شام :کیا دہشت صیاد ہے مرغان چمن کو
نہال صغیر
آج صبح صبح ایک بزرگ ملی قائد سے فون پر گفتگو ہوئی ۔شام کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ جب ہم نے دیکھا کہ کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھی تو ہم نے ہی آواز بلند کی ۔حلب کی مکمل بربادی کے دس دن بعد کئی ملی تنظیم نے مل کر پریس کانفرنس میں اپنی باتیں کہیں ۔لیکن اب بھی معاملہ یہ ہے کہ حلب کی بربادی اور شام میں چار سے چھ لاکھ مسلمانوں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے کی مظلومانہ شہادت میں امریکہ تو کہیں نظر نہیں آتا روس بھی بہت بعد میں ایران کی دعوت پر مسلم امہ کے زخمی بدن کو نوچنے کیلئے آیا ایران اول روز سے اس میں شامل رہا ۔یوں کہنا زیادہ مناسب رہے گا کہ ایران نے شام و عراق کو اپنی کالونی کا درجہ دے دیا ہے اور اس کالونی کو بچانے کیلئے اس نے اپنی پوری قوت لگادی ۔تازہ تازہ خبروں کے مطابق ایرانی فوج کے ساتھ ساتھ اس کے تیار کردہ دس ملیشیا بھی تھے جس میں حزب اللہ کا نام اول ہے ۔پہلے یہ بات بتائی جاچکی ہے کہ حزب اللہ اسی کی دہائی میں امل ملیشیا کے ذریعہ فلسطینیوں کا قتل عام کرنے اور فلسطینی تحریک مزاحمت کو لبنان میں ختم کرنے کے بعد وجود میں آیا ہے ۔ستر کی دہائی کے اخیر میں ایران کے انقلاب جس کو اسلامی انقلاب کا خوشکن نام دیا گیا ۔اس نعرہ نے جماعت اسلامی کو متاثر کیا اور اس کے علاوہ بھی انفرادی طور پر کئی لوگ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ۔اسی نام نہاد اسلامی انقلاب کا ہی اثر تھا کہ ایک لمبے عرصہ تک ایران یا یوں کہیں اب بھی ایران کے سنگین جرائم کے خلاف کسی کی زبان نہیں کھلتی ۔لیکن جب سے شام میں ایران کی مداخلت دنیا کے سامنے آتی گئی وہ بے نقاب ہو تا گیا ۔لیکن کچھ لوگ اب بھی اس کے نام نہاد اسلامی انقلاب کے سحر میں گرفتار ہیں۔حالانکہ موجودہ حلب میں تباہی اور ایران کا کھلا سفاکانہ رول اور اس کے عزائم جس میں اس کے ایک کمانڈر نے کہا کہ اب ہم یمن اور بحرین میں بھی مداخلت کریں گے سے کسی شک و شبے کی کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی کہ ایران کو شیطان بزرگ روس و امریکہ کا حلیف قرار نہ دیاجائے ۔ ایک عرصہ تک خمینی کے دیئے گئے خطاب شیطان بزرگ امریکہ و روس میں سے کئی دہائی قبل روس کو اس فہرست میں سے نکالا گیا ۔پھر امریکہ اور اس کے حلیف ممالک سے سمجھوتہ کرکے دوسرے شیطان سے بھی دوستی کرلی گئی ۔حالانکہ ایران کے ایک کسی ذمہ دار کا بیان آیا تھا کہ امریکہ کیلئے اب بھی مرگ بر امریکہ جیسا تبرا بھیجا جائے گا۔لیکن یہ سب زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں ۔حالیہ شدت پسند تنظیم داعش کے بارے میں اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر داعش مسلمانوں کاخیر خواہ ہے تو وہ ساری دنیا پر حملہ کررہا ہے لیکن اسرائیل پر اس کی نظر نہیں۔اس پر وہ کیوں حملہ نہیں کرتا۔اس سے استدلال کرکے کچھ لوگ داعش کو امریکہ و اسرائیل کے ایجنٹ کے بطور بتاتے ہیں ۔پتہ نہیں سچ کیا ہے ؟لیکن یہی سوال ایران کے تعلق سے کیوں نہیں کیا جاتا کہ انقلاب ایران کے بعد سے وہ مسلسل امریکہ و اسرائیل کے خلاف بیان تو دیتا رہا لیکن اس نے کبھی آگے بڑھ کر اسرائیل پر حملہ کرنے کی جسارت کیوں نہ دکھائی ۔اصل میں یہ سارے سوالات یا الزامات جو کسی سنی ملیشیا پر لگائے جاتے ہیں وہ میڈیا پروپگنڈہ کا حصہ ہوتے ہیں اور دنیا میں میڈیا صرف یہودیوں کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ اس کے دوسرے اور تیسرے چہرے بھی ہیں ۔اس کا دوسرا چہرہ اگر ہندوستان میں برہمنی میڈیا ہے تو ایران کا میڈیا بھی تیسرے نمبر پر مسلم امہ کے خلاف سازشوں اور عربوں کی کردار کشی اور سنی اسلامی تحریکوں کے خلاف سرگرم رہتا ہے ۔لیکن اسلام کے نام سے خوشنما پیکٹ میں بند یہ سازش اور منصوبہ امت مسلمہ کو سمجھ میں اس لئے نہیں آتا کہ اس پر اسلام کے نام کی شاندارقلعی چڑھی ہوئی ہے ۔اس کا ہمارے پاس صرف گفتگو کرنے، دلوں کے بھڑاس نکالنے کے علاوہ کوئی علاج نظر نہیں آتا ۔ہم اپنا میڈیا مضبوط کرنے یا اس کے لئے دامے درمے ہر طرح سے آگے نہیں آتے ۔صرف باتوں میں ہی یا بد دعا کرکے ہی اپنی ذمہ داری ادا کردیتے ہیں۔جبکہ بددعا سے شیطان نہیں مرتا۔کل ملا کر ہمیں میڈیا کی ضرورت محسوس تو ہوتی ہے لیکن ہم شاید اس انتظار میں ہیں کہ کبھی آسمان سے اچانک میڈیا کا پورا سیٹ اپ ہمارے لئے آجائے گا ۔ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
بہر حال ذکر چل رہا تھا کہ چند ملی تنظیموں نے پریس کانفرنس کرکے حلب پر کچھ بولنے کی جرات دکھائی ۔ممبئی سے قریب بھیونڈی میں بھی احتجاج ہوا جس میں رضا اکیڈمی نے مرکزی کردار ادا کیا ۔لیکن ایک بات جس کی کمی کھل رہی ہے وہ ہے ایران کے خلاف اب بھی یا تو لب کشائی کی نہیں جارہی یا بہت ہلکے میں اس کی مذمت کی جارہی ہے ۔جبکہ شام میں ایران کی مداخلت اور اپنے علاقائی اثر رسوخ کو بڑھانے کیلئے بھیانک قتل عام میں شامل ہونے اور درندگی کے وافر ثبوت ہیں۔ جس کے خلاف کھل کر بات ہونی چاہئے۔ تاکہ ایران کو بھی یہ سمجھ میں آجائے کہ اس اسلامی انقلاب کے پردے میں جوکھیل جاری ہے اس سے دنیا نہیں تو کم از کم مسلم امہ واقف ہو چکی ہے ۔ایران کے خلاف لب کشائی میں ہچکچاہٹ پر جلال لکھنوی کا ایک شعر یا د آتا ہے جو ان حالات کے بالکل عین مطابق ہے ؎ کیا دہشت صیاد ہے مرغان چمن کو ۔روتا نہیں شبنم صنعت آواز سے کوئی
ایران روس اور بشار الاسد کی ظالمانہ انسانیت سوز حرکتیں تو اب ساری دنیا کے سامنے منکشف ہو چکی ہیں اور ان ممالک میں عوامی احتجاج بھی شروع ہو گیا ہے پھر ہمیں کس مصلحت نے روکے رکھا ہے ۔ محض فلسطینیوں کی حمایت کا جھنڈا بلند کرنے کی وجہ سے کسی کو انسانیت کے خلاف جرائم کیلئے معاف نہیں کیا جاسکتا ۔فلسطینیوں کو یہ حمایت بھی صرف زبانی نیزاقوام عالم اورخصوصی طور پر مسلم امہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ہی تھا ،ہے یا رہے گا ۔یاد کیجئے ایک ویڈیو میں حلب کی ایک عمر رشیدہ خاتون نے کہا کہ ’تم سے زیادہ رحمدل تو یہود ہیں ‘۔یہ ایک حقیقت بھی ہے ۔اگر امل ملیشیا کے ذریعہ لبنان میں فلسطینیوں کے قتل عام کی روداد پڑھیں گے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا ۔ایسے ہی دوستوں، جیسا کہ ایران ہے کے بارے میں فیض نے کہا تھا ؎ تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز ۔۔۔دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
ایران بھی دوست نہیں ہے ۔وہ مسلم امہ کا ہمدرد بھی نہیں ہے ۔یہاں مختصر سے مضمون میں اس کی مکمل روداد لکھنا ممکن نہیں ہے ۔ایران اور ان کے ہمنوا یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے شام میں مداخلت کرکے حالات بگاڑا ہے ۔لیکن شام کے محاذ جنگ سے کسی عرب ملک کے سرکاری کمانڈر کے مرنے کی خبر نہیں آئی لیکن ایران کے درجنوں کمانڈر شام میں اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی بھینٹ چڑھ گئے ۔عرب ملکوں نے شام کے مزاحمت پسندوں کی صرف اخلاق حمایت کی ہے ۔ اس کے برعکس ایران نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور علاقے میں اپنے اثر رسوخ کو وسعت دینے کے لئے فوجی مداخلت کی اور اس کے ثبوت پیش کرنے کی اب ضرورت بھی نہیں ۔شام میں جگہ بجگہ اس کے ثبوت مل جائیں گے ۔ایک صحافی دوست جو ایک اردو روزنامہ کیلئے اداریہ اور مضامین لکھتے ہیں ۔انہوں نے مجھے ای میل کرکے کچھ یوں گویا ہوئے جیسے وہ شام کے حلب میں بربادی اور ایران کی درندگی کے لئے یمن کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہوں ۔ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ آج حلب کا ماتم کررہے ہیں وہ یمن کی بھی کچھ خیر خبر لیں گے ۔اس پر ایک بزرگ نے خوب تبصرہ کیا ہے وہ کہتے ہیںبحرین اور یمن میں ایک مرغی بھی مر جاتی ہے تو ایران ماتم شروع کردیتا ہے ۔ہمیں بھی مذکورہ صحافی کی ذہنیت سے صدمہ پہنچا ۔حالانکہ ہم نے کبھی اندھی حمایت یا اندھی مخالفت نہیں کی ۔ جب بھی سعودی حکومت کی کوئی خامی نظر آئی اس کی نشاندہی کی اور مذمت کی گئی ۔لیکن ایران کی خامیوں میں اگر ماضی کی ساری باتیں بھلا بھی دی جائیں تو موجودہ حلب کا سانحہ اور شام کی تباہی میں اس کے منافقانہ اور عوام مخالف کردار پر بھی اس طبقہ کی جانب سے کوئی منصفانہ بات سامنے نہیں آئی جو ہمیں یمن کی یاد دلا کر کہتا ہے کہ حلب میں انسانیت سوز حرکتوں کو بھول جائو ۔وہ یہیں نہیں رکتے ہمیں کہتے ہیں کہ اب ہم سعودی عرب یمن اور بحرین پر بھی قبضہ کریں گے ۔انہیں سعودی عرب کی بادشاہت پسند نہیں لیکن شام میں بشاری ڈکٹیٹر شپ کی حمایت کرتے ہیں اور پوری جان جوکھم میں ڈال کر اسے بچاتے ہیں ۔اس کیلئے چار چھ لاکھ انسانوں کا قتل عام بھی ایران نوازوں کے سامنے انسانیت کے خلاف کوئی جرم نہیں ہے ۔ ان کی ان باتوں سے یہ بات کھل گئی کہ یہ لوگ کتنے انسان نواز اور انسانیت کی قدر کرنے والے ہیں ۔ایران کو لاکھ بچانے کی کوشش کریں لیکن اس کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگین ہو چکے ہیں اور تاریخ میں اس کا نام بھی چنگیز ،ہلاکو کی فہرست میں ہی شامل ہوگا ۔عنقریب وہ وقت بھی آنے والا ہے جب بشار الاسد جنگی جرائم کا سامنا کرے گا اور اس کا ساتھ دینے کے جرم میں روس اور ایران بھی اس سے نہیں بچ سکیں گے۔انشاء اللہ
No comments:
Post a Comment