ مصر، لیبیا، تیونس، مراقش، ترکی اسکی زندہ مثالیں ہیں۔ کیاکچھ عرصہ قبل تک یہ تصور کرسکتے تھے کہ ساری دنیا کی باطل طاقتوں کی پشن پناہی کے باوجود یہ وہا ں کے مسلمانوں کے عزم اور جہد مسلسل کے سامنے نہ ٹک سکے۔ اور راہ فرار اختیار کرلی اور ذلت کا نمونہ بن گئے۔ بقول شاعر : جہاں پناہ ڈھونڈتے ہیں پناہ ۔۔اسی کو گردش لیل و نہار کہتے ہیں۔
عیدالفظر کا پیغام شوکت و عروج کا پیغام ہے۔ یہ عروج ہمیں صرف رجوع الی الاسلام کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی ہی ہمیں اندھیروں سے نکال کر اجالوں کی طرف لے جاسکتی ہے۔ ہم نے غیروں کی پیروی کی، تقلید کی ، نقالی کی۔ ان تمام نے ہمیں کیا دیا؟ شکست، رسوائی، ندامت، نقصان، اخلاقی فساد اور غلامانہ انتشار کے سوا ہمیں کیا ملا ہے! ہمیں نہ معاشی آسودگی میسر آسکی، نہ سیاسی استحکام نصیب ہوا نہ معاشرتی تعلقات میں بہتری آسکی، اور نہ اخلاقی ترقی ہوئی نہ روحانی رفعت حاصل ہوسکی۔اللہ تعالی تعالی فرماتے ہیں۔''اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا طالب ہوگا تو وہ اس سے ہرگز بھی قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔''
ہمارے پاس اسلامی اصول، ربانی شریعت، محمدی ۖ طریق ہاے کار اور عظیم ورثہ موجود ہے۔ لہذا ہم امیر ہیں اور دوسروں سے ان چیزوں کے معاملے میں بے نیاز ہیں۔ پھر کیوں سب کچھ درآمد کرتے اور بھیک مانگتے پھرتے ہیں؟ ہمیں اپنے قرآن، آسمانی ہدایت اور نبوی ۖ سنت کی طرف پلٹنا چاہیے۔ ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم اللہ کی کتاب اور رسول ۖاللہ کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیں۔ ببانگِ دہل توحید کے عقیدے پر کاربند ہوجائیں۔ اسی طرح مسلمان ہوجائیں جیسے کبھی ہوا کرتے تھے، یعنی حقیقی مسلمان، نہ کہ نام کے مسلمان، یا موروثی مسلمان۔ مسلمانوں کو مستعد و متحرک ہونا چاہیے کہ وہ اپنے دین کے راستے میں اپنا سب کچھ نچھاور کرسکیں، اس دین کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ یہ جدوجہد عزم و ہمت اور ارادوں کی جدوجہد ہوگی۔ جس فریق یا عزم و ارادہ زیادہ قوی ہوگا غلبہ اسی ہوگا، غالب وہی ہے۔ جس کا دل اللہ تعالی پر بھروسے اور توکل سے مالامال ہے، وہی غالب ہے۔ ارشاد ہے: "ِن ینصرم اللہ فلا غالِب"؛ (اگر اللہ تمہاری مدد فرمائے تو تم پر کوئی غالب نہیں آئے گا)۔
عظیم فیصلے اور عظیم ارادے عظیم دنوں میںہی میں ہوتے ہیں۔ اہلِ اسلام کو عید کے موقع پر اسلام کی نصرت کا عزم کرنا چاہیے۔ روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز اپنے اصحاب کی ایک جماعت سے پوچھا: سب سے زیادہ کن لوگوں کا ایمان تمھارے نزدیک عجیب ہوسکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: فرشتوں کا۔ آپ نے فرمایا: وہ کیوں ایمان نہ لائیں گے وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: تو پھر انبیا کا۔ آپ ۖنے فرمایا: وہ کیوں نہ ایمان لائیں گے، جب کہ ان کے اوپر تو وحی نازل ہوتی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: تو پھر ہمارا۔ آپ نے فرمایا: تم کیوں ایمان نہ لاتے، جب کہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں۔ پھر آپ ۖنے فرمایا: سنو! میرے نزدیک سب سے زیادہ عجیب ایمان ان لوگوں کا ہے جو تمھارے بعد آئیں گے اور کتاب کو پڑھ کر ہی ایمان لے آئیں گے۔
اللہ کے رسولۖ کی بشارت ہمارے ساتھ ہیں۔ احساس کمتری سے باہر آئیں۔ اسباب کی دنیا کے سارے وسائل بروئے کار لائیں۔ قرآن وسنت کی روشنی میں علوم اور ٹکنولوجی کو مسخر کریں۔اپنے آپ کو ایمانی اور مادی لحاظ سے طاقتور بنائیں۔ اللہ تعالی ضرور ہماری حالت بدلیں گے، امت مرحوم کودوبارہ عروج نصیب ہوگا۔ساری دنیا دوبارہ امن کا گہوار بنے گی۔ عیدالفطر ہمیں موقعہ فراہم کررہا ہے کہ ہم تجدید عزم کریں اور تازہ دم ہوکر جہد مسلسل کے لئے تیار ہوجائیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسہم (الرعد)ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ربنا اتنا من لدنک رحمت وھیی لنا من امرنا رشدا (الکہف)ترجمہ :خدایا! ہمیں اپنی رحمت خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درست کر دے۔
Mobile: 9845238812
ayazfreelance@gmail.com
Saturday, 18 August 2012
Tuesday, 14 August 2012
15 AUGUST KA JASHN MANEIN KAISE - KRISHN DEV SETHI
۱۵اگست کا جشن منائیں کیسے؟؟ یہ داغ داغ اُجا لا یہ شب گزیدہ سحر کامریڈ کرشن دیوسیٹھی
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کاسفینہ
دنیاہے تری منتظر اے روز مکانات
(اقبال)
15اگست کو غیر ملکی انگریزحکمرانوں کو ہندستان سے گئے ہوئے 65سال بیت چکے ہیں۔ 15 اگست 1947ء کو آزادی کااعلان ہوا تھا۔ لال قعلے پریونین جیک کے بجائے ترنگا جھنڈا لہرایاگیاتھا۔ سفید فام حاکموں کے بجائے سیاہ فام اور گندمی رنگ کے حاکم تخت دہلی پر فروکش ہوئے تھے۔ اس موقع پر خوشی ومسرت کے شادیانے بجائے گئے تھے اور ہر کس وناکس نے سمجھا تھا کہ اب خوشحالی کا دور شروع ہوگیا ہے۔ مصائب وآلام کے دن چلے گئے ہیں۔ اب اپنا راج ہے۔ عوام تمام دکھوں سے نجات پائیںگے۔ اس تاریخی واقعہ کو نصف صدی اور پندرہ سال کاعرصہ گزر چکاہے، اس لئے سوچنے اور غو روفکر کرنے کا موقع ہے کہ ہندوستانی عوام نے جس آزادی کا خواب دیکھاتھا،اس کی تکمیل ہوئی ہے؟
ہندوستانی عوام نے حصول آزادی کے لئے بھر پور قربانیاںدی تھیں، ہزاروں لوگ گولیوں کا نشانہ بنے تھے، سینکڑوں لوگ تختۂ دار پر لٹک گئے تھے، ان گنت لو گوں کو تازیانے لگائے گئے تھے،لاکھوں افراد نے جیل خانوں کی تاریک کوٹھریوں میں زندگیاں کاٹی تھیں۔ کیا اتنی قربانیوں کے بعد ان کے تصور کی آزادی سے ہندستانی عوام ہمکنار ہوئے ہیں؟ ہندستانی عوام نے خواب دیکھاتھا کہ یہ ملک مکمل طورپر آزاد ہوگا، سامراج کے تمام نشانات مٹ جائیںگے، ہندستان کو مکمل سرداری اور خود مختاری حاصل ہوگی، لوٹ کھسوٹ اور استحصال کا خاتمہ ہو جائے گا، بیرونی سامراجی لوٹ کھسوٹ کے علاوہ مقامی گماشتہ سرمایہ داری کی لوٹ کاخاتمہ ہوگااور مزدوروں کو کم از کم ضرورت کے مطابق اُجرت ملے گی، بے روزگاری کاانسداد ہوگا رشوت اور بھرشٹاچار حرف غلط کی طرح مٹ جائے گا، کنبہ پروری اوراقرباء نوازی کا نام ونشان باقی نہیں رہے گا انصاف کا بول با لاہوگا اور بے انصافی ختم ہوجائے گی،جمہوریت قائم ہوگی اور جابرانہ قوانین ختم ہوجائیںگے،فرقہ وارانہ دنگے بند ہوجائیںگے اور قومی یک جہتی کا دور دورہ ہوگا، چھوٹی بڑی قومیتوں کو برابری کا درجہ ملے گا، قومی خوشحالی اور فارغ البالی ہوگی ،انقلاب انگیز تبدیلیا ںواقع ہوںگی اور نیا ہندستان وجود میںآجائے گا۔ آج کے دن غور وخوض کر نے کا موقع ہے کہ 65سال کا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی کیا ہندوستانی عوام کی تمنائیں بر آئی ہیں؟ غور سے دیکھئے تو ایسا کچھ بھی نہیںہواہے۔ صرف حکمران بدلے ہیں۔ سفید فام انگریز حکمران کی جگہ سیاہ فام اور گندمی رنگ کے ہندوستانی حکمران سرکاری مسندوں پربیٹھے ہیں۔ عوام کی حالت بدستور وہی ہے۔ یہ درست ہے کہ براہ راست غیر ملکی اقتدار ختم ہوگیاہے۔ ایک حد تک تک سیاسی آزادی بھی حاصل ہوئی ہے لیکن بنیادی طورپر ہندستان میںنیم آبادیاتی اور نیم جاگیردارانہ نظام قائم ہے جو کہ سامراج پر انحصار رکھتاہے۔ ملک پرعوامی جمہوریت کے بجائے سامراج گماشتہ سرمایہ داری اور جاگیر داری کا راج ہے۔ انتخابات ضرور ہوتے ہیں لیکن عملاً ہر سہ محولہ بالا طبقوں کی حکمرانی اس ملک میں قائم ہے۔ دولت پر ان ہی طبقوں کا قبضہ ہے جس کی وجہ سے مزدور، کسان، کم تنخواہ سرکاری ملازم، غریب عوام بدستور قعر مزلت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی کروڑوں لوگوں کے پاس تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا میسر نہیں ، سرچھپانے کے لئے جھونپڑی دستیاب نہیں، پیٹ بھرنے کے لئے دو وقت کا روکھا سوکھا کھانا میسر نہیں ، جبر و تشدد بدستور جاری ہے، ظالمانہ قوا نین حسب سابق موجو د ہیں، رشوت اور بھرشٹاچر کا دور دورہ ہے، کنبہ پروری بام عروج پر ہے، ساری دولت چند ہاتھوں میں جمع ہے،کروڑوں لوگ بے روزگار ہیں آبادی کی اکثریت غربت کی حد سے نیچے کی زندگی بسرکررہی ہے۔
سوچنے کا مقام ہے کہ ایسا کیوں ہے؟لٹیرے حکمران طبقوں کے ترجمان اس کی غلط تاویلیں بیان کرکے عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ وہ تاویلِ مسائل کو بہانہ بنا کر لوٹ کھسوٹ میںمصروف ہیں اور غریب اور مفلوک الحال عوام کو صبر کی تلقین کررہے ہیں۔ وہ عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے کبھی فرقہ وارانہ تنازعے کھڑے کرتے ہیں،کبھی ذات برادری کے اڑنگے اڑادیتے ہیں۔ کبھی جنگ بازانہ نعرہ بازی کرکے شاد نزم پید اکردیتے ہیں،کبھی جمہوریت کا راگ الاپ کر گمراہی پھیلادیتے ہیں۔ سارے اخبارات ، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور تما م ذرائع نشر واشاعت ان کے قبضے میں ہیں جن کے ذریعے وہ عوام کو اصل مسائل سے روشناس ہونے ہی نہیںدیتے اور ان کی توجہ غلط سمت ڈال کر حقیقی جدوجہد کی طرف مائل ہی نہیںہونے دیتے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سیاسی آزادی کے باوجود معاشی طورپر ملک سامراج خصوصی طورپر امریکی سامراج کے زیر نگیں ہے۔ تجارت اور صنعت پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا قبضہ ہے۔ مالی طورپر ورلڈ بنک بنک انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ وغیرہ سامراجی مالی ا دارے مالیات پر کنٹرو ل کرتے ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائیزیشن کا جزو بن کر ساری صنعت اور زراعت کو سامراجی تحویل میں دے دیاگیاہے، جس سے ظاہرہے کہ ہندستان کی دولت کابڑاحصہ بیرونی سرمایہ داروں اور سامراجیوں کی جیب میں چلا جاتاہے۔ باقی ہندستان کی گماشتہ سرمایہ داری ہڑپ کر جاتی ہے۔ زمینوں پر لینڈ لارڈوں کو بدستور قبضہ ہے جن سے کسان اورکاشت کار مفلوک الحال ہیں۔ سامراجی اشاروں پر چھٹنی اور تخفیف کی جارہی ہے۔ بے روزگاروں کو روزگارمہیا کرنا تودور کی بات ہے۔
جمہوریت برائے نام ہے ۔شہری آزادیاں اور شہری حقوق صرف کتابوں میںدرج ہیں۔ انسانی حقوق پائمال ہورہے ہیں۔ پیدائشی حقوق کے لئے جدوجہد کر رہے عوام کو گولیوں کا نشانہ بناکر مسلح مقابلوں کو نام دیا جاتاہے۔ عوامی جدوجہد کو دبانے کے لئے بھر پور جبرو تشدد سے کام لیا جاتاہے۔ فیڈرل ازم برائے نام ہے۔ اصل میں وحدانی طرز حکومت قائم ہے۔ چھوٹی قومتیوں کو حقوق سے محروم کردیا گیاہے۔ فرقہ وارانہ بلوے روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں۔ عوام کے کسی حصہ کی زندگی محفوظ نہیں۔
یہ سب کچھ کیوں ہے؟ کیونکہ اقتدار پر سامراجیوں، گماشتہ سرمایہ داروں اور لینڈلارڈوں کا قبضہ ہے۔ کسی پارٹی کی بھی حکومت برسر اقتدار آئے،اصل میں اقتدار ان ہی طبقوں کے زیر قبضہ ہے۔ جب تک اقتدار ان طبقوں سے چھین کر محنت کش طبقے اپنے ہاتھوں میں نہیں لیتے تب تک ان کے حق میںکوئی تبدیلی ممکن نہیں ۔ یہ امر اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے قابل ہے۔ ایسی تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب محنت کش طبقاتی تنظیموں میںمنظم ہوکر طبقاتی حقوق کے لئے جدوجہد کریں۔ اس جدوجہد کوانقلابی جدوجہد سے منسلک کریں۔ا نقلابی جدوجہد کے ذریعہ عوامی جمہوری انقلاب لائیں۔ اس کے بغیر کوئی مثبت تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ پارلیمانی راستہ سے نہیں، پارلیمانی راستہ ترک کرکے انقلابی راستہ اختیار کرکے ہی محنت کشوں کو ہندستان میںراج اور اقتدار قائم ہوسکتاہے۔ اس کے قیام سے حقیقی آزادی بھی قائم ہوسکتی ہے۔ لوٹ کھسوٹ کا نظام بھی ختم ہوسکتاہے اور محنت کشوں کے لئے خوشحالی بھی آسکتی ہے۔ اس سے ہندستان کی آزدی کاسنہر اخواب دیکھنے والے سرفروشوں کی تمنائوں اور خوابوں کی تعبیر بھی ہوسکتی ہے۔ لٹیرے حکمران طبقوں کے ترجمانوں نے اپنی کرتوتوں سے ہندستان کو جہنم زار بنا رکھاہے۔ اسے جنت ارضی بنانے کے لئے انقلابی جدوجہد آزادی جمہوری انقلاب کی ضرورت ہے۔ وگرنہ صورت اس شعر کے مطابق رہے گی ع
جو کچھ کہ دیکھا خواب تھاجو سنا افسانہ تھا
فیضؔ نے دپرست ہی کہا ؎
یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تونہیں
یہ و ہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے کہ آج یا کل مل جائے گی کہیں نہ کہیں
krishandevsethi@gmail.com
|
Monday, 13 August 2012
OIC KI BEDILANA KOSHISH
او آئی سی کی بے دلانہ کوشش
اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے میانمار میں فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام پر او آئی سی کا ہنگامی اجلاس جدہ میں ہوا جس میں میانمار جنرل یونین کے سربراہ ڈاکٹر وقارالدین دھاڑیں مار کر روتے رہے۔ ڈاکٹر وقار نے او آئی سی سے میانمار میں مسلمانوں کی مدد کرنے کی اپیل کی۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اکمل الدین اوگلو نے کہا ہے کہ اجلاس میں میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام پر فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کیلئے میانمار کی حکومت سے جلد رابطہ کیا جائیگا۔ او آئی سی نے میانمار کی صورتحال پر وزارتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ بھی کیا جبکہ مسلمانوں کے قتل عام پر عالمی برادری کی خاموشی پر برہمی کا اظہار کیا۔ او آئی سی نے بنگلہ دیش سے پناہ گزینوں کے بارے میں موقف تبدیل کرنے کی بھی سفارش کی۔
برما کے مسلمانوں پر عرصہ حیات صدیوں سے تنگ ہے‘ تاہم ان پر ڈھائے جانیوالے مظالم میں چند دہائیوں سے اضافہ ہو گیا۔ خصوصی طور پر روہنگیا مسلمان شدید متاثر ہوتے رہے جو بنگلہ دیش سے متصل صوبہ اراکان کے باسی ہیں۔ اراکان کا پرانا نام روہنگ تھا‘ اسی مناسبت سے یہ لوگ روہنگیا کہلاتے ہیں۔ مصدقہ رپورٹس کے مطابق 1984ءکے بدنام زمانہ قانونِ شہریت کی رو سے روہنگیا مسلمانوں کا حق شہریت ختم کردیا گیا‘ انکے اندرون بیرون ممالک نقل و حرکت پر پابندی ہے۔ وہ آزادی سے ایک سے دوسری بستی بھی نہیں جا سکتے۔ فوج اور حکومت ان سے غلاموں جیسا برتاﺅ کرتی ہے۔ انکی جبری ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔ 25 لاکھ کے قریب ان مسلمانوں پر سرکاری اداروں حتٰی کہ نجی اداروں تک میں ملازمتوں کے دروازے بند ہیں۔ ان پر بدھ مت کے پیروکار‘ فوج اور پولیس رواں سال مئی میں قہر بن کر اس وقت ٹوٹی جب ایک بدھ لڑکی نے اسلام قبول کیا۔ شدت پسند بدھوں نے اسے قتل کرکے مسلمانوں پر الزام لگایا اور مسلم کش فسادات کا سلسلہ طویل ہوتا گیا۔ پہلا حملہ ایک بس پر کیا گیا‘ جس میں سے تبلیغی جماعت کے دس کارکنوں کو نکال کر قتل کردیا گیا۔ اسکے بعد سے اب تک 20 ہزار برمی مسلمانوں کو بچوں اور خواتین سمیت قتل کیا گیا ہے۔ بعض کو جلتی آگ میں پھینک دیا گیا‘ مظلوم مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں تو شیخ مجیب کی صاحبزادی حسینہ واجد کا بنگلہ دیش ان کو واپس مقتل میں دھکیل دیتا ہے۔ میانمار حکومت نے مقامی اور غیرملکی صحافیوں کو شورش زدہ علاقے سے نکال دیا ہے تاکہ مسلمانوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم دنیا کی نظروں سے اوجھل رہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کیخلاف مظالم کی تازہ لہر تین ماہ سے جاری ہے‘ اس کا عالم اسلام کی نمائندہ تنظیم کو فوری طور پر ایکشن لینا چاہیے تھا جبکہ اسکے ضمیر کو میانمار جنرل یونین کے سربراہ وقارالدین نے چلا چلا کر جھنجوڑا تو اس نے میانمار (برما) میں مسلمانوں کے قتل عام پر فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اکمل الدین اوگلو نے ”نوید“ سنائی ہے کہ یہ مشن بھیجنے کیلئے جلد رابطہ کیا جائیگا۔ برمی حکومت جو اراکان میں مقامی صحافیوں کی موجودگی بھی برداشت نہیں کر سکتی‘ وہ او آئی سی کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کو کیسے آنے دیگی؟ معذرت سے کہنا پڑتا ہے کہ او آئی سی کی یہ بے دلانہ سی کوشش ہے‘ جو ثمرآور نہیں ہو سکتی۔
او آئی سی کے حوالے سے ایک تاثر یہ ہے کہ وہ ایک غیرفعال ادارہ ہے‘ دنیا بھر میں مسلمانوں پر توڑے جانیوالے مظالم پر اسکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ متعدد بار اسکی تنظیم نو کے حوالے سے گفتگو چلی لیکن چونکہ اس پر امریکہ نواز ممالک کی اجارہ داری ہے‘ لہٰذا اس سے کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آسکی۔ فلسطین‘ مقبوضہ ‘ افغانستان‘ عراق اور چیچنیا کے مسلمانوں پر کونسا ستم ہے جو نہیں ٹوٹا۔ استعماری قوتوں نے لیبیا پر کس طرح یلغار کی‘ لیکن او آئی سی خوابِ غفلت سے نہ جاگی‘ مسلمانوں کی زبوں حالی پر ہر مسلمان اشکبار ہے لیکن انکی نمائندہ تنظیم خوابیدہ ہے۔ بہزاد لکھنوی نے شاید آج کیلئے ہی کئی دہائیوں قبل کہا تھا۔
اس دور میں اے دست زبوں حالی مسلم
دیکھی نہیں جاتی ہے مگر دیکھ رہا ہوں
ہر چند کہ عرب لیگ جیسے ادارے کا حال بھی او آئی سی سے مختلف نہیں‘ تاہم او آئی سی چونکہ عالم اسلام یعنی 57 ممالک کی نمائندہ تنظیم ہے‘ اسکی ذمہ داریاں بھی اتنی ہی بڑی ہیں مگر تاحال وہ اپنا کردار نبھانے میں ناکام ہے۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ کئی معاملات میں اس ادارے نے اسلام دشمن کارروائیوں پر نہ صرف مجرمانہ خاموشی اختیار کی بلکہ مخالفت قوتوں کی حمایت بھی کی۔ درحقیقت او آئی سی کی تشکیل کے اغراض و مقاصد کچھ اور ہی تھے اور یہ امید ہو چلی تھی کہ یورپی یونین‘ آسیان اور شنگھائی تنظیموں جیسی مثالوں کو سامنے رکھ کر ایک ایسا پلیٹ فارم تخلیق کرلیا جائیگا جہاں انکے وسائل کو یکجا کرکے ایک مشترکہ بنک‘ یورو جیسی مشترکہ کرنسی اور نیٹو جیسی مشترکہ فوج قائم کی جائیگی مگر بوجوہ یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔
سعودی فرمانروا‘ خادم حرمین الشریفین نے 27 رمضان المبارک کو سرزمین حجاز پر اسلامی سربراہی کانفرنس طلب کی ہے‘ جس میں یقیناً امہ کو درپیش مسائل پر غور ہو گا۔ موجودہ حالات میں او آئی سی کو مضبوط تر اور فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ مسلم حکمرانوں نے مصلحت کا لبادہ اوڑھے رکھا تو استعماری اور سامراجی قوتیں ہر ملک کا حشر افغانستان‘ عراق اور لیبیا جیسا کر دینگی۔ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی مثالیں سامنے ہیں‘ وہاں ان ممالک کو عالمی تھانیداروں نے انڈونیشیا اور سوڈان کو توڑ کر نئی عیسائی مملکتیں قائم کر دیں جبکہ فلسطین میں یہود اور میں کے مظالم پر عالمی بڑے خاموش ہیں اور آج کی خبر کے مطابق تو اسرائیل یروشلم کو اپنا نشانہ بنانے پر تل گیا ہے۔ مسلم امہ کے پاس وسائل افرادی قوت اور ٹیکنوکریٹس کی کمی نہیں‘ ضرورت وسائل کو یکجا کرکے ایک حکمت عملی ترتیب دینے کی ہے‘ کمی صرف قوت ایمانی کی ہے۔ مکہ میں شب قدر کو ہونیوالی کانفرنس میں او آئی سی سے امہ کے سلگتے مسائل پر قابو پانے کی توقع کی جا رہی ہے۔ او آئی سی نیٹو کی طرز پر تشکیل کردی جائے تو اسکے ذریعے نہ صرف بحرین اور شام میں جاری اندرونی شورش پر قابو پایا جا سکتا ہے‘ بلکہ اور فلسطین کی آزادی اسی طرح یقینی بنائی جا سکتی ہے جس طرح مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کو مغرب نے آزادی دلا دی ۔ پھر کسی ملک میں مسلمانوں پر ظلم ڈھانے کی ایسی جرا¿ت نہیں ہو گی جس طرح میانمار حکومت اراکان کے مسلمانوں پر ڈھا رہی ہے۔ موجودہ حالات میںمضبوط‘ فعال اور بااختیار او آئی سی ہی امہ کے مفادات کا تحفظ کر سکتی ہے۔
INSAN AUR HAIWAN
انسان اورحیوان
عبدالقیوم
انسان اورحیوان میں بہت مماثلتیں ہیں۔ مثلاً سانس لینے کیلئے ہوا کی ضرورت، زندگی کی نشوونما کےلئے پانی اور خوراک کی طلب، دیکھنے کیلئے آنکھیں، سننے کیلئے کان، انسانوں کی طرح نظام انہضام چلنے کیلئے پاﺅں، مذکر اور مو¿نث بچوں کی پیداوار، انکی خوراک کےلئے جسمانی دودھ کی موجودگی اور انکی حفاظت کی فکر وغیرہ لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل عطاءکرکے اشرف المخلوقات بنا دیا۔ اس عقل کے باوجود اگر انسان کا دل پتھر بن جائے اور ضمیر مردہ ہو جائے تو پھر انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیںرہتا۔ اپنے سیاسی، عسکری اور معاشی مفادات کےلئے جب طاقتور قوتیں اپنے ہتھیاروں کے بل بوتے پر انسانوں کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح تلف کر دیتی ہیں تو انسانیت حیوانیت کے بدترین روپ میں سامنے آتی ہے۔
پہلی جنگ عظیم میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے۔ دوسری جنگ عظیم میں عیسائی ہٹلر نے کئی ملین یہودیوں کو گیس چیمبرز میں زندہ بند کرکے جلا دیا اور امریکہ نے جاپان کے 2 ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے ہنستے بستے شہروں کو ایٹم بم مار کر راکھ کر دیا۔
آج سے تقریباً 10 سال قبل امریکہ اور اسکے اتحادی مسلمان دنیا کے گنجان آباد تاریخی شہر بغداد پر حملہ آور ہوئے۔ رات کی جگمگاتی روشنیوں میں آبادیوں، محلوں اور ہوائی اڈوں کو لیزر گائیڈڈ بموں کا نشانہ بنایا گیا، جس سے انسانی اجسام کے پرخچے اڑتے دکھائے گئے لیکن سنگ دل اور مردہ ضمیر انسانیت یہ سب کچھ ٹی وی سکرینوں پر خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہی۔ کسی نے احتجاج کیا نہ سلامتی کونسل میں کوئی آواز اٹھائی۔ ابوغریب اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں قیدیوں کو ننگا کرکے ان پر کتے چھوڑے گئے اور انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ اس کی اگر خبر لیک ہوئی یا معمولی احتجاج سامنے آیا تو وہ بھی مغرب کی طرف سے لیکن پورا ایشیا، آسٹریلیا اور افریقی براعظموں سے اس بربریت کےخلاف کوئی آواز نہ اٹھی، نہ کسی نے سلامتی کونسل میں اس انسانی تضحیک کے خلاف کوئی احتجاج کیا۔ افغانستان میں تو انسان کے ہاتھوں انسان کی تذلیل اس وقت انتہا پر نظر آئی جب انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ جارح افواج کے سپاہی مقامی لوگوں کے مردہ اجسام پر پیشاب کرتے دکھائے گئے۔ مقبوضہ میں عورتوں کی عصمت دری اور پھر قتال اور اجتماعی قبریں ،فلسطین میں ہنستے مسلمانوں پر شطیلہ اور سابرا مہاجر کیمپوں میں مظالم کی داستانیں اور میں بے گناہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی اجتماعی قبروں کا انکشاف یہ سب انسانیت کے نام پر شرمناک دھبے ہیں۔
Aldous Huxley نے 1932ءمیں "Brave new world" کے عنوان سے ایک ناول لکھا تھا جس میں اس چیز پر زور دیا گیا کہ جس طرح اخلاقی اقدار برباد کی جا رہی ہیں اور انسانیت زوال کا شکار ہو رہی ہے۔ ہماری آنیوالی نسلوں کا مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے چونکہ ہم Dehumanize ہو رہے ہیں۔ ناول نگار کے خیال میں مستقبل کی دنیا میں ماں اور باپ کے بغیر ٹیسٹ ٹیوب سے پیدا ہونیوالے بچے بھی عام ہو جائینگے جن کی اپنی کوئی شخصیت نہ ہو گی۔ حکومتیں انکو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیں گے۔
قارئین سوچیں کہ ٹیسٹ ٹیوب جنریشن تو دور کی بات ہے‘ ہماری موجودہ بین الاقوامی قیادت کے دوہرے معیار ہیں اور ہمارے دلوں سے انسانی جذبات بالکل مٹ گئے ہیں اور ہم واقعی Dehumanize ہو چکے ہیں۔ منافقت اس حد تک ہے کہ جانوروں سے پیار کرنیوالے انسانی جانوں کے ضیاع پر ٹس سے مس نہیں ہوتے‘ کتوں اور بلیوں سے پیار کا اظہار کرنیوالے زندہ معصوم انسانوں کا درندوں کی طرح ناشتہ کرتے ہیں اور وہ ایک لمحہ بھر کیلئے بھی اس حیوانیت پر شرمندہ نہیں۔ معافی مانگنا تو دور کی بات ہے‘ ایک اہل دل مغربی دانشور نے اگلے دن لکھا کہ چند ماہ قبل وہ ہاورڈ یونیورسٹی میں ایک کانفرنس میں شمولیت کی غرض سے گیا تو وہاں Cambridge کی ایک گلی کے کنارے کچھ طلباءسیاہ لباس پہنے اس بات پر احتجاج کر رہے تھے کہ یونیورسٹی کی سائنس لیبارٹریوں میں صحت مند بندروں کو مہلک بیماریوں کے جراثیم کا تجربہ کرکے ہلاک کر دینا ایک غیرانسانی فعل ہے، صحت مند جانوروں پر یہ ظلم بند ہونا چاہئے۔
قلم کار لکھتا ہے کہ اتفاقاً یہ 25 مئی 2012ءکا دن تھا، جس دن اقوام متحدہ کی رپورٹ کےمطابق شام کے دارالحکومت دمشق میں مغربی طاقتوں کی مدد سے لڑی جانےوالی خانہ جنگی میں 108 لوگ لقمہ اجل بنے جن میں 34 عورتیں اور آپ یقین کریں 49 بچے بھی شامل تھے۔
ایک طرف جانوروں سے ہمددردیاں اور دوسری طرف انسانوں کےخلاف درندگی، انسان کس چیز پر یقین کرے۔ قلم کار لکھتا ہے کہ وہ بدنصیب مائیں جو ان معصوم بچوں کی ہلاکت کے بعد زندہ رہتی ہیں، کیا کبھی کسی نے انکے جذبات کا اندازہ بھی لگایا ہے۔ خون میں لت پت اپنے معصوم بچوں کی لاشیں اٹھا کر وہ کتنے کرب کا شکار ہوتی ہونگی۔ وہ شاید یہ نہیں چاہتیں کہ اپنے مردہ بچوں کے خون آلود کپڑوں کو دھو ڈالیں چونکہ اس طرح ان کپڑوں سے انکے لخت جگر کے جسم کی مہک کے غائب ہونے کا خطرہ ہے۔
قلم کار لکھتا ہے کہ جب دمشق میں ایک چار سالہ بچی رافان خلیفے کے والدین کی تلاش جاری تھی، عین اس وقت امریکہ کے شہر Taxas میں اس نے یہ پوسٹر درخت پر لٹکا دیکھا۔
Lost Cat, He is white and fluffy with brown and black tabby patches answer to the name sully, 2/ found please call.
”یعنی ایک سفید رنگ کی بھاری بھرکم بلی جو کچھ بھوری اور کچھ کالی بھی ہے ،گم ہوگئی ہے۔ جس کو ملے، اس نمبر پر اطلاع کریں۔ اس کو Sully کہہ کر پکاریں تو میوں کرتی ہے۔“
آپ خود اندازہ کرلیں کہ مسلمانوں کے دنیا میں خاندان اجڑ گئے، کنبے تباہ ہوگئے، بچے بچھڑ گئے، ماں باپ قتل ہوگئے، جائیدادیں ختم ہوگئیں، بوڑھے، مرد، حاملہ عورتیں اور معصوم بچوں کا تکہ بوٹی ہوگیا لیکن انسانیت خاموش ہے۔ ہم سب تماشائی ہیں۔ بغداد ہو یا دمشق، افغانستان ہو یا پاکستان، لیبیا ہو یا برما، مغرب تو کیا مسلمان دنیا کے ضمیر بھی مردہ اور دل پتھر ہوچکے ہیں۔
مغربی قلم کار آخر میں لکھتا ہے کہ صدر اوباما کی بیٹیوں نے ایک کتا بڑے پیار سے رکھا ہوا ہے اگر اس کتے کو ان لڑکیوں کی آنکھوں کے سامنے ذبح کر دیا جائے تو ان پر کیا گزرے گی۔ 20 جولائی کو امریکہ کے ایک سنیما گھر میں 12 بے گناہ امریکی ہلاک ہوئے تو امریکہ کا قومی پرچم سرنگوں ہوگیا اور امریکی صدر مقتولین کے گھر افسوس کیلئے پہنچ گیا لیکن شام اور برما کی قتل و غارت کی اس کو کوئی پرواہ نہیں۔ کیا مسلمانوں کا خون حیوانوں سے بھی سستا ہے؟
اللہ کرے مغربی دنیا کی قیادت دوہرے معیار ختم کر دے اور حیوانیت کی بجائے انسانیت کو ترجیح دے۔ عراق کی جنگ میں حصہ لینے والے ایک امریکی سپاہی Matt Southworth نے 4 اگست 2012ءکو اپنے خیالات کا اظہار ایک مضمون میں کیا ہے جس کا عنوان ہے "Human Dignity. A casualty of War" امریکی سپاہی کے مطابق امریکہ کی افغانستان میں دس سالوں سے لڑی جانیوالی جنگ بالکل بے سود ہے۔ میٹ جو امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں میں بطور تجزیہ نگار کام کرتا رہا ہے‘ لکھتا ہے کہ عراق اور افغانستان میں سینکڑوں ایسے لوگوں کو ہم نے قیدی بنایا جو بالکل بے گناہ تھے۔ ان میں سے بہت سارے اگر امریکی فوج کے حق میں نہیں تو مخالف بھی نہیں تھے۔ بہت سے بزرگ لوگوں کو جنہیں ہمیں انکل کہہ کر عزت دینا چاہیے تھی‘ ان کو ہم نے انسان بھی نہ سمجھا۔ اسی طرح ڈرون حملوں سے ہم نے تباہی مچائی اگر صدر بش نے 12 حملے کئے تو اوباما نے 329 حملے کئے اور 2004ءسے اب تک 2365 لوگ ہلاک ہو گئے جن میں بہت سارے بے گناہ لوگ اس لئے مارے گئے کہ وہ غلط وقت پر غلط جگہ پر تھے۔ امریکی فوجی دانشور جس نے خود عراق جنگ میں حصہ بھی لیا تھا‘ لکھتا ہے:
"We could not see these (civilian) prisoners as uncles, fathers and mentors. Rather we came up with a slew of derogatory names for Iraqis. We treated them as less than people. losing our humanity as we robbed them of theirs"
(ہم ان قیدیوں کو چچا‘ باپ‘ یا بزرگ سمجھنے کے بجائے ان کو برا بھلا کہتے تھے‘ ہم نے ان کو انسان نہ سمجھا اور اپنی انسانیت بالکل اسی طرح کھو دی جیسے انکی انسانیت پر ہم نے ڈاکہ ڈالا۔
Sunday, 12 August 2012
MYNMAR KE MUSALMAN
میانمارکے مسلمان
-دنیا میں مسلمانوں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ ’’مسلمان‘‘ کیوں ہیں۔ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کیوں رکھتے ہیں؟ وہ قرآن کو دستور حیات کیوںکہتے ہیں؟ وہ اپنی تہذیب اور تاریخ سے کیوں وابستہ رہنا چاہتے ہیں؟ ایسا نہ ہوتا تو دنیا کے ہر ملک میں اقلیتیں ہیں اور اکثر جگہوں پر اقلیتیں پھل پھول رہی ہیں۔ مگر مسلمان جہاں اقلیت میں ہیں وہاں ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ فلسطین‘ اسرائیل‘ بوسنیا ہرزیگووینا‘ کشمیر‘ بھارت‘ سری لنکا‘ امریکا‘ یورپ‘ روس‘ چین‘ غرضیکہ اقلیت کی حیثیت سے مسلمانوں کے لیے کہیں جائے پناہ نہیں۔ لیکن میانمار یا برما کے مسلمانوں کا المیہ عجیب ہے۔ اس مسئلے کا المناک ترین پہلو یہ ہے کہ دنیا کیا خود جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو معلوم نہیں کہ میانمار کے مسلمان کون ہیں؟ وہ میانمار میں کہاں آباد ہیں۔ ان کی نسل کشی کب سے ہورہی ہے۔ میانمار کے مسلمان روہنگیا کہلاتے ہیں اور وہ میانمار کے مغربی صوبے اراکان میں آباد ہیں۔ اراکان عربی لفظ ’’رکن‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ستون کے ہیں۔ اراکان کی آبادی 1990ء کے اعداد وشمار کے مطابق 40 لاکھ ہے جس میں 30 لاکھ مسلمان اور باقی دس لاکھ افراد مگھ بدھسٹ اور قبائلی لوگوں پر مشتمل ہیں۔ ارکان کا رقبہ 20 ہزار میل ہے۔ روہنگیا مسلمان عربوں‘ ترکوں‘ ایرانیوں‘ مغلوں‘ پٹھانوں اور بنگالیوں کی نسل سے ہیں اراکان میں مسلمانوں کی آمد 7 ویں صدی میں شروع ہوگئی تھی۔ اس وقت ارکان کا نام روہنگ تھا اور اس بنیاد پر ارکان کے مسلمان آج بھی روہنگیا کہلاتے ہیں۔ اس علاقے میں اسلام تیزی سے پھیلا اور 1430ء میں روہنگیا مسلمانوں نے اپنی سلطنت قائم کرلی۔ جس کے سربراہ شاہ سلیمان تھے۔ لیکن شاہ سلیمان کو برما کے بادشاہ منگی نے اقتدار سے محروم کردیا۔ اس کے بعد علاقے میں مسلمانوں کا اقتدار مختلف مراحل سے گزرا لیکن 1531ء میں زبک شاہ نے ایک بار پھر اراکان میں مسلم سلطنت کی بنیاد رکھی۔ یہ ہر اعتبار سے ایک مثالی سلطنت تھی جس میں بدھ اقلیت کو کامل مذہبی آزادی تھی اور مسلمان بادشاہ مسجدیں بناتے تھے تو اس کے ساتھ بدھوں کی عبادت گاہیں بھی قائم کی جاتی تھیں۔ لیکن 1784ء میں برما کے بادشاہ بودا پھایا نے مسلم سلطنت کا خاتمہ کردیا۔ مساجد سمیت مسلمانوں کی تمام علامتوں کو مٹانے کی ہرممکن کوشش کی گئی۔ سیکڑوں مسلمان شہید کردیے گئے ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے مسلمانوں کے دین‘ ان کی تہذیب اور تاریخ کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی حالیہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو 1949ء سے اب تک میانمار کے مسلمانوں کے خلاف 14 فوجی آپریشن ہوچکے ہیں جن میں 1978ء کا آپریشن اس اعتبار سے بدترین تھا کہ اس کے نتیجے میں 3 لاکھ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ تاہم روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تازہ ترین آپریشن بھی کم ہولناک نہیں اس آپریشن میں 300 مساجد بند کردی گئی ہیں۔ درجنوں بستیاں جلاکر خاکستر کردی گئی ہیں۔ میانمار میں اب تک مجموعی طور پر 20 ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ سیکڑوں مسلمان جیلوں میں قید ہیں جن کی کوئی داد ہے نہ فریاد۔ اس صورتحال میں روہنگیا مسلمان خاموش نہیں بیٹھے رہے۔ 1947ء میں جعفر حسین قوال نے روہنگیا مسلمانوں کی مسلم جدوجہد کی بنیاد رکھی اس تعلق سے روہنگیا مسلمان انہیں آج بھی ’’مجاہد اعظم‘‘ کہتے ہیں۔ جعفر حسین قوال کو قوال اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ مجاہدین کے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے قوالیاں بھی گالیا کرتے تھے۔ تاہم 11 اکتوبر 1950ء کو انہیں گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ روہنگیا مسلمانوں نے پرامن سیاسی جدوجہد کا راستہ بھی طویل مدت تک اختیار کیا لیکن یہ راستہ بھی روہنگیا مسلمانوں کے مسائل کا حل فراہم نہ کرسکا اور آج صورتحال یہ ہے کہ مسلمان میانمار کی سب سے بڑی اقلیت ہیں مگر سیاسی میدان میں کسی سطح پر ان کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کا اصل المیہ کیا ہے۔؟ روہنگیا مسلمانوں کا اصل المیہ یہ ہے کہ وہ 7 ویں صدی سے اراکان میں موجود ہیں مگر میانمار کا قانون کہتا ہے کہ جو لوگ 1823ء کے بعد میانمار میں آئے ہیں انہیں میانمار کا شہری تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا یہودیوں کے اس حق کو تسلیم کرتی ہے کہ وہ ڈھائی ہزار سال بعد آکر فلسطین پر اپنا حق جتا سکتے ہیں اور اس پر قبضہ کرکے ریاست قائم کرسکتے ہیں مگر میانمار کے حکمران میانمار کے مسلمانوں کو ایک صدی کی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ میانمارکے مسلمان نہ میانمار کے شہری ہیں نہ بنگلہ دیش انہیں اپنا شہری تسلیم کرتا ہے۔ میانمار کے حکمرانوں نے مسلمانوں کی زندگی کتنی دشوار بنائی ہوئی ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ میانمار کے مسلمانوں کو ایک تھانے کے حدود سے دوسرے تھانے کی حدود میں جانے کے لیے بھی اجازت نامے کی ضرورت ہے۔ وہ آزادی کے ساتھ شادی بیاہ بھی نہیں کرسکتے۔ انہیں شادی کے لیے درخواست دینی پڑتی ہے جوکہ برسوں متعلقہ سرکاری اہلکاروں کے پاس پڑی رہتی ہے۔ میانمار کے حکمران جب چاہتے ہیں مسلمانوں کو مساجد میں عبادت اور مذہبی تعلیم کے حق سے محروم کردیتے ہیں۔ وہ مساجد اور وقف کی املاک کو جلادیتے ہیں۔ منہدم کردیتے ہیں‘ یا ان پر تالے ڈال دیتے ہیں۔ میانمار بدھسٹوں کا ملک ہے اور بدھ ازم میں چڑیا کو مارنا بھی ’’حرام‘‘ ہے اس لیے کہ بدھ ازم کسی بھی جاندار کو کسی بھی حال میں مارنے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن مسلمانوں کے سلسلے میں بدھ ازم کی ساری تعلیمات غیرموثر ہوگئی ہیں اور مسلمانوں کے حوالے سے میانمار کے حکمرانوں کو مہاتمابدھ کی کوئی تعلیم یاد نہیں آتی۔ میانمار کے حکمران تواتر کے ساتھ کوشش کرتے رہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے حالات اتنے دشوار بنادیے جائیں کہ وہ میانمار چھوڑنے کو زندگی کا سب سے بڑا مقصد بنالیں۔ میانمار کے مسلمان صدیوں بالخصوص گزشتہ ساٹھ سال سے نسل کشی کی زدمیں ہیں مگر ان کا مسئلہ نہ اقوام متحدہ میں موجود ہے۔ نہ اس پر اوآئی سی کے کسی اجلاس میں کبھی کوئی بات ہوئی ہے۔ نہ وہ سارک کے فورم پر کبھی زیر بحث آیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بین الاقومی ذرائع ابلاغ میں بھی کہیں موجود نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ میانمار جیسا معمولی ملک بھی میانمار کے مسلمانوں کے لیے ’’سپرپاور‘‘ بن گیا ہے۔ وہ نہ انسانی حقوق سے متعلق کسی ادارے کے اہلکار کو اپنے یہاں آنے دیتا ہے۔ نہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو میانمار کا ویزا دیا جاتا ہے۔ چنانچہ میانمار کے مسلمان ’’مکمل تنہائی‘‘ میں زندگی بسرکررہے ہیں۔ انسان دکھ اور تکلیف سے نہیں مرتا مگر ناامیدی اسے چار دن میں ہلاک کردیتی اور امت مسلمہ کے حکمرانوں‘ رہنمائوں اور رائے سازوں نے اراکان کے مسلمانوں کو نظرانداز کرکے ناامیدی کی دلدل میں دھنسنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں میانمار کے مسلمانوں کی نسل کشی کی اطلاعات آئیں تو جماعت اسلامی کے سوا کسی بھی جماعت کو اس پر احتجاج کی توفیق نہیں ہوئی۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ کم وبیش دوہفتے تک اس طرح خاموش رہے جیسے انہیں بھی معلوم نہ ہو۔ معمولی معمولی باتوں پر ’’بریکنگ نیوز‘‘ دینے والوں کو میانمار کے مسلمانوں کی حالت زار پر کوئی نیوز ’’بریک‘‘ کرنے کی توفیق نہ ہوسکی۔ میانمار کے حکمرانوں نے مسلمانوں کے قتل عام کا جرم کیا اور بے شمارلوگوں نے قتل عام پر خاموش رہنے کے جرم کا ارتکاب کیا۔ nn
|
Subscribe to:
Posts (Atom)