Search This Blog

Thursday, 29 December 2016

اقبال امت مسلمہ کو حوصلہ دیتے، امید کی جوت جگاتے اور روشن مستقبل کا مژدہ سناتے ہیں ۔ ایاز الشیخ

اقبال امت مسلمہ کو حوصلہ دیتے، امید کی جوت جگاتے اور روشن مستقبل کا مژدہ سناتے ہیں ۔ ایاز الشیخ



حیدرآباد (یو این این)   ''اقبال کی نظر میں انسانیت کا مستقبل مسلمان سے وابستہ ہے۔ ان کے نزدیک مسلمان اس گلستان (دنیا )کا بلبل ہے۔ اس کا گیت گلستان کے لیے بادِبہاری کا حکم رکھتا ہے۔ وہ بلبل کو گیت کی لے بلند کرنے اور پرجوش آواز میں گیت گانے کے لیے اکساتے ہیں ۔ ان کے نزدیک مسلمان کے لیے محض نام کا مسلمان ہونا کوئی قابلِ لحاظ بات نہیں آخرت میں قسمت کا فیصلہ عمل و کردار سے ہوگا''۔  ان خیالات کا اظہار معروف صحافی و دانشور، جناب ایاز الشیخ، چیرمین امام غزالی ریسرچ فاونڈیشن نے 'اقبال کی نظم طلوع اسلام ۔ ایک تجزیاتی مطالعہ '  کے موضوع پر ، کانفرنس ہال جامع مسجد عالیہ عابڈس میں محفل اقبال شناسی کی ٨٧٧  ویں نشست کو مخاطب کرتے ہوئے کیا۔  انہوں نے کہا کہ اس نظم کا شمار بھی علامہ اقبال کی چند بہترین نظموں میں سے ہوتا ہے۔ اس نظم کو علامہ اقبال نے انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں اپریل ١٩٢٣ میں پہلی بار پڑھ کر سنایا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ترکوں کو ہر طرف سے دشمنوں نے گھیر رکھا تھا، یونانیوں نے سمرنا پر قبضہ کر کے ترکوں کا قتل عام کیا، جس سے ترکوں میں جذبات بھڑک گئے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ  میںترکوں نے غاصبوں کے خلاف جہاد کا آغاز کیا اور ان تمام علاقوں پر دوبارہ قبضہ کیا جو یونانیوں کے قبضہ میں چلے گئے تھے خاص کر سمرنا پر دوبارہ قبضہ اس جنگ کی سب سے بڑی فتح تھی۔ اور اس جنگ میں یونانیوں کی تین لاکھ فوج کو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ترکوں کی اس فتح نے علامہ اقبال پر بھی گہرے اثرات چھوڑے تھے اور انھوں نے بھی اسی تناظر میں طلوع اسلام کے عنوان سے یہ فکر انگیز نظم لکھی ۔ یہ نظم علامہ اقبال کے خیالات کی بلند پروازی کی شہکار ہے۔نظم میں کل نو بند ہیں ۔ نظم کے مطالب و مباحث کو ان عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے:۔ جہانِ نوکی نوید' کائنات میں مقامِِ مسلم '  مسلمان کا کردار اور اس کی خصوصیات '  جنگِ عظیم کے نتائج اور اثرات پر تبصرہ '  مغرب سے مایوسی'  انسانیت کا مستقبل: مسلمان ۔ روشن مستقبل ۔

انہوںنے مزید کہا کہ علامہ اقبال کے مطابق اگرچہ امت ِ خلیل اللہ زمانے میں رسوا ہوچکی ہے لیکن اب ا س دریا سے تابدار موتی پیدا ہوں گے کیونکہ امت  آہِ سحر گاہی کی حقیقت سے آگاہ ہو چکی ہے۔ مسلمانوں کا مستقبل بہت تابناک ہے ۔  باہمی اختلافات کے  بھیانک نتائج سامنے آنے پر ملت ِ اسلامیہ کے دل میں اتحاد و اتفاق کی اہمیت کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ شاخِ ہاشمی سے پھوٹنے والے نئے برگ و بار اسی احساس کا سرچشمہ ہیں۔ شاعر نے مسلمانوں کو جہانِ نو کی نوید سنائی لیکن وہ جہا نِ نو کی منزل تک تبھی پہنچیں گے جب جہد و عمل کے راستے پر ان کا سفر مسلسل جاری رہے گا۔ اقبال امت مسلمہ کو حوصلہ دیتے، امید کی جوت جگاتے اور روشن مستقبل کا مژدہ سناتے ہیں کہ مسلمانوں کے دل میں  چراغِ آرزو روشن ہو جائے اور ملت اسلامیہ کا ایک ایک فرد حصولِ مقصداور غلبہ حق کی خاطر سر بکف میدانِ میں نکل آئے۔اللہ انہیں پھرسے سربلند فرمائے گا منصب خلافت و امارت پر فائز کریگا۔ لیکن مسلمانوں کو اپنے عمل و کردار کے ذریعے خود کو اس منصب کا اہل ثابت کرنا ہوگا۔ بنیادی طور پر دنیا کی امامت کے لیے صداقت عدالت اور شجاعت کی تین خصوصیات ضروری ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے کردار میں زورِحیدر  فقرِ بوذر اور صدقِ سلمانی  پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ دورِ حاضر کے فتنوں سے نبرد آزما ہونے اور دنیا میں ظلم و استبداد اور چنگیزیت کی بیخ کنی کے لیے سیرتِ فولاد کا ہونا ضروری ہے جو صرف انھی صفات کے ذریعے پیدا ہو سکتی ہے۔

ایاز الشیخ نے نظم طلوع اسلام کے متعلق اپنا پر مغز خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ نظم بانگِ دار کی طویل نظموں میں اس اعتبار سے منفر د ہے کہ اس میں اقبال کے افکار زیادہ پختہ اور خوب صورت انداز میں سامنے آئے ہیں ۔ فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کے بعض حصے نہایت سادہ اور عام فہم ہیں اور بعض حصے بے حد بلیغ اور گہرے مفاہیم و معانی کے حامل ہیں۔ شارح اقبالیات پروفیسر یوسف سلیم چشتی فرماتے ہیں کہ  بندش اور ترکیب،مضمون آفرینی اور بلند پروازی، رمزو کنایہ کی پریشانی اور مشکل پسندی، شوکتِ الفاظ اور فلسفہ طرازی غرضیکہ صوری اور معنوی محاسنِ شعری کے اعتبار سے یہ نظم بانگ درا کی تمام نظموں پر فوقیت رکھتی ہے۔ اقبال کی شاعری کا نقش میرے دل پر اسی نظم کے مطالعہ سے مرتسم ہوا ۔  اپنے خطاب کے آختتام پرفاضل مقرر نے کہا کہ یہ نظم آج بھی امت مسلمہ کو حوصلہ دیتی ہے، امید کی جوت جگادیتی ہے اور روشن مستقبل کا مژدہ سنادیتی ہے اور یہی چیز اس نظم میں عصری معنویت کو ثابت کرتی ہے۔ اور بالکل تازہ نظر آتی ہے۔

قبل ازیں نشست کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ محافل عالیہ کے روح روں جناب غلام یزدانی ایڈوکیٹ نے مقرر اور موضوع کا تعارف کرایا ۔ شہر حیدرآباد و اکناف سے محبان اقبال و علم و ادب کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔دعا پر نشت کا اختتام ہوا۔ 

ڈی جے، ہمارا اخلاقی زوال اور انسانی صحت

ڈی جے، ہمارا اخلاقی زوال اور انسانی صحت

محفوظ الرحمن انصاری ۔ ممبئی

ممبئی کے مدنپورہ علاقے میں عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس میں ڈی جے کی تیز آواز سے سولہ سالہ طلاب علم کے دماغ کی نس اور دل متاثر ہونے سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ایک ہسپتال میں شور کے متعلق ہونے والی جدید تحقیق چسپاں کی گئی تھی جس کے مطابق :’’دل کی بیماریوں میں شور جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے ۔یہ بلڈ پریشر بڑھاتا ہے ۔ جھنجھلاہٹ ،چڑچڑا پن پیدا ہوتا ہے ۔بے خوابی کا مرض لاحق ہو سکتا ہے ۔شور کی وجہ سے بلڈ پریشر اور دل کے دورے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔دماغ کی انتہائی باریک نسوں کو تباہ کرکے موت کا سبب بن سکتا ہے ۔کان کے نازک پردوں کو متاثر کرکے سننے کی صلاحیت بھی متاثر کرسکتا ہے ۔حاملہ عورتوں کے لئے تیز شور انتہائی خطرناک ہے ۔ نوزائدہ بچے سہم کر رونے لگتے ہیں ،ان کے ننھے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے ۔بچوں کے لئے شور کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اپنے کام میں دھیان لگانے کی صلاحیت کم ہو سکتی ہے ۔جس سے ان کی پڑھائی لکھائی کا حرج توہو تاہی ہے ۔ساتھ ہی ان کی ساری تخلیقی صلاحیت بھی برباد ہو جاتی ہے ‘‘۔
ڈی جے کے خلاف علماء اور مسلم تنظیمیں مہم چلارہی ہیں ۔راستوں ،چوراہوں پر ڈی جے حرام کے پوسٹر اور ہورڈنگ بھی لگائے جاتے ہیں ۔مگر کیا انہیں پڑھ کر لوگ ان خرافات سے باز آجائیں گے ؟ہر گز نہیں۔ اگر راستوں پر نماز کے متعلق ایسے ہی پوسٹر لگوادیئے جائیں تو کیا ساری مسجدیں پانچ وقت نمازیوں سے بھر جائیں گی؟بالکل نہیں۔حالات کی نزاکت اور نوجوانوں کا مزاج نہ سمجھنے والے کچھ غیر ذمہ دار مسلکی ٹھیکیداروں نے دھوم دھام سے عید میلاد منانے کے لئے نوجوانوں کو اکسایا ۔دینی تعلیم و تربیت سے دور نوجوانوں نے جس کا مطلب یہ نکالا کہ بغیر ڈی جے کی تیز آواز اور شور شرابے کے کیسی دھوم دھام ہو گی ۔پھر ہزاروں روپئے کرایہ دے کر ڈی جے منگایا جائے گا تو یقیناًانتہائی تیز آواز میں ہی بجایا جائے گا ۔اس پر جنون کا یہ عالم کہ اگر بجانے کے دوران کوئی نصیحت کرنے لگے تو غالباً اس کی پیٹائی کر ڈالیں ۔عید میلاد یا دیگر عقیدت کے اظہار کیلئے نکالے جانے والے جلوس میں اگر کسی طرح صرف درود شریف اور نعت پڑھنا لازمی کردیا جائے تو غالباً نوے فیصد نوجوان شرکت ہی نہیں کریں گے ۔
قرآن مجید میں دو جگہ ارشاد خدا وندی ہے کہ اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔سورہ انعام آیت 141 ،اور سورہ اعراف آیت 31 ۔ساتھ ہی فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔ڈی جے بدترین قسم کی فضول خرچی تو ہے ہی ،مخلوق خداوندی کو تکلیف دینے کا ذریعہ بھی ہے جو کہ یقیناًگناہ کبیرہ ہے۔بیمار صرف ہسپتالوں میں ہی نہیں ہوتے بلکہ ہمارے علاقے اور گھروں میں بھی بہت سے بیمار موجود ہوتے ہیں ۔جب ایک سولہ سالہ نوجوان کی ڈی جے کی تیز اور تکلیف دہ آواز سے دل و دماغ متاثر ہو کر موت ہو سکتی ہے تو پھر ضعیفوں ،بیماروں اور حاملہ عورتوں نیز نوزائدہ بچوں کی طبیعت پر یہ کتنا برا اثر ڈالتا ہوگا ۔اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
ڈی جے کو اکثر غیر مسلم کرایہ پر دیتے ہیں اور پیسے کماتے ہیں ۔جبکہ مسلمان اپنے پیسے اور آخرت دونوں برباد کرتے ہیں۔عید میلادالنبی ﷺ ،گیارہویں ،اعراس اور صندلوں کے علاوہ شادیوں میں بھی خوب ڈی جے بجتا ہے۔پچھلے دنوں ممبئی میں صندل کی آتش بازی میں جھلس کر ایک لڑکے کی موت ہوگئی ۔ملک میں مسلمانوں کی معاشی،سماجی اور سیاسی حالت دلتوں سے بھی بدترہے اور دوسری طرف ہمارے نوجوان ڈی جے پر کروڑوں روپئے حرام میں پھونک رہے ہیں۔لہٰذا علمائے کرام ،مسلم تنظیمیں اور ملت کا درد رکھنے والے سبھی حضرات حکمت عملی بنا کر اس خرافات کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کریں۔ڈی جے بجانے والے لوگوں سے بالمشافہ ملاقات کرکے انہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھائیں ۔اس پر خرچ کی جانے والی رقم کو فلاحی کاموں ،خاص کر اپنے علاقے کے غریب بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے خرچ کرنے کی تلقین کریں۔ایک اور برائی بھی اسی سے ملتی جلتی مسلم اکثر یتی علاقوں میں پروان چڑھ رہی ہے کہ شادی میں جب رات کے دو اور تین بجے دولہن لے کر آتے ہیں تو بغیر کسی کی تکلیف اور نیند خراب ہونے کا خیال کئے بغیر آتش بازی اور پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں ۔اس مسئلے کو اگر نظر انداز کیا گیا تو کہیں یہ بھی ڈی جے کی طرح مسلم معاشرہ کا ناسور نہ بن جائے ۔لہٰذا ڈی جے بجانے والوں ،آتش بازی اور پٹاخے پھوڑنے والوں کے فعل پر تنقید کرنے کی بجائے علاقے کے مذہبی اور سمجھدار لوگ ان سے ملاقات کرکے سمجھائیں ۔انشاء اللہ وہ ضرور توبہ کریں گے ۔الحمد اللہ مسلمانوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اگر انہیں قرآن و حدیث اور خاص کر اللہ کے رسول ﷺ کی تعلیمات کا واسطہ دے کر حکمت کے ساتھ نصیحت کی جائے تو وہ دیر سویر سیدھے راستے پر آ ہی جاتے ہیں ۔اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’سمجھاؤ ،سمجھانا ایمان والوں کو نفع دیتا ہے‘۔

محفوظ الرحمن انصاری ۔ مورلینڈ روڈ ۔ ممبئی ۔ ای میل : mehfuzurrehman72@gmail.com

شام :کیا دہشت صیاد ہے مرغان چمن کو ۔ نہال صغیر

شام :کیا دہشت صیاد ہے مرغان چمن کو

نہال صغیر

آج صبح صبح ایک بزرگ ملی قائد سے فون پر گفتگو ہوئی ۔شام کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ جب ہم نے دیکھا کہ کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھی تو ہم نے ہی آواز بلند کی ۔حلب کی مکمل بربادی کے دس دن بعد کئی ملی تنظیم نے مل کر پریس کانفرنس میں اپنی باتیں کہیں ۔لیکن اب بھی معاملہ یہ ہے کہ حلب کی بربادی اور شام میں چار سے چھ لاکھ مسلمانوں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے کی مظلومانہ شہادت میں امریکہ تو کہیں نظر نہیں آتا روس بھی بہت بعد میں ایران کی دعوت پر مسلم امہ کے زخمی بدن کو نوچنے کیلئے آیا ایران اول روز سے اس میں شامل رہا ۔یوں کہنا زیادہ مناسب رہے گا کہ ایران نے شام و عراق کو اپنی کالونی کا درجہ دے دیا ہے اور اس کالونی کو بچانے کیلئے اس نے اپنی پوری قوت لگادی ۔تازہ تازہ خبروں کے مطابق ایرانی فوج کے ساتھ ساتھ اس کے تیار کردہ دس ملیشیا بھی تھے جس میں حزب اللہ کا نام اول ہے ۔پہلے یہ بات بتائی جاچکی ہے کہ حزب اللہ اسی کی دہائی میں امل ملیشیا کے ذریعہ فلسطینیوں کا قتل عام کرنے اور فلسطینی تحریک مزاحمت کو لبنان میں ختم کرنے کے بعد وجود میں آیا ہے ۔ستر کی دہائی کے اخیر میں ایران کے انقلاب جس کو اسلامی انقلاب کا خوشکن نام دیا گیا ۔اس نعرہ نے جماعت اسلامی کو متاثر کیا اور اس کے علاوہ بھی انفرادی طور پر کئی لوگ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ۔اسی نام نہاد اسلامی انقلاب کا ہی اثر تھا کہ ایک لمبے عرصہ تک ایران یا یوں کہیں اب بھی ایران کے سنگین جرائم کے خلاف کسی کی زبان نہیں کھلتی ۔لیکن جب سے شام میں ایران کی مداخلت دنیا کے سامنے آتی گئی وہ بے نقاب ہو تا گیا ۔لیکن کچھ لوگ اب بھی اس کے نام نہاد اسلامی انقلاب کے سحر میں گرفتار ہیں۔حالانکہ موجودہ حلب میں تباہی اور ایران کا کھلا سفاکانہ رول اور اس کے عزائم جس میں اس کے ایک کمانڈر نے کہا کہ اب ہم یمن اور بحرین میں بھی مداخلت کریں گے سے کسی شک و شبے کی کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی کہ ایران کو شیطان بزرگ روس و امریکہ کا حلیف قرار نہ دیاجائے ۔ ایک عرصہ تک خمینی کے دیئے گئے خطاب شیطان بزرگ امریکہ و روس میں سے کئی دہائی قبل روس کو اس فہرست میں سے نکالا گیا ۔پھر امریکہ اور اس کے حلیف ممالک سے سمجھوتہ کرکے دوسرے شیطان سے بھی دوستی کرلی گئی ۔حالانکہ ایران کے ایک کسی ذمہ دار کا بیان آیا تھا کہ امریکہ کیلئے اب بھی مرگ بر امریکہ جیسا تبرا بھیجا جائے گا۔لیکن یہ سب زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں ۔حالیہ شدت پسند تنظیم داعش کے بارے میں اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر داعش مسلمانوں کاخیر خواہ ہے تو وہ ساری دنیا پر حملہ کررہا ہے لیکن اسرائیل پر اس کی نظر نہیں۔اس پر وہ کیوں حملہ نہیں کرتا۔اس سے استدلال کرکے کچھ لوگ داعش کو امریکہ و اسرائیل کے ایجنٹ کے بطور بتاتے ہیں ۔پتہ نہیں سچ کیا ہے ؟لیکن یہی سوال ایران کے تعلق سے کیوں نہیں کیا جاتا کہ انقلاب ایران کے بعد سے وہ مسلسل امریکہ و اسرائیل کے خلاف بیان تو دیتا رہا لیکن اس نے کبھی آگے بڑھ کر اسرائیل پر حملہ کرنے کی جسارت کیوں نہ دکھائی ۔اصل میں یہ سارے سوالات یا الزامات جو کسی سنی ملیشیا پر لگائے جاتے ہیں وہ میڈیا پروپگنڈہ کا حصہ ہوتے ہیں اور دنیا میں میڈیا صرف یہودیوں کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ اس کے دوسرے اور تیسرے چہرے بھی ہیں ۔اس کا دوسرا چہرہ اگر ہندوستان میں برہمنی میڈیا ہے تو ایران کا میڈیا بھی تیسرے نمبر پر مسلم امہ کے خلاف سازشوں اور عربوں کی کردار کشی اور سنی اسلامی تحریکوں کے خلاف سرگرم رہتا ہے ۔لیکن اسلام کے نام سے خوشنما پیکٹ میں بند یہ سازش اور منصوبہ امت مسلمہ کو سمجھ میں اس لئے نہیں آتا کہ اس پر اسلام کے نام کی شاندارقلعی چڑھی ہوئی ہے ۔اس کا ہمارے پاس صرف گفتگو کرنے، دلوں کے بھڑاس نکالنے کے علاوہ کوئی علاج نظر نہیں آتا ۔ہم اپنا میڈیا مضبوط کرنے یا اس کے لئے دامے درمے ہر طرح سے آگے نہیں آتے ۔صرف باتوں میں ہی یا بد دعا کرکے ہی اپنی ذمہ داری ادا کردیتے ہیں۔جبکہ بددعا سے شیطان نہیں مرتا۔کل ملا کر ہمیں میڈیا کی ضرورت محسوس تو ہوتی ہے لیکن ہم شاید اس انتظار میں ہیں کہ کبھی آسمان سے اچانک میڈیا کا پورا سیٹ اپ ہمارے لئے آجائے گا ۔ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
بہر حال ذکر چل رہا تھا کہ چند ملی تنظیموں نے پریس کانفرنس کرکے حلب پر کچھ بولنے کی جرات دکھائی ۔ممبئی سے قریب بھیونڈی میں بھی احتجاج ہوا جس میں رضا اکیڈمی نے مرکزی کردار ادا کیا ۔لیکن ایک بات جس کی کمی کھل رہی ہے وہ ہے ایران کے خلاف اب بھی یا تو لب کشائی کی نہیں جارہی یا بہت ہلکے میں اس کی مذمت کی جارہی ہے ۔جبکہ شام میں ایران کی مداخلت اور اپنے علاقائی اثر رسوخ کو بڑھانے کیلئے بھیانک قتل عام میں شامل ہونے اور درندگی کے وافر ثبوت ہیں۔ جس کے خلاف کھل کر بات ہونی چاہئے۔ تاکہ ایران کو بھی یہ سمجھ میں آجائے کہ اس اسلامی انقلاب کے پردے میں جوکھیل جاری ہے اس سے دنیا نہیں تو کم از کم مسلم امہ واقف ہو چکی ہے ۔ایران کے خلاف لب کشائی میں ہچکچاہٹ پر جلال لکھنوی کا ایک شعر یا د آتا ہے جو ان حالات کے بالکل عین مطابق ہے    ؎ کیا دہشت صیاد ہے مرغان چمن کو ۔روتا نہیں شبنم صنعت آواز سے کوئی
ایران روس اور بشار الاسد کی ظالمانہ انسانیت سوز حرکتیں تو اب ساری دنیا کے سامنے منکشف ہو چکی ہیں اور ان ممالک میں عوامی احتجاج بھی شروع ہو گیا ہے پھر ہمیں کس مصلحت نے روکے رکھا ہے ۔ محض  فلسطینیوں کی حمایت کا جھنڈا بلند کرنے کی وجہ سے کسی کو انسانیت کے خلاف جرائم کیلئے معاف نہیں کیا جاسکتا ۔فلسطینیوں کو یہ حمایت بھی صرف زبانی نیزاقوام عالم اورخصوصی طور پر مسلم امہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ہی تھا ،ہے یا رہے گا ۔یاد کیجئے ایک ویڈیو میں حلب کی ایک عمر رشیدہ خاتون نے کہا کہ ’تم سے زیادہ رحمدل تو یہود ہیں ‘۔یہ ایک حقیقت بھی ہے ۔اگر امل ملیشیا کے ذریعہ لبنان میں فلسطینیوں کے قتل عام کی روداد پڑھیں گے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا ۔ایسے ہی دوستوں، جیسا کہ ایران ہے کے بارے میں فیض نے کہا تھا     ؎  تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز ۔۔۔دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
ایران بھی دوست نہیں ہے ۔وہ مسلم امہ کا ہمدرد بھی نہیں ہے ۔یہاں مختصر سے مضمون میں اس کی مکمل روداد لکھنا ممکن نہیں ہے ۔ایران اور ان کے ہمنوا یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے شام میں مداخلت کرکے حالات بگاڑا ہے ۔لیکن شام کے محاذ جنگ سے کسی عرب ملک کے سرکاری کمانڈر کے مرنے کی خبر نہیں آئی لیکن ایران کے درجنوں کمانڈر شام میں اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی بھینٹ چڑھ گئے ۔عرب ملکوں نے شام کے مزاحمت پسندوں کی صرف اخلاق حمایت کی ہے ۔ اس کے برعکس ایران نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور علاقے میں اپنے اثر رسوخ کو وسعت دینے کے لئے فوجی مداخلت کی اور اس کے ثبوت پیش کرنے کی اب ضرورت بھی نہیں ۔شام میں جگہ بجگہ اس کے ثبوت مل جائیں گے ۔ایک صحافی دوست جو ایک اردو روزنامہ کیلئے اداریہ اور مضامین لکھتے ہیں ۔انہوں نے مجھے ای میل کرکے کچھ یوں گویا ہوئے جیسے وہ شام کے حلب میں بربادی اور ایران کی درندگی کے لئے یمن کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہوں ۔ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ آج حلب کا ماتم کررہے ہیں وہ یمن کی بھی کچھ خیر خبر لیں گے ۔اس پر ایک بزرگ نے خوب تبصرہ کیا ہے وہ کہتے ہیںبحرین اور یمن میں ایک مرغی بھی مر جاتی ہے تو ایران ماتم شروع کردیتا ہے ۔ہمیں بھی مذکورہ صحافی کی ذہنیت سے صدمہ پہنچا ۔حالانکہ ہم نے کبھی اندھی حمایت یا اندھی مخالفت نہیں کی ۔ جب بھی سعودی حکومت کی کوئی خامی نظر آئی اس کی نشاندہی کی اور مذمت کی گئی ۔لیکن ایران کی خامیوں میں اگر ماضی کی ساری باتیں بھلا بھی دی جائیں تو موجودہ حلب کا سانحہ اور شام کی تباہی میں اس کے منافقانہ اور عوام مخالف کردار پر بھی اس طبقہ کی جانب سے کوئی منصفانہ بات سامنے نہیں آئی جو ہمیں یمن کی یاد دلا کر کہتا ہے کہ حلب میں انسانیت سوز حرکتوں کو بھول جائو ۔وہ یہیں نہیں رکتے ہمیں کہتے ہیں کہ اب ہم سعودی عرب یمن اور بحرین پر بھی قبضہ کریں گے ۔انہیں سعودی عرب کی بادشاہت پسند نہیں لیکن شام میں بشاری ڈکٹیٹر شپ کی حمایت کرتے ہیں اور پوری جان جوکھم میں ڈال کر اسے بچاتے ہیں ۔اس کیلئے چار چھ لاکھ انسانوں کا قتل عام بھی ایران نوازوں کے سامنے انسانیت کے خلاف کوئی جرم نہیں ہے ۔ ان کی ان باتوں سے یہ بات کھل گئی کہ یہ لوگ کتنے انسان نواز اور انسانیت کی قدر کرنے والے ہیں ۔ایران کو لاکھ بچانے کی کوشش کریں لیکن اس کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگین ہو چکے ہیں اور تاریخ میں اس کا نام بھی چنگیز ،ہلاکو کی فہرست میں ہی شامل ہوگا ۔عنقریب وہ وقت بھی آنے والا ہے جب بشار الاسد جنگی جرائم کا سامنا کرے گا اور اس کا ساتھ دینے کے جرم میں روس اور ایران بھی اس سے نہیں بچ سکیں گے۔انشاء اللہ

آزاد خیال طبقہ کی مسلم نوازی کی حقیقت ۔ نہال صغیر

آزاد خیال طبقہ کی مسلم نوازی کی حقیقت

نہال صغیر

اس وقت دنیا ہی نہیں ہندوستان میں بھی مسلمان ہر چہار جانب سے اپنے دین و ایمان اور جان و مال پر حملہ کا شکار ہیں ۔ایسا ہی ایک حملہ آج کل اسلامی شعائر اور تہذیب و ثقافت پر ان لوگوں کی جانب سے کیا جارہا ہے جو ماضی قریب میں فساد زدہ مسلمانوں کی زبانی اشک سوئی کے بہانے ان کی ہمدردی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ایسے میں دو نام میرے ذہن میں آرہے ہیں اس میں ایک ہیں جاوید آنند جو ٹیستا سیتلواد کے شوہر ہیں ۔یہ صاحب ایک انگریزی جریدہ کمیونل کمبیٹ نکالتے ہیں ۔دوسرا ایک نام ہے فیروز میٹھی بور والا کا ،یہ جناب بھارت بچائو آندولن کے بینر تلے مسلم سماجی کارکنان اور مذہبی شخصیات کو ساتھ لیکر چمکے اور اب یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہی آواز اٹھارہے ہیں ۔انہیں ہندوستان کی اس افرا تفری والے ماحول میں سب سے زیادہ مسلم خواتین ہی مظلوم نظر آتی ہیں ۔جب حاجی علی میں خواتین کے داخلہ کی تحریک کو ترپتی دیسائی مہمیز دینے مصروف تھی جس کے پیچھے کچھ اور قوتیں تھیں ان میں فیروز میٹھی بور والا کا نام بھی شامل تھا ۔اسی وقت فیروز نے آزاد میدان کے باہر کیفیٹیریا علاقے میں مجھ سے کہا تھا کہ حاجی علی کے بعد مساجد میں خواتین کے داخلہ کی تحریک چلانی ہے ۔میں نے اسی وقت انتباہ دیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور عوام کے اور بہت سے مسائل ہیں جنہیں حل کیا جانا ضروری ہے ۔مساجد میں خواتین کا داخلہ یا حاجی علی میں یہ خواتین کے حقوق سے کوئی تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ ایک تہذیبی اور مذہبی معاملہ ہے ۔اللہ کا شکر ہے کہ مسلمانوں میں خواتین کے تئیں وہ احساسات نہیں پائے جاتے جو دوسری قوموں یا مذاہب میں رائج ہیں ۔اسلام نے سبھی کے ساتھ انصاف کرنے کی بات کی ہے ۔اس کا اثر نظر بھی آتا ہے ۔لیکن ایسے نام نہاد سماجی خدمت گار کے پاس لگتا ہے کہ یا تو کوئی کام نہیں ہے یا پھر انہیں اسلام مخالف اور مسلم دشمن قوتوں نے اپنے ایجنٹ کے طور پر مقرر کیا ہے ۔اس سے قبل بھی جب پورا میڈیا ذاکر نائک کے خلاف مہم چلا رہا تھا تب بھی یہ لوگ بی جے پی اور سنگھ کے ایجنٹ بن کر ذاکر نائک کے خلاف پریس کانفرنس میں ان پر الزامات طے کررہے تھے ۔
انڈین مسلم فار ڈیموکریسی تنظیم کے نام سے یہ لگتا ہے کہ وہ لوگ مسلمانوں کی کوئی مثبت شبیہ پیش کرنے میں منہمک ہیں ۔لیکن ان کی حرکتیں یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ یہ لوگ چند مفروضوں کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو بدنام کرنا اور اسلام کی اپنی نظریہ کے تحت تشریح کرکے اسے مسخ کرنے کی کوشش کرنے میں مگن ہیں ۔انہی مفروضوں میں ایک ہے تین طلاق کا مسئلہ ۔تین طلاق کے مسئلے کو اس طرح یہ لوگ اٹھاتے ہیں جیسے مسلمانوں کے پاس اور کوئی دوسرا کام نہیں ہے ۔وہ صرف چار چار نکاح کرنے اور تین بار طلاق بول کر عورتوں کا استحصال کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے ۔ان جاہلوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ احمقو! پہلے رپورٹ دیکھو کہ کس قوم یا مذاہب یا تہذیب کے علمبرداروں میں طلاق اور اس کے بغیر ہی علیحدگی کے سبب خواتین ہی نہیں مرد کی زندگی بھی جہنم بن جاتی ہے ۔لیکن مرد آزاد ہونے کی وجہ سے وہ اپنی جنسی آسودگی با ہر نکل کر پوری کرتے ہیں جبکہ عورتیں اتنی آزاد نہیں ہوتیں اس لئے انہیں یہ مواقع حاصل نہیں ہوتے یا بہت ہی کم ہے۔خود حکومت ہند کی سروے رپورٹ کے مطابق ہندوئوں میں بغیر طلاق کے علیحدگی کی شرح مسلمانوں کے مقابلے کئی گنا ہے ۔یعنی دونوں کی زندگی میں الجھن پریشانی کے سوا کچھ نہیں ۔اس کے برعکس مسلمانوں میں اسلامی قانون کے مطابق طلاق حلال لیکن ناپسندیدہ عمل کو اس لئے منظوری دی گئی ہے کہ زوجین میں جب کسی طور مصالحت کی کوئی صورت نہ ہو تو اپنی زندگی کو جہنم بنانے اور جلا کر یا کسی سازش کے تحت ایک دوسرے کا قتل کرنے کے بجائے قانونی طور پر علیحدہ ہو جائیں اور دونوں اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کریں ۔
جاوید آنند اور ان کے ساتھیوں کو ایک خلش یہ بھی ہے کہ مسلمان اسلامی حکومت کی وکالت کرتے ہیں لیکن وہ سعودی عربیہ میں مندر یا گرودوارہ کے خلاف ہیں ۔انہیں آج تک یہ بات معلوم نہیں یا انہوں نے معلوم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ اگر مسلمان اسلامی حکومت کی وکالت کرتا ہے تو کیوں کرتا ہے ؟شاید ان کے ذہن میں یہ بات محفوظ نہیں کہ ہندوستان میں زنا بالجبر ،چوری ڈکیتی اور بد عنوانی سے پریشان حال لوگ اور لیڈران جس میں سخت گیر ہندو تنظیمیں بھی شامل ہیں وہ ایسے حالات میں مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کے لئے اسلامی قانون نافذ کیا جائے ۔آخر ایسا کیوں ہے ؟ انہیں ان لوگوں سے ضرور پوچھنا چاہئے جو مسلمان نہیں ہیں اور وہ اسلامی قوانین کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ سیدھی سی بات ہے کہ موجودہ رائج قانون اور نظام ان جرائم کو قابو میں کرنے اور معاشرے میں امن و سلامتی کی صورتحال کو بہتر بنانے میں ناکام ہے یہی سبب ہے کہ جو مسلمان نہیں ہیں انہیں بھی سعودی عرب جہاں اسلامی تعزیری قوانین نافذ ہیں اور جہاں جرائم کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے ۔اسی میں عوام کو نجات نظر آتی ہے ۔کچھ ماہ قبل سعودی عرب سے دو ایسی خبریں آئی تھیں جس نے دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا ۔یہ دونوں خبریں سعودی شاہی خاندان کے دو افراد کو سزا ملی ایک کو سزائے موت دوسرے کو چند کوڑے مارنے کی سزا ۔ایسا موجودہ دنیا میں نظر نہیں آتا جب خاص طبقہ یا اشرافیہ کو بھی قانون کے تحت یکساں تعزیر سے گذرنا پڑا ہو ۔ہم اسی لئے اسلامی قانون کی وکالت کرتے ہیں کیوں کہ یہ ہمیں کہتا ہے قرآن کبھی پڑھو تو جانو گے کہ وہ ہمیں تلقین کرتا ہے کہ ’’اور جب تم بات کہو تو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو ‘‘(الانعام 152 )دوسری جگہ قرآن کہتا ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ،انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین پر یا رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ،اللہ تم سے زیادہ ان کاخیر خواہ ہے ۔لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ۔اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے ‘‘(النساء 135 )یہ دو آیات قرآنی جس میں ہمیں حق و انصاف کا علمبردار بن کر رہنے کی تلقین کی گئی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ ہم اسلامی حکومت کیوں چاہتے ہیں ۔کیا دوسرا طریق حکومت بھی ہے جس میں ایسا کوئی احکام ہے ۔کہا جائے گا کہ جمہوریت !لیکن جمہوری حکومت میں ہی ہم پچھلے ستر برسوں سے ہیں ۔ہر طرف ظلم جبر اور بے چینی کا دور دورہ ہے ۔عدلیہ کا یہ حال ہے کہ لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں ۔معمولی معمولی مقدمات میں دس بیس سال تک صرف تاریخ ہی ملتی رہتی ۔کیا سعودی عرب میں بھی ایسا ہے کیا جہاں برسوں اسی طرح انصاف کے انتظار میںعوام دھکہ کھارہے ہوں ؟کیا وہاں اور یہاں کی جیلوں کا بھی کوئی تقابل ہے ۔نام ہے جمہوریت کا اور بدترین آمریت سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال ہے ۔عوام کراہ رہے ہیں لیکن ہمیں جمہوریت کی نیلم پری کا افیم کھلا کر بے ہوش رکھا جاتا ہے کہ دیکھو یہاں کتنی آزادی ہے ۔کچھ بھی بول سکتے ہو ۔صرف بول سکتے ہو لیکن ابھی کے نوٹ بندی میں یہ بات سامنے آئی کہ ہم اپنے پیسے اپنی ضرورت کے مطابق نہیں نکال سکتے ۔ہم نے فیروز میٹھی بور والا کو فیس بک کے ذریعہ اسلامی حکومت میں ذمیوں کے حقوق پر مبنی کئی کتابیں بھیجی تھیں لیکن انہیں پڑھنے کی ہی فرصت کیوں ملے گی یہ لوگ کارل مارکس اور فرائیڈ کو پڑھیں گے لیکن نہ تو قرآن کو پورا پڑھنے کی کوشش کریں گے اور نہ ہی اسلامی قوانین کو کہ اس میں کیا بھلائیاں ہیں ۔یہ آر ایس ایس کے گرگے ہیں جس طرح انہیں بیس آیات پر اعتراض ہے اسی طرح اسے بھی اعتراض ہے ۔ان کا کارل مارکس اور اس کے نظریہ کا پجاری روس کتنا ظالم ہے اس کا ثبوت حلب اور الیپو میں نظر آگیا اور اگر آج سے سو سال پیچھے جائیں گے تو مرکزی ایشیا کی مسلم جمہوریائوں کے ساتھ روس نے جو کیا اور وہاں جو قتل و غارتگری مچائی وہ بھی نظر آجائے گا ۔مسلم امہ کیلئے روس ایک ناسور ہے ۔یہ کچھ پڑھتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے تو بات کچھ سمجھ میں آتی لیکن کسی نے خوب کہا ہے اور ایسے ہی افراد کے بارے میں کہا ہے کہ ’’یہ لوگ عورتوں کی آزادی کے نام پر عورتوں تک پہنچنے کا راستہ تلاشتے ہیں ‘‘۔ان بدکاروں کے سامنے اور کیا ہے ۔لیکن میری سمجھ میں ایک بات اور آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ لوگ چونکہ بدکار اور ایک ایسے ماحول کے پروردہ ہیں جہاں امن چین سکون سب عنقا ہیں ۔ان کی خواتین باغی اور گمراہ ہیں اور اس سبب ان کا معاشرہ دسیوں طرح کی خرابیوں اور افرا تفری کا شکار ہے لہٰذا انہوں نے سوچا کہ مسلم معاشرہ سکون سے کیوں رہے ۔یہی ان کی خلش کی اصل وجہ ہے کہ ہم تو ننگے ہیں تم بھی ننگے رہو تم کیوں با لباس ہو کر مہذب نظر آتے ہو ؟
اسلام کے چند بزرگوں کا نام تو یہ لوگ صرف عوام کو دھوکہ دینے کے لئے لیتے ہیں ۔حالیہ پریس کانفرنس میں ان لوگوں نے خواجہ معین الدین چشتی ؒ اور نظام الدین اولیاءؒ کا نام لے کر عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔انہیں پتہ نہیں کہ اسلام کی تعلیمات سے یہ اولیاء اللہ ہمارے لئے محترم ہیں نہ کہ ان بزرگوں نے ہمیں کوئی نیا اسلام عطا کیا ۔انہوں نے بھی اسی اسلام کی تبلیغ کی جو عرب سے آیا تھا ۔یہ نام تو یہ لوگ صرف بھرم پھیلانے کے لئے لیتے ہیں کہ ان کی خباثت پردے میں رہے ۔ان دہریوں کو جنہیں اسلام کے الف کا بھی پتہ نہیں وہ ہمیں قرآنی احکام سمجھانے آئے ہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ اسلام نے ان کے باطل نظریہ کا تیا پانچا کردیا ہے ۔اب یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کو بھی کمیونزم کی طرح بنادیں ۔مسلمان اپنے عائلی قوانین ،اسلام میں دیئے گئے عورتوں کے حقوق اور دیگر قوانین سے پوری طرح مطمئن ہیں ۔محض چند ایک گمراہ یا کسی طور کہیں ستائی گئی خواتین کی وجہ سے اسلام کے اصولوں کو نہیں بدلا جاسکتا ۔جو کام ہمارے یہاں چند تاریخوں میں ہو جاتا ہے یہ لوگ چاہتے ہیں کہ مسلم زوجین بھی برسوں عدلیہ کے چکر کاٹیں اور اپنی زندگی کو جہنم بنائیں ۔آخر ہم کتنی بار بتائیں کہ مروجہ عدالتی نظام میں طلاق کا مقدمہ بھی تیس تیس سال تک چلتا ہے ۔زیادہ جانکاری کسی کو چاہئے تو فیملی کورٹ میں جا کر حالات دیکھ لے۔ہم تو اسی اسلامی قانون میں خوش ہیں تم کو پسند ہو کہ نا ہو۔جس کو اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی چاہئے تو اس کو اسلام میں یا مسلمانوں کے درمیان مسلم شناخت کی حیثیت سے رہنے کو مجبور کس نے کیا ہے ۔اسے جس قوم کی صحبت پسند ہے وہ وہاں چلا جائے ۔اسی قوم کا حصہ بن کر رہے ۔ہم نے اس سے تھوڑی نا کہا ہے کہ وہ یہیں ہمارے ساتھ رہے ۔ہمیں تو ویسے بھی حکم ہے 
کہ دین میں زبردستی نہیں۔
آخر میں مسلم قائدین سے گزارش ہے کہ وہ اپنی تحریکوں میں دوسروں کی شمولیت میں احتیاط برتیں ۔خاص طور سے مسلم نام والے دہریے یا کمیونسٹوں سے دور ہی رہیں تو بہتر ہے۔یہ لوگ دو دھاری تلوار ہیں۔یہ آپ کے ساتھ مل کر اپنی شناخت بناتے ہیں اور پھر آپ کے ہی دین اور عقیدہ پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔فیروز میٹھی بور والا کے ساتھ بھی ایسا ہی مسئلہ ہے۔ اس شخص نے مسلم تنظیموں اور شخصیات کے ساتھ مل کر اپنی پہچان بنائی ۔شروع شروع میں مقامی مسائل پر مسلم قائدین کے ساتھ آیا اور اس کے بعد شہرت کی بلندی پر جانے کا سب سے آسان فارمولہ مسئلہ فلسطین کو ہائی جیک کیا ۔اس نے یہاں دو روزہ کانفرنس بھی منعقد کی۔ اس کے کانفرنس میں محمود عباس کے خیمہ کے لوگ تو نظر آئے لیکن اس میں حماس کے لوگ کہیں نہیں دیکھے گئے جو کہ فلسطین کی تحریک کی بنیاد ہیں جس کے سبب انتخاب میں عوام نے انہیں اکثریت دی تھی ۔لیکن جس طرح الجزائر میں اسلامی تحریک کو انتخاب میں جیت درج کروانے پر اسے نا منظور کردیا ۔اسی طرح حماس کو بھی بڑی قوتوں نے نا منظور کردیا ۔انہی قوتوں کے ساتھ فیروز میٹھی بور والا بھی نظر آیا ۔یعنی یہاں آر ایس ایس کے ساتھ اور بین الاقوامی طور پر امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ۔بظاہر تو یہ لوگ اندرون ملک آر ایس ایس اور بیرون ملک امریکی پالیسی کی مخالفت کرتے ہیں لیکن عملاًحمایت ہی ان کا وطیرہ ہے۔ مسلمان اپنی تحریکوں میں غیر مسلم پسماندہ طبقات کے قائدین کو ساتھ لیں یہ لوگ مفید بھی ہوں گے اور ساتھ بھی نبھا ئیں گے ان کے ساتھ سے آپ کی تحریک اثر پذیر بھی ہوگی ۔دوسرے یہ کبھی اسلامی عقائد پر حملہ آور نہیں ہوتے بلکہ اس کا احترام کرتے ہیں ۔اس کا شاہد میں خود بھی ہوں ۔


--

Thursday, 22 December 2016

The Biggest Tech Controversies Of 2016

Exploding Phones, Racist Bots and Clueless Hackers: The Biggest Tech Controversies Of 2016

Tech fiascos that hogged the headlines.

Ivan Mehta  
Tech News Editor, Huffington Post

The year 2016 saw the launch of great tech products, ranging from Google Pixel and Snapchat Spectacles to Mircosoft Surface Studio. The year also had its share of controversies. Here are some of the most interesting ones.

1. Free Basics v TRAI
Last year, when the Telecom Regulatory Authority of India (TRAI) had asked for recommendations and views on differential pricing, Facebook went all out to save its ambitious Free Basics program. Under the initiative, Facebook had tied up with select network providers to let people access some websites for free.

2. Freedom 251
In mid-February this year, it was reported that an Indian company named Ringing Bells was going to launch a smartphone that would cost a mere ₹500. Then, days later, Ringing Bells announced that the smartphone, named Freedom 251, would be launched at an unbelievable price of ₹251.

While people were wondering how a smartphone could be sold this cheaply, controversies began erupting around Freedom 251 from 17 February, the day it was launched. Right away some reporters found that the paint was coming off from the review units. The chipped paint revealed that the name of the phone manufacturer was Adcom.

The Ringing Bells website, where one could pay for and order the phone, was also riddled with security holes. The website's servers were down within hours after the sale started. Meanwhile, despite the phone-makers' attempts to tom tom their initiative as part of the government's Make In India scheme, the government distanced itself from the venture and a BJP MP filed a complaint against the owners for misusing the Tricolour.

Late in June, the company announced that it is going to start delivering Freedom 251 devices from July. It hosted an event, announcing plans to make new phones, LCD TVs and also to begin the delivery of Freedom 251. While Ringing Bells claimed that some phones had already been delivered, there was no real evidence of that having happened. The most recent reports suggest that the company has shut down.

3. Microsoft's Tay bot turns racist
Microsoft introduced their AI bot named Tay on 23 March on Twitter and people started to throw all kinds of questions at it. While it was all fun and games initially, the bot turned racist pretty soon, learning from users' responses.

4. Facebook director Marc Andreeson's controversial tweet about India
Commenting on the strong opposition in India to the Free Basics program, Marc Andreessen, Facebook Director and co-founder of the venture capital firm Andreeson-Horowitz, tweeted in February that India's anti-colonial stance had been "economically catastrophic" for it. Naturally, this didn't go too well for him and Benedict Evans who had taken his side on Twitter.
Facebook CEO Mark Zuckerberg also slammed the tweet. Andreessen apologised later on the micro-blogging network.

5. The decline and crash of Galaxy Note7
Samsung was sitting pretty in the driver's seat, thanks to its successful flagship Galaxy S7, and the Note7 was poised to become one the best phones of the year. And, reports started to emerge of Note 7 phones catching fire while being charged. There was some suspicion that this might be occurring due to the use of substandard charging accessories not supplied by Samsung, but more reported incidents confirmed that that was not the case.

On 2 September Samsung announced a soft recall of Note 7, saying that it will replace the old and faulty phones with new ones. But this step proved to be inadequate. New instances of exploding phones were reported, some quite serious in nature including that of a jeep catching fire and a man getting burnt.

Samsung issued another notice to users on 10 September but still stopped short of asking users to stop using their Note7s altogether. On 15 September, Samsung finally officially recalled all the Galaxy Note7 units it had sold. The notice was first issued in the US, followed by other countries. But even the new units began exploding. So on 10 October the company finally shut down production.

6. The Legion Attacks
The notorious and foulmouthed hacking group Legion surfaced after it hacked the Twitter account of Rahul Gandhi on 30 November. The very next day, the Indian National Congress party's account was hacked. The next target was business baron Vijay Mallya. Legion even posted a dump of Mallya's personal data including emails and property listings.

Then the group targeted popular journalists Barkha Dutt and Ravish Kumar. Soon Legion members started giving interviews listing their ambitions and sounding quite clueless.

Credit: Huffington Post India




Wednesday, 21 December 2016

Why the Nazis studied American race laws for inspiration

RACE DIVIDE

Why the Nazis studied American race laws for inspiration

In the early 20th century, America led the world in racist lawmaking.

Image credit:  Jack Delano [Public domain], via Wikimedia Commons

On June 5, 1934, about a year and half after Adolf Hitler became Chancellor of the Reich, the leading lawyers of Nazi Germany gathered at a meeting to plan what would become the Nuremberg Laws, the centrepiece anti-Jewish legislation of the Nazi race regime. The meeting was an important one and a stenographer was present to take down a verbatim transcript, to be preserved by the ever-diligent Nazi bureaucracy as a record of a crucial moment in the creation of the new race regime.

That transcript reveals a startling fact: the meeting involved lengthy discussions of the law of the United States of America. At its very opening, the minister of justice presented a memorandum on US race law and, as the meeting progressed, the participants turned to the US example repeatedly. They debated whether they should bring Jim Crow segregation to the Third Reich. They engaged in detailed discussion of the statutes from the 30 US states that criminalised racially mixed marriages. They reviewed how the various US states determined who counted as a “Negro” or a “Mongol”, and weighed whether they should adopt US techniques in their own approach to determining who counted as a Jew. Throughout the meeting the most ardent supporters of the US model were the most radical Nazis in the room.

The record of that meeting is only one piece of evidence in an unexamined history that is sure to make Americans cringe. Throughout the early 1930s, the years of the making of the Nuremberg Laws, Nazi policymakers looked to US law for inspiration. Hitler himself, in Mein Kampf (1925), described the US as “the one state” that had made progress toward the creation of a healthy racist society, and after the Nazis seized power in 1933 they continued to cite and ponder US models regularly. They saw many things to despise in US constitutional values, to be sure. But they also saw many things to admire in US white supremacy, and when the Nuremberg Laws were promulgated in 1935, it is almost certainly the case that they reflected direct US influence.

Leading the way
This story might seem incredible. Why would the Nazis have felt the need to take lessons in racism from anybody? Why, most especially, would they have looked to the US? Whatever its failings, after all, the US is the home of a great liberal and democratic tradition. Moreover, the Jews of the US – however many obstacles they might have confronted in the early 20th century – never faced state-sponsored persecution. And, in the end, Americans made immense sacrifices in the struggle to defeat Hitler.

But the reality is that, in the early 20th century, the US, with its vigorous and creative legal culture, led the world in racist lawmaking. That was not only true of the Jim Crow South. It was true on the national level as well. The US had race-based immigration law, admired by racists all over the world; and the Nazis, like their Right-wing European successors today (and so many US voters) were obsessed with the dangers posed by immigration.

The US stood alone in the world for the harshness of its anti-miscegenation laws, which not only prohibited racially mixed marriages, but also threatened mixed-race couples with severe criminal punishment. Again, this was not law confined to the South. It was found all over the US: Nazi lawyers carefully studied the statutes, not only of states such as Virginia, but also states such as Montana.

It is true that the US did not persecute the Jews – or at least, as one Nazi lawyer remarked in 1936, it had not persecuted the Jews “so far” – but it had created a host of forms of second-class citizenship for other minority groups, including Chinese, Japanese, Filipinos, Puerto Ricans and Native Americans, scattered all over the Union and its colonies. American forms of second-class citizenship were of great interest to Nazi policymakers as they set out to craft their own forms of second-class citizenship for the German Jewry.

Not least, the US was the greatest economic and cultural power in the world after 1918 – dynamic, modern, wealthy. Hitler and other Nazis envied the US, and wanted to learn how the Americans did it; it’s no great surprise that they believed that what had made America great was American racism.

Of course, however ugly American race law might have been, there was no American model for Nazi extermination camps, even if the Nazis often expressed their admiration for the American conquest of the West, when, as Hitler declared, the settlers had “shot down the millions of Redskins to a few hundred thousand”. In any case, extermination camps were not the issue during the early 1930s, when the Nuremberg Laws were framed. The Nazis were not yet contemplating mass murder. Their aim at the time was to compel the Jews by whatever means possible to flee Germany, in order to preserve the Third Reich as a pure “Aryan” country.

And here they were indeed convinced that they could identify American models – and some strange American heroes. For a young Nazi lawyer named Heinrich Krieger, for example, who had studied at the University of Arkansas as an exchange student, and whose diligent research on US race law formed the basis for the work of the Nazi Ministry of Justice, the great American heroes were Thomas Jefferson and Abraham Lincoln. Did not Jefferson say, in 1821, that it is certain “that the two races, equally free, cannot live in the same government”? Did not Lincoln often declare, before 1864, that the only real hope of America lay in the resettlement of the black population somewhere else? For a Nazi who believed that Germany’s only hope lay in the forced emigration of the Jews, these could seem like shining examples.

None of this is entirely easy to talk about. It is hard to overcome our sense that if we influenced Nazism we have polluted ourselves in ways that can never be cleansed. Nevertheless the evidence is there, and we cannot read it out of either German or American history.

James Q Whitman
is the Ford Foundation professor of comparative and foreign law at Yale Law School. His subjects are comparative law, criminal law, and legal history. His latest book is Hitler’s American Model (2017).

Credit:
https://aeon.co/ideas/why-the-nazis-studied-american-race-laws-for-inspiration

From Brexit to demonetisation: 2016 as the year of extremes

From Brexit to demonetisation: 2016 as the year of extremes



Here is a list of events which show that 2016 was a year of extremes

The year 2016 saw a bitter US presidential election, the Syrian civil war taking a bloody turn in Aleppo and the demonetisation scheme announced by the Narendra Modi government. While it is the time to look forward and see what the new year has in store for us, it is also the time to look back and see what the world went through in the last 365 days.

Brexit
The whole world watched in anticipation as Britain voted to leave the European Union. The Brexit decision, a shorthand for Britain and exit, was sealed after the country voted on June 23. In the referendum, 52 per cent voted for leave, while 48 per cent voted for remain. A total of 30 million people cast their ballot.

The immediate impact was such that the world markets saw major fluctuations as the results were being announced. What turned out to be more fascinating was the voting demographics. Reportedly, more young voters preferred remain, while the elderly voted for leave, highlighting a divide which some termed to be unfair for the coming generation of Britain. Following the results, David Cameroon resigned as Prime Minister of Britain and Theresa May took over. She has said that she will trigger the process of leaving EU by the end of March 2017.

Turkey coup attempt
On the intervening night of July 15 and 16, people in Turkey witnessed sudden terrifying chaos as a faction of the military tried to overthrow the elected government in an attempt to seize power from Presidnet Recep Tayyip Erdogan. Overnight, the rebels announced that it had imposed curfew and martial law and that the preparation for a new constitution had begun. Meanwhile, President Erdogan urged his supporters to take to the streets to protest against the military crackdown. The coup, which needed support from public and other factions of the army, failed as majority decided to throw their weight behind the President.

Terror attacks
With the advent of ISIS or ISIL, the middle-eastern region has seen some of the deadliest terror attacks so far. However, 2016 also saw the spread of these terror acts throughout the world with a new technique called ‘lone wolf attacks’ being adopted. The US witnessed the deadliest terror attack since 9/11 as a gunman opened fire in an Orlando nightclub killing 49 and injuring over 50. Apart from that, coordinated attacks took place in Brussels in March killing 32 civilians and 86 were killed in Nice, France during Bastille Day celebrations on July 14. Over 100 such incidents were reported across the world in 2016 including suicide bombings in neighboring Pakistan in March, 2016 in which 75 people were killed. External Affairs Minister Sushma Swaraj also raised the issue of global terror threat at UN General Assembly in September.

The Aleppo offensive
Aleppo, one of the oldest cities in the world located in Syria, has been a battlefront between the rebels and Bashar-al Assad’s forces as both of them try to overpower each other. The civil war in Syria has so far caused thousands of deaths and forced civilians to flee the region. The horrors for around 320,000 civilians trapped in Aleppo continued with the Assad regime carrying out a siege with help from Iran and Russia blocking essential supplies into the city.
The Aleppo offensive launched in late September by Syrian forces was met by another offensive in late October by the rebel forces in an attempt to establish a new line of supply. The people of Aleppo, in order to draw attention to their sufferings, took to social media in December sharing goodbye messages amid reports of torture, execution and rape by the military.

US elections and rise of Donald Trump
Many believed US elections hit a new low as Donald Trump, during his campaign for the post of president, openly advocated banning of Muslims and spoke against other minority groups. The vote count on November 9 and the result came as a shock to many as Donald Trump managed to win the elections. However, his rival Hillary Clinton bagged more popular votes. Trump’s victory did not bode well for many as protests broke out in different parts of the country with the dissenters chanting ‘not my President’.

Kashmir unrest
The killing of Hizbul Mujahideen militant Burhan Wani on July 8 pushed the Valley into an abyss leading to a series of clashes in which dozens of Kashmiri protesters lost their lives and thousands were injured, some blinded by the pellet guns used by forces. On the other hand, the security forces also suffered heavy injuries inflicted by stone pelters. Kashmir unrest, this year, stretched for the longest time period with curfew bringing the Valley to a standstill. Schools and public offices remained closed and basic supplies were hit.

India-Pakistan relations
In 2016, with Kashmir unrest at its peak, the relation between India and Pakistan hit a new low as a series of terror attacks targeted Indian security forces by militants coming from Pakistan. In a retaliatory step, Indian forces conducted surgical strikes along the Line of Control on September 29 destroying the terrorist launch pads operating within Pakistani territory.

Pollution and smog
Several parts of north India, including the national capital Delhi, woke up to a thick smog cover on October 31. The unprecedented smog cover, which did not fade away for coming days, alarmed everyone and brought to everyone’s attention the hazardous levels of pollution.
The level of PM 2.5 and PM 10 in several parts of New Delhi reached 10 to 15 times more than normal levels. The National Green Tribunal rapped the state and Central governments for showing laxity in dealing with the problem which was directly related to people’s health. The situation also triggered a debate regarding different measures that need to be adopted to control the emission of pollutants in the air.

Demonetisation
Perhaps the biggest shock that struck Indian people and impacted the entire population of the country was the sudden announcement of demonetising Rs 1,000 and Rs 500 notes by Prime Minister Narendra Modi on November 8. The move, according the government, was aimed to counter the problem of black money hoarded in the form of cash and counterfeit currency used to fund terror groups.

However, within days of the announcement, long queues outside ATM kiosks and banks for withdrawing cash and exchange of notes showed that the fight against black money was not going to be easy for the common man. Opposition parties came together and launched protests against the government inside and outside Parliament criticising it for the ‘lack of preparation’ and ‘poor implementation’ of the scheme. Some even went on to call it the ‘biggest scam of the year’. The government, however, maintained that the results of demonetisation will start reflecting in the long term.

Courtesy: Indian Express
http://indianexpress.com/article/india/from-brexit-to-demonetisation-2016-as-the-year-of-extremes-4438413/

Monday, 19 December 2016

Reporting from the ground in times of war

Reporting from the ground in times of war

Courageous endeavours of journalists in Aleppo deliver the news we hear today.

by Clive Stafford Smith


It is said: "Greater love hath no man than this, that a man lay down his life for a friend." I would propose a caveat to this: the love is perhaps even greater when he is willing to risk his life for a stranger, just another fellow traveller in the human race.

In earlier acts of genocidal horror, often the world learned only of statistics, unable to witness the individual horror suffered by a 14-year-old boy, clinging on to the lifeless body of his infant brother.

In Aleppo, with its diminishing cast of traumatised civilian survivors, daily we learn their stories. And daily those who remain hope that their tears may move the pusillanimous hearts of far flung politicians who play, each day, with the pawns on the Middle Eastern chessboard.

When British Foreign Secretary Boris Johnson called on the Stop the War Coalition to protest outside the Russian Embassy, he said: "It's up to us in government to show a lead." It is well past time for a leadership, and yet we see very little.

The true leaders have been those who have risked their lives to report from Aleppo. Many civilians had no choice in the matter, finding themselves unwillingly between the Scylla of the rebel guns and the Charybdis of Bashar al-Assad and his bloodthirsty allies.

The journalists, on the other hand, made an active decision to put themselves in the path of danger in order to report the truth - normally an early casualty in warfare.

We are all in their debt. Who can fail to be moved by the pictures of the stunned child, shared with the world by filmmaker, Wa'ad al Ketab? Salah Ashkar, Lina Shamy and others have brought the truth into our living rooms.

Aleppo has seen the rise of the "citizen journalist", including Zouhir Al Shimale, reporting on how he and others were "turned back" when they tried to evacuate.

Then there is the truly amateur journalist in the age of the mobile phone camera, epitomised by the anonymous medic who sent out the video of a five-year-old reciting Quranic verses while undergoing an operation without anaesthetic.

It has therefore been my privilege to have been working recently with Bilal Abdul Kareem, justifiably voted "Al Jazeera personality of the week" by a large margin.

Bilal remains in the ruins of that once proud city, pumping out his media reports to the comfortable world. He is American, a stand-up comedian-turned war journalist who has been in Syria since 2012 reporting on the conflict from his independent network On the Ground News. Before that, he risked danger to filmed Torture Agreement, a documentary in post-Muammar Gaddafi Libya.

As he reports, the Russian barrel bombs periodically explode in the background. If there are only a handful of Syrians with operating generators in the dying city, they welcome Bilal in to charge his equipment, for they know that he speaks for them.

When news outlets were declaring the Aleppo evacuation over, he continued to dispatch his footage, and describe the rockets descending on the remaining women and children: "There are thousands upon thousands of people who are still here," he said. "They were so many, they look like ants."

And yet, he makes jokes in times of despair, his humanity setting him far apart from stony faced analysts of war who prognosticate from their studios, coffee in hand.

Recently, Bilal was interviewing members of the Free Syrian Army. One said he reckoned they could get $20,000 for kidnapping an American journalist. He made light of it, saying that since he was the only African-American in Aleppo they had miscalculated - a black man was worth very little.

We have been urging him to join the evacuation, and we wait for news that he is safe. Yet, at the same time, Bilal has reported on refugees being shot dead and men being snatched away as they attempt to leave.

No doubt there are members of the Assad regime who hate a man who has interviewed members of the Free Syrian Army and carried their voice to the world.

At the same time, there are misguided officials in the United States who think of Bilal as a traitor for interviewing members of al-Nusra Front. But the sane among us know that he represents the voice inside us all that we only wish we had the courage to let out.

Let it be known that the eyes of the world are watching over Bilal Abdul Kareem and his fellow journalists - professional and amateur - and we expect that they, and the other civilians in Aleppo, will be allowed a safe passage out.


Clive Stafford Smith is the founder of the legal action charity Reprieve.

The views expressed in this article are the author's own and do not necessarily reflect Al Jazeera's editorial policy.



Chanakya’s View: Cashless economy - A recipe for disaster

Chanakya’s View: Cashless economy - A recipe for disaster

PAVAN K VARMA
Author-diplomat Pavan K Varma is a Rajya Sabha member.

A ‘cashless’ society could not or should not have been the primary aim of the government.


Nitish Kumar was perhaps the first among Opposition leaders to support the intent behind the move for demonetisation. Any government, which takes a step motivated by the need to reduce or eliminate black economy and corruption, has to be given the benefit of doubt for taking such action. However, from the very beginning, the JD(U) had critiqued the lack of preparation for an exercise of this magnitude. And, it had said that such a move needs to go beyond, to attack black money in benami property, gold and bullion, and unaccounted cash lying abroad. It is surprising, however, that now the BJP government is changing the goal posts. Prime Minister Narendra Modi had, in his dramatic announcement on November 8, made black money the primary target for his demonetisation decision. He had said that demonetisation would attack the parallel black economy, eliminate counterfeit currency, and end the nexus between black money and terrorist funding. But he had never said that the express purpose of the exercise was to create a digital economy, where less cash transactions ultimately create a “cashless” society.

What is the reason for this change of goal posts? Surely, if the aim of the government was to create a society where cash transactions are reduced or eliminated, demonetisation of a magnitude wherein 86 per cent of all currency would be withdrawn was not the best or even required policy instrument. This would be obvious to even the most confused policymaker. A far better way to achieve this aim would be to first build the necessary banking and affiliated infrastructure, while simultaneously motivating and preparing people on the use and benefits of a less cash economy. To suddenly air drop this goal on a country where the banking network has poor density, especially in the rural areas, and where, as a consequence, many honest transactions can only happen in cash, is a recipe for disaster. For instance, according to one estimate, there are some two lakh ATM vending machines in the country, of which only 37,000 are in the rural areas. Such an infrastructure is ridiculously small given the size and needs of our country. For rural India, where people often have to often walk miles to reach the nearest bank, if they have a bank account at all, and for the informal sector where huge swathes of the population depend on daily wages payable in cash, such a move would inevitably spell great suffering.

A “cashless” society, therefore, could not — or should not have been — the primary aim of the government. The intriguing question then is, why has the government suddenly begun to link demonetisation to this goal? Nobody in his right mind uses chemotherapy to cure a cold, but using demonetisation to achieve a “cashless” society seems akin to this madness. It is, no doubt, true that reducing transactions in cash helps in eliminating corruption. I have said this before, and I would like to reiterate that in a country like ours the best antidote to corruption is the neutral intervention of technology. But moving towards greater transparency in financial transactions is a process that could have been implemented in a planned manner with pre-identified time lines and a well thought out road map. It did not require the instrumentality of such drastic demonetisation.

The reason for the shifting of the goal posts by the government can, therefore, have only one reason: The implementation of the demonetisation scheme has been so poorly planned, and the implementation is so flawed, that the elimination of black money is unlikely to be achieved. Hence, the reason to interpolate another goal: a less cash or cashless economy. Apart from the huge and unrelenting inconvenience being caused to the ordinary citizen, and, in particular, the farmers and daily-wage earners, it appears that the government’s goal of netting a substantial amount of black money will also not be achieved. According to latest reports, some Rs 13 lakh crores out of a total withdrawal of Rs 15.5 lakh crores, have been returned to the banking system. With time still available under December 31 to exchange old notes, it is becoming increasingly clear that those with black money have managed to largely launder their money, while those with honest cash are standing in queues to get a few thousands, if that, of their own hard earned money.

Faced with this situation, the government is desperately trying to prevent this laundering through extensive tax raids across the country. While this will put pressure on tax evaders with unaccounted money, it is unlikely to yield anything close to the Rs 3 or Rs 4 lakh crores of black money the government had expected to harvest as a result of demonetisation. This, in turn, means that the RBI will not get any monetary dividend to gift to the government, and nor will the government be in a position to plough the gains of the demonetisation exercise back into the economy for public welfare. Some amount will be gained by tax penalties and VDS schemes, but this is a tedious process in legal terms, and will at best yield a few thousand crores as against the lakhs of crores the government was probably expecting to gain, and the over one lakh crore it has spent to print new notes and release them.

In sum, therefore, Narendra Modi is faced with the distinct possibility of having his initial move to curb black money overwhelmed by poor planning and strategic anticipation. In the process, the collateral damage has been huge: continued suffering of the common person, and significant damage to the economy in terms of productivity, consumption and growth. The government is, perhaps, aware of this development. Hence the sudden change of goal posts, from the elimination of black money to the creation of a digital economy. The BJP leadership may think this is a clever move, but the people of India have an uncanny sense of knowing when they are being taken for a ride.

Credit: Deccan Chronicle
http://www.deccanchronicle.com/opinion/columnists/181216/chanakyas-view-cashless-economy-a-recipe-for-disaster.html

Will Mideast be first flashpoint for Trump?

Will Mideast be first flashpoint for Trump?

S NIHAL SINGH
(S Nihal Singh has four editorships under his belt, with globetrotting stints in Singapore, Pakistan, Moscow, London, New York, Paris and Dubai.)

Israelis greeted Mr Trump’s poll victory as a signal for announcing new settlements.



US President-elect Donald Trump has made many controversial and outlandish appointments for his future Cabinet. But even more surprising than naming rich billionaires like himself and a string of outspoken generals he has gathered is the appointment of his country’s ambassador to Israel. David Friedman is an orthodox Jew and son of a rabbi, who owns an apartment in Jerusalem and justifies illegal Israeli settlements on Palestinian land. He greeted his new post with the declaration that he looked forward to working “from the US embassy in Israel’s eternal capital, Jerusalem”, rather than Tel Aviv. This appointment, that baffled Americans and the world, comes after Mr Trump’s boast in an interview that he would make the “ultimate deal” between Israelis and Palestinians. Daniel Kutzer, a former US ambassador to Tel Aviv, declared “Mr Friedman should be beyond the pale”. Others have simply thrown up their hands in despair at the appointment of a bankruptcy lawyer who has taken up some of Mr Trump’s cases with no diplomatic experience broadcasting hardline views crossing all the red lines.

In a sense, Mr Trump has made explicit what was implicit in US policy over decades, a bias towards Israel due to military and regional factors and the strong US Jewish lobby, which has the ear of both Republicans and Democrats. The most American leaders have been able to do to discipline Israelis are slaps on the wrist. Two myths US administrations have carefully nurtured are an ambivalence towards Jerusalem’s status, sacred to both Jews and Arabs, its embassy functioning from Tel Aviv. Second, the US has officially viewed Israeli settlements as being illegal, with the suggestion that large border settlements can be swapped for Israeli territory. Significantly, Israelis greeted Mr Trump’s poll victory as a signal for announcing new settlements. Israel has in office the most right-wing government in its history under Benjamin Netanyahu. The official fiction is of a two-state solution, with Israeli and a defanged Palestinian state living side by side in peace. But the policies of the present administration have been making the constitution of such a state, opposed by the Prime Minister’s allies, impossible. Officially, Washington still swears by the virtues of two states without possessing the will or domestic support to bring it about. In contrast, the US recently signed a whopping new military aid package for Israel.

Washington has refrained from moving its embassy from Tel Aviv to Jerusalem for nearly seven decades because it has been conscious of the emotive overtones of a city revered by Jews, Christians and Muslims. Even for a nonconformist President, to appoint an envoy who openly advocates illegal settlements does not make sense. Mr Friedman for one has described President Barack Obama as being “anti-Semitic”. There has been much debate in the United States and Europe among liberal circles and the broad consensus is that if the Israeli state continues building settlements to swallow the occupied West Bank, apart from having annexed Arab East Jerusalem, it cannot remain a democratic entity. Although there is a strong minority not in favour of current trends in the country, it seems to have lost heart and its main argument. The populist streak apparent in the United States and Europe is in favour of  demagogues in Israel.

Against this backdrop, what does the future hold for Israel, the region and foreign backers, the US in particular? Palestinians themselves are in a sorry state, with Mahmoud Abbas, leader of the Palestine Liberation Organisation, well past his term, and divisions in Palestinian ranks in the shape of Hamas ruling the shattered Gaza Strip with an unfriendly Egypt making people’s lives as miserable as the consequences of Israeli  policy. Mr Friedman is on record in the US on refusing collectively to talk to the “J Street”, a moderate parallel to the main American Jewish lobby. But if he were to follow his plan to move the US embassy to Jerusalem with Mr Trump’s blessing, Palestinian frustrations would boil over and it would become an issue the whole Arab world would identify with. Thus far, Palestinian reaction to the appointment has been muted, but Jerusalem can light the banner of revolt in an instant with serious consequences for Israel’s future trajectory.

American legislators’ room for manoeuvre on any question over Israel is limited across party lines. They have a powerful lobby group that can blackball any political aspirant and deny him the money power they possess. Issues of freedom and justice for Palestinians living in Israel denied rights as citizens cannot be raised by mainstream politicians who must look over their shoulders to ensure Jewish lobbyists are not cross with them. US administrations of both main parties have routinely supported with money and arms countless dictators in the Middle East and Latin America for reasons of realpolitik, and still do so even as they broadcast the merits of a liberal democracy. But the future Trump administration will be likely to start a new tempest in the Muslim and Arab worlds by striking at the Islamic faith’s heart by the implied recognition of Jerusalem as Israel’s exclusive holy land. They would also have to contend with Christians, who believe in Christ’s provenance in Jerusalem.

It’s difficult to believe Mr Trump and his transition team are unaware of what they are bargaining for. If the President-elect’s purpose is to shock Palestinians into conceding their foremost dream, he will be disappointed. There isn’t a more emotive issue in the historical struggle between Jews and Palestinians than Jerusalem. And here is a Jew sent as America’s envoy, assuming he gets the Israel-friendly Senate’s approval, believing that his first task would be to move his country’s embassy to Jerusalem to fortify Israel’s claim of it being its “eternal” capital. There will doubtless be other surprises up Mr Trump’s sleeve, but in its explosive potential few things will surpass Mr Friedman’s appointment.

(The views expressed in this publication do not necessarily reflect the blog owners views)

Credit: Deccan Chronicle

Mapping the American mind

Mapping the American mind

Krishna Kumar
(Krishna Kumar is a former Director of NCERT and professor of education, Delhi University. His latest book is Education, Conflict and Peace.)

Given America’s centrality in many areas of knowledge, its own crisis in the Trump era will have an impact on other national systems of education

Donald Trump’s victory has unnerved a vast number of people around the world. It has jolted the common belief that education makes a contribution to the efficiency of democracy. One of the many positive stereotypes of America is that it has a very good system of public education. The reason America attracts some of the best students from other countries to study in its colleges and universities is that the quality of education they provide is believed to be very high. In school education too, the impression persists that America offers an equal opportunity to everyone to excel. These impressions are hard to accommodate with the decision America has taken to choose a man like Mr. Trump to lead and represent it.

Anyone who watched the three presidential debates will have difficulty forgetting the clumsy arguments and crude masculinity Hillary Clinton had to face repeatedly in these debates. Not only did Mr. Trump’s arguments and plans make little sense, they also exhibited a remarkable lack of sensibility. You couldn’t help wondering how anyone could take him seriously or not be worried about the health of a system that had permitted him to get this far. Even after the victory, he continues to come across as reckless, confused and ignorant, making outrageous promises and raising frightening phantoms. His ascendance has unsettled the minds of millions of people, especially young people, who see America as a symbol of democracy and progress. Will the oath mean anything to him? This question will haunt us throughout his presidency.

Era of American remedies

It is worth asking whether Mr. Trump’s candidature and victory signify something that had gone horribly wrong with America’s democracy, especially its system of education. Such a question is especially relevant for us because we are passing through a phase in our polity when many key ideas and projects are being borrowed from America. Indeed, several policies presented to us as innovations are recycled American coinages. Copiously exposed as we now are to American remedies in every sector — from economy and personal finance to education — we need to reflect on Trump’s rise to power, not just come to terms with it.

Progress and struggle

Let us briefly revisit two influential American books on education, one published in the first quarter of the 20th century and the other in its last quarter. John Dewey’s classic, Democracy and Education, was first published in 1916. In it, Dewey explained why communication across groups is a core challenge for democratic order. Dewey’s use of endosmosis as a metaphor for interactive relations between diverse social groups fascinated B.R. Ambedkar (who studied at Columbia when Dewey was teaching there). Endosmosis refers, in biology, to the flow of fluid through a membrane which acts like a porous separator. Dewey saw in commonality of educational experience the means that would enable citizens to practise individual freedom while contributing to collective efficiency. Quality of education, for Dewey, is a measure of the extent to which social goals are debated and grasped by different social groups. No wonder Dewey believed that democracy could be sustained as a system of governance only if it also becomes a way of life. Did that happen in America? Did its system of education nurture commonality of purpose in an atmosphere of freedom and critical inquiry?

Mr. Trump’s victory points to a negative answer to both these questions. The America he leads is a divided nation. Although a literate nation, it is badly short of words to soften its internal divisions. No one illustrates this problem better than Mr. Trump himself has during his long, bitter campaign. As it progressed, the gap between ethnic groups, factions and lobbies grew in width and sharpness. The gap that reveals the deficit of words most clearly is the one over gun laws. The outgoing President, Barack Obama, routinely conveyed his despair over gun laws and the culture of violence they represent. He used every mass shooting incident that occurred during his presidency to remind Americans that violence is not compatible with democracy. As America’s first African-American President, he had reason to feel convinced that guns are so dear to people because they live in an ethos of hatred and fear. Mr. Trump’s support for America’s liberal gun laws is not merely a political gesture. It signifies the conviction that dark instincts should be firmly protected from educationally disseminated rationality.

The progressive philosophy of education Dewey and his followers promoted made a considerable impact on the American system, but it also aroused fierce reaction. In effect, there have been two Americas fighting on just about every detail of life in schools. The contest between the two has grown in intensity since the 1980s. Progressive pedagogues wanted greater child-centredness, inclusive classrooms, and academically rigorous training courses for teachers. Those opposed to such measures pushed for frequent testing, nominal training for teachers and exclusive schools for those who could pay. Ronald Reagan’s presidency that lasted through the 1980s marked the ascent of an alliance between neo-liberalism in economic and anti-progressivism in social policy. American education lost the momentum it had developed for democratising the system. By the time Mr. Obama came on the scene, neo-liberal assertions had become the norm. Indeed, Mr. Obama’s administration did little to challenge these norms. The richer strata of American society had withdrawn their children from state schools where life had become so violent that teachers could not expect to function without security at hand. A vast number of experienced teachers left the system in frustration. Casual appointees and paid volunteers of various kinds, with minimalist, mechanical training, took over. Aims of education shrunk, and the role of learning in shaping sensibility and outlook lost relevance. A new, brazen world of voters, who didn’t mind Mr. Trump’s appeal to the baser instincts, was getting ready to display its nerve.

Bloom’s despair

The other book that helps us grasp the implications of Mr. Trump’s victory is Allan Bloom’s The Closing of the American Mind which was published in 1987. In this grimly critical work, Bloom argued that higher education had failed America’s democratic dream. Bloom criticised the growing use of higher education for attaining superficial material goals and for imparting knowledge devoid of perspective and ethical depth. Unfortunately, the history of education offers far too many examples of unheeded alarm bells.

Bloom’s warning got lost in controversy over his espousal of intellectually enriching pedagogy. His book was published in the Reagan era when trivialisation of educational aims had become fashionable. This trend became increasingly shrill in the 1990s with the takeover of centre space by neo-liberal ideologues. Bloom’s apprehension that malnourished minds would make poor choices has now proved to be true. With Mr. Trump’s victory, ‘closing of the American mind’ has come to pass. America must now cope with an era of steep regression in its capacity to focus on educational recovery.

Implications for India

Educational policy during Mr. Trump’s presidency will move in predictable directions. We can anticipate greater segregation and discrimination, voucher-based support for private schooling, and use of curriculum for justifying hatred and bigotry. Historically, America’s ethos provided a fertile ground for social Darwinistic ideals that legitimise the winner’s claim to power and pity for the loser. In a society where racially motivated violence has proved resistant to law and education, the ideology of social Darwinism tends to serve as a cover for orthodoxy, misogyny and xenophobia. During the coming years, we can expect speedier closing of the mind and public spaces.

Given America’s centrality and authority in many areas of knowledge, its own crisis in the Trump era will have an impact on other national systems of education. The remedies that Mr. Trump’s administration is likely to use to push the system of education more comprehensively towards the market will strengthen like-minded forces in countries like India where neo-liberal policies have already bitten into the vitals of the education system. The state’s neglect of higher education has created an ominous vacuum, marked by contempt for ideas and freedom of expression on the one hand and advocacy of consumable knowledge merchandise on the other. Our institutions of higher learning are reeling under the burden of transplanted ideas and practices. During the impending Trump era, we must watch out for further transplants.

Credit : The Hindu