Search This Blog

Sunday, 29 January 2012

حضرت شماس ؓ بن عثمان مخزومی

حضرت شماس ؓ بن عثمان مخزومی

- طالب ہاشمی
 
عثمان بن شرید (بن ہرمی بن عامر بن مخزوم) مخزومی قریش کے کھاتے پیتے لوگوں
میں سے تھا اور رئیسِ مکہ ربیعہ بن عبدِ شمس کا داماد تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے فرزند عطا کیا تو اس نے اس کا نام اپنے ہی نام پر عثمان رکھا، لیکن اس نہالِ تازہ کو خالقِ کائنات نے ایسے حسن وجمال سے نوازا کہ لوگ اس کو شماس (روئے تاباں) کہہ کر پکارنے لگے، یہاں تک کہ کسی کو اس کا اصلی نام یاد ہی نہ رہا۔
شماس کا ابھی عہدِ طفلی تھا کہ شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ماں صفیہ بنتِ ربیعہ پر قیامت ٹوٹ پڑی، لیکن شماسؓ کے ماموں عتبہ بن ربیعہ نے بیوہ بہن اور یتیم بھانجے کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور ان کو عثمان بن شرید کی کمی چنداں محسوس نہ ہونے دی۔ شماس ماموں اور ماں کے زیر سایہ ہی عنفوانِ شباب کو پہنچے۔ شماس کے سیاہ چمکیلے بال، موتیوں جیسے دانت، گورا چٹا رنگ، ستواں ناک، غلافی آنکھیں، کتابی چہرہ، ایسے خدوخال نہیں تھے کہ دیکھنے والوں کو مسحور نہ کردیتے۔ ماں اور ماموں دونوں شماس پر سو جان سے فدا تھے اور انہوں نے ان کو بڑے ناز ونعم سے پالا تھا۔ ایک مرتبہ مکہ میں ایک خوبرو نصرانی (یاآتش پرست) وارد ہوا۔ لوگوں میں اس کے رنگ روپ اور حسنِ صورت کا چرچا پھیلا تو عتبہ نے ایک دن اپنے بھانجے (شماس) کو اس کے ساتھ لاکھڑا کیا اور لوگوں سے کہا کہ ذرا غور سے دیکھو، میرا بھانجا حسن وجمال میں اس اجنبی سے بڑھ کر ہے یا نہیں؟ دونوں کو یکجا دیکھ کر اہلِ مکہ کی آنکھیں کھل گئیں، شماس کے حسن وجمال کے سامنے اجنبی کے حسن وجمال کو کوئی حقیقت ہی نہ تھی۔ بعض روایتوں میں ہے کہ عثمان بن عثمان اسی دن سے شماس کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اس لقب نے اتنی شہرت پائی کہ لوگ ان کے اصل نام کو بھول گئے۔
شماسؓ بھی انیس بیس برس کے پیٹے میں تھے کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت ِحق کا آغاز فرمایا۔ شماس کو اللہ تعالیٰ نے حسنِ صورت کے ساتھ حسنِ سیرت سے بھی نوازا تھا، ان کے کان جونہی دعوت ِتوحید سے آشنا ہوئے انہوں نے کسی تامل کے بغیر اس پر لبیک کہا۔ ماں بھی نہایت نیک بخت خاتون تھیں، وہ بھی اپنے فرزندِ سعید کے ساتھ نعمتِ اسلام سے بہرہ یاب ہوگئیں۔ عتبہ بن ربیعہ نے بہن اور بھانجے کو بہتیرا سمجھایا کہ آبائی مذہب ترک نہ کرو، لیکن وہ دونوں جس جادہ ¿ مستقیم پر گامزن ہوچکے تھے اس سے منہ موڑنا انہوں نے کسی صورت میں گوارا نہ کیا۔
یہ بڑا پُرآشوب زمانہ تھا اور دعوتِ حق قبول کرنا گرداب ِبلا میں پھنسنے کے مترادف تھا۔ مشرکینِ قریش کو کسی مسلمان کا چین سے بیٹھنا گوارا نہ تھا۔ جوں جوں اسلام کی دعوت پھیلتی جاتی تھی ان کی آتشِ غضب اور تیز ہوتی جاتی تھی۔ جور و تعدی کا کوئی حربہ نہ تھا جو انہوں نے اہلِ حق پر نہ آزمایا ہو۔ ان کے دست ِتظلم سے صفیہؓ بنتِ ربیعہ اور شماسؓ بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ جب کفار کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو حبش کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ حضرت شماسؓ بھی اپنی والدہ کو ساتھ لے کر بہت سے دوسرے بلاکشانِ اسلام کی طرح ہجرت کرکے حبش چلے گئے اور کئی سال وہاں مقیم رہ کر غریب الوطنی کی مصیبتیں جھیلتے رہے۔
مہاجرینِ حبشہ میں سے ایک جماعت تو حضرت جعفر طیارؓ بن ابی طالب کے ساتھ غزوہ ¿ خیبر تک حبشہ ہی میں رہے، البتہ ابن اسحاقؒ کی روایت کے مطابق چالیس کے لگ بھگ مسلمان مختلف اوقات میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرتِ الی المدینہ سے پہلے مکہ واپس آگئے۔ ان واپس آنے والوں میں حضرت شماسؓ اور ان کی والدہ بھی تھیں، لیکن مکہ میں ان کو واپس آئے ہوئے زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ ہجرت ِمدینہ کا اذن ہوگیا۔ حضرت شماسؓ اب والدہ کے ہمراہ مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے۔ اس طرح ان کو ذوالہجرتین (دو ہجرتیں کرنے والے) کا شرف حاصل ہوگیا۔
حضرت شماسؓ کو مدینہ منورہ میں حضرت مبشرؓ بن عبدالمنذر انصاری نے اپنا مہمان بنایا۔ ہجرت کے چند ماہ بعد جب سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے مابین مواخاة قائم فرمائی تو حضرت شماسؓ کو غسیل الملائکہ حضرت حنظلہؓ بن ابی عامر انصاری کا اسلامی بھائی بنایا۔
رمضان المبارک 2 ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا تو حضرت شماسؓ ان تین سو تیرہ سرفروشوں میں شامل تھے جو کفر کی مہیب طاغوتی قوت سے محض اللہ کے بھروسے پر بھڑگئے۔ میدانِ جنگ میں ان کے دو حقیقی ماموں عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ مخالف صفوں میں تھے لیکن حضرت شماسؓ کے نزدیک راہِ حق میں دنیوی رشتے ناتے کوئی حقیقت نہیں رکھتے تھے۔ وہ مشرکین کے خلاف اس جوش اور وارفتگی سے لڑے کہ جانبازی کا حق ادا کردیا۔
3 ہجری میں وہ غزوہ احد میں بھی بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ شریک ہوئے اور مردانہ وار دادِ شجاعت دی۔ لڑائی کے دوسرے مرحلے میں ایک اتفاقی غلطی سے مسلمانوں میں انتشار پھیل گیا اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب صرف چند جاں نثار رہ گئے۔ ان جاں نثاروں میں حضرت شماسؓ بھی تھے۔ کفار بار بار رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر نرغہ کرتے تھے اور آپ کے جاں نثار ان کو بزور شمشیر پیچھے ہٹادیتے تھے۔ اپنے آقا ومولا (صلی اللہ علیہ وسلم) کو خطرے میں دیکھ کر حضرت شماسؓ کے جسم میں غضب کی چستی اور قوت آگئی تھی۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں، آگے پیچھے پھر رہے تھے اور ان کی تلوار برقِ بے اماں بن کر کافروں پر گررہی تھی۔ اس وقت وہ دنیا و مافیہا سے بالکل بے خبر تھے۔ دھن تھی تو صرف یہی کہ کوئی مشرک، رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نہ پھٹکنے پائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس طرف نظر اٹھا کر دیکھتے شماسؓ کو سربکف، کفار سے نبرد آزما پاتے۔ انہوں نے اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھال بنا لیا تھا اور کفار کے ہر وار کو بڑھ کر اپنے جسم پر لے لیتے تھے۔ یہاں تک کہ زخموں سے چور چور ہوکر گرگئے۔ لڑائی ختم ہوئی اور شہیدوں اور زخمیوں کی تلاش شروع ہوئی تو شماسؓ اس حالت میں ملے کہ جسم کا کوئی حصہ زخموں سے خالی نہ تھا، لیکن ابھی سانس چل رہی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ انہیں اٹھاکر مدینے لے جاو اور ان کا علاج کرو۔ چنانچہ وہ مدینے لائے گئے جہاں حضرت اُم سلمہ مخزومیہؓ نے ان کی تیمارداری کا فرض انجام دیا، لیکن حضرت شماسؓ کی حالت علاج معالجہ اور تیمارداری کی حد سے گزر چکی تھی۔ صرف ایک رات اور ایک دن زندہ رہے۔ اس دوران میں نہ کچھ کھایا اور نہ پیا، اس کے بعد اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ اس وقت ان کی عمر چونتیس برس کی تھی۔ اولاد میں ایک صاحبزادے عبداللہ اور ایک صاحبزادی اُم حبیب تھیں۔ یہ دونوں لاولد فوت ہوئے۔ اس لیے حضرت شماسؓ کی نسل نہیں چلی۔
حضرت شماسؓ کی شہادت کے بعد ان کی میت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق میدانِ احد میں لائی گئی اور جن خون آلود کپڑوں میں انہوں نے شہادت پائی تھی انہی میں اس شہیدِ راہِ حق کو احد کے گنجِ شہیداں میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ (ایک روایت میں ان کی تدفین بقیع میں بیان کی گئی۔ واللہ اعلم)
سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کا ذکر کرتے وقت فرمایا کرتے تھی: ماوجدت شماس شبہا الاالجُنّتہ یعنی میں شماس کے لیے سپر کے سوا کوئی تشبیہ نہیں پاتا.... ایک روایت میں ”الجُنّتہ“ کے بجائے ”الجُبّتہ“ کا لفظ ہے جس کے معنی ”زرہ“ کے ہیں، یعنی میں شماس کے لیے زرہ کے سوا کوئی تشبیہہ نہیں پاتا۔
حضرت شماسؓ نے اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سپر بنایا یا زرہ، بہرصورت انہوں نے اپنی جان اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کردی۔
یہ حضرت شماسؓ جیسے سرفروش ہی تھے جنہوں نے نخلِ اسلام کو اپنے خون سے سینچا۔ ملتِ اسلامیہ ان جوانمردوں پر تاابد فخر کرتی رہے گی۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہ

پیغمبر انقلاب ﷺ

پیغمبر انقلاب ﷺ

 

- مولانا ڈاکٹر ابوالکلام شیخ
وہی (اللہ) ہے جس نے ناخواندہ لوگوں ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔ یقینا یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔“(الجمعة:2) قرآن کے اولین مخاطب یہی اُمیین تھے، ان ناخواندہ لوگوں میں آپ کی بعثت، اللہ کا عظیم احسان ہے۔ فرمایا: ”بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ یقینا یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے“۔ (آل عمران: 164)
انسانوں کے رشد و ہدایت اور ان کے ظاہر و باطن کی اصلاح کے لیے انہی میں سے ایک فردِ بشر ہی کو اب بھی یہ ذمہ داری سپرد کی گئی، جیسا کہ پہلے بھی تمام انبیا، ورسل بشر ہی آئے تھے، تاکہ قوم کو ان کی زبان اور لب ولہجے میں بآسانی اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچے اور وہ بلاتکلف سمجھ لیں۔
فرمانِ کبریا ہے: ”(اے حبیب) آپ کہہ دیں! کہ اگر زمین پر فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے ہی کو رسول بناکر بھیجتے“۔ (اسرا: 95)
مذکورہ دونوں آیاتِ مبارکہ میں اس رہبراعظم، ہادی امم، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے تین بنیادی مقاصد ذکر ہوئے ہیں: (1) آیات اللہ کی تلاوت، (2) نفوسِ بشر کا تزکیہ، اور (3) کتاب و حکمت کی تعلیم۔
۔ (1) تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ سے پہلے تلاوتِ قرآن مجید کو ذکر کیا گیا کہ یہی تعلیم و تزکیہ کا ذریعہ و سبب ہے۔ بغیر تلاوت کے نہ تعلیم ممکن ہے نہ تزکیہ نفوس۔ اور ساتھ ہی یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ تلاوت کرنے والا اس کا مفہوم سمجھے یا نہ سمجھے، کسی بھی حال میں ثواب سے محروم نہیں، اسی لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت کے اجر و ثواب کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”ایک حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور الف لام میم ایک حرف نہیں بلکہ تین حروف ہیں، ان کی تلاوت پر تیس نیکیاں لکھی جائیں گی۔ بطور مثال قرآن کے جن کلمات کا آپ نے انتخاب فرمایا وہ ”حروفِ مقطعات“ ہیں۔ اس سے واضح ہوا کہ معانی و مطالب سمجھ کر پڑھنے اور ان پر عمل کرنے کا درجہ و ثواب تو بے حد و بے شمار ہے۔ یہ فضیلت صرف تلاوت کی ہے۔
۔ (2) تزکیہ یعنی انسانوں کو اعمال و عقائد کی نجاستوں سے پاک کرنا۔
جب آپ کی بعثت ہوئی اُس وقت پوری دنیا عموماً اور سرزمینِ حجاز میں خصوصاً شرک و کفر، قتل و غارت گری، قمار بازی و شراب نوشی، زنا کاری و بت پرستی جیسے تمام برے کام بطور فخر ان میں رائج تھے۔ 23 سال کے مختصر عرصہ میں آپ نے ایسا انقلاب بپا کردیا کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ وہ لوگ جو مشرک تھے وہ موحد بن گئے، کافر تھے وہ مومن بن گئے، چور ڈاکو تھے وہ محافظ و امین بن گئے، قاتل تھے وہ امن و آشتی کے علم بردار بن گئے، زانی تھے وہ عزت و عصمت کے رکھوالے بن گئے، بات بات لڑ مرنے والے تھے وہ پیکر صبر و حلم بن گئے، ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے وہ اخوت و محبت کے اعلیٰ معیار بن گئے، خودغرض تھے وہ ایثار و قربانی کی مثال بن گئے۔
عقل محوِ حیرت ہے اور دنیا محوِ تماشا کہ عرب کے بدووں کو آپ نے کیسا مہذب انسان بنادیا۔ قرآن کریم کی زبان میں دعوتِ امن و سلامتی سنائی:
”ایمان والو! دینِ اسلام (جو سراپا سلامتی کا ضامن ہے) میں ہمہ تن داخل ہوجاو اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے“۔ (البقرہ: 208)
آپ کی دعوت کو دل و جان سے قبول کرنے والے اس قدر پاکیزہ اور مقدس بن گئے انبیاء کرام کے بعد روئے زمین پر اس گروہ سے زیادہ قدر و منزلت والے نہ پیدا ہوئے نہ ہوسکتے ہیں۔ ان میں اللہ اور اس کے رسول کی سچی عقیدت و محبت رچ بس گئی تھی۔
۔ (3) کتاب و حکمت کی تعلیم: کتاب سے قرآن مجید فرقانِ حمید مراد ہے اور حکمت سے آپ کے اقوال و افعال مراد ہیں۔
زبانِ نبوت سے صادر ہونے والے تمام ارشادات اللہ کے فرامین جیسے ہیں: ”اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں، وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔“ (النجم: 4، 3)
”اس رسول کی جو اطاعت کرے اس نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی، اور جو منہ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بناکر نہیں بھیجا“ (النسا: 80)
اور ارشاد ربانی ہے:
”جسے حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دی گئی، اور نصیحت تو صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں“۔ (البقرہ: 269)

)

Saturday, 28 January 2012

عازمین حج کے انتخاب میں نئی پالیسی کا اعلان
انتخاب میں شفافیت۔ معمر حجاج کو مددگار ساتھی لے جانے کی اجازت
ایاز الشیخ کی خصوصی رپورٹ

بنگلو٢٨ جنوری( یواین این )عازمیں حج کے لئے خوشخبری ہے کہ مرکزی حج کمیٹی نے کچھ اہم فیصلوں کے ذریعہ ان کی مشکلات کو بہت حد تک آسان کردیا ہے۔ پہلے عازم کا نام اگر قرعہ اندازی میں نہیں نکلتا تھا تو آئندہ سال کے لئے انہیں دوبارہ درخواست دینی پڑتی تھی۔ لیکن اب اس کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انکی درخواست خودبخود آئندہ سال اور عدم انتخاب پر اسکے بعد کے سال کی قرعہ اندازی میں شامل ہوجائیگی۔ اگر مستقل تین سال تک درخواست منتخب نہیں ہوتی تو اسکے بعد انکا انتخاب خودبخود ہوجائیگا۔ 

اسکے علاوہ 60 سال سے زیادہ عمر کے عازمین کو اپنے ساتھ ایک مددگار ساتھی لے جانے کی اجازت ہوگی۔ ان فیصلوں سے تمام ریاستی حج کمیٹیوں کو مطلع کیا جائگا اور ان پر عمل آوری ان پر لازم ہوگی۔ 

وذارت خارجہ کے ذرائع نے بتایا کہ مرکزی حج کمیٹی کو ریاستی حج کمیٹیوں کی جانب سے رد عمل کی توقع ہے۔ کچھ دوسرے گروپ اور افراد جن کے مفادات ان فیصلوں سے متاثر ہوجائیں گے کی جانب سے بھی گڑ بڑ پیدا کئے جانے کی توقع ہے۔ ایسے افراد اور گروپس کا اب عازمین کے انتخاب میں کوئی رول نہیں رہیگا۔ نئی پالیسی سے حج ٹور آپریٹز بھی متاثر ہوں گے جنکا انتخاب اکثر معمر عازمین کیا کرتے تھے۔ امید ہے کہ آئندہ حج کمیٹی ایم پی کوٹہ بھی ختم کردیگی۔ تاکہ بدعنوانی کا مکمل خاتمہ ہو۔ 

عازمین حج کمیٹی کے ان فیصلوں سے فائدہ اٹھائیں اور بچولیوں سے بچیں جو یقینی طور پر حج میں منتخب کرانے کا جھانسہ دیکر پیسے اینٹھ لیتے ہیں۔ حج ایک متبرک اور اہم فریضہ ہے جو محظ اللہ کی خوشنودی کے لئے ادا کیا جاتا ہے۔ اگر حج پہ منتخب ہونے کے لئے رشوت کا سہارا لیا جائے تو کیا یہ عبادت کہلائے گی۔ اور کیا اللہ اسے قبول کریگا؟؟ اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے ۔منتخب ہونے کے لئے لیڈران کی چاپلوسی اور انکے دروں کے چکر لگانے کی بجائے اللہ سے دعا کریں۔دل میں سچی آرزور و تمنا ہو تو وقت مقررہ پر اللہ خود انتظام فرما دیں گے اوراگر موت آجائے تو رب کریم انشاء اللہ ان کا شمار حاجیوں میں کریگا۔

Friday, 27 January 2012

انگلیاں فگار ہیں نہ خامہ خونچکاں


انگلیاں فگار ہیں نہ خامہ خونچکاں
مظفر الحق

-ہماری صحافتی تاریخ جو کوئی ایسی طولانی نہیں کہ اسے طول شب فراق سے ملا سکیں لیکن اتنی نا گفتنی اور مختصر بھی نہیں کہ جو روز وصل کا اختصار قرار دے سکیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم۔ اس راہ میں جن کا جگر لہو ہوا اور انگلیاں فگار، ان میں مولانا محمّد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی اور مولانا ظفرعلی خان کا نام سرفہرست ہے۔ حسن اتفاق ہے کہ تینوں کے نام کے ساتھ مولانا لگا ہوا ہے اور تینوں باریش، تینوں مسلم یو نیورسٹی علیگڑھ کے فارغ التحصیل، نہ ان میں کوئی سکّہ بند نعرہ باز تھا نہ ہی سرخ و سفید جعلی انقلابی، نہ کوئی ملمع ساز آزاد خیالی کا علمبردار فسطائی۔ وہ کسی دینی مدرسہ کے ذہنی حصار میں رہی، نہ مشنری اسکولوں کی مخصوص ذہنی ساخت کے حامل۔ پھر بھی ہماری صحافت کے افق پہ چمکنے والے تابناک ستارے ہیں۔ جنہیں اپنی اسلامی شناخت اور دینی نسبت پہ ہمیشہ فخر رہا۔ اور ملّت کی محبت میں ان آشفتہ سروں نے وہ قرض بھی چکائے جو فرض کفایہ ضرور تھے۔ وہ نہ چکاتے تو پوری قوم مقروض اور مجرم رہتی۔
بی اماں کا لاڈلا، علیگڑھ کی آبرو اور آکسفورڈ کا دلارا، زبان و قلم کا دھنی، انگریزی اور اردو تحریر پہ یکساں قدرت رکھنے والا محمّد علی جوہر قید و بند اور ابتلاءو آزمائش کی راہوں سے ہوتے ہوئے پیوند خاک قدس ہوا ”یہ رتبہ بلند ملا جس کو، مل گیا“ کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہندوستان اس کی آزاد فطرت کے لیے قابل قبول نہ تھا ۔
مولانا حسرت موہانی جن کی رائے کا احترام قائداعظم بھی کرتے تھے جو جیل میں چکّی کی مشقّت کے ساتھ مشق سخن کرتے رہے اور اردو غزل کو نئی جہت اور حیات نو دے کر رئیس المتغزلین کہلائی، برصغیر کی ہندو مسلم بنیاد پہ تقسیم کے اولین علمبردار بنی، آزادی کی جنگ میں اپنا سب کچھ لٹانے اور کڑی سزا و تعذیب بھگتانے کے باوجود انکساری اور سادگی کا پیکر رہے قیام پاکستان کے بعد اپنے خوابوں کی سرزمین کا دورہ کرنے کے باوصف بھی ہندوستان ہی میں رہنا پسند کیا کیوں کہ وہاں مسلمانوں کا کوئی رہنما نہیں تھا جو ان کے ساتھ پیمان وفا نبھاتا، سب پاکستان کی نعمتوں سے فیضیاب ہونے یہاں آ چکے تھے۔ ع نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
مولانا ظفر علی خان حقے کی نے تھامی، اپنے زمیندار کو سینے سے لگائے وہیں پرانی انارکلی کے نکّڑ پہ اپنے ہاتھ میں قلم تھامے آخری سانس تک نبرد آزما رہے اور قادیانی فتنہ سامانی کا مقابلہ اپنی بے سروسامانی سے کرتے رہے لیکن زبان حال سے کہہ رہے تھی، ”ہم ہی اٹھے تھے بن کے صدائے جرس کبھی۔ اب کیا غبار بن کے چلیں کارواں کے ساتھ۔ جب دنیا سے اٹھے تو ملت کے اس حدی خواں کا نوحہ لکھنے کو بس ایک شورش کاشمیری رہ گیا۔ یہ اکابر ثلاثہ جو سیاست کی آن اور صحافت کی آبرو تھے جب دنیا سے رخصت ہوئے تو نہ ان کی ملکیت میں بیش قیمت چھاپہ خانے تھے نہ مختلف ناموں سے بہت سے ڈیکلریشن، نہ ان کے بنکوں میں زر کثیر تھا نہ ہی ان کی بلند و بام عمارات اور وسیع و عریض قطعات اراضی۔ لیکن جو رتبہ بلند ان کی قلندری اور تہی دستی عطا کر گیا وہ قارون کے خزانے بھی سوختنی اور فروختنی قلم پاروں کے بدلے میں نہیں دے سکتے
اردو صحافت کے یہ تین عبقری اس لیے یاد آ گئے کہ اگلے روز ایک ٹاک شو کے شرکاءنے انکشاف کیا کہ کوئی نامور لکھاری پانچ مختلف ناموں سے اپنے ممدوحین کے حسب فرمائش لکھ کر ایک لاکھ روپے وصول کرتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان والے درویش صفت ڈاکٹر نذیر احمد شہید جو اس خطّے کے بڑے بڑے سرداروں اور پشتینی جاگیرداروں کو شکست دے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اورجنہیں پیپلز پارٹی کے دور اول کی جمہوریت اور اس وقت کے گورنر کھر کی سفاکیت چاٹ گئی، ایسے صحافیوں کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ان کا قلم ازار بند ڈالنے کے لیے ہے۔ شاید وہ سانچے ہی ٹوٹ گئے جس میں با ضمیر قلم ڈھلا کرتے تھے یا پھر قلم کی عصمت کا تصوّر بدل کر اس بازار کی جنس کی طرح ہوگیا ہے جس کے بستر پہ ہر رات شب زادے بدل جاتے ہیں۔ یا پھر بستر کی ایک ایک شکن کے کئی کئی شریک ہوتے ہیں۔
وقت کے ساتھ موقف اور نظریہ بدلتے یہ مرغان باد نما شاید اس احساس سے عاری ہیں کہ زبان کا گوشہ اور قلم کا شوشہ فروختنی ہو جائے تو انسان گوئٹے کا فاوسٹ بن جاتا ہے اور اس کا مقام بیسوا سے بھی پست تر ہو جاتا ہے۔ کہ جب وہ خود کو بیچتی ہے تو ایک جسم کا سودا ہوتا ہے اور جب ایک صحافی یا ادیب کا قلم بکتا ہے تو وہ جمہوریت کی روح اور قوم کا ضمیر بیچتا ہے اور جو بھی اسے پڑھ کر گمراہ ہوتا ہے اس کا عذاب جاریہ ان کے نامہ اعمال میں بھی درج ہوتا ہے ۔ غالب کا شعر ہے
حال دل لکھوں کب تک، جاوں ان کو دکھلاوں
انگلیاں فگار اپنی، نامہ خونچکاں اپنا
اب تو لگتا ہے نہ کسی کی انگلیاں فگار ہوتیں نہ ہی خامہ خونچکاں بلکہ اب تو بہت سے قلم بردار فخریہ کہتے ہوں گے۔ انگلیاں طلائی ہیں خامہ نقرئی اپنا۔

خیال اور انسان


خیال اور انسان
شاہ نواز فاروقی

-خیال کے ساتھ انسان کے تعلق کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ انسان خیال کے مطابق ہو جاتا ہے یا خیال کو اپنے جیسا بنا لیتا ہے۔ پہلی صورت میں انسان خود کو بلند کرتا ہے اور دوسری صورت میں انسان خیال کو اپنی سطح پر لا کر اسے پست کر دیتا ہے۔ دنیا میں جتنے انقلابات برپا ہوئے ہیں انسان کی خود کو خیال کے مطابق بنانے کی کوشش سے ہوئے ہیں اور دنیا میں جتنی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں خیال کو پست سطح پر گھسیٹ کر لانے سے ہوئی ہیں۔
اس کی ایک اچھی مثال پاکستان کی ”اشرافیہ“ ہے۔ جمہوریت کے فکر اور فلسفے کے بارے میں ہماری جو رائے بھی ہو مغرب میں جمہوریت ایک سیاسی مثالیہ یا Polictical Ideal ہے۔ جمہوریت مغرب کے تصور انسان کا سیاسی مظہر ہے۔ مغرب کا تصور انسان یہ ہے کہ انسان اس کائنات کا مرکز ومحور ہے۔ وہ ایک آزاد ہستی ہے۔ اس کا تشخص اس کی عقل اور آزاد ارادے سے متعین ہوتا ہے۔ وہ خارج سے عاید کیے گئے کسی ضابطے کاپابند نہیں۔ وہ اپنے نیک و بد کا خود تعین کرتا ہے۔ ان تصورات نے مغرب میں جمہوریت کو ایک طرز فکر اور طرز حیات بنا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مغرب میں انتخابات جمہوریت کا محض ایک جزو ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں جمہوریت محض ایک نعرہ ہے۔ ایسا نعرہ جس کی پشت پر کوئی بلند خیال نہیں محض چند افراد یا چند خاندانوں کے مفادات ہیں۔ مثلاً پیپلزپارٹی کو قائم ہوئے 40سال ہو گئے لیکن اس پر آج بھی بھٹو خاندان کا غلبہ ہے اور بھٹو خاندان سے قطع نظر کر کے پیپلزپارٹی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ نواز لیگ کی عمر بھی اب 20 سال سے زائد ہو گئی ہے مگر نواز لیگ پہلے دن کی طرح آج بھی میاں نواز شریف کی اسیر ہے۔ ایم کیو ایم کی عمر 30 سال سے زائد ہے اور وہ آج بھی الطاف حسین کی گرفت میں ہے۔ اے این پی پر ولی خان کا قبضہ ہے۔ اس صورت حال کا ایک شاخسانہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی، نواز لیگ، ایم کیو ایم یا اے این پی کبھی داخلی انتخابات کے عمل سے نہیں گزریں جو جمہوری کلچر کا ایک بنیادی تقاضا ہے۔ ان حقائق نے پاکستان میں جمہوریت کو صرف انتخابی عمل بنا کر رکھ دیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کا مطلب انتخابات اور ان کے نتیجے میں کسی ایک یا کئی پارٹیوں کی حکومت کا قیام ہے اور بس۔ اس ”جمہوری فضا“ میں انتخابات کا نظام بھی غیر شفاف ہو کر رہ گیا ہے۔ انتخابی دھاندلی حلقہ بندیوں سے شروع ہو جاتی ہے۔ انتخابی فہرستیں دھاندلی زدہ ہوتی ہیں۔ انتخابی عمل میں کروڑوں جعلی ووٹ بھگتائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ خفیہ ہاتھ انتخابی نتائج کوبھی بدل ڈالتے ہیں۔ چنانچہ جمہوریت کبھی نعرہ بن کر رہ جاتی ہے۔ کبھی ایک تماشے کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور کبھی ایک ڈھکوسلے کی سوا کچھ نظر نہیں آتی۔ یہ صورت حال جمہوریت کے خیال کو اپنی سطح پر گھسیٹ لانے کا حاصل ہے۔
سوشلزم اول و آخر ایک باطل نظریہ تھا مگر اس نظریے نے روس میں انقلاب برپا کیا۔ چین میںنئی دنیا تخلیق کی۔ مشرقی یورپ کو منقلب کر دیا۔ لاطینی امریکا کے نظریاتی افق کو تبدیل کر دیا۔ اس نظریے نے اپنی معاشیات پیدا کی۔ اپنی طرز تجارت ایجاد کی۔ اپنی عمرانیات خلق کی۔ اپنا ادب تخلیق کیا۔ اس نظریے نے بقول کسے یہ صورت حال پیدا کی کہ یا تو سوشلزم کے عہد میں آپ سوشلسٹ تھے یا سوشلزم کے دشمن تھے۔ مگر یہ نظریہ بھی پاکستان میں رسوا ہو گیا۔ بھٹو صاحب اس نظریے کے سب سے بڑے علمبردار بن کر ابھرے مگر انہوںنے سوشلزم کو جوں کا توں اختیار کرنے کے بجائے مقامی سوشلزم ایجاد کیا اور اسے ”اسلامی سوشلزم“ کا نام دیا۔ حالانکہ اسلام سوشلزم کی اور سوشلزم اسلام کی ضد تھا۔ مزید دلچسپ بات یہ تھی کہ بھٹو صاحب خود جاگیردار تھے۔ اس طرح بھٹو صاحب کا سوشلزم، اسلامی سوشلزم اور جاگیرداری کا ملغوبہ تھا۔ کارل مارکس، ماو یا لینن کو اگر کبھی معلوم ہو جاتا کہ دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہو گا جہاں سوشلزم مذہب اور جاگیرداری کا ملغوبہ بن کر ابھرے گا تو وہ اپنا سرپیٹ لیتے۔
قوم پرستی ایک انسان کش نظریہ ہے۔ لیکن دنیا میں اس نظریے کی ”فتوحات“ بھی کم نہیں۔ ہٹلر کی قوم پرستی نے جرمنی کو عالمی طاقت بنایا۔ جرمن قوم پرستی نے ہٹلر کو پوری دنیا فتح کرنے کا خواب دکھایا۔ یورپ کی دیگر اقوام کی قوم پرستی نے بھی انہیں سیاسی طور پر طاقت وربنایا۔ اس قوم پرستی نے مخصوص طرز احساس کا حامل ادب پیدا کیا۔ آرٹ تخلیق کیا۔ لیکن پاکستان میں قوم پرستی پر ہر جگہ سازش کا سایہ نظر آتا ہے۔ پشتون اور بلوچ قوم پرستی ایک زمانے میں سوویت یونین کے زیر سایہ کاشت ہونے والی چیزیں تھیں۔ سندھی قوم پرستی پر بھارت کا سایہ تھا۔ مہاجر قوم پرستی جنرل ضیاءالحق نے ایجاد کی۔ اس قوم پرستی میں نہ کہیں کوئی فتح ہے۔ نہ کہیں کوئی کلچر ہے۔ نہ ادب ہے۔
اسلام ایک ازلی و ابدی حقیقت ہے۔ اس کی موجودگی زمان و مکان سے ماوراءہے۔ اسلام رنگ، نسل اور جغرافیے کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس کا تناظر کائنات گیر ہے۔ اس کا زاویہ نظر پوری دنیا پر محیط ہے۔ اسلام ملت اور امت کی اصطلاحوں میں کلام کرتا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں لوگوں نے فرقے ایجاد کر لیے ہیں۔ اسلام مسالک اور مکاتب فکر کے خلاف نہیں لیکن ہمارے معاشرے میں مسلک کو کل دین بنا دیا گیا ہے اور لوگ اپنے مسلک پر اس طرح اصرار کرتے ہیں کہ اس سے دوسرے مسلک کی تردید اور تکذیب لازم آتی ہے۔ چنانچہ معاشرے میں تکفیر کا مرض عام ہے۔ ایک مسلک کے ماننے والے دوسرے مسلک کے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں مکتبہ فکر ”مسلک“ بن گیا ہے اور مسلک نے ”فرقے“ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ دین کی یہ بیخ کنی دین کی محبت کے نام پر بروئے کار آرہی ہے اور اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ ہم خود کو اسلام کی سطح پر لے جانے کے بجائے اسلام کو اپنی سطح پر گھسیٹ کر لا رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ انسان خیال کو اپنی سطح پر کیوں گھسیٹ لاتا ہے؟
اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ انسان خیال کو اصل سمجھنے کے بجائے خود کو اصل سمجھنے لگتا ہے۔ چنانچہ وہ خیال کے تابع بننے کے بجائے خیال کو اپنا تابع بنا لیتا ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان چھوٹی چھوٹی خواہشات میں الجھ جاتا ہے۔ اس کی آنکھوں میںکوئی بڑا خواب ہوتا ہی نہیں۔ چھوٹی خواہشیں انسان کی ہر چیز کو چھوٹا بنا دیتی ہیں۔ اس کی روح بھی چھوٹی ہو جاتی ہے۔ دل بھی چھوٹا ہو جاتا ہے اور ذہن بھی چھوٹا ہو جاتا ہے۔

عصرِ حاضر کا انسان مذہب سے بیزار کیوں ہے؟


عصرِ حاضر کا انسان مذہب سے بیزار کیوں ہے؟
-شاہنواز فاروقی
 
ممتاز دانش ور سراج منیر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ عصرِ حاضر کا انسان زندگی اور کائنات کی روحانی تعبیر سے بچنے کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے پر تیار ہے۔ سراج منیر کی یہ بات سو فیصد درست ہے۔ 7 ارب انسانوں کی اس دنیا میں تین، ساڑھے تین ارب انسان ایسے ہیں جو سرے سے مذہب کے قائل ہی نہیں۔ ان کے لیے مذہب ایک ناقابلِ فہم اور ناپسندیدہ حقیقت ہے اور وہ مذہب کو اپنی زندگی سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی دانش ورانہ، علمی اور کلاسیکل مثال امریکہ کے ممتاز ماہرِ عمرانیات ایلون ٹوفلر ہیں۔ ایلون ٹوفلر نے مغربی تہذیب کے بحران کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ڈیڑھ ہزار صفحات پر مشتمل تین کتابیں تحریر کیں۔ ان کتابوں میں ٹوفلر نے یہ ثابت کرنے کے لیے معلومات کا انبار لگادیا ہے کہ مغربی تہذیب بدترین بحران کا شکار ہے۔
معلومات جمع کرنے کے سلسلے میں ٹوفلر کی محنت اور لیاقت دیکھ کر رشک آتا ہی، لیکن ڈیڑھ ہزار صفحات لکھنے والے نے معلومات کے ”ہمالے“ سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ افسوس ناک حد تک مایوس کن اور بچکانہ ہے۔ ٹوفلر نے لکھا ہے کہ مغربی تہذیب کا بحران سائنس اور ٹیکنالوجی کا پیدا کردہ ہی، لیکن اس بحران کو ختم کرنے کے لیے ہمیں مذہب کی طرف نہیں دیکھنا چاہیی، یہ بحران سائنس اور ٹیکنالوجی نے پیدا کیا ہے اور وہی اس بحران کو ختم کرے گی۔
سوال یہ ہے کہ انسان زندگی اور کائنات کو سمجھنے اور انسانیت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مذہب کی مدد لینے کے لیے کیوں تیار نہیں؟
اس کی ایک وجہ ڈارون کا نظریہ ارتقاءہے۔ ڈارون ماہر حیاتیات یا Biologist تھا اور اس نے زمین پر انسان کے ظہور کے حوالے سے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان پہلے دن سے اپنی موجودہ ہیئت میں موجود نہیں، بلکہ کبھی وہ زمین پر رینگنے والا ایک حقیر جرثومہ تھا۔ یہ جرثومہ ارتقاءکے مدارج طے کرتا ہوا رینگنے والا کیڑا بنا، اور پھر مزید ترقی کرتا ہوا یہ بندر بن گیا۔ جرثومے کا ارتقاءاس منزل پر رک نہیں گیا بلکہ بندر ترقی کرتا ہوا انسان بن گیا۔ ڈارون کے نظریہ ارتقاءمیں تین بڑے نقائص تھے۔
ڈارون کے نظریے کا پہلا نقص یہ تھا کہ اس کا نظریہ ایک نظریہ یا محض ایک سائنسی قیاس آرائی تھی، لیکن ڈارون کے نظریے یاTheory کو ثابت شدہ سائنسی حقیقت یا Proven Scientific fact کے طور پر قبول کرلیا گیا جس کا کوئی سائنسی یا عقلی جواز نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈارون کا نظریہ دیکھتے ہی دیکھتے ”سائنسی عقیدہ“ بن گیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ خود مغرب میں ڈارون کے نظریہ ارتقاءکو سائنسی بنیادوں پر چیلنج کردیا گیا اور اس کی سائنسی بنیادیں مشتبہ قرار دے دی گئیں، مگر اس کے باوجود مغرب ہی نہیں پوری دنیا میں آج بھی نظریہ ارتقاءایک ”سائنسی حقیقت“ کے طور پر پڑھایا جارہا ہے۔
نظریہ ارتقاءکا دوسرا بڑا نقص یہ تھا کہ اس نے کمتر سے برتر کو برآمد ہوتے دکھایا۔ حالانکہ زندگی کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ برتر سے کمتر کا ظہور ہوسکتا ہی، لیکن کمتر سے برتر کا ظہور نہیں ہوسکتا۔ یعنی انسان تو بندر بن سکتا ہے لیکن بندر انسان نہیں بن سکتا۔
ڈارون کے نظریے کا تیسرا بڑا نقص یہ تھا کہ اس کا تعلق بنیادی طور پر حیاتیات کے شعبے سے تھا، لیکن اسے عمومیا لیا گیا، یعنی Generalize کرلیا گیا۔ چنانچہ نظریہ ارتقاءکا اطلاق زندگی کے ہر شعبے پر کردیا گیا، یہاں تک کہ انسانی تاریخ بھی اس کی زد میں آگئی۔ اس سے تاریخ کے خطِ مستقیم میں سفر یا Linear motion کا نظریہ پیدا ہوا، جس کا لب لباب یہ ہے کہ انسانی تاریخ خطِ مستقیم یا سیدھی لکیر کی صورت میں مسلسل آگے کی طرف سفر کررہی ہے۔ اس سفر میں انسان کا ہر نیا قدم پچھلے قدم سے بہتر ہے۔ تاریخ کے اس نظریے نے جیمس فریزر سے Golden Bough یعنی شاخ زریں جیسی کتاب لکھوائی جس میں فریزر نے پوری انسانی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
جیمس فریزر نے کہا ہے کہ انسانی تاریخ کا پہلا دور جادو کا دور تھا۔ یہ انسان کا ابتدائی زمانہ تھا جس میں انسان کا ذہن زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھا۔ چنانچہ اس دور میں انسانی فکر توہم پرستی کا شکار تھی۔ انسان کے ذہن نے مزید ترقی کی تو انسان نے مذہب ”ایجاد“ کرلیا۔ مذہب کے زمانے کی فکر جادو کے دور کی فکر کے مقابلے پر زیادہ منظم تھی، لیکن اس فکر میں بھی عقل کا عمل دخل کم تھا۔ مذہب کے دور سے انسان فلسفے کے دور میں داخل ہوا، اور یہ دور اس بات کی علامت تھی کہ انسان نے عقل سے کام لینا سیکھ لیا ہے اور اب اسے اپنی زندگی کی معنویت کو سمجھنے کے لیے کسی ماورائی طاقت یعنی معاذاللہ خدا کی ضرورت نہیں رہی۔ چونکہ انسانی تاریخ مسلسل خطِ مستقیم میں آگے کی جانب سفر کررہی ہی، اس لیے فلسفے کا عہد بھی ماضی کی یادگار بن گیا اور انسان سائنسی دور میں داخل ہوگیا۔ فلسفے کے عہد میں دلیل محض ایک ”خبر“ تھی، سائنس نے خبر کو ”نظر“ بنادیا، یعنی دلیل مشاہدہ اور سائنسی تجربہ بن گئی۔
نظریہ ارتقاءاور اس کے تاریخ کے تصور پر پڑنے والے اثرات کے نتیجے میں مذہب کے حوالے سے تین تصورات عام ہوئی:
1۔ مذہب ماضی کی یادگار ہے۔
2۔ مذہب غیر عقلی چیز ہے۔
3۔ مذہب پسماندہ ذہن کا عکاس ہے۔
چونکہ یہ تصورات نام نہاد علمی بنیادوں پر پوری دنیا میں عام ہوگئی، اس لیے مذہب بیزاری بھی ایک عالمگیر مسئلہ بن کر سامنے آگئی۔
تجزیہ کیا جائے تو مذہب کے بارے میں یہ تمام تصورات خودساختہ، برخود غلط اور تاریخ کے سطحی فہم پر مبنی ہیں۔ مثال کے طور پر تاریخ میں ایسا کوئی دور نہیں گزرا جو مذہبی عہد نہ ہو۔ تاریخ کا ہر دور مذہب کا دور ہی، البتہ تاریخ میں یہ ضرور ہوتا رہا ہے کہ مذہب کی تعلیمات مسخ کردی جاتی ہیں، جس کے بعد مذہب پس منظر میں چلا جاتا ہے اور باطل نظریات پیش منظر پر غالب آجاتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ مذہب کو غیر عقلی یا Irrational کہتے ہیں وہ Irrationality اور Supra rationality یعنی غیر عقلی چیز اور ماورائے عقل شے کے فرق سے آگاہ نہیں۔ مذہب غیر عقلی یا Irrationalنہیں ماورائے عقل یا Supra-rational ہے۔ یعنی مذہب کے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو عقل کے پاس بھی نہیں ہے۔ یہ ذریعہ وحی ہے۔ اسی طرح جو لوگ مذہب کو انسانی ذہن کی پسماندگی کی علامت سمجھتے ہیں ان کا معاملہ چمگادڑوں والا ہے۔ چمگادڑوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اندھیرا روشن اور روشنی اندھیرا محسوس ہوتی ہے۔ اندھیرے میں ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور روشنی میں انہیں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔
عصر حاضر میں لوگوں کی مذہب بیزاری کی ایک وجہ یہ خیال رہا ہے کہ مذہبی عناصر بادشاہوں وغیرہ کے ساتھ اتحاد کرکے عوام کے استحصال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عیسائیت اور ہندوازم کی تاریخ کو اس سلسلے میں مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ یورپ میں چرچ اور ریاست کی علیحدگی کا تصور اسی بنیاد پر پیدا ہوا۔ کارل مارکس نے مذہب کی جو تنقید لکھی اس میں عیسائیت کی تاریخ کی مثالوں کو پیش نظر رکھا۔ بدقسمتی سے دو مذاہب کی مثالوں کو مذہب کی پوری روایت پر چسپاں کردیا گیا۔ حالانکہ مذاہبِ عالم بالخصوص اسلام کی تاریخ میں مذہب کے ترجمان عوام کے حقیقی نمائندوں کے طور پر ریاستی جبر کی مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ مغرب میں اس کی سب سے بڑی مثال سقراط ہے۔ سقراط کا جرم یہ تھا کہ وہ معاشرے کے نوجوانوں کو حکومتِ وقت کا باغی بنارہا تھا اور حکمرانوں کو اندیشہ تھا کہ سقراط عوامی طاقت کے ذریعے ان کے اقتدار کے لیے خطرہ بن جائے گا۔ اسلامی تاریخ میں منصور حلاج کو ایک چیستان بنادیا گیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسے اناالحق کہنے کے جرم میں پھانسی دی گئی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ منصور کی شخصیت کی خودنمائی اس کو لے ڈوبی۔ لیکن اصل بات صرف اتنی سی تھی کہ منصور نوجوانوں کو حکمرانوں کے خلاف صف آراءکررہا تھا اور نوجوانوں میں اس کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ مغلوں کے دور میں حضرت مجدد الف ثانیؒ دربار کی طاقت کے مقابلے پر قوت کا دوسرا مرکز بن کر ابھرے اور انہوں نے اسلام کی سربلندی کے لیے جہانگیر کو چیلنج کیا۔ لیکن مغرب کے مفکرین نے اسلام کے حوالے سے اپنی لاعلمی اور اسلام کے خلاف اپنے تعصبات کی وجہ سے اسلام کی تاریخ کو اہمیت ہی نہیں دی۔
گزشتہ تین سو سال کی تاریخ کو دیکھا جائے تو اہلِ مذاہب خود مذہب بیزاری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر نٹشے نے جب مغرب میں یہ اعلان کیا کہ نعوذباللہ خدا مر گیا ہے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ خدا کا تصور ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی معنویت متعین کرنے والی اور اس پر حکمرانی کرنے والی حقیقت نہیں رہا۔ اس کے معنی یہ تھے کہ اہلِ مذہب نے اپنے عقائد کو بسر کرنا چھوڑ دیا ہے اور انہوں نے اپنے عقائد کو نعروں میں ڈھال لیا ہے اور مذہب ظاہر پرستی بن کر رہ گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی ذمہ داری مغرب کے لادین کہلانے والے فلسفیوں، مفکرین اور شاعروں، ادیبوں پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ ان لوگوں نے صرف یہ کیا کہ جو کچھ انہیں نظر آرہا تھا اور محسوس ہورہا تھا اس کی گواہی دی اور اپنے نظریات کو عمومی بنادیا۔
اہلِ مذہب کا ایک جرم یہ ہے کہ انہوں نے باطل کی مزاحمت کا حق ادا نہیں کیا۔ انہوں نے یا تو باطل کی غلط بنیادوں پر مزاحمت کی یا پھر اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ ایک وقت تھا کہ عیسائیت سائنس دانوں کے نظریات کو کفر قرار دے کر سائنس دانوں کو جلا رہی تھی، مگر جب وہ سائنسی انکشافات و اکتشافات کا مقابلہ نہ کرسکی تو پھر اس نے سائنس کو خدا بنالیا۔ یہودیت، ہندوازم اور بدھ ازم نے سیکولرازم کے سامنے جس طرح ہتھیار ڈالے وہ مذاہب کی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں روایتی علماءنے یہ تو بیان کیا کہ حق کیا ہی، لیکن یہ بیان نہ کیا کہ باطل کیا ہی، اس کی تفصیلات کیا ہیں، اور حق باطل اور اس کی تفصیلات کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ برصغیر میں یہ کام اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ اور عالم عرب میں حسن البنائؒ اور سید قطبؒ نے کیا۔ یہ چار افراد نہ ہوتے تو مسلم دنیا باطل کی تفہیم اور اس کی مزاحمت سے اسی طرح بے نیاز ہوجاتی جس طرح دوسری ملّتیں باطل کی مزاحمت سے بے نیاز ہوگئیں۔ تاہم امت ِمسلمہ کے دائرے سے باہر اہلِ مذہب نے باطل کے سلسلے میں جو روش اختیار کی اس نے ساری دنیا میں اس خیال کو عام کیا کہ مذہب کوئی ایسی چیز نہیں جس سے محبت کی جائے اور جس کے تحفظ کے لیے جان لڑائی جائے۔
عہدِ جدید میں اہل مذہب کی ایک ہولناک ناکامی یہ ہے کہ اہل باطل نے باطل کو ”نظام“ بنا دیا اور اہلِ حق، حق کی بنیاد پر نظام وضع کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ لیکن یہ اہلِ باطل کی واحد کامیابی نہیں ہے۔ اہلِ باطل نے نظام بھی بنایا اور اسے اربوں لوگوں کے لیے پُرکشش بھی بنایا۔ اہلِ حق اول تو حق کو نظام ہی نہ بناسکی، اور انہوں نے بنایا بھی تو اس میں لوگوں کو غیر معمولی کشش محسوس نہیں ہوئی۔

میدان تحریر سے پارلیمان تک اخوان المسلمون

مصر: میدان تحریر سے پارلیمان تک اخوان المسلمون کی عوامی پیش رفت
 حافظ محمد ادریس

مصر میں حسنی مبارک کا تختہ الٹنے کے بعد مصری قوم نے واقعتا اپنی تاریخ کا نیا باب رقم کیا ہے۔ 23 جنوری 2012ءکو نومنتخب مصری پالیمان کا افتتاحی اجلاس ہوا۔ چونکہ پہلی نام نہاد پارلیمان اور اس کے تمام ارکان کالعدم ہوچکے تھی، اس لیے افتتاحی اجلاس کی صدارت بالاتفاق پارلیمان کے سب سے زیادہ عمر رسیدہ رکن محمود السقا (نمائندہ حزب الوفد) کے سپرد کی گئی۔ ان کی صدارت میں تلاوتِ قرآن مجید کے بعد اجلاس شروع ہوا تو اسپیکر کے انتخاب کا مرحلہ پیش آیا۔ 498کے ہاوس میں اخوان المسلمون کے 235 ارکان ہیں، جبکہ دوسرے نمبر پر ایک دوسری اسلامی پارٹی حزب النور کے 121 ارکان ہیں۔ دیگر چھوٹی پارٹیوں میں سے بھی کئی پارٹیاں اخوان کے ساتھ انتخابی اشتراک کے ذریعے کامیاب ہوئی تھیں، جن میں سے حزب الوفد قابلِ ذکر ہے۔ اخوان نے اپنی سیاسی پارٹی کے سیکریٹری جنرل جناب سعدالکتاتنی کو اسپیکر کے لیے نامزد کیا تھا۔ جناب سعدالکتاتنی اپنی قابلیت اور مرنجاں مرنج طبیعت کی وجہ سے تمام حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
اجلاس میں نومنتخب ارکانِ پارلیمان نے حلف اٹھایا اور اسپیکر کا انتخاب کیا۔ اخوان المسلمون کی سیاسی پارٹی حزب الحریة والعدالة کے نمائندے جناب سعدالکتاتنی بھاری اکثریت سے اسپیکر منتخب ہوگئے۔ میدان التحریر سے شروع ہونے والی عظیم عوامی تحریک کی پہلی سالگرہ پر دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس نہایت خوش آئند ہے۔ اس سے قبل طویل مدت تک مصر میں انتخابات اور ریفرنڈم محض ڈھونگ ہوا کرتے تھے۔ جناب سعدالکتاتنی نے اسپیکر منتخب ہونے کے بعد اپنے افتتاحی خطاب میں کہا: ”ہم اللہ رب العالمین کا شکر ادا کرتے ہیں، جس نے ہمیں جبر اور گھٹن کے نظام سے نجات دی اور ہم آزادی اور جمہوریت کی فضاوں میں سانس لینے کے قابل ہوئے۔“ انھوں نے ان تمام مرد و خواتین کو خراجِ تحسین پیش کیا، جنھوں نے عظیم الشان عزیمت کے ساتھ آمریت کے بت کو پاش پاش کیا۔ اس موقع پر انھوں نے اُن تمام شہدا کے لیے مغفرت اور بلندی ¿ درجات کی دعا کی، جنھوں نے اس جدوجہد میں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا: ”ہم ایک نیا مصر تعمیر کرنے کا عزم رکھتے ہیں، جس میں دستور کی بالادستی ہوگی۔ جمہوریت ہمارا سیاسی سفر متعین کرے گی اور ہم آنے والی نسلوں کے لیے ایک ترقی یافتہ جدید مصر چھوڑیں گے۔ پارلیمان دستور میں دیے گئے اپنے جمہوری حقوق سے قوت حاصل کرے گی۔ ہم اپنی مصری قوم اور پوری دنیا کے لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہمارا انقلابی سفر ختم نہیں ہوا بلکہ جاری ہے۔ ہمیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ ہم ان شاءاللہ لوگوں کو مایوس نہیں کریں گے۔“
نومنتخب اسپیکر کے خطاب کے دوران پارلیمان کے تمام ارکان نے بار بار پُرجوش تالیوں سے ان کے خیالات کی تائید کی۔ انسٹھ سالہ اخوانی سیاست دان اپنے خطاب کے دوران کئی بار رقتِ قلب سے مغلوب ہوئے۔ ان کے خطاب کے دوران ہر شخص محسوس کررہا تھا کہ کامیابی نے ان کو کسی غرور میں مبتلا نہیں کیا بلکہ احساسِ ذمہ داری ان کے ایک ایک لفظ سے ٹپکی پڑتی تھی۔ جب اسپیکر پارلیمان کے اندر خطاب کررہے تھے تو پارلیمنٹ کے باہر ہزاروں مصری عوام اسلام اور جمہوریت کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ دستور ساز اسمبلی کو دستور بھی بنانا ہے اور عبوری فوجی کونسل سے اقتدار بھی عوام کے نمائندوں کو منتقل کرنے کا اہتمام کرنا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک مشکل کام ہے۔ پارلیمنٹ کے باہر عوام کا ہجوم مسلسل یہ نعرے بھی لگا رہا تھا کہ فوجی جنتا کو رخصت کیے بغیر انقلاب کی حقیقی منزل نہیں مل سکتی۔ اس وقت کے عبوری سربراہِ حکومت فیلڈ مارشل حسین طنطاوی کے خلاف بھی زبردست نعرے بازی کی گئی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ جو شخص بیس سال تک حسنی مبارک جیسے بدعنوان لٹیرے اور ظالم فرعون کا وزیر دفاع رہا ہی، اسے حکمرانی کا کیا حق حاصل ہے۔ کئی لوگ مطالبہ کررہے تھے کہ حسنی مبارک کی طرح طنطاوی کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے۔
اسپیکر صاحب نے بڑی حکمت کے ساتھ پارلیمان کو بتایا کہ صورتِ حال جو بھی ہو، اس میں شک نہیں کہ مصری فوج نے خدشات کے برعکس بروقت انتخابات کے انعقاد، لوگوں کے آزادانہ رائے دینے کے عمل اور عوامی فیصلے کو قبول کرکے ایک مثبت مثال قائم کی ہے۔ خود فوجی عبوری کونسل نے بھی بار بار یہ کہا ہے کہ وہ لوگوں کے حقوق پر کوئی قدغن نہیں لگانا چاہتی۔ اس کے باوجود سویلین سوسائٹی کے اکثر حلقے فوجی جنتا کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ صدارتی انتخاب جون میں ہونا طے ہے۔ فوجی کونسل نے اسپیکر کے انتخاب کے بعد ایک اعلامیہ میں یہ لکھا ہے کہ جونہی صدر کا انتخاب عمل میں آئے گا، اقتدار مکمل طور پر منتخب حکومت کے سپرد کردیا جائے گا اور فوج اپنی بیرکوں میں واپس چلی جائے گی۔ اجلاس کے آغاز میں صدرِ مجلس محمودالسقا کے سامنے تمام ارکان نے فرداً فرداً حلف اٹھایا۔ حلف کے الفاظ تھی: ”میں بطور رکن دستور ساز اسمبلی حلف اٹھاتا ہوں کہ قومی مفادات اور عوام کے حقوق کے لیے اپنی دستوری ذمہ داریاں پوری کروں گا۔ میں رائے عامہ کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ملکی قانون کی حدود میں رہ کر اپنے فرائض پوری ذمہ داری سے ادا کروں گا۔“ اسلامی جماعتوں کے بعض ارکان نے نکتہ اٹھایا کہ اس حلف میں دینی اور مذہبی شعائر کی پابندی کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ ممدوح اسماعیل نے جب یہ کہا کہ ہمیں ان الفاظ کا اضافہ کرنا چاہیی: ”میں اللہ کے قوانین کی پوری طرح پابندی کروں گا“ تو صدر مجلس محمود السقا نے کہا: ”برائے مہربانی جو عبارت اس وقت ہمارے سامنے ہی، اسی پر حلف اٹھایا جائے۔ اگر اس طرح ہم نے حذف و اضافے شروع کردیے تو شاید بہت سارا وقت ضائع ہوجائے گا۔“
اخوان کی قیادت نے اس تنازعہ کو حل کرنے کے لیے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ اس ہاوس کو نیا دستور ترتیب دینا ہی، اس لیے فی الحال تمام ارکان یہ حلف پڑھ لیں۔ دستور سازی کے وقت تمام تفصیلات طے ہوجائیں گی۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر اس موقع پر یہ بحث چل نکلتی تو سیکولر ارکان اگرچہ تعداد میں بہت کم ہیں مگر ہاوس میں رکاوٹیں پیدا کرسکتے تھی، اس لیے منتخب اکثریتی پارٹی کے ذمہ داران نے حکمت کے ساتھ یہ مرحلہ سر کرلیا۔ مجلس دستور ساز تمام امور و معاملات کو اطمینان کے ساتھ اتفاقِ رائے یا کثرتِ رائے سے طے کرلے گی۔ پارلیمان میں اخوان کو زیادہ نشستیں مل سکتی تھیں، اگر تمام نشستوں پر براہِ راست انتخاب ہوتا۔ چار سو اٹھانوے میں سے ایک سو چھیاسٹھ نشستوں پر براہِ راست انتخاب ہوا، جن میں سے اخوان نے ایک سو آٹھ نشستیں جیت لیں۔ یہ تناسب پینسٹھ فیصد (65%)بنا، جبکہ باقی تین سو بتیس میں سے متناسب نمائندگی کے ساتھ انھیں ایک سو ستائیس نشستیں ملیں، یہ تناسب اڑتیس فیصد (38%)بنتا ہے۔ مجموعی طور پر چار سو اٹھانوے میں سے اخوان کی دو سو پینتیس نشستیں ہیں، جس کا تناسب سینتالیس فیصد (47%) ہے۔
ملک میں معاشی صورتِ حال انتہائی ابتر ہے اور لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔ بے روزگاری اور افراطِ زر نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ ایسے میں وجود میں آنے والی نئی حکومت کو گوناگوں مسائل درپیش ہوں گے۔ رائٹر کے ایک سروے کے مطابق تمام شعبوں میں کاروبار ٹھپ ہے۔ لوگوں کی قوتِ خرید تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ تعمیراتی اور اس سے متعلقہ شعبوں میں ایک ہزار کاروباری فرمیں بند ہوچکی ہیں۔ مارکیٹ کی صورتِ حال بہت پتلی ہے۔ باہر سے سرمایہ کار نہیں آرہے اور لوٹی ہوئی دولت سابق حکمران ٹولے نے بیرونِ ملک منتقل کی ہوئی ہے۔ ایسے میں بڑی آزمائشوں سے گزر کر نئی حکومت خود کو کامیاب ثابت کرسکے گی؟ یہ سوال ہر محفل میں زیربحث آتا ہے۔ اخوان کے بارے میں لوگوں کو اعتماد ہے کہ وہ صاف ستھری، دیانت دار، قابل اور منظم لوگ ہیں۔ لوگوں کی امیدیں ان سے وابستہ ہیں۔ اللہ کرے کہ وہ اس مشکل ترین مرحلے کو کامیابی کے ساتھ سر کرسکیں۔ اخوانی راہ نماوں کا کہنا ہے کہ اللہ کے فضل سے مصر غریب نہیں، اسے غریب بنایا گیا ہے اور درست سمت میں شفاف معاشی منصوبہ بندی سے یہ غربت ختم کرلی جائے گی۔ (ان شاءاللہ)