جدوجہد
شاہ نواز فاروقی
-روایات میں آیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کے لیے آتشِ نمرود دہکائی جارہی تھی تو فرشتوں نے دیکھا کہ ایک چڑیا چونچ میں پانی بھرکر لاتی ہے اور آگ کے پاس جہاں تک جاسکتی ہے، جاتی ہے اور پانی انڈیل کر مزید پانی لانے کے لیے لوٹ جاتی ہے۔ فرشتوں نے چڑیا سے کہا: ’’تُو کیا سمجھتی ہے تیرے چونچ بھر پانی سے آتشِ نمرود بجھ جائے گی؟‘‘ چڑیا نے کہا: ’’مجھے معلوم ہے کہ میرے چونچ بھر پانی سے آتشِ نمرود نہیں بجھے گی لیکن میں چاہتی ہوں کہ جب آگ بھڑکانے اور آگ بجھانے والوں کی فہرستیں بنیں تو میرا نام صرف آگ بجھانے والوں کی فہرست میں ہو۔‘‘ اس روایت کی سند کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا دشوار ہے، لیکن اس کے بارے میں سو فی صد یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ جدوجہد کی نوعیت کو واضح کرنے کے لیے یہ ایک بہترین مثال ہے۔ اس مثال سے ثابت ہے کہ جدوجہد صحیح نیت اور کامل اخلاص کے ساتھ تواتر سے کی جانے والی ایسی کوشش کو کہتے ہیں جو صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے نتیجے کی پروا کیے بغیر کی جائے۔ انسانی تاریخ میں جدوجہد کی اعلیٰ ترین مثالیں انبیا و مرسلین نے پیش کی ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی۔ لیکن بعض لوگ کم علمی اور کم فہمی کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کی جدوجہد بے نتیجہ رہی کیونکہ ان کی ساڑھے نو سو سال کی جدوجہد کے باوجود چند ہی لوگ ایمان لائے۔ لیکن یہ خیال درست نہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کی جدوجہد پوری طرح کامیاب رہی، کیونکہ آپؑ کی جدوجہد نے واضح اور ثابت کیا کہ قومِ نوح ایک قوم کی حیثیت سے روئے زمین پر زندہ رہنے کے لائق نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کی جدوجہد نے قومِ نوح کے تمام امکانات کو کھنگال ڈالا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی جدوجہد نہ ہوتی تو قوم نوح کے امکانات کیسے واضح ہوتے اور عذاب کے لیے حجت کیسے تمام ہوتی؟ یہ صرف قومِ نوح علیہ السلام کا معاملہ نہیں۔ قومِ عاد اور قومِ ثمود کا بھی یہی معاملہ ہے۔ قومِ لوط علیہ السلام کا بھی یہی قصہ ہے۔ ان قوموں کے لیے آنے والے انبیا کی جدوجہد نے واضح کیا کہ ان قوموں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی فطرتیں مسخ ہوچکی ہیں چنانچہ ان کے ایمان لانے کا کوئی امکان نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد تمام انبیا میں شدید ترین ہے۔ لیکن فرشتے عذاب کے لیے سوال کرتے ہیں تو آپؐ کبھی فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کو علم نہیں کہ یہ کیا کررہے ہیں، کبھی آپؐ فرماتے ہیں کہ ان کی آئندہ نسلیں ضرور ایمان لائیں گی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپؐ کی قوم فطرت کی کجی میں مبتلا نہیں تھی۔ اس کی گمراہی ماحول کے جبر کا نتیجہ تھی۔ ماحول کا جبر ٹوٹا تو اس کی فطرت ِسلیم سامنے آگئی اور ایک گمراہ قوم نے صحابہ کرامؓ کی وہ عظیم الشان جماعت تیار کی جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن یہ کام آپؐ کی بے مثال جدوجہد ہی سے ممکن ہوا۔ جدوجہد کا نتیجہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں نہیں تھا تو کسی اور کے ہاتھ میں کیا ہوگا؟ مطلب یہ کہ نتیجہ اللہ تعالیٰ ہی پیدا فرماتے ہیں، مگر وہ نتیجہ پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کو دیکھتے ہیں، اس کی پشت پر موجود نیت کو ملاحظہ کرتے ہیں، اس جدوجہد میں کارفرما اخلاص کا جائزہ لیتے ہیں، جدوجہد کے لیے کی جانے والی انتھک محنت کو دیکھتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد ان تمام حوالوں سے مثالوں کی مثال ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی جدوجہد کو قیامت تک وسعت عطا کردی اور اللہ تعالیٰ کی عنایت و برکت سے آپؐ کی جدوجہد قیامت تک مؤثر رہے گی، اس کا حسن و جمال کبھی زائل نہ ہوگا۔ انسانی تاریخ میں جدوجہد کی مثالوں کی کمی نہیں۔ ہندوئوں کی تاریخ میں ’’مہا بھارت‘‘ خیر و شر کی معرکہ آرائی کی علامت ہے۔ اس معرکہ آرائی میں ایک جانب پانڈو تھے جو خیر کی علامت تھے اور دوسری طرف کورو تھے جو شر کی علامت تھے۔ کورو کی طاقت زیادہ تھی اور پانڈو کی طاقت کم تھی۔ لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ تھا کہ یہ ایک ہی خاندان کی جنگ تھی۔ کورو اور پانڈو ایک باپ مگر مختلف مائوں کی اولاد تھے اور کورو کے ساتھ خاندان کے دوسرے لوگ بھی تھے۔ چنانچہ پانڈو کے سپہ سالار ارجن نے میدانِ جنگ میں دونوں فوجوں کی صفوں کا معائنہ کیا تو دیکھا کہ دونوں طرف ایک ہی خاندان کے لوگ کھڑے ہیں۔ چنانچہ اس نے ہتھیار رکھ دیے اور کہاکہ میں ’’اقتدار‘‘ کے لیے اپنوں کا خون نہیں بہا سکتا۔ اس موقع پر کرشن نے ایک طویل تقریر کی اور ارجن سے کہا کہ یہ اقتدار کی جنگ نہیں ہے، یہ خیر و شر کا معرکہ ہے، چنانچہ شر کے خلاف حق کی جدوجہد ناگزیر ہے، یہی ہمارا ’’دھرم‘‘ ہے۔ اس نے ارجن کو سمجھایا کہ حق کے سامنے رشتوں ناتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس نے ارجن کو بتایا کہ روح باقی رہنے والی ہے اور جسم فنا ہوجانے والا ہے، اور تمہاری عزیزوں کی محبت دراصل جسم یا ظاہر کی محبت ہے جو ٹھیک نہیں۔ کرشن کی یہ تقریر ہندوئوں کی تاریخ میں گیتا کہلاتی ہے۔ اس تقریر نے ارجن کی بے عملی کو دور کرکے اسے جدوجہد پر آمادہ کردیا اور ہندوئوں کی تاریخ کا سب سے بڑا معرکہ برپا ہوا۔ انگلینڈ کی تاریخ میں ’’کنگ بروس‘‘ جدوجہد کی ایک عمدہ مثال ہے۔ بروس کو پے درپے معرکہ آرائیوں میں بدترین شکست ہوئی اور وہ سلطنت ہی نہیں حوصلہ بھی ہار بیٹھا۔ وہ جان بچانے کے لیے جنگلوں میں نکل گیا اور اس نے ایک غار میں پناہ لی۔ اس کا سب کچھ لٹ چکا تھا۔ اس کی تنہائی اور مایوسی بیکراں تھی، اور اس سے نکلنے کی کوئی صورت اسے نظر نہ آتی تھی۔ ایک دن اچانک بروس نے دیکھا کہ ایک چیونٹی منہ میں غذا کا ریزہ اٹھائے دیوار پر چڑھ رہی ہے مگر وہ زیادہ دور نہ جاسکی اور نیچے گرگئی۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری، اس نے اپنی غذا پھر تلاش کی اور پھر آمادۂ سفر ہوئی۔ لیکن اِس بار بھی قسمت نے یاوری نہ کی۔ ایسا کئی بار ہوا لیکن چیونٹی جدوجہد کرتی رہی اور بالآخر وہ اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوئی۔ اس مشاہدے نے بروس کی قلب ِماہیت کردی۔ اس نے سوچا: ایک چیونٹی اتنی جدوجہد کرسکتی ہے لیکن میں انسان ہوکر یہاں منہ چھپائے بیٹھا ہوں۔ اسے خود پر شرم آئی اور اس نے عزم کرلیا کہ خواہ کچھ بھی ہو، میں جدوجہد جاری رکھوں گا۔ اس عزم کے ساتھ بروس غار سے نکلا۔ اس نے اپنی شکستہ فوج کو جمع کیا، اسے حوصلہ دیا اور بالآخر اپنے دشمنوں کے سامنے جاکھڑا ہوا اور انہیں شکست دے کر اپنی سلطنت واپس لے لی۔ زندگی کے عمومی دائرے میں کسان جدوجہد کی سب سے جامع اور بڑی مثال ہے۔ روایتی کسان زمین کو فصل کے لیے تیار کرتا ہے، اس میں بیج بوتا ہے، بیج کے نمو پانے کا انتظار کرتا ہے، بیج پودا بن جاتا ہے تو وہ اسے سینچتا ہے، کھاد فراہم کرتا ہے، کھیت کو غیر ضروری پودوں سے پاک کرتا ہے تاکہ وہ حقیقی پودوں کی غذا اور پانی پر ہاتھ صاف نہ کرسکیں۔ فصل تیاری کے مراحل میں ہوتی ہے تو کسان کی زندگی ان معنوں میں مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہوتی ہے کہ ذرا سی تیز بارش اس کی فصل تباہ کرسکتی ہے۔ ذرا سی تیز سردی اس کی فصل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ چنانچہ بارش تیز ہونے لگتی ہے تو کسان کانپ کر رہ جاتا ہے، سردی کی شدت بڑھتی ہے تو کسان لرز کر رہ جاتا ہے۔ کام کرنے والے تمام لوگوں کی زندگی میں تعطیل کا دن ہوتا ہے، مگر روایتی کسان کی زندگی میں کوئی دن آرام کا دن نہیں ہوتا۔ اسے کچھ اور نہیں تو اپنے پالتو حیوانات کے کھانے پینے کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح کسان کے لیے جدوجہد طرزِ حیات بن جاتی ہے۔ اسلام میں جدوجہد کی اہمیت یہ ہے کہ وہ معاشی جدوجہد کو بھی عبادت قرار دیتا ہے۔ اسلام میں جدوجہد کا بلند ترین مقام جہادِ اصغر اور جہادِ اکبر ہے۔ جہادِ اصغر خارج کا تزکیہ اور جہادِ اکبر باطن کا تزکیہ ہے۔ جہاد کی ان دونوں صورتوں کے بغیر نہ انسان انسان بنتا ہے، نہ زندگی زندگی کہلانے کی مستحق قرار پاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جدوجہد کی معنویت کیا ہے؟ انسانی زندگی تقدیر اور تدبیر کی رہین منت ہے، لیکن تقدیر کو جاننا دنیا کا مشکل ترین کام ہے، البتہ انسان کی جدوجہد تقدیر کو آشکار کردیتی ہے۔ جدوجہد سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کیا ممکن ہے اور کیا ناممکن ہے؟ جدوجہد کا ایک حاصل یہ ہے کہ جدوجہد سے جب تقدیر آشکار ہوجاتی ہے تو اسے قبول کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ جدوجہد کے بغیر انسان کے لیے تقدیر کو قبول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مثلاً اگر بیمار کے علاج کے لیے ہر ممکن کوشش کرلی جائے اور اس کے بعد بھی مریض صحت یاب نہ ہو بلکہ اس کا انتقال ہوجائے تو اس کی رحلت کو قبول کرنا سہل ہوجاتا ہے۔ جدوجہد انسان کے امکانات کو سامنے لانے کی واحد صورت ہے۔ جدوجہد نہ صرف یہ کہ انسان کے امکانات کو سامنے لاتی ہے بلکہ انہیں مستحکم بنیادوں پر استوار بھی کرتی ہے۔ دنیا کا ہر فن مشق کا طالب ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا شاعر بھی اگر دوچار سال جان بوجھ کر شاعری نہ کرے تو اس کے لیے شاعری دشوار ہوجائے گی۔ دنیا کا سب سے بڑا بلے باز اگر تین ماہ تک کرکٹ نہ کھیلے تو وہ اوسط درجے کے بولر کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی دشواری محسوس کرے گا۔ جدوجہد انسانی کردار کی تشکیل کا واحد ذریعہ ہے۔ صرف جدوجہد کے ذریعے ہی شخصیت اور کردار کا فرق عیاں ہوتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ شخصیت اور کردار میں کیا فرق ہے؟ انسان کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ ہم اپنے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ اور دوسرا یہ کہ ہم اصل میں کیسے ہیں؟ ہم اپنے بارے میں جو رائے رکھتے ہیں وہ شخصیت ہے، اور ہم اصل میں جیسے ہیں وہ ہمارا کردار ہے۔ مثلاً ایک فوجی سمجھتا ہے کہ وہ بہت بہادر ہے، لیکن جب وہ جنگ میں شریک ہوتا ہے تو اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ کافی بزدل ہے۔ جدوجہد کا کمال یہ ہے کہ وہ شخصیت کے غلبے کو ختم کرکے ہمارے کردار کو سامنے لاتی ہے۔ اس طرح جدوجہد ہماری اپنی ذات کی آگہی کا ایک بہت بڑا وسیلہ ہے۔
|