Search This Blog

Thursday 29 December 2016

اقبال امت مسلمہ کو حوصلہ دیتے، امید کی جوت جگاتے اور روشن مستقبل کا مژدہ سناتے ہیں ۔ ایاز الشیخ

اقبال امت مسلمہ کو حوصلہ دیتے، امید کی جوت جگاتے اور روشن مستقبل کا مژدہ سناتے ہیں ۔ ایاز الشیخ



حیدرآباد (یو این این)   ''اقبال کی نظر میں انسانیت کا مستقبل مسلمان سے وابستہ ہے۔ ان کے نزدیک مسلمان اس گلستان (دنیا )کا بلبل ہے۔ اس کا گیت گلستان کے لیے بادِبہاری کا حکم رکھتا ہے۔ وہ بلبل کو گیت کی لے بلند کرنے اور پرجوش آواز میں گیت گانے کے لیے اکساتے ہیں ۔ ان کے نزدیک مسلمان کے لیے محض نام کا مسلمان ہونا کوئی قابلِ لحاظ بات نہیں آخرت میں قسمت کا فیصلہ عمل و کردار سے ہوگا''۔  ان خیالات کا اظہار معروف صحافی و دانشور، جناب ایاز الشیخ، چیرمین امام غزالی ریسرچ فاونڈیشن نے 'اقبال کی نظم طلوع اسلام ۔ ایک تجزیاتی مطالعہ '  کے موضوع پر ، کانفرنس ہال جامع مسجد عالیہ عابڈس میں محفل اقبال شناسی کی ٨٧٧  ویں نشست کو مخاطب کرتے ہوئے کیا۔  انہوں نے کہا کہ اس نظم کا شمار بھی علامہ اقبال کی چند بہترین نظموں میں سے ہوتا ہے۔ اس نظم کو علامہ اقبال نے انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں اپریل ١٩٢٣ میں پہلی بار پڑھ کر سنایا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ترکوں کو ہر طرف سے دشمنوں نے گھیر رکھا تھا، یونانیوں نے سمرنا پر قبضہ کر کے ترکوں کا قتل عام کیا، جس سے ترکوں میں جذبات بھڑک گئے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ  میںترکوں نے غاصبوں کے خلاف جہاد کا آغاز کیا اور ان تمام علاقوں پر دوبارہ قبضہ کیا جو یونانیوں کے قبضہ میں چلے گئے تھے خاص کر سمرنا پر دوبارہ قبضہ اس جنگ کی سب سے بڑی فتح تھی۔ اور اس جنگ میں یونانیوں کی تین لاکھ فوج کو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ترکوں کی اس فتح نے علامہ اقبال پر بھی گہرے اثرات چھوڑے تھے اور انھوں نے بھی اسی تناظر میں طلوع اسلام کے عنوان سے یہ فکر انگیز نظم لکھی ۔ یہ نظم علامہ اقبال کے خیالات کی بلند پروازی کی شہکار ہے۔نظم میں کل نو بند ہیں ۔ نظم کے مطالب و مباحث کو ان عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے:۔ جہانِ نوکی نوید' کائنات میں مقامِِ مسلم '  مسلمان کا کردار اور اس کی خصوصیات '  جنگِ عظیم کے نتائج اور اثرات پر تبصرہ '  مغرب سے مایوسی'  انسانیت کا مستقبل: مسلمان ۔ روشن مستقبل ۔

انہوںنے مزید کہا کہ علامہ اقبال کے مطابق اگرچہ امت ِ خلیل اللہ زمانے میں رسوا ہوچکی ہے لیکن اب ا س دریا سے تابدار موتی پیدا ہوں گے کیونکہ امت  آہِ سحر گاہی کی حقیقت سے آگاہ ہو چکی ہے۔ مسلمانوں کا مستقبل بہت تابناک ہے ۔  باہمی اختلافات کے  بھیانک نتائج سامنے آنے پر ملت ِ اسلامیہ کے دل میں اتحاد و اتفاق کی اہمیت کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ شاخِ ہاشمی سے پھوٹنے والے نئے برگ و بار اسی احساس کا سرچشمہ ہیں۔ شاعر نے مسلمانوں کو جہانِ نو کی نوید سنائی لیکن وہ جہا نِ نو کی منزل تک تبھی پہنچیں گے جب جہد و عمل کے راستے پر ان کا سفر مسلسل جاری رہے گا۔ اقبال امت مسلمہ کو حوصلہ دیتے، امید کی جوت جگاتے اور روشن مستقبل کا مژدہ سناتے ہیں کہ مسلمانوں کے دل میں  چراغِ آرزو روشن ہو جائے اور ملت اسلامیہ کا ایک ایک فرد حصولِ مقصداور غلبہ حق کی خاطر سر بکف میدانِ میں نکل آئے۔اللہ انہیں پھرسے سربلند فرمائے گا منصب خلافت و امارت پر فائز کریگا۔ لیکن مسلمانوں کو اپنے عمل و کردار کے ذریعے خود کو اس منصب کا اہل ثابت کرنا ہوگا۔ بنیادی طور پر دنیا کی امامت کے لیے صداقت عدالت اور شجاعت کی تین خصوصیات ضروری ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے کردار میں زورِحیدر  فقرِ بوذر اور صدقِ سلمانی  پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ دورِ حاضر کے فتنوں سے نبرد آزما ہونے اور دنیا میں ظلم و استبداد اور چنگیزیت کی بیخ کنی کے لیے سیرتِ فولاد کا ہونا ضروری ہے جو صرف انھی صفات کے ذریعے پیدا ہو سکتی ہے۔

ایاز الشیخ نے نظم طلوع اسلام کے متعلق اپنا پر مغز خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ نظم بانگِ دار کی طویل نظموں میں اس اعتبار سے منفر د ہے کہ اس میں اقبال کے افکار زیادہ پختہ اور خوب صورت انداز میں سامنے آئے ہیں ۔ فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کے بعض حصے نہایت سادہ اور عام فہم ہیں اور بعض حصے بے حد بلیغ اور گہرے مفاہیم و معانی کے حامل ہیں۔ شارح اقبالیات پروفیسر یوسف سلیم چشتی فرماتے ہیں کہ  بندش اور ترکیب،مضمون آفرینی اور بلند پروازی، رمزو کنایہ کی پریشانی اور مشکل پسندی، شوکتِ الفاظ اور فلسفہ طرازی غرضیکہ صوری اور معنوی محاسنِ شعری کے اعتبار سے یہ نظم بانگ درا کی تمام نظموں پر فوقیت رکھتی ہے۔ اقبال کی شاعری کا نقش میرے دل پر اسی نظم کے مطالعہ سے مرتسم ہوا ۔  اپنے خطاب کے آختتام پرفاضل مقرر نے کہا کہ یہ نظم آج بھی امت مسلمہ کو حوصلہ دیتی ہے، امید کی جوت جگادیتی ہے اور روشن مستقبل کا مژدہ سنادیتی ہے اور یہی چیز اس نظم میں عصری معنویت کو ثابت کرتی ہے۔ اور بالکل تازہ نظر آتی ہے۔

قبل ازیں نشست کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ محافل عالیہ کے روح روں جناب غلام یزدانی ایڈوکیٹ نے مقرر اور موضوع کا تعارف کرایا ۔ شہر حیدرآباد و اکناف سے محبان اقبال و علم و ادب کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔دعا پر نشت کا اختتام ہوا۔ 

No comments:

Post a Comment