ڈی جے، ہمارا اخلاقی زوال اور انسانی صحت
محفوظ الرحمن انصاری ۔ ممبئی
ممبئی
کے مدنپورہ علاقے میں عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس میں ڈی جے کی تیز آواز سے
سولہ سالہ طلاب علم کے دماغ کی نس اور دل متاثر ہونے سے اس کی موت واقع ہو
گئی۔ایک ہسپتال میں شور کے متعلق ہونے والی جدید تحقیق چسپاں کی گئی تھی
جس کے مطابق :’’دل کی بیماریوں میں شور جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے ۔یہ بلڈ
پریشر بڑھاتا ہے ۔ جھنجھلاہٹ ،چڑچڑا پن پیدا ہوتا ہے ۔بے خوابی کا مرض لاحق
ہو سکتا ہے ۔شور کی وجہ سے بلڈ پریشر اور دل کے دورے کے امکانات بڑھ جاتے
ہیں ۔دماغ کی انتہائی باریک نسوں کو تباہ کرکے موت کا سبب بن سکتا ہے ۔کان
کے نازک پردوں کو متاثر کرکے سننے کی صلاحیت بھی متاثر کرسکتا ہے ۔حاملہ
عورتوں کے لئے تیز شور انتہائی خطرناک ہے ۔ نوزائدہ بچے سہم کر رونے لگتے
ہیں ،ان کے ننھے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے ۔بچوں کے لئے شور کا سب سے بڑا
نقصان یہ ہے کہ اپنے کام میں دھیان لگانے کی صلاحیت کم ہو سکتی ہے ۔جس سے
ان کی پڑھائی لکھائی کا حرج توہو تاہی ہے ۔ساتھ ہی ان کی ساری تخلیقی
صلاحیت بھی برباد ہو جاتی ہے ‘‘۔
ڈی
جے کے خلاف علماء اور مسلم تنظیمیں مہم چلارہی ہیں ۔راستوں ،چوراہوں پر ڈی
جے حرام کے پوسٹر اور ہورڈنگ بھی لگائے جاتے ہیں ۔مگر کیا انہیں پڑھ کر
لوگ ان خرافات سے باز آجائیں گے ؟ہر گز نہیں۔ اگر راستوں پر نماز کے متعلق
ایسے ہی پوسٹر لگوادیئے جائیں تو کیا ساری مسجدیں پانچ وقت نمازیوں سے بھر
جائیں گی؟بالکل نہیں۔حالات کی نزاکت اور نوجوانوں کا مزاج نہ سمجھنے والے
کچھ غیر ذمہ دار مسلکی ٹھیکیداروں نے دھوم دھام سے عید میلاد منانے کے لئے
نوجوانوں کو اکسایا ۔دینی تعلیم و تربیت سے دور نوجوانوں نے جس کا مطلب یہ
نکالا کہ بغیر ڈی جے کی تیز آواز اور شور شرابے کے کیسی دھوم دھام ہو گی
۔پھر ہزاروں روپئے کرایہ دے کر ڈی جے منگایا جائے گا تو یقیناًانتہائی تیز
آواز میں ہی بجایا جائے گا ۔اس پر جنون کا یہ عالم کہ اگر بجانے کے دوران
کوئی نصیحت کرنے لگے تو غالباً اس کی پیٹائی کر ڈالیں ۔عید میلاد یا دیگر
عقیدت کے اظہار کیلئے نکالے جانے والے جلوس میں اگر کسی طرح صرف درود شریف
اور نعت پڑھنا لازمی کردیا جائے تو غالباً نوے فیصد نوجوان شرکت ہی نہیں
کریں گے ۔
قرآن
مجید میں دو جگہ ارشاد خدا وندی ہے کہ اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند
نہیں کرتا ۔سورہ انعام آیت 141 ،اور سورہ اعراف آیت 31 ۔ساتھ ہی فضول خرچی
کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔ڈی جے بدترین قسم کی فضول خرچی تو
ہے ہی ،مخلوق خداوندی کو تکلیف دینے کا ذریعہ بھی ہے جو کہ یقیناًگناہ
کبیرہ ہے۔بیمار صرف ہسپتالوں میں ہی نہیں ہوتے بلکہ ہمارے علاقے اور گھروں
میں بھی بہت سے بیمار موجود ہوتے ہیں ۔جب ایک سولہ سالہ نوجوان کی ڈی جے کی
تیز اور تکلیف دہ آواز سے دل و دماغ متاثر ہو کر موت ہو سکتی ہے تو پھر
ضعیفوں ،بیماروں اور حاملہ عورتوں نیز نوزائدہ بچوں کی طبیعت پر یہ کتنا
برا اثر ڈالتا ہوگا ۔اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
ڈی
جے کو اکثر غیر مسلم کرایہ پر دیتے ہیں اور پیسے کماتے ہیں ۔جبکہ مسلمان
اپنے پیسے اور آخرت دونوں برباد کرتے ہیں۔عید میلادالنبی ﷺ ،گیارہویں
،اعراس اور صندلوں کے علاوہ شادیوں میں بھی خوب ڈی جے بجتا ہے۔پچھلے دنوں
ممبئی میں صندل کی آتش بازی میں جھلس کر ایک لڑکے کی موت ہوگئی ۔ملک میں
مسلمانوں کی معاشی،سماجی اور سیاسی حالت دلتوں سے بھی بدترہے اور دوسری طرف
ہمارے نوجوان ڈی جے پر کروڑوں روپئے حرام میں پھونک رہے ہیں۔لہٰذا علمائے
کرام ،مسلم تنظیمیں اور ملت کا درد رکھنے والے سبھی حضرات حکمت عملی بنا کر
اس خرافات کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کریں۔ڈی جے بجانے والے لوگوں سے
بالمشافہ ملاقات کرکے انہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھائیں ۔اس پر خرچ
کی جانے والی رقم کو فلاحی کاموں ،خاص کر اپنے علاقے کے غریب بچوں کی اعلیٰ
تعلیم کے لئے خرچ کرنے کی تلقین کریں۔ایک اور برائی بھی اسی سے ملتی جلتی
مسلم اکثر یتی علاقوں میں پروان چڑھ رہی ہے کہ شادی میں جب رات کے دو اور
تین بجے دولہن لے کر آتے ہیں تو بغیر کسی کی تکلیف اور نیند خراب ہونے کا
خیال کئے بغیر آتش بازی اور پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں ۔اس مسئلے کو اگر نظر
انداز کیا گیا تو کہیں یہ بھی ڈی جے کی طرح مسلم معاشرہ کا ناسور نہ بن
جائے ۔لہٰذا ڈی جے بجانے والوں ،آتش بازی اور پٹاخے پھوڑنے والوں کے فعل پر
تنقید کرنے کی بجائے علاقے کے مذہبی اور سمجھدار لوگ ان سے ملاقات کرکے
سمجھائیں ۔انشاء اللہ وہ ضرور توبہ کریں گے ۔الحمد اللہ مسلمانوں کی ایک
خوبی یہ بھی ہے کہ اگر انہیں قرآن و حدیث اور خاص کر اللہ کے رسول ﷺ کی
تعلیمات کا واسطہ دے کر حکمت کے ساتھ نصیحت کی جائے تو وہ دیر سویر سیدھے
راستے پر آ ہی جاتے ہیں ۔اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
’سمجھاؤ ،سمجھانا ایمان والوں کو نفع دیتا ہے‘۔
No comments:
Post a Comment