Search This Blog

Sunday, 11 December 2016

مسلمانوں کی پسماندگی۔ مسلمانوں کو ہی نقطہ نظر بدلنا ہوگا أ محمد مصطفےٰ علی سروری


مسلمانوں کی پسماندگی۔ مسلمانوں کو ہی نقطہ نظر بدلنا ہوگا
 محمد مصطفےٰ علی سروری

مسلمانوں کی ہمہ جہت ترقی کیلئے تعلیم کس قدر ضروری ہے اس کے متعلق بہت سارے احباب بہت ساری باتیں کرتے ہیں لیکن مجھے ان لوگوں سے بھی کچھ کہنا ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ مسلمان پڑھ کر بھی کوئی فائدہ نہیں۔ ان کو تو بھارت میں کوئی نوکری دینے بھی تیار نہیں ہے۔ کیا واقعی یہ بات صد فیصد درست ہے؟ اسی ضمن میں ہم نے مختلف ایسے سرکاری محکموں کو اپنی تحقیق میں شامل کیا جہاں تعلیم کی بنیادوں پر روزگار یا ملازمت مل سکتی ہے۔ قارئین آپ کو بھی یہ جان کر تعجب ہوگا کہ جب بھی اور جہاں بھی مسلمانوں نے تعلیم حاصل کی ہے ان کا تعلیم یافتہ بننا ان کی زندگی میں بلکہ معیار زندگی میں تبدیلی کا سبب بنا ہے۔

ستمبر 2016 کے دوران ہم نے کمشنریٹ کالجیٹ ایجوکیشن حکومت تلنگانہ (CCETS) کو قانون حق معلومات 2005 کے تحت ایک درخواست دی تھی اور ریاست تلنگانہ کے سرکاری کالجس میں مستقل بنیادوں پر (Permanent) کام کرنے والے Teachingاور Non Teachingعملے کی تفصیلات طلب کی تھی اور یہ پوچھا کہ یس سی‘ یس ٹی کے علاوہ کتنے مسلمان ان کالجس میں کام کررہے ہیں۔

ذیل میں ریاست تلنگانہ کے ضلع کھمم کے اعداد و شمار پیش کئے جارہے ہیں۔ کھمم ضلع میں اردو میڈیم کا ایک بھی ڈگری کالج نہیں ہے اور نہ ہی کسی ڈگری کالج میں طلباء اردو کو دوسری زبان کے طورپر پڑھتے ہیں مگر پھر بھی پورے ضلع میں (11) ڈگری کے گورنمنٹ کالجس ہیں جن میں (279) پوسٹ ہیں جن پر مختلف افراد کام کررہے ہیں اور ان (279) لوگوں میں مسلمانوں کی تعداد (12)ہے ایک مسلمان یس آر اینڈ ٹی جی ین آر گورنمنٹ آرٹس اینڈ سائنس کالج میں پولیٹکل سائنس کے لکچرار ہیں۔ انھوں نے پولیٹکل سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اسی مضمون میں لکچرار بن گئے۔ اس کالج میں ایک اور مسلمان صاحب بطور ریکارڈ اسسٹنٹ کام کررہے ہیں۔ گورنمنٹ ڈگری کالج ویمن کھمم میں بھی ایک مسلمان صاحب بطور سپرنٹنڈنٹ کام کررہے ہیں۔ ستوپلی کے جے وی آر گورنمنٹ کالج میں ایک صاحب سینئر اسسٹنٹ اور دوسرے صاحب ریکارڈ اسسٹنٹ کے طورپر کام کررہے ہیں۔ گورنمنٹ ڈگری کالج یلندو میں ایک مسلمان جونیر اسسٹنٹ کے طورپر کارگذار ہے۔ کھمم کے ہی ایک اور گورنمنٹ ڈگری کالج گارلا میں ایک مسلمان بطور ہسٹری کے لکچرار کام کررہے ہیں۔ گورنمنٹ ڈگری کالج پالونچا میں ایک مسلمان Typist کے طورپر کام کررہے ہیں۔ یس آر گورنمنٹ اے اینڈ یس کالج گتہ گوڑم بھدرادری میں ایک جونیر اسسٹنٹ مسلمان ہے۔ اسی کالج میں ایک اور مسلمان صاحب اسٹور کیپر Store Keeper کے عہدے پر کام کررہے ہیں۔

کھمم میں واقع ڈگری کالج کے ان اعداد و شمار سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے پولیٹکل سائنس اور ہسٹری میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی تو لکچراربن گئے اور جنھوں نے بہت زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی وہ اسسٹنٹ اور اسٹور کیپر کی نوکری پانے میں کامیابہوئے ایک صاحب تو Typist کے عہدے پر فائز ہے لازمی بات ہے ان سبھی نے تلگو زبان سے بے رغبتی نہیں برتی اور تعلیم بھی حاصل کی یوں انھیں ان کی قابلیت کے بل پر ملازمت کے مواقع بھی ملے۔ نلگنڈہ ضلع میں واقع گورنمنٹ ڈگری کالج فار ویمن کی پرنسپل محترمہ ڈاکٹر ین اے سنگما نے 17/اکتوبر کو قانون حق معلومات کے ایکٹ 2005 کے تحت جواب دیتے ہوئے بتلایا کہ ان کے کالج میں (3)مسلمان لکچرارس ہیں جو کہ اردو‘ کیمسٹری اور اکنامکس کے مضمون میں پڑھانے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک مسلمان سپرنٹنڈنٹ کے طورپر اسی کالج میں برسرکار ہے۔ ضلع منچریال میں واقع گورنمنٹ ڈگری کالج لکشٹی پیٹ کے پرنسپل کے مطابق ان کا کالج تلگو میڈیم سے تعلیم دیتا ہے اور ان کے ہاں ایک مسلمان صاحب لکچرار کے طورپر کام کررہے ہیں جبکہ نان ٹیچنگ میں کوئی مسلم کارگذار نہیں۔

گورنمنٹ ڈگری کالج اردو ضلع نظام آباد کے پرنسپل کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق ان کے ہاں (30) لکچرارس کی جائیدادیں منظورہ ہیں جس یں (12) جائیدادیں (Post) Vacant ہے اور (18) لکچرارس کام کررہے ہیں۔ مسلمان لکچرار ایک ہی ہے۔ اسی کالج میں نان ٹیچنگ اسٹاف کی منظورہ جائیدادیں (32) ہیں جس میں سے (13) جائیدادیں مخلوعہ ہے۔ (19) پوسٹوں پر لوگ کام کررہے ہیں جس میں سے مسلمان (3) ہیں۔

مسلمان تعلیم حاصل کریں گے تب ہی جاکر وہ لکچرارس بن پائیں گے۔ اب وہ مسلمان نوجوان جو انٹرمیڈیٹ کے دو سالہ کورس کو 2برسوں کے بجائے 3 یا 4 برسو ں میں پاس کرتے ہوں اور انجینئرس جو اپنے فرسٹ ایئر کے (Back Log) کوفائنل ایئر میں آنے کے بعد بھی پاس نہیں کرپاتے اور وہ نوجوان جو ایمسٹ کے امتحان میں‘گروپ ون اور گروپ II کے Competitive امتحانات میں Exam Centre پر پندرہ منٹ دیر سے آتے ہیں اور امتحان لکھنے سے منع کردیئے جانے پر اردو میڈیا کے سامنے آکر رونے لگتے ہیں کہ ہم لوگ مسلمان ہیں اس لئے ہمیں امتحان لکھنے نہیں دیا گیا۔ ہم مسلمان ہیں اس لئے ہمیں فیل کردیا گیا۔ ہم مسلمان ہیں اس لئے ہمیں نوکری نہیں دی گئی۔ ان بہانوں کے ذریعہ سے ہم مسلمان اپنے لئے اپنی نوجوان نسل کیلئے تباہی کا سامان کررہے ہیں۔ میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھنے جانے والے تعصب سے ہرگز انکار نہیں کررہا ہوں۔ میرا یہ سوال ہے کہ ہم جب تک اپنی کمزوریوں اور کمیوں پر قابو نہیں پائیں گے اس وقت تک نہ تو صحیح محنت کرسکیں گے اور نہ ہی کامیابی حاصل کرسکیں کے۔

قانون حق معلومات کے 2005 ے ایکٹ کے تحت مختلف سرکاری محکموں میں مسلمانوں کے تناسب کا جائزہ لے کر لکھے گئے گزشتہ مضامین کو پڑھ کر مختلف احباب بذریعہ ای میل اور فون پر رابطہ پید ا کررہے ہیں۔ ایک صاحب نے بات کرنے کیلئے وقت مانگا اور پھر کہا کہ میرے ایک شناسا کی لڑکی کیلئے ایک نوجوان کا رشتہ آیا ہوا ہے لڑکے کی تنخواہ 25ہزار بتلائی گئی ہے۔ کیا میں (RTI) کے قانون کے تحت لڑکے کے آفس کو درخواست دے کر اس کی تنخواہ کو کنفرم کرواسکتا ہوں۔

موقع کیا ہے کیا بات ہورہی ہے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں حکومت تلنگانہ نے بیاک ورڈ کلاس کمیشن کا اعلان کردیا ہے۔ اب کمیشن سے توقع ہے کہ وہ تلنگانہ کے مسلمانوں کی زندگی کے مختلف شعبہ حیات میں پسماندگی کا مفصل جائزہ لے کر اس کی رپوٹمرتب کرے گا جس کی بنیادیں شاید آگے مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار کے میدانوں میں تحفظات دئیں جائیں اور ترقی کے سفر میں مسلمانوں کو بھی ان کی آبادی کے تناسب سے مواقع فراہم ہوں۔

ہمارے معاشرے میں ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنی ہی ذات میں اتنے مگن ہوگئے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو ہی سب کچھ بلکہ بہت کچھ سمجھنے لگے ہیں اور ہمیں ہمارے علاوہ دوسرا ہر فرد کیڑے مکوڑے کی طرح نظر آتا ہے۔ ہماری اولاد‘ ہماری نوجوان نسل بڑوں سے بات کرنا تو دور سڑک پر چلنا اور گاڑی چلانا تک نہیں جانتی ہے۔ ہمارے مسائل کیا ہیں اور ہمیں کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا اب یہ بھی ہمیں سیکھنا ہوگا۔

یوگیندر یادو سیاسی تجزیہ نگار‘ سماجی جہد کار ہیں۔ سعودی عرب کے شہر ریاض میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوئز اسوسی ایشن کی جانب سے منعقدہ ایک سمینار کو مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے کہا مسلمانوں کے ساتھ اقلیت ہونے کے ناطے نہیں بلکہ مسلمان ہونے کے ناطے سماجی اور مذہبی طور پر ہی نہیں بلکہ ہر طرح سے امتیاز اور تعصب برتا جاتا ہے۔ اس کیلئے صرف نریندر مودی نہیں بلکہ ملک کی سیکولر پارٹیاں بھی ذمہ دار ہیں۔ انھوں نے بجا طورپر کہا کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو سیاسی آلہ کار کے طورپر استعمال کرتی ہیں (بحوالہ سعودی گزٹ 6/دسمبر 2016 کا شمارہ) 

مسلمانوں کو بااختیار بنانے کیلئے صرف سیاسی میدان ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ہر فرد کو اپنا رول نبھانا ہے اور یہ کام اسی وقت ممکن ہے جب ہر فرداپنی طاقت اور اپنے دائرہئ کار سے واقف ہو۔

یوگیندر یادو نے مسلمانوں کو ایک اچھا مشورہ دیا ہے وہ یہ کہ مسلمان اپنے آپ کو پہچانیں اپنی طاقت کو جانیں اور اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے ساری توانائیاں صرف کریں۔

صرف تحفظات مسئلہ کا حل نہیں ہمیں اس کے ساتھ ساتھ اور اس کے علاوہ بھی قومی بیداری کیلئے کام کرنا ہوگا۔ اخباری بیانات اور تصاویر سے آگے بڑھ کر دانشور حضرات کو اب گراونڈ پر جاکر زمینی حقیقتوں کا سامنا کرنے اور لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا۔

٭٭٭

No comments:

Post a Comment