مرض ایڈز سے پاک دنیا کے بڑھتے قدم!
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
عالمی یوم ایڈز کے موقع پر خصوصی تحریر
کم دسمبر کو عالمی سطح پر یوم ایڈس منایا جاتا ہے۔ اس دن صحت کی تنظیمیں ، کالج اور اسکول کے طلباء ریلیاں نکالتے ہیں۔ جلسے کئے جاتے ہیں۔ حکومت کے پیغام کو عوام تک پہنچایا جاتا ہے۔ ایڈس کے مریضوں سے ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اور پھر دنیا اپنی ڈگر پر چلنے لگتی ہے۔ 1995ء میں امریکی صدر نے یکم ڈسمبر کو عالمی یوم ایڈس قرار دیا تھا اور اس سے قبل اقوام متحدہ کے ادارہ عالمی ادارہ صحت WHOکے ایڈس مشن میں کام کرنے والے دو صحافیوں بن اور نیٹر نے 1988ء میں پہلی مرتبہ عالمی یوم ایڈس منانے کی تجویز رکھی تھی جسے اقوام متحدہ نے قبول کیا اور امریکی صدر کے اعلان کے بعد باضابطہ طور پر ہر سال یکم ڈسمبر کو عالمی یوم ایڈس کی تقاریب کا ساری دنیا کے ممالک میں اہتمام کیا جا رہا ہے۔ایڈز کے خلاف عالمی یوم کے موقع پر ایچ آئی وی اور اس موذی مرض کے خلاف بر سرپیکار ایک اہم گروپ نے کہا ہے کہ دنیا بالآخر ایڈز کے خاتمے کے آغاز تک پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ برس پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ایچ آئی وی سے نئے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد ایسے ایچ آئی وی پوزیٹیو افراد کے مقابلے میں کم تھی جن کی رسائی ان ادویات تک ممکن بنائی گئی جو ایڈز سے بچنے کیلئے اب انہیں زندگی بھر استعمال کرنا ہوں گی۔ اقوام متحدہ کی ایڈز ایجنسی (UNAIDS) کے مطابق اس خطرناک وائرس سے بچاؤ کیلئے آگاہی پیدا کرنے اور وائرس سے متاثرہ افراد کی ایڈز سے بچاو کی ادویات تک رسائی بڑھانے اور دیگر اقدامات کی بدولت یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ سال 2030ء تک دنیا سے اس جان لیوا بیماری کا خاتمہ ہو سکے۔ اس مہم کو ’کلوز دی گیپ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ فی الوقت پوری دنیا میں لگ بھگ 4کروڑ افراد ایچ آئی وی وائرس کے ساتھ جیسے تیسے جی رہے ہیں۔ایک نئی تحقیق کے مطابق تجرباتی ایچ آئی وی ویکسین کی مدد سے پہلی بار انفیکشن کے خطرے کو کم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے، یہ ویکسین پہلے سے موجود تجرباتی ویکسین کو ملا کر تیار کی گئی ہے جسے تھائی لینڈ میں 16ہزار افراد پر آزمایا گیا ہے، ویکسین ٹرائل کا یہ اب تک کا سب سے بڑا تجربہ ہے ان 16ہزار افراد کا رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات ویکسین بنانے والے ماہرین کو پیش کرنا ایک نہایت ہی قابل تعریف و تحسین اقدام ہے کہ اس ویکسین نے ایڈز جیسی بیماری کو پھیلانے والے ایچ آئی وی وائرس کے انفیکشن کے خطرے کو ایک تہائی تک کم کردیا ہے۔ اس تحقیق و ریسرچ کو اس سمت میں اب تک کی جانے والی بڑی کامیابی مانا جارہا ہے جس پر امریکی فوج کے ڈاکٹر اور تھائی حکومت کی مدد سے سات برس کام کیا گیا ہے اور اس میں اٹھارہ سے تیس برس کی عمر کے نوجوان لڑکے لڑکیوں نے خود کو تجربے کیلئے پیش کیا جن میں ایچ آئی وی وائرس موجود نہ تھا۔
امید کی جارہی ہے کہ شعور بیدار اور بہتر علاج کی سہولتوں کے ساتھ اس مرض پر بہت حد تک قابو پایا جاسکے گا اور ہماری آنے والی نسلیں اس موذی مرض سے پاک دنیا میں جی سکیں گی۔
مرض ایڈس HIV وائرس سے پھیلتا ہے۔ HIV یعنی (Human Immuno Deficiency Virus ) انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو نا کارہ بنا دیتے ہیں۔ یعنی انسانی جسم میں جراثیم سے لڑنے کی طاقت ختم ہو جاتی ہے۔ وہ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ HIV کی انتہائی حالت (AIDS) ( Immuno Deficiency Syndrome Acquired )کہلاتی ہے۔ یعنی اگر کوئی انسان HIV سے متاثر ہو جائے تو وہ فوری نہیں مر جاتا اگر وہ مخصوص دوائیں لے طاقت ور غذائیں استعمال کرے اور صحت مند زندگی گذارے تو آٹھ تا دس سال کے بعد HIV ایڈس کی حالت کو پہنچتا ہے۔ HIV کا وائرس انسانی جسم کے درجہ حرارت میں زندہ پہنچتا ہے۔ HIV کا وائرس انسانی جسم کے درجہ حرارت میں زندہ رہتا ہے۔ یعنی اسی گرمی کے مائعات خون و غیرہ میں زندہ رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایڈس کی ابتداء براعظم آفریقہ سے ہوئی اس کو پہلی مرتبہ 1981ء میں دریافت کیا گیا۔ اس کے بعد سے اب تک ساری دنیا میں اس مرض سے 40ملین سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ اور 35ملین سے ذائد افراد جن میں بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں اس مرض سے متاثرہ ہیں۔
عالمی یوم ایڈز کے موقع پر UNO کے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سہارا سے ملحق افریقی علاقوں میں جہاں ایڈز موت کی سب سے بڑی وجہ بن گیا ہے وہاں عالمی سطح پر یہ بیماری دنیا کی چوتھی بڑی بیماری ہے ایک تہائی لوگ 14 سے 24 برس کی عمر کے ہیں جن میں سے بیشتر کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ اس موذی مرض کی پکڑ میں آچکے ہیں۔ آج ساری دنیا میں اس مرض سے متاثرہ افراد میں بر اعظم افریقہ کا نمبر سر فہرست ہے جہاں کی 70%آبادی اس مہلک اور لا علاج مرض میں مبتلا ہے۔ افریقہ میں لوگ بوڑھے ہوتے ہی نہیں ہے اور اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد 3040سال کی عمر میں وفات پا جاتے ہیں۔ نائجیریا :ہندوستان اور جنوبی ایشیائی ممالک کا نمبر افریقہ کے بعد ہے جہاں اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔دنیا میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جنہیں ایڈز کے بارے میں ’’معمولی معلومات‘‘ بھی نہیں ہیں۔ لاطینی امریکہ میں ایڈز سے متاثرہ لوگوں کی تعداد 15لاکھ بتائی جاتی ہے۔ مشرقی یورپ ، وسطیٰ افریقہ، مشرقی ایشیا میں ایسے لوگوں کی گنتی ایک اندازے کے مطابق 13لاکھ سے زائد ہے۔ شمالی امریکہ میں 7لاکھ ، مغربی یورپ میں 6لاکھ ، شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں 5لاکھ اور کریبین علاقوں میں چھ لاکھ سے زائد افراد اس مہلک بیماری میں مبتلا ہیں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد سب سے کم ہے۔
عالمی سطح پر ادارہ صحت اور دیگر فلاحی اداروں کی جانب سے اس مرض کی روک تھام اور عوامی شعور کی بیداری کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ کئے جا رہے ہیں لیکن اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہی جا رہا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس مرض پر قابو پانے کے اقدامات غیر فطری ہیں۔ اور مرض پر قابو پانے کے بجائے اس کے مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ HIV وائرس آفریقہ کے بندروں میں پایا گیا تھا۔ اور وہ وہیں سے انسانی جسم میں منتقل ہوا۔ HIV وائرس کس طرح بندروں سے انسانی جسم میں داخل ہوا یہ معلوم نہیں ہوسکا لیکن یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ انسان نے جنسی خواہشات کی تکمیل کیلئے غیر فطری طریقہ اختیار کیا اور ان بندروں سے خواہش کی تکمیل کی اور HIV ان میں داخل ہو گیا اور دیگر انسانوں میں پھیلتا گیا۔ ایڈز (AIDS) موجودہ دور کی ایک لاعلاج بیماری ہے۔ گویا یہ ایک قدرتی عذاب ہے جو شادی سے پہلے یا شادی کے بعد زنا میں مبتلا ہونے والوں پر نازل ہوتا ہے۔ اس بیماری سے سارے عالم میں لاکھوں اموات واقع ہو رہی ہیں۔ اس میں مرد، عورت، نوجوان، لڑکے اور لڑکیاں سبھی شامل ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر دنیا کو ایڈز کا تحفہ کس نے دیا؟ غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی اقوام کے فحش کلچر نے دنیا بھر میں ایڈز کو فروغ دیا ہے۔ مغربی ممالک کے فحش ذہن رکھنے والے افراد (جن کا مخصوص گروپ ہے ) نے انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹ، فحش لٹریچر، عریاں فیشن شو، مختلف انگریزی و فحش بلو فلمیں ، سیریلز، نائٹ کلب شوز، فلموں میں ہیجان انگیز فحش مناظر، بوائے فرینڈ کلچر، گرل فرینڈ کلچر، آزادانہ جدید ثقافت کے نام پر غیر قانونی ناجائز تعلقات، ہم جنس پرستی کو دنیا کے کونے کونے میں مختلف منصوبہ بند طریقوں سے عام کرتے ہوئے دنیا کی مختلف اقوام کو ایڈز جیسی مہلک اور خبیث بیماری میں مبتلا کر دیا۔ دنیا کو فحش سماج میں تبدیل کرتے ہوئے مختلف مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے فحش گروپ نے عریانیت کو Pornographic Industry کے ذریعہ سارے عالم میں فروغ دیتے ہوئے کروڑہا روپے کمانے کا ذریعہ بنایا۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں طوائفوں کا جال بچھا دیا۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں طوائفوں کو پناہ دیتے ہوئے Red Light Areas قائم کرتے ہوئے جسم فروشی کو قانونی ذریعہ معاش بنا دیا۔ مغربی ممالک میں ہم جنس پرستی کو قانونی طور پر جائز قرار دیتے ہوئے ’ہم جنس پرستی، کی شادیوں کو عام کر دیا۔ ہم جنس پرستی ایک ایسا عمل ہے جسے جانور بھی پسند نہیں کرتے۔ لیکن مغربی کلچر نے ہم جنس پرستی کو اشرف المخلوقات میں عام کر دیا۔ ہم جنس پرستی کی وجہ سے قومِ لوط پر پتھروں کی بارش کی شکل میں قدرتی عذاب نازل ہوا لیکن موجودہ دور میں ہم اپنے اعمال کی وجہ سے قومِ لوط پر نازل ہونے والے عذاب سے بھی خطرناک قدرتی عذاب ’ایڈز، کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ دنیاتیسری جنگ عظیم کی شکل میں ایڈز کی وجہہ سے تباہ ہو رہی ہے۔
موجودہ دور میں مغربی عریاں کلچر نے دنیا کے تمام ممالک میں کم سن نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو ناجائز جنسی تعلقات میں مبتلا کر دیا، مغربی ممالک میں کم سن لڑکیوں کے حاملہ ہو جانے کے واقعات میں تیز رفتار اضافہ کر دیا۔ عریانیت کے سیلاب نے مقدس رشتوں کو بھی پامال کر دیا۔دور جدید کی حیرت انگیز ایجاد انٹرنیٹ، عریانیت اور شہوانیت کو فروغ دینے میں ایک اہم ترین ذریعہ بن گیا ہے۔ انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹ، فحش چیٹنگ نے دنیا بھر میں شادی سے پہلے شادی کے بعد غیر قانونی ناجائز تعلقات کو تیز رفتار ی سے عام کر دیا۔ حالانکہ انٹرنیٹ انتہائی مفید ایجاد ہے لیکن موجودہ دور میں اس کا غلط استعمال زیادہ ہو رہا ہے۔ اب تو سیل فون پر بھی فحش فلمیں ، فحش تصاویر ڈاؤن لوڈ کئے جا رہے ہیں۔ اس سے ہر گھر میں تباہی کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔ موجودہ حالات میں عریانیت اور شہوانیت کو فروغ دینے والے عوامل سے محفوظ رہتے ہوئے زنا سے بچنا بھی جہاد کے مماثل ہے۔
بنیادی طور پر HIV چار طریقوں سے پھیلتا ہے۔
1 }HIV سے متاثرہ عورت یا مرد سے غیر محفوظ جنسی تعلقات کے نتیجہ میں
}HIV2 سے متاثرہ مریض کا خون کسی صحت مند انسان کو چڑھانے سے
3 }ایڈس کے متاثرہ مریض کیلئے استعمال کی گئی سوئی یا بلیڈ دوسرا استعمال کرنے سے
4 }ایڈس سے متاثر حاملہ عورت سے پیدا ہونے والے بچے کو
ایڈس ایک متعدی مرض نہیں ہے یہ ہوا، پانی، غذا، مکھی، مچھر سے نہیں پھیلتا، متاثرہ شخص کے استعمال کردہ حمام، بیت الخلاء اور تولیہ سے نہیں پھیلتا۔ ایڈس کے مریض کیساتھ اْٹھنے بیٹھنے کھانے پینے اور رہنے سہنے سے نہیں پھیلتا۔ دنیا میں 90 فیصد ایڈس غیر محفوظ جنسی تعلقات سے پھیل رہا ہے۔ باقی 10% دیگر تین ذرائع سے پھیل رہا ہے۔ ہندوستان میں بھی ایڈس کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اور ریاست آندھرا پردیش ایڈس سے متاثرہ مریضوں میں ہندوستان سب میں سر فہرست ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ایڈز کے مطابق عالمی سطح پر اس مرض سے ہونے والی ہلاکتوں میں بھی واضح کمی کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ ایڈز کے حوالے سے ہونے والی مثبت پیش رفت کی وجہ دواؤں کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونا بھی ہے۔ اس سالانہ رپورٹ میں تازہ ترین اعداد و شمار بھی شامل کیے گئے ہیں۔ جس میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں ایڈز سے سب سے زیادہ ہلاکتیں 2005 میں ہوئی تھیں اور یہ تعداد 23 لاکھ تھی، جو اب کم ہو کر 2011 کے اختتام تک 17 لاکھ رہ گئی ہے۔ 2010 میں ایڈز سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اٹھارہ لاکھ تھی۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 34 ملین افراد ایڈز جیسے مرض میں مبتلا ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں عالمی برادری کی ایڈز کے خلاف اجتماعی کوششوں کو انتہائی مناسب اور شاندار خیال کیا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ دنیا بھر میں آ پس کے تعلقات یا انتقال خون سے پھیلنے والے انتہائی خطرناک مرض میں بھی کمی سامنے آئی ہے۔ 2011 میں ایڈز میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد 25 لاکھ ریکارڈ کی گئی جو 2001 کے مقابلے میں بیس فیصد کم تھی۔ ادارے نے اس کمی کا کریڈٹ عالمی برادری اور ان حکومتوں کو پیش کیا، جن کی خصوصیت کی وجہ سے اس مرض کے بارے میں مختلف النوع معلوماتی اور حوصلہ افزا سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس کمی کا سہرا مختلف دوا ساز اداروں کو باندھا گیا، جن کی ریسرچ سے ایسی شافی دوائیں تیار کی گئیں ، جن کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا افراد کی قوت مدافعت کو بہتر کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ رپورٹ میں گلوبل کمیونٹی کی صحت کو درپیش سب سے بڑا خطرہ بدستور ایڈز کے مرض کو قرار دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دہائی کے دوران مدافعتی دواؤں اور معلوماتی سرگرمیوں سے اس مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد میں جو بیس فیصد کمی پیدا ہوئی ہے ، اس کو ایک شاندار اجتماعی کوشش قرار دیا۔
دنیا کی اقوام میں مرض ایڈس کا جائزہ لیا جائے تو یہ حیرت انگیز انکشاف سامنے آتا ہے کہ مسلمان قوم میں مرض ایڈس کم پایا جاتا ہے۔ اس لئے یہ نعرہ دیا جا رہا ہے کہ ’’اسلامی زندگی اپناؤ ایڈز سے بچو‘‘ کیونکہ خوفِ خدا نہ ہونے ، صفائی کا خیال نہ رکھنے ، شراب نوشی کے بعد نشہ کی حالت میں جنسی بے راہ روی کا شکار ہونے کے سبب ایڈس آسانی سے فاحشہ عورتوں سے مردوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ اور ان مردوں سے ان کی بیویوں میں اور بیویوں سے اْن کے بچوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ اس لئے کہا جا رہا ہے کہ مرد اپنی بیوی سے وفاداری نبھائیں۔ لیکن نعروں سے کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا ہے۔ ہندوستان میں ٹرک ڈرائیور ان پڑھ دیہاتی، گھروں سے لمبے عرصہتک دور رہنے والے فوجی اور اس قسم کے لوگ جنسی بے راہ روی کا شکار ہو کر ایڈس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایڈس کے بارے میں مکمل جانکاری ہو تب ہی ایڈس سے بچاؤ ممکن ہے۔ نوجوان نسل میں اخلاقی تعلیمات خوف خدا اور صحت مندی کے اصولوں کی تعلیم دی جائے تو ایڈس کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔ اسلام ایک دین فطرت ہے اس نے حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات کے ذریعے واضح کر دیا کہ جب بچہ شادی کی عمر کو پہنچے تو اس کی شادی کر دینا چاہئے اگر کوئی شادی کی قدرت نہ رکھے تو اسے مسلسل روزے رکھنے چاہئیں تاکہ اس کی نفسانی خواہشات پر قابو پایا جا سکے۔ انسان کی نفسانی خواہشات ہوتی ہیں جن کی تکمیل کے لئے اگر اسے شادی جیسے جائز راستے نہ ملے تو وہ غیر محفوظ اور غیر اخلاقی جنسی تعلقات کی تلاش میں رہتا ہے۔ اور وہیں سے اس کی بربادی کا راستہ کھل جاتا ہے۔ ہندوستان میں ہندوسماج میں خوف خدا نہ ہونے اور شادی کے لئے جہیز اور کٹنم کے نام پر اور ذات پات اور برادری کے نام پر شادی کو موخر کیا جا رہا ہے اس لئے ان کے بچے بے راہ روی کا شکار ہو کر ایڈس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس لئے سماجی سطح پر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان میں شادی کی عمر کو کم کیا جائے اور لڑکی کی شادی 18تا21سال میں اور لڑکے کی شادی 21تا 25سال میں کی جائے اور سماج سے کٹنم کی لعنت کو دور کرنے کے لئے سماجی اور مذہبی ادارے آگے آئیں۔ مسلمانوں میں بھی جہیز کی لعنت کے سبب شادی میں تاخیر ہو رہی ہے۔تاہم مسلمانوں میں بچپن میں لڑکوں کی ختنہ کی سنت سے بھی ایڈس سے بچاؤ میں 99%تک کامیابی مل رہی ہے۔ ختنہ کی سنت سے بہت سے بیماریوں سے بچا جاتا ہے اس لئے آج غیر مسلموں خاص طور سے راجپوتوں اور دیگر اقوام میں ختنہ کی سنت کو عام کیا جا رہا ہے۔ اور دیگر ممالک میں بھی اس کے طبی فوائد دیکھ کر اسے اختیار کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایڈس کے موقع پر جہاں کہیں سمینار جلسے اور معلوماتی پروگرام منعقد ہوں اس بات پر زور دیں کہ اسلامی تعلیمات خاص طور سے شادی کو آسان بنانا اور ناجائز رشتوں کو غلط قرار دے کر مجرموں کو سخت سزا دینا اور خوف خدا کے ساتھ پاک صاف زندگی گذارنا ہی ایڈس کے مرض کا موثر علاج ہے۔ مرض ایڈس کا ابھی تک علاج دریافت نہیں ہوا اور ہو گا بھی نہیں کیونکہ سچی خبر دینے والے مخبر صادق پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیﷺ کے ارشادات میں ہمیں یہ بات ملتی ہے کہ اگر کسی قوم میں زنا کاری اور بد کاری عام ہو تو اس قوم میں ایسی بیماریاں پیدا ہوں گی جن کا کوئی علاج نہیں ہو گا۔ اور آج ہم یہ نتیجہ دیکھ رہے ہیں۔ اور دین اسلام پر چلنے والے مسلمانوں میں یہ مرض نہیں کہ برابر ہے۔ اس لئے ہرسال یوم ایڈس کے موقع پر ہم واضح طور پر یہ اعلان کریں کہ ’’اسلامی تعلیمات اختیار کرو ایڈس سے بچو‘‘۔ ہماری نوجوان نسل کو ایڈس سے بچانا اسلئے ضروری ہے کہ کل کے ذمہ دار شہری بننے والے ہیں۔ انہیں ملک کی ترقی کے مختلف کام کرنے ہیں۔ اگر یہ نسل ایڈس سے متاثر ہو جائے تو ملک کیلئے کام کرنے والے لوگوں کی کمی ہو جائے گی۔ اچھے افراد کی قلت ہو جائے گی۔ آج ٹیلی ویڑن اور انٹر نیٹ کے مضر اثرات سے بھی ہمارے نوجوان بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان میں دینی تعلیمات کو عام کرنے اور ان میں خوف خدا کا جذبہ پیدا کرنا بھی وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ نوجوانوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایڈس کے بارے میں صحیح معلومات رکھیں۔ اور ان معلومات کو گاؤں گاؤں میں عام کریں۔ اسطرح دیہاتیوں کو ایڈس کے بارے میں جانکاری حاصل ہو گی۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ایڈس کے خلاف مہم کو اخلاقیات کے دائرے میں رکھ کر چلائے۔ ایسی کوئی بات اور کام نہ کریں جس سے نوجوانوں کے جذبات مشتعل ہو جائیں اور وہ غلط راستے پر چلنے لگیں۔ NACOاور دیگر ادارے اگر ان باتوں کو اپنی مخالف ایڈس مہم میں شامل کریں تو امید ہے کہ اگلے چند سال میں ایڈس کی روک تھام میں اچھے نتائج برآمد ہو سکیں گے۔ بہر حال ایڈس جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے اور اس آگ کو آگے بڑھ کر بجھانا سب کی ذمہ داری ہے۔ اور اس مرض سے بچنے کا واحد حل اسلامی تعلیمات کو اختیار کرنا ہے۔
مضمون نگار سینیئر صحافی اور صدر شعبہ اردو گری راج کالج نظام آباد ہیں ۔اس سے پہلے روزنامہ سیاست حیدرآباد میں بحیثیت سب ایڈیٹر اپنی خدمات دے چکے ہیں۔
No comments:
Post a Comment