مہاجرین کا بحران
روم میں مہاجرین کی ابتر صورتحال، اقوام متحدہ کی تنقید
اقوام متحدہ نے اطالوی دارالحکومت روم میں مہاجرین کی ابتر صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ موسم سرما کے باوجود ہزاروں مہاجرین کے پاس مناسب سہولیات نہیں اور وہ کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے حوالے سے بتایا ہے کہ روم میں سینکڑوں مہاجرین اپنی راتیں سڑکوں پر بسر کرنے پر مجبور ہیں جبکہ دیگر ہزاروں بے گھر افراد بھی تنگ دستی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس ایجنسی نے روم کے میئر کو ایک خط ارسال کیا ہے، جس میں ان تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس خط کے متن کے مطابق، ’’ہم کئی مہینوں سے اس مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش میں ہیں لیکن روم میں موجود مہاجرین کی صورتحال مزید ابتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔‘‘ اٹلی میں یو این ایچ سی آر کے نمائندے کارلوٹا سامی نے کہا ہے کہ روم میں موجود مہاجرین اور تارکین وطن کی صورتحال کو بہتر بنانے کی فوری ضرورت ہے۔
روم کی نو منتخب میئر ورجینیا راجی پر تنقید کا یہ سلسلہ ایک ایسے وقت میں شروع ہوا ہے، جب روم کے نزدیک واقع مہاجرین کے سب سے بڑے غیر رسمی استقبالیہ سنٹر کو بند کیا جا چکا ہے۔ گزشتہ برس اس سنٹر کی بندش کے بعد ایسے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جو سڑکوں پر زندگی بسر کر رہے ہیں اور جن کے پاس بنیادی امدادی سامان کی بھی قلت ہے۔
یو این ایچ سی آر نے کہا ہے کہ روم کو میلان کی مثال کو اپنانا چاہیے، جہاں شہری انتظامیہ نے مہاجرین کے لیے ایک بڑا سنٹر قائم کر رکھا ہے۔ اس عالمی ایجنسی کے مطابق اطالوی شہر میلان میں اس سنٹر کی وجہ سے مہاجرین سڑکوں پر دربدر ہونے سے بچ گئے ہیں۔
عوامیت پسند پارٹی ’فائیو اسٹار موومنٹ‘ کی رکن ورجینیا راجی نے روم کے میئر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے کہ وہ روم میں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ روک دیں۔ انہوں نے اس تناظر میں دلیل دیتے ہوئے کہا تھا، ’’اگر ہم مہاجرین کے لیے سو خیمے دو دن میں ہی لگا دیں گے تو پھر ہمیں سو خمیوں کا مزید انتظام بھی کرنا پڑے گا۔‘‘
تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ روم حکومت کو مہاجرین کے بحران اور ایسے افراد کی ابتر صورتحال کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ امر اہم ہے کہ اٹلی میں بحیرہ روم کے ذریعے آنے والے مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ اکہتر ہزار بنتی ہے، جو دیگر یورپی ممالک میں آنے والے مہاجرین کی تعداد کے حوالے سے سب سے زیادہ ہے۔ ہمسایہ ممالک کی طرف سے سرحدوں کی بندش کے باعث مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اٹلی میں ہی محصور ہو کر رہ گئی ہے۔
بہ شکریہ
http://www.dw.com/ur/%D8%B1%D9%88%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%DB%81%D8%A7%D8%AC%D8%B1%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%D8%A8%D8%AA%D8%B1-%D8%B5%D9%88%D8%B1%D8%AA%D8%AD%D8%A7%D9%84-%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85-%D9%85%D8%AA%D8%AD%D8%AF%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D9%86%D9%82%DB%8C%D8%AF/a-36583169
No comments:
Post a Comment